مفادات کی دنیا

عصر حاظر میں انسان نے جہاں ایک طرف بہت ترقی کی ہے اور اپنے آپ کو بہت مہذب گردانتا ہے وہیں وہ اپنے مفادات کا بھی اسیر ہے۔ مغربی دنیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے آپ کو جمہوریت، انصاف اور حقوق انسانی کے علمبردار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ کیا واقعی ترقی یافتہ اقوام کے عدل و انصاف کے معیار اور حقوق انسانی کے اصول سب کے لیے ایک جیسے ہیں؟ کیا دنیا میں کہیں اصول پسندی بھی ہے یا پھر سب اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں؟ جمہوریت کی قلعی تو اقوام عالم کے مشترکہ ادارے اقوام متحدہ کے سب سے بااثر ادارے سلامتی کونسل نے کھول کر رکھ دی ہے جہاں چاہے پوری دنیا ایک طرف ہو لیکن ویٹو پاور رکھنے والا صرف ایک ملک نہ کہہ دے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال نے لیگ آف نیشن جس کے خمیر سے اقوام متحدہ کا ادارہ معرض وجود میں آیا تھا، اس کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے اسے کفن چوروں کا گروہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ
برفتد تا روشِ رزم درین بزم کہن
دردمندانِ جہان طرحِ نو انداختہ اند
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند

علامہ کہتے ہیں کہ اس پرانی بزم کہن میں دنیا کے درد مندوں نے ایک نئی طرح کی جنگ کا آغاز کیا ہے۔ میں اس کے بارے اس سے زیادہ نہیں جانتا لیکن یہ چند کفن چوروں کا گروہ ہے جنہوں نے کفن چوری کرنے کے لئے قبروں کو آپس میں تقسیم کے لئے ایک انجمن بنائی ہے۔لیگ آف نیشن کا تسلسل 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کی صورت میں سامنے آیا۔ ٹھیک دو سال بعد 24 اکتوبر 1947 کو آزاد جموں کشمیر کی ریاست وجود میں آئی اور مسئلہ کشمیر حل کے لئے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آیا۔ اکہتر سال گزر جانے کے بعد اب بھی یہ معاملہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے۔ کیسا حسن اتفاق ہے کہ ہر سال 24 اکتوبر کو اقوام متحدہ اپنے قیام کی سالگرہ مناتی ہے اور ساتھ ہی اسی روز آزادکشمیر کا یوم تاسیس منانے ہوئے ریاست جموں کشمیر کے باشندے اقوام متحدہ کے ضمیر کو جنجھوڑتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جو اپنے تئیں جمہوریت، حقوق انسانی، مساوات، انصاف اور امن کے علمبردار بنتے ہیں لیکن انہیں جموں کشمیر میں بہتا ہوا خون نظر نہیں آتا۔ وہاں ہونے والی حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں اور گولیوں کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو اپنے کئے ہوئے فیصلے کہ کشمیری عوام کو حق خود آرادیت دیا جائے، یاد نہیں رہتا۔ اپنے مفادات کے لیے کس طرح دوہرے معیار کو اپنایا جاتا ہے اس کا اظہار علامہ نے یوں ادا کیا ہے۔
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات

عالمی تنازعات پر نظر دوڑائیے۔ ریاست جموں کشمیر، فلسطین اور برما میں ہونے پر مظالم پر کیوں عالمی ضمیرنہیں جاگتا۔ جواب یہ ہے کہ کوئی ضمیر ہو تو جاگے، سب اپنے اپنے مفادات کے پیچھے بھاگ رہے پیں۔ امن پسند، غیر جانبدار اور حقوق انسانی کے علمبردار ممالک بھی اپنے تجارتی مفادات کے لئے خاموش ہیں۔ عالمی سطح پر کوئی کسی دوست نہیں بلکہ اپنے مفادات سب سے عزیز ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر عزت انہی اقوام کی ہوتی ہے جو کسی کے دست نگر نہیں ہوتے۔ دوسروں کی امداد اور قرض پر چلنے والے ملک کی عالمی سطح پر کوئی عزت نہیں ہوتی۔ دنیا کے ممالک کے آپس کے تعلقات اسی طرح سے ہوتے ہیں جیسے افراد کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں۔ امیر لوگوں کے امیروں سے تعلقات اور غریب لوگوں کے غریبوں سے تعلقات۔ کچھ اسی طرح عالمی منظر نامہ پر ممالک کے تعلقات بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ امیر ملک کا کوئی اہلکار کتنا بڑا ہی جرم کیوں نہ کرلے، اسے راتوں رات محفوظ راستے سے فرار کرادیا جاتا ہے جبکہ غریب ریاست کے شہری کو گھر ہو یا باہر، کہیں جائے پناہ نہیں بلکہ پنجابی کے محاورے کے مطابق خاناں دے خان پروہنے۔ہالینڈ رقبہ میں سیالکوٹ سے بھی چھوٹا ہے لیکن عالمی وقار جو اسے حاصل ہے وہ اس سے کئی گنا بڑے ممالک کو حاصل نہیں۔ سویڈن لاہور سے بھی کم آبادی کا ملک ہے لیکن اقوام عالم میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ دنیا کی سیاست میں ممتاز ترین مقام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ اجتماعی زندگی کی طرح انفرادی زندگی بھی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ہم اپنے اپنے مفاد کے کے غلام ہیں۔ اچھے مقاصد کے لئے مفاد کو مش نظر رکھنا برا نہیں لیکن جہاں مقصد ہی یہ ہو کہ فائدہ حاصل کرکے احسان فراموشی کی جائے گی ، لالچ اور دھوکہ دہی سے کام لیا جائے ، وہ مفاد حاصل کرنے کا انداز قابل مذمت ہے۔انسانی فطرت ہے کہ خوشحالی اور رزق کی فراوانی ہو رو تو خدا کی طرف رجوع بھی کم ہی ہوتا ہے لیکن مصیبت اور پریشانی میں خدا ہی یاد آتا ہے۔ قرآن حکیم نے انسانی نفسیات اور ایسے رویئے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسان جب مصائب میں کا شکار ہوتا ہے تو بہت خلوص اور دردمندی سے خدا کا پکارتا ہے لیکن جب وہ مصیبت ختم ہوجاتی یے تو پھر سے سرکشی اختیار کرلیتا ہے۔ اپنا جائزہ لے کر ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہے اور اپنا شمار ان لوگوں میں کرنا چاہیے جن کے بارے میں سورہ نسا میں کہا کہ وہ لوگ جو غلط روش کو چھوڑ کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں اور پھر اطاعت کو خدا کے لئے مختص کردیتے ہیں۔ ان کا شمار مومنین میں ہوتا ہے۔

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264309 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More