کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محقق اور ماہر نفسیات لیری روزن
کی تحقیقات کے مطابق فیس بک اور دیگر ویب سائٹس کے زیادہ استعمال سے انسان
میں خود پرستی ،نفسیاتی مشکلات ،سماج دشمن روئیے اور پر تشدد جذبات میں
اضافہ ہورہا ہے ۔
لیری روزن کے مطابق ان کے استعمال کرنے والے بچے اور بڑے نفسیاتی بیماریوں
کا شکار ہو رہے ہیں ۔فیس بک کے اعداد و شمار کے مطابق ہر روز تقریبا دولاکھ
افراد اس سائیٹ کے ممبر بنتے ہیں ۔حال ہی میں پاکستان میں فیس بک صارفین کی
تعداد ایک کروڑ ۰۲ لاکھ سے بڑھ گئی ہے جو پاکستان کی کل آبادی کے سات فیصد
کے قریب بنتا ہے ۔اور ایک اندازے کے مطابق اس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں
اور نوجوانوں کی ہے ۔
دور حاضر میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ کی افادیت سے انکار ممکن
نہیں سوشل میڈیا کی وجہ سے آج فاصلے سمٹ کر کم ہو گئے ہیں ،ہزاروں میل دور
سے انسان اپنے سارے مسائل گھر بیٹھ کر حل کر سکتا ہے ۔سوشل میڈیا کی بدولت
آج دنیا گلوبل ولیج میں بدل چکی ہے فیس بک ،ٹوئیٹر ،موبائل ایس ایم ایس ،واٹس
ایپ ،وائبر فوری طور پر ملنے والی عوامی رابطہ ویب سائیٹس ہیں ۔غور طلب بات
یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران سوشل میڈیا کے صارفین میں نمایاں اضافہ
ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھ رہا ہے مگر جس طرح ہر چیز کے مثبت
پہلو بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی ،یہی کچھ حال سوشل میڈیا کا بھی ہے جہاں
سوشل ویب سائٹس انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ اور
اطلاعات اور خبروں کی ترسیل کا مﺅثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آئی ہے ،وہیں
ان کی وجہ سے معاشروں میں بہت سی اخلاقی اور سماجی خرابیوں نے بھی فروغ
پایا ہے ۔
ایسے معاشروں میں پاکستانی معاشرہ بھی ہے جہاں ہر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات
،مثبت اثرات سے کہیں زیادہ ہیں ۔سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک اس صورتحال
کی اہم مثال ہے جو کچھ وقت پہلے تک اطلاعات کے پھیلاﺅ ،تفریح اور علم کے
حصول کا مﺅثر ترین ذریعہ تھی مگر آج ہمارے معاشرے کے مختلف افراد اسے لوگوں
کو بدنام کرنے ،بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانے اور تصاویر ،خاکوں اور
وڈیوز میں من مانی ردوبدل کرکے لوگوں کو بلیک میلنگ کرنے کے لئے استعمال کر
رہے ہیں ۔ایک رپور ٹ کے مطابق جہان سوشل میڈیا ویب سائٹ نے دوسروں کے ساتھ
مربوط ہونے اور باہمی رابطے بڑ ھا نے کا ایک اضافی طریقہ فراہم کیا ہے وہیں
یہ ممکنہ طور یہ ممکنہ طور پر سائبر غنڈہ گردی ،سماجی رقابت اور تنہائی کا
بھی ذریعہ بن رہا ہے ۔
سوشل میڈیا نے جہاں مردوں کو اپنا گرویدہ بنایا وہیں خواتین بھی اس سے پوری
طرح مستفید ہو رہی ہیں ،ایک وقت تھا جب صرف مرد حضرات ان ویب سائٹس کا
زیادہ استعمال کرتے نظر آتے تھے ،مگر آج یہ صورتحال ہے کہ خواتین بھی اس
دوڑ میں پوری طرح شامل ہو چکی ہیں ۔ایک طرف وہ خواتین جو کاروباری شعبے میں
اپنا مقام بنارہی ہیں اور اپنی محنت اور کوشش سے کاروبار کی دنیا میں اپنا
مقام بنا رہی ہیں ،ان میں سے بیشتر خواتین اپنے ذاتی کاروبار سے وابستہ ہیں
اور جنہوں نے چھوٹے پیمانے پر اپنے کام کا آغاز کیا اور اب اکثر خواتین آن
لائن بزنس چلا رہی ہیں ۔مثال کے طور پر کچھ خواتین جو بیوٹی پالر چلاتی ہیں
یا بوتیک چلا رہی ہیں ،اب وہ اپنے پالر اور بوتیک کی پبلسٹی کے لئے اپنے
فیس بک پیجز بنا رہی ہیں جس سے ان کے گاہکوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ
ہوا ہے اور آن لائن خرید اور بیچ میں نمایاں اضافہ ہوا کیونکہ فیس بک کی
بدولت رسائی آسان بن گئی ہے ۔یوں سوشل میڈیا کی بدولت بزنس کی پروموشن میں
خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔مگر کچھ فوائد کے ساتھ ساتھ انہیں ویب سائٹس نے
کوخواتین کو ذہنی مریض بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ،آج نہ صرف وہ
خواتین جو گھریلو ہیں بلکہ ورکنگ وومین بھی اس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا
شکار ہو رہی ہیں ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر خواتین کو اپنے شوہروں سے یہ شکایت ہے
کہ ان کی شوہر وں کے پاس ان کے لئے کوئی ٹائم نہیں کیونکہ وہ اپنا سارا وقت
میڈیا ویب سائٹس پہ گزار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خانگی مسائل جنم لے رہے ہیں
مردوں کی سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ اس حد تک دلچسپی پر ان کی بیویوں نے
اعلانیہ اپنے غم اور غصے کا اظہار شروع کر دیا ہے ،ان میں سے بعض یہ کہہ
رہی ہیں کہ ان کے خاوند اس طرح سوشل میڈیا پر دوسری عورتوں کے ساتھ دل
لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اپنے شوہروں سے
نالاں خواتین نے طلاقیں لینا شروع کردی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ ٓج ۰۸
فیصد گھروں کے ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار اس سوشل میڈیا کا ہے جس نے میاں
بیوی کے درمیا ن دوریاں پیدا کردی ہیں اور جس کی وجہ سے خاندان کے خاندان
تباہ ہو رہے ہیں اور خانگی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے بچے متاثر ہو رہے
ہیں ۔زندگی میں ذہنی تناﺅ بڑھ رہا ہے ۔
کچھ خواتین کے خیال میں ان کے شوہر سوشل میڈیا نیٹ ورک کے نشے میں مبتلا ہو
چکے ہیں اور وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا کوئی خاندان بھی ہے وہ اپنا سرا
سارا وقت ،پوری پوری رات موبائل نیٹ ورک اور چیٹ روم اور مختلف گرپس میں
گفتگو کرتے ہو ئے گزارتے ہیں اور بیوی بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ
انہیں نت نئی لڑکیوں کے ساتھ چیٹ کرنے اور دلگی کرنے میں زیادہ مزہ آنے لگا
ہے اور وہ اپنی بیویوں سے بے زار رہتے ہیں چنانچہ ایسی خواتین مسلسل تکلیف
دہ عمل سے گزر کر ڈپریشن کا شکار اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہیں
اور بے خوابی اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر چڑ چڑ ی ہوتی جارہی ہیں ۔چک و شبے
کا شکار ہو نے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا گھر کا سکون بھی بر باد کر دیتا ہے
اور بہت سی خواتین تو اس صورتحال میں ہر وقت اپنے شوہروں کی جاسوسی میں لگی
رہتی ہیں جس کی وجہ سے گھر اور بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور یہ چیز معاشرے
کے لئے بہت نقصان کا باعث ہے ۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے جہاں فاصلوں کو کم کیا ہے وہیں اس کے وسیع
منفی اثرات سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ایک تازہ ترین رپورٹ کے
مطابق سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی اور سماجی
نشونما مین تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ وہ زیادہ وقت مجازی دنیا میں گزارتے
ہیں ۔اور جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے ۔ہر روز اپنا
زیادہ وقت سوشل ویب سائٹس پر گزارنے والے بچوںمیںجذباتی مسائل ،ہائپر
ایکٹیویٹی اور خراب رویہ پایا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں
بچوں نے اپنی تعلیم اور کتابوں سے زیادہ سوشل میڈیا میں دلچسپی لے لی ہے
۔ایک دور تھا جب بچے اسکول جا تے اور پھر گھر آکر اپنی پڑھائی پر توجہ دیتے
تھے اور کچھ وقت کھیل کود کو دیا کرتے تھے جس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر
تندرست رہتے تھے ۔
مگر جب سے انٹر نیٹ ،موبائل کے ذریعے سوشل ویب سائٹس کا عفریت ہماری جڑوں
میں آبسا ہے تو اس سے سب سے زیادہ متاثر نوجوان نسل اور کم عمر بچے ہو رہے
ہیں ۔آج بچے اپنا سارا سارا وقت مو بائل اور کمپیوٹر کے استعمال میں صرف کر
دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی صحت بھی
بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔نوجوان فیک آئی ڈیز بنا کر کالج اور اسکول کی
لڑکیوں کی تصاویر لگا کر معصوم لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور اپنے تھوڑی
سی انجوائمنٹ کے لئے اپنا اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کر رہے ہیں اور
دوسروں کے جذبات اور احساسات سے کھیل کر خوشی محسوس کر تے ہیں ،تو دوسری
طرف زیادہ تر لڑکیاں فلمی اداکاراہوں اور ماڈلز کی خوبصورت اور ہیجان انگیز
تصاویر لگا کر لڑکوں کو متاثر کر نے کوشش میں مصروف رہتی ہیں اور پھر کسی
کے ساتھ محبت کا تعلق بنا کر بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ ۰۹
فیصد لڑکے صرف دل لگی کر رہے ہو تے ہیں ۔اور دوستی کے نتیجے میں ملاقات کے
بہانے بہت سی لڑکیاں اغواہ برائے تاوان اور جنسی زیادتی کابھی شکار ہورہی
ہیں ۔آج کیونکہ سوشل میڈیا کی بدولت جنسی ویب سائٹس تک رسائی آسان ہو چکی
ہے لحاظہ نو عمر بچے خاص طور پر لڑکے ان ویب سائٹس کو دیکھ کر اخلاقی اور
جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں وہ اپنا سارا سارا وقت ان ویب پیجز پر
گزارتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت خراب کر بیٹھتے ہیں ۔
یہی نہیں بلکہ بعض نوجوان سیکسی پروفائل پکس اور غیر اخلاقی اور بے پردہ
تصاویر لگا کر بے حیائی پیدا کر رہے ہیں ۔جس سے مسلمان اور پاپردہ خواتین
کی عزت نفس بھی مجروح ہورہی ہے ۔اس کے علاوہ ان ویب سائٹس پر ہر قسم کی
معلومات شئر کر نے کے بھی بہت خراب نتائج سامنے آرہے ہیں ۔لوگوں میں عداوت
،حسد اور جلن جیسے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں،وقت کا ضایع بچوں کا مستقبل
تاریک کر رہا ہے ۔بچوں کے سلسلے میں کوتائی کے زمدار وہ والدین ہیں جو اپنے
بچوں کو موبائل اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال سے منع نہیں کر تے اور ان کا
کو ئی ٹائم شیڈول نہیں بناتے نہ ان پر نظر رکھتے ہیں کہ بچے سارا وقت ان پر
کیوں وقت ضایع کر تے ہیں اور کیا کیا دیکھتے ہیں ۔اور ان کی تعلیم اور رزلٹ
کیو ں متا ثر ہو رہا ہے۔
غرض سوشل میڈیا ویب سائٹس کا استعمال لوگوں کا جہاں کچھ فائدے پہنچا رہا ہے
وہیں بہت سی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں بھی مبتلا کر رہا ہے لوگوں کی
زندگی سے سکون ختم کر نے کا اہم سبب بن رہا ہے۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہر
شخص اس کا استعمال اعتدال میں کر نا سیکھے اور خود کو ان چیزوں کا عادی بنا
نے کے بجا ئے صرف ضرورت کے تحت ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کریں ،تو
ہر قسم کی پریشانی اور مسئلے سے بچا جاسکتا ہے۔ |