پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

تحریر:صداقت علی
کراچی
آج سے ۳۰ یا ۳۵ سا ل قبل جب آج کے نوجوان عہدِ طفلی اور جوان اپنے لڑکپن یا بچپن کا عہد گزار رہے تھے تو ہمارا معاشرہ اور پورا ملک امن و سکون کی زندگی بسر کرتا تھا۔پاکستان کے پسماندہ کہلانے والے صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی سردار بہادر خان ریلوے کالونی میں، میں نے آنکھیں کھولیں تو یہاں بھی امن و سکون و محبت و آشتی کے ڈیرے تھے۔میرے والدِ گرامی ریلوے میں ایماندار سرکاری افسر تھے۔ریلوے کا محکمہ جو پاکستان کے بڑے شعبوں اور اندرونی معاشی ترقی کا ضامن ہے اس کا ہر افسر اور ملازم خوشحال تھا۔ریلوے کی اپنی کالونی کے ساتھ اپنا کیٹل فارم بھی تھا۔صبح ہری بھری چراگاہوں میں مویشیوں سے دودھ دوہنے کے مناظر آج بھی یاد آتے ہیں تو اُسی پاکستان کا ذہن میں خاکہ ابھرجاتا ہے جیسا کہ ہم آج کل ہالی ووڈ کی فلموں میں گاؤں یا دیہی مناظر میں دیکھتے ہیں۔میں صبحِ وطن کے وہ مناظر نہیں بھول سکتا جب ارمانوں کا سورج آب و تاب سے افقِ وطن پر مہرِ تاباں بن کر طلوع ہوتا تو ہر فرد تعمیرِ ملت کی لگن میں منہمک ہوجاتا اور جب رات سیاہ چادر اوڑھ لیتی تو امیدوں کے ستارے شفاف آسمان پر جھلمل جھلمل کرتے۔اس کالونی میں ملک بھر کے افراد اور طرح طرح کی بولیاں اور مختلف مکاتب بلکہ مذاہب کے لوگ آباد تھے لیکن کسی میں نہ تعصب تھا نہ اُس کی کوئی گنجائش تھی۔پھر میں کہنے کو پیلے اسکول میں داخل ہوگیا جہاں محنتی اساتذہ پوری جانفشانی سے ہمیں صرف نصابی اسباق ہی نہیں بلکہ زندگی کے اصول اور حیاتِ فردا کے سبق پڑھاتے تھے۔اُس وقت نجی اسکول میں پڑھنا گویا طالبِ علم کے کمزور ہونے کی دلیل تھی!۔یہ صرف ہماری ریلوے کالونی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی کیفیت تھی ۔ہرادارہ ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔عوامی مزاج بھی ایسا کہ کسی بھی فرد کو شادی یا خوشی کی تقریب میں مدعو کیا جاتا وہ دل سے شرکت کرتا جس کا اندازہ آپ اپنے عزیز و اقارب کی اُس دور میں لی گئی تصاویر میں چہروں کے تاثرات سے بھی لگاسکتے ہیں جب کیمروں میں بھی سادگی تھی اور سادہ کوڈک فلموں سے محفوظ کی گئی تصاویر میں فلٹرزکاکوئی تصورتک نہ تھا۔مذہبی تفرقوں کاوجودہی نہ تھا۔تمام اہلِ محلہ مشترکہ طور پر ربیع الاول کی محافل اور محرم الحرام کی مجالس و نیاز میں بلاتخصیص شرکت کرتے۔میرے کہنے کو وہ دور ’’آمری دور‘‘کہلاتا ہے لیکن معاشرے میں محبت و یگانگت کی فضا سے عوام سیاسی حالات میں الجھنا اور اس پر تبصرہ تک نہیں کرتے تھے مگر اچانک ۱۷اگست ۱۹۸۸ کا واقعہ ہوا اور پھر ملک میں وہ سیاستدان جو ’’جمہوریت پسند‘‘ کہلانے کیلیے عوام کو اپنی نگاہوں سے مناظر اورمعاشرہ دکھاتے تو بے چارے عوام کو بھی گھٹن محسوس ہونے لگتی،میدانِ سیاست میں آئے اور یوں پاکستان پر ’’جمہوری دور‘‘آگیاتو اس وطنِ پاک کے ساتھ نہ جانے کیا ہوا کہ بہارِ وطن،خزاں میں بدلنے لگی۔ ملک کے ریلوے سمیت تمام سرکاری ادارے وقت اور جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد آگے بڑھنے کے بجائے خسارے میں جانے لگے۔سرکاری اداروں میں سیاسی بھرتیوں کی قطار لگ گئی تو رشوت ستانی بھی عام ہوگئی بلکہ ہر پاکستانی بخوبی جانتا ہے کہ سرکاری نوکری بھی وزرا کے کوٹھوں پر قیمتاً ملنے لگی!دیکھتے ہی دیکھتے کنگلوں کے تو بنگلے بن گئے لیکن ادارے تباہی کی دلدل میں پھنستے رہے۔یہاں مرحوم قابل اجمیری کا شعر یاد آتا ہے کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ اچانک نہیں ہوتا


لیکن یہاں مجھے قابل اجمیری صاحب کی رائے سے اختلاف ہے کیونکہ اس وقت لڑکپن کی فضاؤں میں سانسیں لینے والا یہ لڑکا حق بات کو جاننا چاہتا ہے اور اسی لیے احساس کو روشنائی بنا کر الفاظ سپردِ قلم کرتے ہوئے بھی سوچ رہا ہے کہ یہ حادثہ اچانک کیسے رونما ہوا کیونکہ ’’وقت کی پرورش‘‘ میں تو ایسا کوئی عنصر نہیں دیکھا جو حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا تھا اسی لیے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سوچی سمجھی سازش تھی اور ہے جس کا اندازہ اس دور کے نوجوانوں کو بھی آئے دن کرپشن میں پکڑی جانے والی بڑی مچھلیوں کے انجام کی خبروں سے بھی ہوسکتا ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کرنے والے بھارت اور اس کی حامی قوتوں نے بھی دیکھ لیا کہ روایتی جنگ میں پاکستان جیسی قوت کو شکست دینا ناممکن ہے کیونکہ ہم نے زخم کھا کر اور اپنا مشرقی بازو الگ کروا کربھی جینا سیکھ لیا تھا۔ہم ایک بار پھر راہِ ترقی پر تھے بلکہ ایٹمی قوت کیلیے بھی ہم نے سامان کیا اور ہمارے محنتی اور محبِ وطن انجینیروں نے ایٹم بم جیسا تحفہ پاکستان کو دے کر ناقابلِ تسخیر بنادیا ہے۔پھر دوسری جانب امریکا بہادر نے ویتنام اور مشرقِ وسطیٰ سے لے کر افغانستان کی جنگ میں بھی نقصان اٹھا کر اور کہیں شکست کھا کر بھی اندازہ لگا لیا کہ روایتی جنگ میں کامیابی جذبے اورحمیت سے ملتی ہے جو ہم پاکستانیوں میں بدرجہ عتم موجود ہے۔اسی لیے اغیار نے کوشش کی کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ کیا جائے ۔پس پھر عوامی دور کے نام پر اقتصادی تباہی کا دور شروع ہوا۔اداروں میں میرٹ کی جگہ سفارشی بھرتی سے لے کر کرپٹ لوگ تعینات کیے جانے لگے اور وہ ادارے جن سے دنیا کے ادارے مدد مانگتے تھے کرپشن کے باعث مصائب کے دلدل میں دھنسنے لگے۔تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ پاکستانی بیوروکریسی کس حد تک محب وطن تھی جس نے ایک نئے ملک کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ریلوے کا محکمہ جس کے پاس ٹرینیں بھی کم آئی تھیں کس طرح اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہوگیا اور پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کی تو بات ہی کیا کیجیے جس نے متحدہ عرب امارات کی الامارات ائیرلائن کو ناصرف بنایا بلکہ اسے چلایا بھی مگر ہماری اپنی قومی ائیرلائن تباہ ہوگئی کہ آج اس کی نجکاری کے منصوبے بن رہے ہیں! ریڈیو پاکستان ایک مستحکم ادارہ تھا جہاں سے ۵۳ زبانوں میں نشریات دنیا بھر میں گونجتی تھیں مگر آج اس کے اپنے ملازمین سڑکوں پر پینشن اور بنیادی حقوق کیلیے نکل آئے ہیں۔پاکستان ٹیلیوژن جس کے ڈراموں سے بھارت میں سناٹے چھا جاتے تھے آج اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ کانٹریکٹ ملازمین کے دو دو سال پرانے چیک پھنسے ہوئے ہیں !

شہیدوں کے لہو سے سیراب اس زمین پر کرپشن کی شکل میں یہ ’’اقتصادی دہشت گردی‘‘ ابھری۔پاکستان جو ہم نے بچپن سے ایک زرعی ملک کے طور پر اپنی کتابوں میں پڑھا لیکن یہاں صنعت کاری کے شعبے بھی ترقی کررہے تھے۔ یہاں سے بہترین گندم اور چاول دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہوتا تھا اب باہر سے غیر معیاری گندم اور چاول خریدنے پر مجبور ہے! صنعت و حرفت میں جہاں پاکستانی مصنوعات کا طوطی بولتا تھا اب سارا سامان چین سے درآمدہوتاہے۔ اسی کرپشن نے پاکستان کو نہ صنعت کار رہنے دیا اور نہ ہی کاشت کاربلکہ اسے ’’دوکاندار‘‘بنادیا ہے کہ جہاں سے جو چیز کم قیمت اور ’’وارے میں آنے والی قیمت‘‘پر ملے خرید لو۔اس طرح یہاں صنعت و زراعت کے شعبوں میں بھی زوال آیا اور اب پاکستان کی مثال کرپشن کی وجہ سے اس جسم کی ہوگئی ہے جو بیمار اور اقتصادی لحاظ سے لاغر ہوگیا ہے اور یہی اغیار چاہتے تھے لیکن پاکستان جو ایک ملک ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔یہ بانی ءِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح ؒ کے قولِ واثق کے بقول رہتی دنیا تک وجود میں رہنے آیا ہے اسی لیے اب پاکستان سے ایسے تمام عناصر کا خاتمہ ہونا چاہیے جو ملک کو تباہی کی جانب لے جاتے ہیں اور الحمدلللہ اس کی جانب ہماری عدلیہ اور ادارے پیشرفت بھی کررہے ہیں۔

اندورنی اور بیرونی نامساعد حالات انہیں شکست نہیں دے سکتے تاہم یہ غیبی تنبیہہ بھی سامنے رہنی چاہیے کہ فرعون جیسی زندگی بسرکرکے موسیٰؑ جیسی آخرت کی توقع فضول ہے۔یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ یزید کا ساتھ دینے والے کے انجام کار حسینی کہلائیں؟

اسی لیے اب ایک بار پھر اللہ تعالیٰ اپنے نام پر قائم کردہ اس ملک پر مہربان ہورہا ہے اور ہمارے ادارے بغیر کسی سیاسی دباؤ کے کام کررہے ہیں کہ نئے دنوں کی مسافتیں پھر اجلیں گی۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام میں ابھی جذبہ حبِ وطن باقی ہے۔اسی لیے آنے والے اچھے دنوں کے امیدوار اپنے اداروں پر اعتماد سے یہ دن بھی گزار لیں کیونکہ ہمارا رابطہ ہر مشکل حالات میں ’’ملت سے استوار‘‘ہے اسی لیے ہم امیدِ بہار کے منتظر ہوکر ’’ملت کے شجرسے پیوستہ‘‘ہیں۔یہاں یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ کاش ہر اہلِ وطن دل کی نگاہ سے دیکھ کر میرا یہ مقولہ اپنے قلب و ذہن پر نقش کرلے کہ اسے لوٹنے والے کہاں کہاں بھاگتے پھر رہے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں اسی لیے اب ہر پاکستانی پورے جوش و جذبے سے کہے گا کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘
 

Syed Saqib Shah
About the Author: Syed Saqib Shah Read More Articles by Syed Saqib Shah: 9 Articles with 5567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.