تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے. پاکستان میں تعلیم کے حوالے
سے ہمیشہ چشم پوشی کی گئ. اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو اپنے
جی ڈی پی کا چار فیصد تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہیے.. پاکستان میں یہ رقم
ستر سالوں تک دو فیصد سے زیادہ مختص نہیں کی گئی تھی. ایسے میں ایک خواندہ
انسان کی تعریف کو بھی ہم نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور شرح خواندگی کو بڑھا
چڑھا کر بیان کیا.. ایک شخص جو اپنے دستخط کر سکتا ہو اسے بھی خواندہ تصور
کیا جاتا رہا ہےسرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں نے تعلیم عام
کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا. سکول سسٹم اور نیٹ ورک وجود میں آئے اور
پھر یکساں نظام تعلیم کا سٹرکچر تبدیل اور تباہ ہوگیا.. یہ سکول تعلیم کے
دوہرے معیار اور سٹیٹس ریس کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے پھر ہم نے دیکھا
کہ تعلیم ایک کاروبار بن گیا. مالکان, تاجران اور سوداگرانسامنے آئے.
گورنمنٹ سکولوں کے بارے میڈیا اور این جی اوز نے بھرپور مہم چلائی.
سیاستدانوں اورسرکاری افسران نے ان سکولوں اور متعلقہ اداروں کو خوب
بھنبھوڑا.. نوچا اور ہمارا نظام تعلیم ایک کنفیوژن بن کر رہ گیا سفید پوش
افراد نے گورنمنٹ سکولوں کو چھوڑ کر پرائیویٹ سکولوں کو اپنی اولاد کی منزل
سمجھا.. جب کسی ریڑھی بان, مزدور, کم آمدن والے ملازم کا بچہ الاسٹک سے
بندھی ٹائی کے ساتھ کندھے پر بوتل لٹکائے گھر سے نکلتا تو والدین کا سینہ
فخر سے چوڑا ہوجاتا ہم نے وقت بدلتے دیکھا کہ سکول مالکان اور انکے بچے
امارت اور عمارت کو بڑھاتے گئے.. بچے مزید انگریزی بولنے لگے.. تعلیم بہتر
ہوئ مگر کوئ ایسا ادارہ یا میکنزم نہ رہا جو ان اداروں کے نصاب, تعلیمی
سرگرمیوں, اور قواعد و ضوابط کا تعین کرتا. ہر سکول نے "ڈیڑھ انچ کا سکول"
بنا لیا..اپنی اپنی ڈفلی, اپنا اپنا راگ، میں نے ان سکولوں میں اساتذہ کو
دو دو ہزار پر بھی نوکری کرتے دیکھا ہے.. میٹرک پاس کیا.. داخلہ نہیں لیا..
چلیں ٹیچنگ کرتے ہیں. کسی کا تبادلہ دوسرے شہر ہوا.. چلیں اپنے قریبی سکول
ٹیچنگ کرتے ہیں. شادی نہیں فائنل ہوئ.. لڑکی فارغ کے چلیں سکول جوائن کرتے
ہیں. نصابی, غیرنصابی سرگرمیوں کو کلرز میں تبدیل کردیا گیا.. مختلف ہنر,
مہارتیں, عمر کے ساتھ وابستہ مشقیں, کھیل, آموزش, سب بدل گیا.. کھیل کا
میدان نہیں.. کوئ بات نہیں..بچہ انگریزی تو اچھی بول لیتا ہے. بچوں اور
بچیوں کے قد, جسمانی ساخت, چستی, ذہنی آسودگی سب پر ہمیں سمجھوتہ کرنا
پڑا.. سکول مالکان ٹیچنگ ٹیکنییکس, نصاب, تعلیمی نفسیات سب سے بے بہرہ.. بس
انکو لائن بنا کر چلتے بچے اور لائن بنا کر فیس جمع کراتے والدین سے غرض..
باقی سب مایا آج وقت اس نہج پر آن پہنچا کہ والدین فیسوں اور بچے بیگوں کے
بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں. آپ اپنے بچے کا بیگ اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں. یہ
اس بچے کی ہمت ہے کہ وہ اسے اٹھائے پھرتا ہے۔
جب فیس بل آتا ہے تو والدین پریشان. کس سے کہیں. مخفی چارجز.. فنڈز اور
ٹیکس کا پوچھ بھی نہیں سکتے. اپنے بھی فوراً کہتے ہیں کہ کس نے کہا تھا
پرائیویٹ پڑھاؤ. یہ آپ کی اپنی پسند ہے. اوکھلی میں سر دیا اب خود ہی
برداشت کرو اگر حکومتی قوانین, ریگولیٹری باڈی اور ذمہ دار اداروں کی بات
کی جائے تو ان کا کردار نہ ہونے کے برابر. ایک دن میں میں سٹے آرڈر اور
والدین کی آواز کئ سالوں کے لئے دب جاتی ہے.. حالیہ آن پرائیویٹ سکولوں نے
فیسوں میں بیس سے چالیس فیصد اضافہ کر دیا ہے. کس سے پوچھا گیا؟ کیا انہوں
نے اپنے اخراجات اور آمدن کا آڈٹ کرایا؟ کیا ان کے سکولوں میں سہولیات کی
فراہمی اس حد تک ہے کہ ان کے مطابق مزید پیسے بڑھائے جائیں. ایسا کچھ بھی
نہیں ہے. اس پر پنجاب اور سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر فرمائے ہیں. ان کے
مطابق تعلیمی اداروں کے سوداگران پانچ اور آٹھ فیصد تک فیس بڑھا سکتے ہیں.
وفاقی دارالحکومت میں بسنے والے سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سکول چھڑانے
پر مجبور ہیں. تین بچوں کا فیس چالان جو کہ دو ماہ کا اکٹھا ہوتا ہے .. ایک
لاکھ روپے... یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو سرکاری تنخواہ یا اپنے دوسرے وسائل
سے ادا کرتے ہیں. اپنی ضروریات قربان کرکےاپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے
خواہاں ہیں. یہ سکول بچوں کے یونیفارم, کتب, کینٹین, ہر چیز سے کمائ کرتے
ہیں. ان کی کینٹین نو پرافٹ نو لاس.. پر اس نہیں چلتی کہ انہوں نے ننھے
بچوں کو دس روپے والی چیز بیس کی بیچنی ہوتی ہے. ان کے لئے اس سے منافع بخش
کاروبار ہے ہی نہیں ایوان اقتدار اور اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے احباب بھی
سمجھتے ہیں کہ سکولوں کو یکساں تعلیم, نصاب, فیس اور سہولیات کی فراہمی
کرنی چاہیے مگر بولتے نہیں. کیوں؟ اس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بہت شوق تھا
مہنگے سکولوں میں پڑھانے کا.. دیکھ لیں اب برداشت نہیں ہورہا آخر میں سری
لنکا کے تعلیمی نظام کا ذکر وہاں لوگ گورنمنٹ سکول میں داخل ہونے کو ترجیح
دیتے ہیں. پرائیویٹ سکولوں میں وہ لوگ جاتے ہیں جنکو میرٹ کی وجہ سے وہاں
داخلہ نہ ملتا ہو. سری لنکا.. جہاں دہشت گردی اور انتہاپسندی عروج پر تھی.
انہوں نے اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا. والدین کو بچوں کی فیس کے لئے
چوری, رشوت نہ لینی پڑی. انہیں یکساں معیار تعلیم میسر آیا. انہوں نے اس کی
قدر کو پالیا اور شرح خواندگی تقریباً سو فیصد تک لے گئے.. ہم... ہم نے
سکول مالکان کو بنایا.. ان کے لئے اپنا رزق حلال نچھاور کیا.. محض اس لئے
کہ شاید میرا بچہ زمانے کی دوڑ سے پیچھے نہ رہ جائے.. حالانکہ ہم سب ایک
چلتی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں.. سانسیں پھولی ہیں. مگر نہ رک سکتے ہیں اور
نہ بھاگ سکتے ہیں. خدارا ان پرائیویٹ سکولوں کے لئے بھی کوئ موثر ادارہ
فعال بنائیں جو انکی عمارتوں, سٹاف, اساتذہ, نصاب, فیسوں, بنیادی حقوق و
فرائض اور سیکورٹی کا آڈٹ کرسکے.. پوچھ سکے.. کچھ انکو بتا سکے.. نئ حکومت
کو اسے ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا وگرنہ تعلیم ان پرائیویٹ سکول
مالکان کی کمائ میں ڈوب رہی ہے.. روبہ زوال ہے.
تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے. پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ چشم
پوشی کی گئ. اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو اپنے جی ڈی پی کا
چار فیصد تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہیے.. پاکستان میں یہ رقم ستر سالوں تک
دو فیصد سے زیادہ مختص نہیں کی گئی تھی. ایسے میں ایک خواندہ انسان کی
تعریف کو بھی ہم نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور شرح خواندگی کو بڑھا چڑھا کر
بیان کیا.. ایک شخص جو اپنے دستخط کر سکتا ہو اسے بھی خواندہ تصور کیا جاتا
رہا ہےسرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں نے تعلیم عام کرنے میں
ایک اہم کردار ادا کیا. سکول سسٹم اور نیٹ ورک وجود میں آئے اور پھر یکساں
نظام تعلیم کا سٹرکچر تبدیل اور تباہ ہوگیا.. یہ سکول تعلیم کے دوہرے معیار
اور سٹیٹس ریس کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے پھر ہم نے دیکھا کہ تعلیم ایک
کاروبار بن گیا. مالکان, تاجران اور سوداگرانسامنے آئے. گورنمنٹ سکولوں کے
بارے میڈیا اور این جی اوز نے بھرپور مہم چلائی. سیاستدانوں اورسرکاری
افسران نے ان سکولوں اور متعلقہ اداروں کو خوب بھنبھوڑا.. نوچا اور ہمارا
نظام تعلیم ایک کنفیوژن بن کر رہ گیا سفید پوش افراد نے گورنمنٹ سکولوں کو
چھوڑ کر پرائیویٹ سکولوں کو اپنی اولاد کی منزل سمجھا.. جب کسی ریڑھی بان,
مزدور, کم آمدن والے ملازم کا بچہ الاسٹک سے بندھی ٹائی کے ساتھ کندھے پر
بوتل لٹکائے گھر سے نکلتا تو والدین کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہم نے وقت
بدلتے دیکھا کہ سکول مالکان اور انکے بچے امارت اور عمارت کو بڑھاتے گئے..
بچے مزید انگریزی بولنے لگے.. تعلیم بہتر ہوئ مگر کوئ ایسا ادارہ یا میکنزم
نہ رہا جو ان اداروں کے نصاب, تعلیمی سرگرمیوں, اور قواعد و ضوابط کا تعین
کرتا. ہر سکول نے "ڈیڑھ انچ کا سکول" بنا لیا..اپنی اپنی ڈفلی, اپنا اپنا
راگ، میں نے ان سکولوں میں اساتذہ کو دو دو ہزار پر بھی نوکری کرتے دیکھا
ہے.. میٹرک پاس کیا.. داخلہ نہیں لیا.. چلیں ٹیچنگ کرتے ہیں. کسی کا تبادلہ
دوسرے شہر ہوا.. چلیں اپنے قریبی سکول ٹیچنگ کرتے ہیں. شادی نہیں فائنل
ہوئ.. لڑکی فارغ کے چلیں سکول جوائن کرتے ہیں. نصابی, غیرنصابی سرگرمیوں کو
کلرز میں تبدیل کردیا گیا.. مختلف ہنر, مہارتیں, عمر کے ساتھ وابستہ مشقیں,
کھیل, آموزش, سب بدل گیا.. کھیل کا میدان نہیں.. کوئ بات نہیں..بچہ انگریزی
تو اچھی بول لیتا ہے. بچوں اور بچیوں کے قد, جسمانی ساخت, چستی, ذہنی
آسودگی سب پر ہمیں سمجھوتہ کرنا پڑا.. سکول مالکان ٹیچنگ ٹیکنییکس, نصاب,
تعلیمی نفسیات سب سے بے بہرہ.. بس انکو لائن بنا کر چلتے بچے اور لائن بنا
کر فیس جمع کراتے والدین سے غرض.. باقی سب مایا آج وقت اس نہج پر آن پہنچا
کہ والدین فیسوں اور بچے بیگوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں. آپ اپنے بچے کا
بیگ اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں. یہ اس بچے کی ہمت ہے کہ وہ اسے اٹھائے
پھرتا ہے۔
جب فیس بل آتا ہے تو والدین پریشان. کس سے کہیں. مخفی چارجز.. فنڈز اور
ٹیکس کا پوچھ بھی نہیں سکتے. اپنے بھی فوراً کہتے ہیں کہ کس نے کہا تھا
پرائیویٹ پڑھاؤ. یہ آپ کی اپنی پسند ہے. اوکھلی میں سر دیا اب خود ہی
برداشت کرو اگر حکومتی قوانین, ریگولیٹری باڈی اور ذمہ دار اداروں کی بات
کی جائے تو ان کا کردار نہ ہونے کے برابر. ایک دن میں میں سٹے آرڈر اور
والدین کی آواز کئ سالوں کے لئے دب جاتی ہے.. حالیہ آن پرائیویٹ سکولوں نے
فیسوں میں بیس سے چالیس فیصد اضافہ کر دیا ہے. کس سے پوچھا گیا؟ کیا انہوں
نے اپنے اخراجات اور آمدن کا آڈٹ کرایا؟ کیا ان کے سکولوں میں سہولیات کی
فراہمی اس حد تک ہے کہ ان کے مطابق مزید پیسے بڑھائے جائیں. ایسا کچھ بھی
نہیں ہے. اس پر پنجاب اور سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر فرمائے ہیں. ان کے
مطابق تعلیمی اداروں کے سوداگران پانچ اور آٹھ فیصد تک فیس بڑھا سکتے ہیں.
وفاقی دارالحکومت میں بسنے والے سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سکول چھڑانے
پر مجبور ہیں. تین بچوں کا فیس چالان جو کہ دو ماہ کا اکٹھا ہوتا ہے .. ایک
لاکھ روپے... یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو سرکاری تنخواہ یا اپنے دوسرے وسائل
سے ادا کرتے ہیں. اپنی ضروریات قربان کرکےاپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے
خواہاں ہیں. یہ سکول بچوں کے یونیفارم, کتب, کینٹین, ہر چیز سے کمائ کرتے
ہیں. ان کی کینٹین نو پرافٹ نو لاس.. پر اس نہیں چلتی کہ انہوں نے ننھے
بچوں کو دس روپے والی چیز بیس کی بیچنی ہوتی ہے. ان کے لئے اس سے منافع بخش
کاروبار ہے ہی نہیں ایوان اقتدار اور اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے احباب بھی
سمجھتے ہیں کہ سکولوں کو یکساں تعلیم, نصاب, فیس اور سہولیات کی فراہمی
کرنی چاہیے مگر بولتے نہیں. کیوں؟ اس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بہت شوق تھا
مہنگے سکولوں میں پڑھانے کا.. دیکھ لیں اب برداشت نہیں ہورہا آخر میں سری
لنکا کے تعلیمی نظام کا ذکر وہاں لوگ گورنمنٹ سکول میں داخل ہونے کو ترجیح
دیتے ہیں. پرائیویٹ سکولوں میں وہ لوگ جاتے ہیں جنکو میرٹ کی وجہ سے وہاں
داخلہ نہ ملتا ہو. سری لنکا.. جہاں دہشت گردی اور انتہاپسندی عروج پر تھی.
انہوں نے اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا. والدین کو بچوں کی فیس کے لئے
چوری, رشوت نہ لینی پڑی. انہیں یکساں معیار تعلیم میسر آیا. انہوں نے اس کی
قدر کو پالیا اور شرح خواندگی تقریباً سو فیصد تک لے گئے.. ہم... ہم نے
سکول مالکان کو بنایا.. ان کے لئے اپنا رزق حلال نچھاور کیا.. محض اس لئے
کہ شاید میرا بچہ زمانے کی دوڑ سے پیچھے نہ رہ جائے.. حالانکہ ہم سب ایک
چلتی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں.. سانسیں پھولی ہیں. مگر نہ رک سکتے ہیں اور
نہ بھاگ سکتے ہیں. خدارا ان پرائیویٹ سکولوں کے لئے بھی کوئ موثر ادارہ
فعال بنائیں جو انکی عمارتوں, سٹاف, اساتذہ, نصاب, فیسوں, بنیادی حقوق و
فرائض اور سیکورٹی کا آڈٹ کرسکے.. پوچھ سکے.. کچھ انکو بتا سکے.. نئ حکومت
کو اسے ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا وگرنہ تعلیم ان پرائیویٹ سکول
مالکان کی کمائ میں ڈوب رہی ہے.. روبہ زوال ہے.
تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے. پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ چشم
پوشی کی گئ. اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو اپنے جی ڈی پی کا
چار فیصد تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہیے.. پاکستان میں یہ رقم ستر سالوں تک
دو فیصد سے زیادہ مختص نہیں کی گئی تھی. ایسے میں ایک خواندہ انسان کی
تعریف کو بھی ہم نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور شرح خواندگی کو بڑھا چڑھا کر
بیان کیا.. ایک شخص جو اپنے دستخط کر سکتا ہو اسے بھی خواندہ تصور کیا جاتا
رہا ہےسرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں نے تعلیم عام کرنے میں
ایک اہم کردار ادا کیا. سکول سسٹم اور نیٹ ورک وجود میں آئے اور پھر یکساں
نظام تعلیم کا سٹرکچر تبدیل اور تباہ ہوگیا.. یہ سکول تعلیم کے دوہرے معیار
اور سٹیٹس ریس کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے پھر ہم نے دیکھا کہ تعلیم ایک
کاروبار بن گیا. مالکان, تاجران اور سوداگرانسامنے آئے. گورنمنٹ سکولوں کے
بارے میڈیا اور این جی اوز نے بھرپور مہم چلائی. سیاستدانوں اورسرکاری
افسران نے ان سکولوں اور متعلقہ اداروں کو خوب بھنبھوڑا.. نوچا اور ہمارا
نظام تعلیم ایک کنفیوژن بن کر رہ گیا سفید پوش افراد نے گورنمنٹ سکولوں کو
چھوڑ کر پرائیویٹ سکولوں کو اپنی اولاد کی منزل سمجھا.. جب کسی ریڑھی بان,
مزدور, کم آمدن والے ملازم کا بچہ الاسٹک سے بندھی ٹائی کے ساتھ کندھے پر
بوتل لٹکائے گھر سے نکلتا تو والدین کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہم نے وقت
بدلتے دیکھا کہ سکول مالکان اور انکے بچے امارت اور عمارت کو بڑھاتے گئے..
بچے مزید انگریزی بولنے لگے.. تعلیم بہتر ہوئ مگر کوئ ایسا ادارہ یا میکنزم
نہ رہا جو ان اداروں کے نصاب, تعلیمی سرگرمیوں, اور قواعد و ضوابط کا تعین
کرتا. ہر سکول نے "ڈیڑھ انچ کا سکول" بنا لیا..اپنی اپنی ڈفلی, اپنا اپنا
راگ، میں نے ان سکولوں میں اساتذہ کو دو دو ہزار پر بھی نوکری کرتے دیکھا
ہے.. میٹرک پاس کیا.. داخلہ نہیں لیا.. چلیں ٹیچنگ کرتے ہیں. کسی کا تبادلہ
دوسرے شہر ہوا.. چلیں اپنے قریبی سکول ٹیچنگ کرتے ہیں. شادی نہیں فائنل
ہوئ.. لڑکی فارغ کے چلیں سکول جوائن کرتے ہیں. نصابی, غیرنصابی سرگرمیوں کو
کلرز میں تبدیل کردیا گیا.. مختلف ہنر, مہارتیں, عمر کے ساتھ وابستہ مشقیں,
کھیل, آموزش, سب بدل گیا.. کھیل کا میدان نہیں.. کوئ بات نہیں..بچہ انگریزی
تو اچھی بول لیتا ہے. بچوں اور بچیوں کے قد, جسمانی ساخت, چستی, ذہنی
آسودگی سب پر ہمیں سمجھوتہ کرنا پڑا.. سکول مالکان ٹیچنگ ٹیکنییکس, نصاب,
تعلیمی نفسیات سب سے بے بہرہ.. بس انکو لائن بنا کر چلتے بچے اور لائن بنا
کر فیس جمع کراتے والدین سے غرض.. باقی سب مایا آج وقت اس نہج پر آن پہنچا
کہ والدین فیسوں اور بچے بیگوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں. آپ اپنے بچے کا
بیگ اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں. یہ اس بچے کی ہمت ہے کہ وہ اسے اٹھائے
پھرتا ہے۔
جب فیس بل آتا ہے تو والدین پریشان. کس سے کہیں. مخفی چارجز.. فنڈز اور
ٹیکس کا پوچھ بھی نہیں سکتے. اپنے بھی فوراً کہتے ہیں کہ کس نے کہا تھا
پرائیویٹ پڑھاؤ. یہ آپ کی اپنی پسند ہے. اوکھلی میں سر دیا اب خود ہی
برداشت کرو اگر حکومتی قوانین, ریگولیٹری باڈی اور ذمہ دار اداروں کی بات
کی جائے تو ان کا کردار نہ ہونے کے برابر. ایک دن میں میں سٹے آرڈر اور
والدین کی آواز کئ سالوں کے لئے دب جاتی ہے.. حالیہ آن پرائیویٹ سکولوں نے
فیسوں میں بیس سے چالیس فیصد اضافہ کر دیا ہے. کس سے پوچھا گیا؟ کیا انہوں
نے اپنے اخراجات اور آمدن کا آڈٹ کرایا؟ کیا ان کے سکولوں میں سہولیات کی
فراہمی اس حد تک ہے کہ ان کے مطابق مزید پیسے بڑھائے جائیں. ایسا کچھ بھی
نہیں ہے. اس پر پنجاب اور سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر فرمائے ہیں. ان کے
مطابق تعلیمی اداروں کے سوداگران پانچ اور آٹھ فیصد تک فیس بڑھا سکتے ہیں.
وفاقی دارالحکومت میں بسنے والے سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سکول چھڑانے
پر مجبور ہیں. تین بچوں کا فیس چالان جو کہ دو ماہ کا اکٹھا ہوتا ہے .. ایک
لاکھ روپے... یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو سرکاری تنخواہ یا اپنے دوسرے وسائل
سے ادا کرتے ہیں. اپنی ضروریات قربان کرکےاپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے
خواہاں ہیں. یہ سکول بچوں کے یونیفارم, کتب, کینٹین, ہر چیز سے کمائ کرتے
ہیں. ان کی کینٹین نو پرافٹ نو لاس.. پر اس نہیں چلتی کہ انہوں نے ننھے
بچوں کو دس روپے والی چیز بیس کی بیچنی ہوتی ہے. ان کے لئے اس سے منافع بخش
کاروبار ہے ہی نہیں ایوان اقتدار اور اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے احباب بھی
سمجھتے ہیں کہ سکولوں کو یکساں تعلیم, نصاب, فیس اور سہولیات کی فراہمی
کرنی چاہیے مگر بولتے نہیں. کیوں؟ اس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بہت شوق تھا
مہنگے سکولوں میں پڑھانے کا.. دیکھ لیں اب برداشت نہیں ہورہا آخر میں سری
لنکا کے تعلیمی نظام کا ذکر وہاں لوگ گورنمنٹ سکول میں داخل ہونے کو ترجیح
دیتے ہیں. پرائیویٹ سکولوں میں وہ لوگ جاتے ہیں جنکو میرٹ کی وجہ سے وہاں
داخلہ نہ ملتا ہو. سری لنکا.. جہاں دہشت گردی اور انتہاپسندی عروج پر تھی.
انہوں نے اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا. والدین کو بچوں کی فیس کے لئے
چوری, رشوت نہ لینی پڑی. انہیں یکساں معیار تعلیم میسر آیا. انہوں نے اس کی
قدر کو پالیا اور شرح خواندگی تقریباً سو فیصد تک لے گئے.. ہم... ہم نے
سکول مالکان کو بنایا.. ان کے لئے اپنا رزق حلال نچھاور کیا.. محض اس لئے
کہ شاید میرا بچہ زمانے کی دوڑ سے پیچھے نہ رہ جائے.. حالانکہ ہم سب ایک
چلتی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں.. سانسیں پھولی ہیں. مگر نہ رک سکتے ہیں اور
نہ بھاگ سکتے ہیں. خدارا ان پرائیویٹ سکولوں کے لئے بھی کوئ موثر ادارہ
فعال بنائیں جو انکی عمارتوں, سٹاف, اساتذہ, نصاب, فیسوں, بنیادی حقوق و
فرائض اور سیکورٹی کا آڈٹ کرسکے.. پوچھ سکے.. کچھ انکو بتا سکے.. نئ حکومت
کو اسے ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا وگرنہ تعلیم ان پرائیویٹ سکول
مالکان کی کمائ میں ڈوب رہی ہے.. روبہ زوال ہے. |