یہ نظم میرے معزز استاد" ڈاکٹر عارف" جن کا تعلق شعبہ
وبین الاقوامی تعلقات سے ہے ان کی وجہ سے لکھنے کی طرف توجہ دی۔لکھنا تو
کالم تھا مگر لکھ نہ پائی اور پاکستان کوارٹرز کے لوگوں پر ہونے والے ظلم
نے یکایک یہ نظم لکھنے پر مجبور کردیا۔۔۔
آشیانہ بکھرا میرا بڑھاپے میں
جس بستی میں،میں رہتا تھا
وہ پاکستان کوارٹرز کہلاتی تھی
یہ بستی میری اپنی ہی تو تھی
ہم سب پڑوسی مل کر رہتے تھے
ہر طرف ہی خوشیوں کی بارش تھی
میرے ماشاء اللہ چھ بچے تھے
سب اپنی فیملی کے سنگ رہتے تھے
اب فیملی خاندان بن گئی تھی میری
دادا نانا! کی صدائیں تھی ہر طرف
ہم سب ہی خوشی سے رہتے تھے
پھر ایک دن ایسا بھی آیا ہم پرلوگو
بدھ کا وہ سیاہ دن یاد ہے! مجھے
تاریخ 24اکتوبر 2018کی تھی
جب میرے آشیانے پر حملہ ہوا
یہ حملہ مگر انفرادی نہ تھا حکمرانوں
اس حملے میں بستی اجڑ گئی ہے میری
جب ہم نے دفاع اپنی بستی کا کیا
بدلے میں پولیس نے لہولہان کیا
پولیس نے ظلم کی ہم پر انتہا کردی
بہیمانہ تشدد بھی خوب بڑھ کر ہوا
خون میں ہم یوں تر تھے ہوئے
پسینے میں جسے ہم ہوتے ہیں تر
جب بیٹیوں نے ہمارا دفاع کیا
ان پر بھی بھرپورلاٹھی چارج ہوا
یہ تبدیلی کا جو نعرہ تھا ظالموں
اس میں ووٹ میری بستی کے بھی تھے
گر تبدیلی کے اس پرجوش نعرے کا
مطلب آشیانہ ہم غریبوں کا جلانا تھا
تویہ ستم ہم نے پھر خود پر ہے کیا
اپنے ووٹوں کو ضائع خودہم نے کیا
آج بے سروسامان سڑک پر بیٹھے ہیں
کوئی ہے جو مدد کو ہماری آں پہنچے
فریاد سنو اور امدادکر و سب تم لوگو
معاہدہ عمرانی کے تحت اے قوم میری
ہم معاشرتی حیوانوں کی تم امداد کرو
(تحریر: حمیدہ گل محمد۔۔۔مفادات کی جنگ)
یہ اوپر والی فریاد،دکھ اورغصہ بے گھر ہونے والے پاکستان کوارٹز کے مکینوں
کی ہے جنھوں نے موجودہ حکومت کو مسیحا سمجھا اور ووٹ دئیے اور یہی لوگ ان
کے آشیانے کو جلانے کا باعث بنے۔
یہ نیچے جو چند جملے مصرعے کی صورت میں پیش کئے گئے ہیں یہ میرے دل کی آواز
ہے اور جسے ہی پاکستاں کوارٹرز کے لوگوں پر ظلم ہونے والی بہیمانہ ویڈیو
دیکھی توبے اختیار قلم نے بھی یہ تحریر کرنا شروع کر دیا۔۔
دل خون کے آنسو رویا میرا
وہ منظر جب میں نے دیکھا
ہر طرف ہی خون خرابہ تھا
یہ پاکستان مجھے نہ لگتا تھا
بزرگوں پر تشدد کی انتہا ہوئی
جوان لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی ہوئی
نوجوانوں کو بھی خوب مارا پیٹا گیا
تبدیلی کا حکمرانوں!یہ کیسا نعرہ تھا
کیسے کرو وہ منظر بیان میں حمیدہ
اب سڑک بنے گی ان کوارٹرز پر
یہ کیسا ظلم ہے ان مظوموں پر
کچھ سمجھ نہیں آتی مجھے یارب
(خونی دل کی فریاد)
|