میں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ کراچی سے واپس
تو جاسکتے ہیں لیکن کراچی شہر کی رنگینیوں کو اپنے دل نکال باہر نہیں کر
سکتے ، اور یہ کراچی کی شان او ر خوبصورتی ہے۔ ویسے تو کراچی پاکستان کا سب
سے بڑا شہر ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کراچی کو منی پاکستان
بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں ہر صوبے یعنی پنجاب ، سندھ ، کےپی کے، کشمیری
اوربلوچستان کےشہری بستے ہیں۔
کراچی ساحل پر ہونے کے باعث اس کی اہمیت بانسبتاً باقی شہروں سے بڑھ جاتی
ہے۔اس کو روشنیوں کاشہر ، شہروں کی دلہن کہا جاتا ہے اور سب سےمشہور
شہرِقائد ہے کیونکہ بانیِ پاکستان کی جائےِ پیدائش یہی شہر ہے۔ کراچی میں
بےشمار تفریحی مقامات ہیں لیکن ہر جگہ ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہے۔یہ
مقامات قابلِ ستائش ہیں اور تفریح کا بہترین زریعہ بھی۔
دوسرے شہر وں سے لوگ کراچی کی سیر کو آئیں اور ساحل سمندر پر نا جائیں تو
یا تقریباً نا ممکن سا لگتا ہے۔ کیوں ساحل کے بغیر کراچی کی تفریح ادھوری
ہے۔ سی ویو، دودریا، کلفٹن بیچ، ہاکس بے، پورٹ گرینڈ تو آپ نے دیکھا ہی
ہوگا آج ہم آپ کو کراچی کی ایک ایسی ساحلی پٹی کے بارے میں بتائیں گے ۔کراچی
سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ماہی گیروں کی دوسری بڑی بستی آباد ہے،
جسے ہم "مبارک ولیج"کے نام سے جانتے ہیں ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا نام ہے مبارک ولیج۔۔!!! مبارک، تو چلیں کسی
بلوچ کا نام ہو سکتا ہے، یہ ولیج تو انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ وجہ تسمیہ کیا
ہے؟ کہیں انگریزوں نے تو اس کا نام نہیں رکھا۔ مبارک ولیج کی تاریخ تو کافی
پرانی ہے۔ نام کا وجہ تسمیہ تو نہیں معلوم۔ البتہ یہیں پر انگریزوں کا ایک
بنگلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ علاقہ بنگلو کے نام سے بھی مشہور ہے جب کہ لوگ یہ
بھی کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں برٹش امپائر کے افسران یہاں تعینات تھے۔
شاید انہوں نے ولیج کا نام اس میں اضافہ کر دیا ہو۔ خیر یہ نام جو بھی ہو
لیکن یہاں کی خوبصورتی، حسین اور دلکش نظاروں سے قطعاً انکار نہیں کیا
جاسکتا۔
مبارک ولیج کی سرحدیں گڈانی بلوچستان سے ملتی ہیں۔ اگر بات کی جائے یہاں کے
حسین نظاروں کی تو یہاں سنہری چٹانوں اور نیلگوں شفاف پانی کے انوکھے
امتزاج کے گھیرے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ شہر کراچی کی مصروفیات اور شوروغل
سے دور یہ مقام آپ کا بے پناہ محبت کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔ ساحل کے قریب
پہنچتے ہیں وہاں شیشے کی طرح شفاف پانی میں ڈولتی لنگرانداز کشتیاں نظر آنے
لگتی ہیں۔
کراچی کی سب سے قدیم اور پرانی ساحلی بستی مبارک ولیج کی آبادی تقریباً
چارہزارنفوس پرمشتمل ہے اوراس کے مکین پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ شہر کے
پڑوس میں آباد ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔یہاں
کے باسیوں کی زندگی انتہائی مشکل ہے ، مقامی آبادی کے گھر کچے بنے ہوئے
ہیں اور سیلاب یا طوفانی ہواوٗں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ بستی
زندگی کا بنیادی جزو سمجھی جانے والی سہولیت یعنی بجلی اور پانی سے
یکسرمحروم ہے اور سمندر کنارے آبادمقامی افراد کی ضروریاتِ زندگی کا دارو
مدار شہر سے آنے والے پانی کے ٹینکر (جوانتہائی مہنگا ہے)ہیں
اوردوردرازواقع گنتی کے چند میٹھے پانی کےکنووٗں پرہے۔
یہاں کے باسیوں کی اکثریت کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے مگر کسی اور جگہ
کے ماہی گیروں کے مقابلے میں مبارک ولیج کے رہائشی فشنگ نیٹ کی بجائے اپنی
آمدنی اسپورٹس فشنگ کے ذریعے کماتے ہیں، وہ شکار کے لیے کئی طرح کی تیکنیکس
استعمال کرتے ہیں جیسے فشنگ راڈز اور ہیڈ لائنز وغیرہ۔ بیشتر ماہی گیروں کے
روزگار کا انحصار چھوٹی کشتیوں پر ہے جنھیں روایتی طریقے سے تیار کیا جاتا
ہے اور وہ طوفانی موسم میں سفر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ان سے مضبوط
کرنٹ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں یہ ماہی گیر مون سون کے دوران
اپنی سرگرمیاں معطل کردیتے ہیں اور اپنے علاقے کے قریب واقع گراﺅنڈ میں
فٹبال میچز کھیل کر اپنا وقت گزارنے لگتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے کراچی کے حسین ساحل مبارک ولیج کی خوبصورتی ماند پڑگئی ۔
ساحل پر پُراسرار طور پرآنے والے تیل کی وجہ تو اب تک معلوم نہ ہوسکی ۔کراچی
میں مبارک ولیج کا خوبصورت ساحل بدبودار اور سیاہ خام تیل کی وجہ سے شدید
آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ خام تیل سے جہاں آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں ویہی
ماہی گیروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔مبارک ولیج پر تیل آنے کی وجہ
آبی حیات کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ساحل پر صفائی ستھرائی کا
کام جاری ہے۔ |