ایک سفر، گوادر اور میری محبوبہ

پنجگور مجھے عزیز ہے کیونکہ میں یہاں پیدا ہوا اور یہاں پر پلا بڑا۔اور گوادر سے مجھے پیار ہے کیونکہ وہاں پَر میری محبت موجود ہے یعنی کے سمندر۔ اَپنی محبت سے ملنے میں نے راحت سفر باندھا اور چل پڑا۔پنجگور کا موسم اُداس ہے کیونکہ گُوریچ کی تیز ہواؤں نے ہرچیز کو اَپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہیں۔پہاڑ تو پہلے سےخشک ہے اور پہاڑوں کےمکین مرچکے ہیں پہاڑوں میں اَب کچھ نہیں۔کبھی اِن پہاڑوں میں زندگی ہوا کرتی تھی خرگوش،تیتر،پانیوں کے چھوٹے تلاب،جنگلی گھاس پھوس کسی چرواہےکی بَنسری کی آواز ، بھیڑ بکریوں کی لمبی قطاریں اَب یہ سب کچھ ختم ہوچکا ہیں جب سے بارشیں روٹھی ہیں تب سے اِن پہاڑوں میں ایک خاموشی اور اُداسی ہیں درمیان میں سڑک ہے اور سڑک پر بے شمار گاڑیاں ہیں گاڑیوں میں بیٹھے وہ نوجوان ہیں جو دو وقت کی روٹی کی تلاش میں اَپنی جان کی پرواہ کئی بغیر ایران کی طرف رواں دواں ہیں۔ جانتے ہیں آگئے راستہ آسان نہیں قدم قدم پر مُصیبتوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہیں۔ لیکن وہ بھی کیا کریں اُن کیلئے یہاں کچھ نہیں ہیں۔ مجھے راستے میں کئی جگہوں پر روک کر اپنی پہچان بتانا پڑا کہ میں کون ہوں؟ اِدھر کیوں ہوں؟ کہاں جارہا ہوں؟ کیوں جارہا ہوں؟ یہ سوال مجھے ہر دو کلومیٹر کے بعد بتانے پڑے اور میں اِیک اَمن پسند شہری ہوکر ہر جگہ اَپنی شناخت کراتا رہا۔کئی کئی تو مجھے اَپنے ہاتھ کھڑے کرنے پڑے ایک دو جگہ تو مجھے اَپنی شناخت باقاعدہ لکھنا پڑا۔لیکن میں نے کوئی اعتراز نہیں کیا بس خاموشی سے ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔میں جانتا ہوں مجھے اَپنی پہچان کرانے کی ضرورت نہیں مجھے اِس راستے کی ہر شے جانتی ہیں، یہ پہاڑ یہ بَنجر زمین ،کبھی کبھار نظر آتی درختیں،دور آسمانوں میں اُڑتے ہوئے پرندے یہ سب میرے رَگ رَگ سے واقف ہیں۔ اَب اپنی جنم بھومی کو الوداع کہے چکا ہوں میری اَگلی منزل کیچ ہے،کیچ یعنی پُنوں کا سرزمین جہاں صرف پیار کی گیت گائی جاتی ہے کبھی یہیں سے پُنوں اَپنی سسی کو لینے چل پڑا تھا پر اَفسوس وہ پھر یہاں لوٹ کرنا اسکا تھا۔آگئے میں روانہ ہوا تو کچھ بچے تپتی دھوپ میں بکریاں چرا رہے تھے اور دو چھوٹی لڑکیاں وہی سڑک پر بیٹھیں کپڑے سی رہے تھے میرے دل میں آیا اِن کو تو اَبھی اِسکول میں ہونا چاہیے یہ یہاں کیا کررے ہیں تبھی میں اسکول کے قریب سے گزرا اور تب مجھے سمجھ آگیا کہ یہ بچے باہر کیوں ہیں۔دوپہر ہوچکا ہے میں کیچ پہنچ چکا ہوں کیچ کی سڑکیں اور بازار اب پہلے سے بہت بہتر ہے لگتا ہے جسے آپ ایک بڑے شہر میں آگئے ہیں کیچ کا یہ حال دیکھ کر اَچھا لگا۔ اب میں اور اپنی محبت سے دور نہیں ہوسکتا اِس لئے اب میں نے پھر سے سفر شروع کیا جسے جسے آگئے بڑتا جارہاہوں تو مجھے دھول اُٹھتی دیکھائی دیں رہا ہے، لگ رہا کہ میں دشت کے قریب پہنچ رہا ہوں ، دشت اَپنی زرخیز زمین کی وجہ سے بڑی اہمیت کا عامل ہے لیکن اب تو پینے کیلئے پانی نہیں تو کاشت کاری کیلئے کہاں سے پانی ہوگا۔ کالے پہاڑ اب مٹی کے پہاڈوں میں بدل رہے ہیں لگ رہا ہے کے میرے محبوب کا دیس قریب آرہی ہے اور مجھ سے اَب انتظار بھی نہیں ہورہا سورج بھی اب ڈھلنے والی ہے اور میں بلا اخر گوادر پہنچ گہا ہوں ۔ تھوڈا سا ہوٹل میں آرام کرنے کے بعد میں نے ساحل کا روک کیا میرے اور ساحل کے درمیان ایک سڑک ہے اور سڑک کہ اُس پار ساحل ہے لیکن ہر طرف اَندھیرا ہے جیسے ہی میں نے سڑک پار کیا تو سمندری ہوائوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں ساحل پر جانا چاہتا تھا لیکن اندھیرے کی وجہ سے جا نہ سکا۔جس کا مجھے اَفسوس ہوا خیر رات جسے تیسے گزر گئی صبح ہوئی تو پتہ چلا آج مائی گیروں کا اِحتجاجی ریلی ہیں کہ اُن کی لانچوں کو سمندر میں جانے نہیں دیا جارہا۔دوسری طرف گوادر والے پانی کیلئے بھی ترس رہے ہیں۔ ہر نئی حکومت آتی ہے وعدہ کرکے چلی جاتی کہ ہم پانی کا مسئلہ حل کردیں گے لیکن مسئلہ آج تک جوں کا توں ہے کچھ منصوبے شروع کئے گئے لیکن سست روہی کا شکار ہیں۔ پانی نا ہونے کی وجہ گوادر کہ زیادہ تر لوگ ڈیپریشن کا شکار ہیں یہ اَمن پسند لوگ ہیں لیکن آج کل اِن کے چہروں پر غصہ صاف نظر آتا ہیں۔

گوادر کا ساحل دنیا کی خوبصورت ترین ساحلوں میں سے ایک ہیں۔ گوادر کے سمندر کا پانی کراچی کی سمندر کی طرح گندی نہیں یہاں کا ساحل بھی خوبصورت ہے ۔ اگر آپ کوئے باتل پر چھڑّ کر گوادر کو دیکھے تو ایسا لگے گا جسے اِیک حسین جھیل ہے اور جھیل کے درمیان کسی نے کوئی لکیر کھینچی ہے۔گوادر کے دونوں طرف سمندر ہے اور درمیان میں آبادی ہے ۔گوادر کی ہر بیچ اَپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں ۔خاص کار کپسی بیچ کا تو کیا کہنے ۔اُونچی اُٹھتی موجھیں دل چھولینے والے مناظر آپ کی سفر کی ساری تکان اُتار دیتے ہیں۔آخر کار اَب میں ہوں اور میری محبوبہ ہے پہلے جب بھی میں آتا تھا تو وہ مجھے پیار سے ملتی اِس دفعہ کچھ ناراض سا لگ رہی ہے ۔اِیسا لگ رہا ہے جسے وہ مجھے پہچان بھی نہیں رہی پتہ نہیں کیوں آج بار بار فیض احمد فیض کا یہ مصرع ذہن میں آرہا ہے ۔
کہ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
یہ الوداع جانم
 

Ilyas Raees
About the Author: Ilyas Raees Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.