بدھا کے دیس میں ( قسط ٣)

کینڈی Kandy
کینڈی کے لئے سفر پھر شروع ہوا۔ میاں صاحب نے ایک مسجد میں نماز کے لئے گاڑی رکوائی ۔ مسجد میں عورتوں کے لئے بھی سعودی عرب کی طرح نماز کے لئے مصلی موجود تھا۔ مسجد سے باہر نکلے تو سامنے ایک گھر کے مسلمان مکین نے ہمیں اپنے گھر چلنے کی پر خلوص دعوت دی اور ہم انکار نہ کر سکے۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے تو اہل خانہ نے نہایت محبت سے استقبال کیا۔ گھر بہت صا ف ستھرا تھااور مکینوں کے سلیقے کو ظاہر کر رہا تھا۔خاتون خانہ اور بیٹیوں نے بڑے سے دوپٹے کے ساتھ سری لنکا کا روایتی ساری نما لباس پہنا ہوا تھا ۔ ان خواتین سے کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد ہم نے اجازت چاہی کیونکہ ابھی کافی سفر باقی تھا۔کسی قسم کے تصنع سے عاری یہ لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔صرف یہ لوگ ہی نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان کو میں نے نہایت سادہ پایا۔مرد ہوں یا عورتیں دونوں کے مزاج و لباس میں سادگی اور عاجزی نمایاں طور پرنظر آتی ہے ۔ یہ صفات اسلام کا طرہ امتیاز ہیں مگر افسوس کہ آج ہم اہل اسلام کے ہاں یہ خال خال ہی پائی جاتی ہیں ۔نمود ونمائش اور مال و دولت میں ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ نے ہمیں مذہبی تو کیا اخلاقی قدروں سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔۔

سہ پہر تک ہم کینڈی کے Cinnamon Hotel پہنچ گئے۔سری لنکا کی مخصوص رم جھم جاری تھی۔ حسب معمول سٹاف دار چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیےاورفریش جوسز کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھا۔ یہ ہوٹل دریائے مہا ویلی کے کنارے بنا ہوا تھا ۔ ہوٹل میں ضابطے کی کاروائی مکمل ہونے تک ہم نے داخلی دروازے کے مخالف سمت بنے سوئمنگ پول کی راہ لی جس کے آگے نیچے کی طرف دریا بہہ رہا تھا۔ دریا کے ساتھ ہوٹل کا خوبصورت باغ اور دریا کے ساتھ دوسری طرف جنگل موجود تھا۔ ہم مناظرِفطرت کے شیدائیوں کے لئے یہاں بھی ایک زبردست دل کو چھوتا ہوا نظارہ موجود تھا۔

جلد ہی ہم نے اپنے کمروں کا رخ کیا کیونکہ سب کچھ دیر آرام کرنا چاہ رہے تھے۔ زیادہ آرام کا وقت نہ ملا شام سے پہلےہم نے کینڈی کی مشہور جھیل اور شہر کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ڈرائیور کے ساتھ کینڈی ٹاؤن پہنچےبازار سے نکلتے ہی دلکش "کینڈی لیک" نظر آئی۔ جھیل کے اردگرد سڑک ہے اور سڑک کے کنارے ہوٹل، اسکول اور سرکاری عمارتیں ہیں ۔جھیل کے قریب پیدل چلنے والوں کے لئے ایک کشادہ فٹ پاتھ ہے جہاں گھنے درختوں کے نیچےجگہ جگہ بیٹھنے کے لئے بنچ بھی بنے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر بنچ پریمی جوڑوں کے قبضے میں تھے۔شام کے وقت خوب گہما گہمی کا عالم تھا۔

کچھ دیر ہم نے فٹ پاتھ پر گھوم کر اس خوبصورت جھیل کا نظارہ کیا۔جھیل میں کشتی کی سیر کا بھی اہتمام تھامگر وقت کی کمی کی وجہ سے ہم استفادہ نہ کر سکے۔جھیل کے عین وسط میں "رائل سمر ہاؤس " ہے جو کہ محل کا ہی ایک حصہ ہے۔یہ محل ویکرمہ باہو نے 1357 ء میں تعمیر کرنا شروع کیا اور سترہ سال میں مکمل ہوا ۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں نے اس میں مزید اضافے بھی کروائے۔پرتگالی حملہ آوروں کے ہاتھوں یہ محل تباہ ہوا اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آخری بادشاہ"سری ویکرمہ"نے اس کو اپنا مستقل شاہی مسکن قرار دیا اور سری لنکا پرانگریزوں کے تسلط تک یہیں قیام پذیر رہا۔

سڑک کے پار مشہور "بدھا دانت" کا یادگار مندر ہے جو کینڈی کے آخری بادشاہ کے محل کے احاطے میں ہے۔یہ مندر بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ یہاں بدھا کے دانت کا اوشیش (Sacred Tooth Relic) پڑا ہوا ہےاور اس کوحکمرانی کے لئے مقدس شگون سمجھا جاتا ہے ، ہر حکومت اس کی خاص حفاظت کرتی ہے۔ ۔بدھ زائرین اس مندر کو اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا مسلمان خانہ کعبہ کو۔ اس لئے اس مندر میں حاضری ہر بدھ کی خوہش ہوتی ہے۔ مجھے سنہری مندر میں داخلے والی شرط یاد تھی اس لئے بدھا دانت کے مندر جانے سے گریز کیا۔

اس کے علاوہ کینڈی میں ایک منظر ہر جگہ سے نظر آتا ہے ، وہ یہ اوپر ایک پہاڑی پر موجود مندر میں بنا ہوا بدھا کا دیو قامت مجسمہ۔ 88 فٹ کا یہ مجسمہ سری لنکا میں بدھا کا سب سے بڑا مجسمہ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ یہ مجسمہ سگیریا کی لائن راک سے بھی نظر آ رہا تھا۔یہ مجسمہ کینڈی ٹاؤن سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ہم نے یہاں بھی دور سے ہی بدھا کو ''آئبوان" کہا کیونکہ ڈر تھا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد پیدل چلنے کے بعد وہاں بھی اگر بدھا کے پیروکاروں نے مندر میں داخلے کی کوئی شرط رکھ دی تو خواہ مخواہ ہمارا دل برا ہو ائے گا۔ بہرحال کینڈی لیک اور اس خوبصورت، صاف ستھرے شہر کے نظاروں نے بھی ہمارا دل موہ لیا ۔

رات ہو چلی تھی اس لئے ہوٹل کا رخ کیااور بھرپور بوفے ڈنر سے سیر ہونے کے بعد ہوٹل کے اردگرد کچھ دیر واک کی پھر اپنی قیام گاہوں میں جاکررب کائنات کے حضور حاضری لگوائی اور نیند کی پرسکون وادیوں میں گم ہو گئے۔فجر کے بعد حسب معمول ہوٹل کے اردگردباغ میں سیر کا ارادہ کیا۔ یہ باغ حبارانا کی طرح بہت بڑا نہ تھا ۔لیکن بےشمار پھولوں والے پودوں اور چند پھلدار درختوں کے ساتھ ساتھ دریاکے پرسکون نظاروں کی وجہ سے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ یہاں بھی جالی دارجھولوں (Hammocks) میں لیٹ کر دیر تک قدرت کے حسین نظاروں کا لطف اٹھایا۔ دریا میں کھڑے بگلوں نے اس منظر کو اور حسین بنا دیا جو کہ صبح سویرے دریا میں اپنی خوراک تلاش کرنے میں مشغول تھے۔جب دھوپ نکل آئی تو واپسی کا خیال آیا۔
یہاں بھی ایک سعودی خاتون سے ملاقات ہو گئی جن کا تعلق جدہ سے تھا۔ سری لنکا میں سعودی سیاحوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔بلکہ سعودیوں کے علاوہ یہاں آپ کو بے شمار چینی،جاپانی،انڈین اور یورپیئن سیاح بھی ملیں گے۔ سری لنکا کاشمار بھی پاکستان کی طرح ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے بلکہ ان کےروپےکی قدر تو پاکستانی روپے سے بھی کم ہے۔ عوام الناس کی اکثریت کی معاشی حالت اچھی نظر نہ آ رہی تھی ۔۔اس کے باوجود سفر کے دوران کہیں پر بھی کوئی ایک گداگر بھی نہیں نظر آیا ۔بوڑھے، جوان،بچے،عورتیں سب کو میں نے ان تھک محنت کرتے دیکھا۔

سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔وہاں کا انفراسٹرکچر، امن و سکون اورسیاحوں کے لئے بہترین سہولیات دیکھ کرہم سب حیران تھے۔ایک اندازے کے مطابق2016 ء میں سوا دو ملین سیاح ریکارڈ کیے گئے اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔آپ کو انٹرنیٹ پر تمام قابل دید مقامات کے بارے میں مکمل معلومات، سستے اور مہنگے ہر طرح کے بیسیوں ٹور پیکجیز باآسانی مل جائیں گے۔ ہم نے بھی انٹر نیٹ پر ہی اندھا اعتماد کرتے ہوئے پیشگی ادائیگی کے ساتھ ایک پیکج منتخب کیا تھا جو ہماری توقعات سے بڑھکر پرسہولت ثابت ہوا۔اگرچہ اس سے بیشتر کچھ مسلمان ممالک کی کی سیاحت بھی کی مگروہ کوئی اتنے اچھے تجربات نہ تھے ۔۔۔۔

اس حقیقت کو آپ بھی مانیں گے کہ ہمارےکردار کی اچھائی یا برائی کا اثرمحض ہماری اپنی زندگی پر ہی نہیں ہوتابلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کا بھی نمائیدہ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب آپ بطور سیاح کسی دوسرے ملک میں جائیں یا دوسرے ملک سے سیاح آپ کے ملک میں آئیں۔ ہر دوصورت میں آپ کابرتاؤ ہی آپ کی شناخت قائم کرے گا۔۔۔۔تو جناب سری لنکا کےاچھے امیج کا کریڈٹ سراسر وہاں کی عوام کو جاتا ہے۔۔ہے کہ نہیں؟؟ اِس قوم کی خوشی دلی، دوستانہ فطرت، منکسر المزاجی اور اخلاق نےہمارے دلوں کو موہ لیا۔

صبح کی سیر سے واپسی پر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ٹیبل ٹینس نظر آیا ،کھیلنے کا سامان بھی موجود تھا۔ کچھ بازیاں لگائیں اور پھر جب ناشتے کی یاد ستانے لگی تو اندر کا رخ کیا۔ناشتے کے بعد اگلے سفر کی تیاری شروع ہو گئی آدھے گھنٹے کے اندراندر ہم گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔

قیمتی پتھروں کا میوزیم
شہر سے نکلنے سے پہلے ڈرائیور نے پوچھا کہ اگر قیمتی پتھروں کا میوزیمgem museum دیکھنا ہو تو وہ گاڑی روک دے، میں نے حامی بھر لی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح کی جگہوں پر سیاحوں کو لانے پر ضرور ڈرائیور حضرات کو کمیشن ملتا ہو گا کیونکہ اسپائس گارڈن کی طرح یہاں سے بھی یقیناً خریداری کی جاتی ہو گی ۔بہرحال ہم بخوشی و رضا میوزیم میں داخل ہوئے۔خوش خلق اسٹاف نے استقبال کیا ۔ سب سے پہلے ہمیں ایک کمرے میں بٹھا کرکانوں سے قیمتی پتھروں کو نکالنے کے طریقہ کار کے متعلق ایک ڈاکومنٹری دکھائی گئی جو واقعتاً بہت معلوماتی تھی۔اس کے بعد ہمیں اس چھوٹے سے میوزیم کا دورہ کروایا گیا۔ڈاکو منٹری میں بتائے گئے کان کنی میں استعمال ہونے والے اوزاراور طریقوں کے ماڈلز وغیرہ بھی وہاں بنائے گئے تھے۔

اس کے بعد اوپر والے ہال میں لے جایا گیا جہاں شو کیسوں میں بے شمار قیمتی پتھر موجود تھے۔اتنی بڑی تعداد میں قیمتی پتھر میں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ہمارا میزبان ساتھ ساتھ پتھروں کے متعلق قیمتی معلومات بھی دے رہا تھا۔سری لنکا دنیابھر میں قیمتی پتھروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔دنیا میں پائی جانے والی پتھروں کی 85 اقسام میں سے 40 صرف سری لنکا میں پائے جاتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو جو "روبی" تحفے میں دیا تھا وہ سیلون سے ہی حاصل کیا تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا نیلم بھی سری لنکا میں ہی ہے جس کی مالیت سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے ملکہ برطانیہ کے تاج پر بھی یہاں کا ہی "نیلم" جڑا ہوا ہے۔ ۔خیر سری لنکا میں میرا خریداری کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اپنے پہنے ہوئے ہیرے ٹسٹ کروائے جو کہ اصلی نکلنے پر خوشی ہوئی ۔ہمارے میزبان کو خریداری پر آمادہ نہ کر سکنے پر مایوسی تو ہوئی ہو گی مگر اس نے خوش دلی کے ساتھ ہمیں الوداع کہا۔
جاری ہے٣٣ ٣٣٣٣٣٣
 

Raina Naqi Syed
About the Author: Raina Naqi Syed Read More Articles by Raina Naqi Syed: 8 Articles with 11436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.