سبز باغ

اگر سبز باغ نہ دکھائے جائیں تو اور کون سے باغ دکھائے جانے چاہئیں؟ کیا باغ کسی اور رنگ کا بھی ہوتا ہے؟ اس سوال نے میرے ذہن میں اس وقت انگڑائی لی جب میں نے اپنے ایک سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا بیان پڑھا۔ان کا کہنا ہے کہ ’’موجود ہ حکومت نے سو دنوں میں جتنے سبز باغ دکھائے ہیں، ان کی مثال نہیں ملتی‘‘۔ اﷲ کے فضل سے پاکستان میں نصف درجن سے زیادہ ’’سابق وزرائے اعظم‘‘ سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اگر ’’نگران وزرائے اعظم‘‘ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یقینا اِ ن معززین کی تعداد ایک درجن تک پہنچ ہی جائے گی۔ گیلانی سرکار کے بقول اس سے پہلے سبز باغوں کے اس قدر دکھائے جانے کی مثال نہیں ملتی۔ گویا سبز باغ دکھاتا تو ہر کوئی ہے، مگر اس مرتبہ یہ کام ریکارڈ ساز ہوا ہے۔ سوال وہی ہے کہ آیا ایسا باغ بھی دکھایا جاسکتا ہے جو سبز نہیں ہوتا؟ اور جوسبز نہیں ہوتا کیا اس کو باغ کہا جاسکتا ہے؟جہاں درخت خشک ہو چکے ہوں، راہداریوں پر گرد اُڑتی ہو، گھاس کا نشان نہ ہو، پرندے ہجرت کر گئے ہوں، ویرانے کا منظر ہو، ہُو کا عالم ہو، ایسے ماحول کو تو ’’باغ‘‘ کوئی نہیں کہتا۔ باغ وہی ہے جو سر سبز ہو، گھنے درخت ہوں، خوبصورت گھاس سے مزین وسیع لان ہوں، پھولوں کی کیاریوں والی راہداریاں ہوں۔

اگر بات صرف باغ تک ہی محدود رہے تو اور بات ہے، کیونکہ باغ کا نام آتے ہی دل ودماغ تروتازہ سے ہو جاتے ہیں، اور اگر باغ کی سیر وغیرہ کے مواقع بھی موجود ہوں، تو بات ہی کیا ہے۔ مگر جب باغ کے ساتھ لفظ ’’سبز‘‘ آجاتا ہے تو معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ سبز باغ یقینا وہاں دکھائے جاتے ہیں، جہاں اول تو باغ کا وجود ہی نہیں، یا پھر وہ باغ اجڑ چکا ہے۔ یہ کارِ خیر روزِ اول سے تمام حکمران بطریقِ احسن سرانجام دیتے آئے ہیں۔ جس قسم کے باغ کا عوام خواب دیکھتے ہیں، حکمران بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے مزاج کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتنے سبز باغ یار لوگوں نے دکھائے ہیں کہ سبز باغ جھوٹ کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ جھوٹ سبز باغ کے لفظ تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ سیاست کا نام بھی اس کے ساتھ ہی بدنام ہوا ہے۔ اب اگر کوئی شخص وعدہ کرتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ اس نے سیاسی بیان دیا ہے، مطلب صاف ظاہر ہے کہ سیاسی بیان تو ہوتا ہی جھوٹ کا پلندہ ہے۔ یوں سیاست اور سبز باغ دونوں الفاظ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، یا یوں کہیے کہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے معاون، ہم معانی یا ایک ہی مطلب دینے والے ہیں۔

اگر ابتداء سے ہی اپنے حکمران سبز باغ دکھانے کے ساتھ ساتھ سبز باغ بنانے کا فریضہ بھی اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لیتے، قوم کی تربیت کرتے، ملک کو باغ سمجھ کر اس کی دیکھ بھال کرتے، اس کے اداروں کا خیال رکھتے، دیانت داری کو شعار بناتے، اس کی سونا اگلتی دھرتی سے فائدہ اٹھاتے، اس کے دریاؤں کے ضائع ہوتے پانی کو استعمال میں لاتے، زیر زمین اربوں کھربوں کی معدنیات کو نکالنے کا اہتمام کرتے، ملکی ترقی کا احساس کرتے، یہاں بسنے والے عوام کو بھی انسان سمجھ کر اپنی ذات کی طرح ہی اُن پر بھی خرچ کرتے، تو پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہ تھی، سطح زمین سے لے کر آب وہوا تک زراعت سے لے کر معدنیات تک سب کچھ دستیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستّر برس سے اسے بہت سے مقتدر اور طاقتور لوگ مختلف طریقوں سے کھا رہے ہیں، اور اس کا وجود قائم ہے۔ ہر حکمران پچھلے کو موردِ الزام ٹھہراتا اور خود کام چلاتا ہے۔ ایسے جملے تو سات دہایؤں سے سنے جارہے ہیں کہ ’’ملک دیوالیہ ہونے والا ہے ․․․
ملک تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے․․․ سابق حکومت نے خزانہ خالی کردیا ہے ، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ اور یہ بھی ’’ہمارے کسی بھی معاشی قدم سے عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا‘‘ ۔ اول تو عام آدمی کو تلاش ابھی تک نہیں کیا جاسکا، دوسرا یہ کہ ملک کی معاشی حالت جیسی بھی ہو، حکمرانوں کی ذاتی حالت بہترین ہوجاتی ہے۔

اگر تمام حکمران ملک کو واقعی باغ تصور کریں، اس کا خیال رکھیں، ترقی کے اثرات عوام تک بھی پہنچیں تو کسی بھی سابق یا موجودہ وزیراعظم کو یہ طعنہ دینے کی ضرورت نہیں کہ کس نے قوم کو کتنے سبز باغ دکھائے، اور کس نے کتنے باغ اجاڑے۔ اگر ملک حقیقی معانوں میں سر سبز باغ بن جائے، صاف بھی ہو، بنیادی سہولتیں بھی دستیاب ہوں، تمام شہریوں کو صحت کی سہولتیں میسر ہوں، ہر شہری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہا ہو، اُس کی جان مال محفوظ ہو، ہر طرف امن ہو، آلودگی کا خاتمہ ہو چکا ہو۔ تو پھر کون سا حکمران عوام کو کون سے سبز باغ دکھائے گا۔ کسی بہترین باغ میں کھڑے ہو کر اس میں بہتری لانے کی منصوبہ بندی تو ہو سکتی ہے، سبز باغوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ مگر جب کام ہی نعروں سے چلایا جائے گا تو نتیجہ کیا ہوگا؟ تاہم موجودہ حکومت کے سبز باغ شاید اس لئے بھی زیادہ محسوس ہو رہے ہیں کہ پہلے باغ میں کافی سارا اجاڑا ہو چکا ہے، دوسرا یہ بھی ہے کہ مخالفین کا یہ سیاسی فریضہ ہوتا ہے کہ انہوں نے حکومت کے ہر کام پر تنقید کرنا ہوتی ہے، معاملات کو اچھال کر اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا ہوتی ہے، عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوتی ہیں۔ ایسا موقع بھی انہیں اسی صورت میں ملتا ہے، جب حکومتِ وقت اپنے وعدوں اور نعروں پر عمل کرنے میں ناکام ہو چکی ہو۔ حکومت کا فرض ہے کہ اپنے سبز باغوں میں جلد رنگ بھرے ، ورنہ مخالفین کو موقع دے کہ وہ قوم کو اپنے سبز باغ دکھانے کا سلسلہ شروع کرے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428048 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.