دو نامعقول بندے

تحریک انصاف کے لیے ماضی کا وقت بڑا اچھا تھا۔تب باتیں ہی تو کرنا تھیں۔نہ کچھ کرکے دکھانا تھا۔نہ کسی قسم کا جوکھم درپیش تھا۔اب جبکہ باتیں کرنے کا وقت گزرچکا ۔تحریک انصاف کو کچھ کردکھانے کا موقع ملا ہے۔جوکھم درپیش ہیں تو ایک تماشہ سا لگا ہواہے۔کوئی کام سیدھا نہیں ہوپارہا۔کوئی معاملہ ڈھنگ سے نہیں ہوپارہا۔ایسی حالت ہے جیسے کسی اناڑی کو درانتی دے کر فصل کاٹنے پر لگادیا جائے ۔وہ وقت بھی زیادہ لگاتاہے۔ فصل بھی خراب کرتاہے اور اپنے ہاتھ بھی کٹوابیٹھتاہے ۔عجب افراتفری کا دورہے۔کچھ پتہ نہیں کون کس کام کے لیے ہے۔کون ساکام کس کے ذمے لگایا گیا ہے۔شعبے اور دفاتر تو کئی ہیں مگرہر کوئی صرف ا ور صرف ایک کام کررہا ہے۔پچھلی حکومتوں پر لعن طعن ۔پچھلوں پر تبری اس کے سواکچھ ہوتانظر نہیںآرہا۔پھر وہی اناڑی والی بات ،درانتی تو چلائی نہیں جارہی مگر کبھی۔موسم کی شکایت کی جارہی ہے۔کبھی زمین کی سختی پر غصہ ہے۔کبھی فصل کے ٹھیک طرح سے پک نہ جانے کا شبہ ہے۔دو بندے تو خاص کر پچھلوں کو رونے کو اپنااوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔اتفاقاًدونوں کے پاس وزار ت اطلاعات ہے ۔ایک کے پاس پنجاب کی وزارت اطلاعات ہے ۔اور دوجامرکزی وزیراطلاعات کے عہدے پر فائزہے۔دونوں کی یہ عجب حکمت عملی حکومت کے لیے آسانیاں مہیا کرنے کی بجائے مصیبیتں کھڑی کرہی ہے۔عوام کی بے چینی بڑھ رہی ہے اور یہ دونوں بندے جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔اس قدر بے وجہ کی تاویلیں دی جارہی ہیں جو مرہم بننے کی بجائے نمک کا کام دے رہی ہیں۔حکوم ت کی کارکردگی کمزور ہے۔مگر یہ کوئی ایشو نہیں ۔ابھی اسے قائم ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔اگر کوئی اس چند روزہ اقتدار سے کسی انقلاب کی توقع کررہا تھا تو یہ حماقت تھی۔تحریک انصا ف کے اس چند روزہ اقتدار کو پرفارمنس کے ترازو پر تولنانامناسب ہوگا۔مگر سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اس طرح کے بدخواہوں کے توڑ کے لیے کیا پالیسی ہے؟کیا بہتر نہ ہوتاکہ مخالفین کی بے تکی باتوں پر دھیان نہ دیتے ہوئے اپنے کام پر توجہ دی جاتی؟مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔حکومتی لوگ بے تکی ہانکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ہمارے دونوں وزیراطلاعات نے تو شاید چپ نہ رہنے کی قسم کھارکھی ہے۔تحریک انصاف کی بدقسمی کہ اس عہدے پر جس قدر عوامی بندے ہونے چاہییں تھے۔اسی قدر غیر عوامی ہیں۔وزارت اطلاعات کی سب سے بڑی خوبی اس کا صبر ہوتاہے۔اس کی برداشت ہوتا۔اسے رنگ رنگ کے معاملات کا سامنا کرنا ہوتاہے۔جگہ جگہ پر حکومتی موقف سے آگاہی دینا ہوتی ہے۔اسے ہر رنگ کے لوگوں کے لیے قابل قبول اور معقول ہونا چاہیے ۔اپنے حلیے سے۔اپنے اطوار سے اور اپنی گفتگو سے ۔بد قسمتی سے دونوں وزیر ا؂طلاعات کسی طور پر اپنے حلیے ۔اطوار اور گفتکو سے معقول دکھائی نہیں دیتے۔

اگر بات فیاض الحسن چوہان کی کی جائے تو وہ غیر متاثر کن حلیے اطوا راور گفتگو کے حامل ہیں۔ان کی حرکات وسکنات سے کسی طو رپر بھی سنجیدگی اور مناسب پن نہیں جھلکتا۔وہ جب بھی بولتے نظرآئے ان کے الفاظ کا چناؤدرست نہ رہااورنا ہی اندا ز تکلم میں کوئی اثر نظرآیا ۔وہ کسی قدر بے ربط گفتگو کے عادی ہیں۔چہرے مہرے کے تاثرات جو بولنے والے کے الفاط کا وزن بڑھاتے ہیں فیاض الحسن ان سے بالکل محرو م ہیں۔جہاں تک فواد چودھری کی بات ہے۔ہمارے مرکز وزیر اطلاعا ت بھی کچھ اسی طرح کی شخصیت رکھتے ہیں۔فیاض الحسن اور فواد چودھری میں غیر سنجیدگی کا خاصہ تو مشترک ہے مگرایک بڑا فرق یہ ہے کہ فیاض الحسن چوہان جس قدر بے وزن گفتگواور بے وزن انداز تکلم کے حامل ہیں فواد چودھری اسی قدربے وزن گفتگو اور غصیلا انداز تکلم اپنائے ہوئے ہیں۔یہ حضرت بیسیوں بارہ سوال پوچھنے والوں پر چڑھائی کرتے نظر آئے۔آپ کو کس نے کہا؟ آپ کو کیسے اندازہ ہوا؟ آپ کو یہ کیوں لگتا ہے؟ وغیر ہ وغیرہ۔فیاض الحسن کی بے جان گفتگو سے پنجاب کی وزارت اطلاعات بے جان ہورہی ہے۔اور فواد چودھری کا بات بات پر بڑھک جانے کانداز مرکزی وزارت اطلاعات کو بٹا لگارہاہے۔حکومت کی ابتدائی پرفارمنس قابل فخر نہیں ہے۔مگر اسے اصل مسئلہ اس کمزو رپرفارمنس سے نہیں ۔دوست دشمن سارے ہی اس کے نئے نویلے پن سے خاموش ہیں۔اس مسئلہ تو کچھ لوگوں کی طرف سے چھیڑ خانیاں ہیں۔جو اپوزیشن کو بھی بڑھکاتی ہین اور عوام کو بھی مشتعل کرتی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان خود بھی اب پچھلوں پر تبری کرنے کی عادت بدلیں اور اپنے دیگر لوگوں کو بھی باز رکھیں۔ماضی میں سب چور تھے۔برے تھے آپ کی بات تسلیم کرلی جاچکی۔ثبوت آپ لوگ کو اقتدار پر لابٹھانا ہے۔ابپ پچھلوں کا باب بند ہوجانا چاہیے۔اب معاملات آپ کے سپرد ہیں۔ آپ کچھ کردکھائیں۔ اپنی سپیڈ تیز کریں۔جب تک آپ کے پاس کچھ کہنے اور کھانے کے لیے کچھ نہیں تب تک اپنے حکومتی لوگوں کو خاموش کروائیں۔وزارت اطلاعات پر بیٹھے دونوں نامعقول بندے آپ کی حکومت کی نیک نامی کی بجائے بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.