کشمیریوں کے لیے سیاہ دن

اگست 1947 میں دنیا کے نقشے پر دو ممالک نے جگہ بنائی۔ یہ امر 3 جون 1947 کے تقسمِ ہند کے پلان کا نتیجہ تھا۔ اس تقسیم کے پیچھے ایک مکمل نظریاتی تحریک تھی جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ تقسیمِ ہند سے قبل ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد تھیں جو کہ ایک دوسرے سے ہر لحاظ مختلف تھیں۔ جب تقسیمِ ہند کا موقع آیا تب ہندوستان میں کل 635 آزاد ریاستیں تھیں جنہیں تواب یا راجے چلاتے تھے۔برطانوی پارلیمنٹ نے جو تقسیم کا منصوبہ پاس کیا تھا اس کے مطابق ان ریاستوں کے مستقبل کا ان ریاستوں کے عوام ہی کریں گے۔ لیکن اس وقت کانگریس کے مکار ہندو راہنماؤں نے جارحیت کا مظاہرہ کیا اور ان ریاستوں میں آباد لاکھوں انسانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا اور انہیں ایک مستقل تباہی کی جانب دھکیل دیا۔ اگر آپ تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ بھارت نے ہمیں امن کے لیے ہونے والی کوششوں کی مخالفت کی اور امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ اس وقت بھی دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھارت ہے۔ بہرکیف، جب مسلم راہنما بگڑے ہوئے حالات میں توازب پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے تھے اس وقت ہندو راہنما ریشہ دیوانیوں میں مصروف تھے۔ہندوؤں نے ہر ریاست پر کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ سر ریڈکلف کی ملی بھگت کے ساتھ بھارت نے بہت سی مسلم اکثریت والی ریاستوں پر وہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف جابرانہ قبضہ جما لیا۔ 27 اکتوبر 1947 کو بھارت میں مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر پر چڑھائی کر دی۔بھارت کا یہ عمل طبلِ جنگ بجانے کے مترادف تھا مگر یہ کوئی انہونی یا غیرمتوقع نہیں تھا کیونکہ یہی سب کچھ جوناگڑھ، مناودر، ھگرات اور بہت سی ریاستوں ساتھ بھی ہوا۔جب بھارتی فوجوں نے کشمیر کے معصوم کا عوام کا قتلِ عام شروع کیا تب بانء پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے قوم کو کشمیر پالیسی دی اور پاکستان کے آرمی چیف کو حکم دیا کہ وہ بھی کشمیر کی سرزمین اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے اپنی فوجیں کشمیر بھیجے اور کشمیر کو پاکستان کی شاہرگ قرار دیا۔ کشمیری مسلمانوں پاکستان کے ساتھ محبت کی بہت بھاری رقم چکانی پڑی۔ صرف دو ماہ کی مدت میں بھارتی فوج، ڈوگرہ مہاراج کی فوھ اور شدت پسند ہندوؤں نے 300000 مسلمان کا خون بہایا۔ یہ خون کی ہولی اس کھیلی گئی تھی کہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی شرح تبدیل کی جا سکے تاکہ اگر مستقبل میں عالمی برادری کسی قسم کے ریفرنڈم کا مطالبہ کرے تو نتائج بھارت کے حق میں بدل سکیں۔ انڈیا کی یہ چال بری انسانیت کی تذلیل پر رکی اور یہ معاملہ اقوام، متحدہ میں چلا گیا۔ مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں تو موجود ہیں مگر اس مسلہ کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کبھی بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دی،جب کشمیریوں نے یہ دیکھا کہ پرامن کوششوں سے تو یہ مسئل حل نہیں ہو رہا تھا تو کشمیریوں نے اپنے حق خودارادیت کے لیے ایک تحریک برپا کر دی جو کہ آج تک جاری ہے۔شروع میں بھارت نے کشمیریوں کی اس تحریک کو روکے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور شروع کے سالوں بھارت کشمیر کے عوام کو ڈرانے میں کامیاب بھی رہا مگر بھارتی جرنیل اس ھکمتِ عملی کو بیوقوفی قرادر دے رہے ہیں۔کیونکہ اب کشمیر کی نوجوان نسل کے اذہان و قلوب سے بھارتی فوج کا خوف ختم ہو چکا ہے۔کشمیری نوجوانوں نے اپنی تحریکِ آزادی کو نقظہ عروج تک اٹھا رکھا ہے کہ کیونکہ انہوں نے نتائج کی گہرائی کو تہہ تک بھانپ لیا ہے۔ اس وقت اس تحریکِ آزادی کو نوجوان نسل نیاپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک پی ایچ ڈی سکالر ڈاکٹر منان وانی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ کشمیری اپنی زندگیاں مکمل طور پر تحریکِ آزادی کے لیے جی رہے ہیں۔ ان کے بچوں سے لے کر اسی سال کے بڑھوں تک تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کشمیری طلبا اسکولوں اور کالجز کو جانے کی بجائے سڑکوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کشمیری تاجروں نے بائیس کروڑ کا نقصان تو برادشت کر لیا مگر سیب ایکسپورٹ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کے بچے بھی بھارت مخالف نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں۔اب کشمیری قوم کسی طور بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ابھی مقبوضہ کشمیر کے علاقے کلگام کے اندر مسلمانوں کو خون کے ساتھ نہلا دیا گیا۔ بھارت نے اس قدر درندگی کا مظاہرہ کیا کہ ایمبولینس کے سٹریچر بھی خون سے بھرے تھے مگر کشمیری جھکے ہیں بکے ہیں نہ ڈگمگائے ہیں۔آج ساری کشمیری صرف ایک پالیسی پر کھڑی ہے اور وہ ہے " ہم کیا چاہتے؟ آزادی"۔ گزشتہ دنوں ہونے والے کچھ واقعات نے اس بات پر مہر ثبت کردی ہے کہ کشمیری کسی طور بھی بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں۔ ابھی کشمیر میں ہونے حالیہ انتخابات کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات کا ٹرن آؤٹ تقریباً صفر ہی رہا۔بھارت کا جھوٹا بیانیہ اب بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے، وہ وقت گیا جب لوگ کہا کرتے تھے کہ کشمیریوں سے پوچھو کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ آج کشمیری پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر کھڑے ہیں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے ہیں۔ شہدائے کشمیر سبز ہلالی پعچموں میں دفنائے جا رہے ہیں۔ سرزمینِ کشمیر پر لہراتا ہوا پاکستان کا سبز ہلالی پرچم کشمیریوں کا فیصلہ سنا رہا ہے۔

اب جہاں کشمیر ہر لحاظ پاکستان کا حصہ بننے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں کچھ ذمہ داریاں پاکستان کے حصے میں بھی آتی ہیں۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی حکومت دونوں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں سہارا بننا چاہیئے اور کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرنی چاہیئے۔ کیونکہ ظلم کے وادی میں ڈوبے کشمیریوں کی نظریں صرف پاکستان پر ہیں۔ آج حالات ایسے پیدا ہو چکے ہیں بھارت کشمیر کے اندر بری طرح پھنس چکا ہے پاکستان کو اسے قدرت کی مدد جان کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔کشمیریوں کے حق میں پاکستان سے اٹھنے والی آوازوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مندوپ ملیحہ لودھی نے جس طرح اس مسئلہ کو دنیا کے سامنے رکھا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ مگر اب پاکستان کو کشمیریوں کے کیس کو اپنا کیس سمجھ کر لڑنا ہو گا، کشمیریوں کے درد کو اپنا درد سمجھنا ہو گا۔ وزیرِاعظم عمران خان صاحب کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ کشمیر کی آزادی کے بِنا ہمارا نیا پاکستان نامکمل ہے کیونکہ بانء پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا تھا۔
 

Abdullah Qamar
About the Author: Abdullah Qamar Read More Articles by Abdullah Qamar: 16 Articles with 9975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.