یوم سیاہ

تحریر:عبدالاحد سالار

کشمیر سر زمین کا وہ حسین خطہ ہے جسے تاریخ کے اوراقوں میں اور حال کی کتابوں میں جنت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اسے دوسرے لفظوں میں جنت ارضی بھی کہا جاتا ہے۔

یہ وہی وادی ہے جہاں بھارت نے اپنی سفاکیت کا ببانگ دہل مظاہرہ کیا لیکن انسانیت کے ٹھیکیداروں اور امن کے داعیوں کی زبان سے اف تک نہ نکلا۔ اور تو اور امریکہ کی لونڈی اقوام متحدہ اس سفاکیت پر اپنے منہ پر لگے تالے نہ کھول سکی۔ ارض پاک پر دہشتگردی کا لیبل لگانے والا یہ ملک بھارت،کشمیر میں خود دہشتگردی کا مرتکب ٹہرا ہوا ہے۔

آپکو تو معلوم ہوگا کہ 27 اکتوبر کو کیا ہوا تھا اور اہل کشمیر اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر کیوں مناتے ہیں؟

نہیں پتہ تو میں بتاتا ہوں۔ آج سے اکتہر برس قبل کی بات ہے۔ فضا خوشگوار تھی۔ 27 اکتوبر کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ مملکت خداداد کچھ ماہ قبل ہی وجود میں آ چکی تھی جبکہ اہل کشمیر ''الحاق پاکستان'' کے لیے ہمہ تن کوشاں تھے۔ وہ بڑے پر امید تھے کہ جلد ہی وہ پاکستان سے جا ملیں گے۔ لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ ایک قیامت صغری انکی منتظر ہے۔ 27 اکتبور 1947 کو انڈیا نے '' Partition plan of subcontinent''کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیر کے حسین خطے میں اپنی افواج داخل کر دی اور کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کر لیا۔27 اکتوبر وہ سیاہ دن ہے جس دن سب سے پہلے سومنات کے پجاریوں نے امت مسلمہ کی جنت نظیر پر اپنے ناپاک قدم براجمان کیے۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی۔ ایک بار پھر اسی سومنات کے پجاریوں نے ''چودہ اگست 1947'' دہرا دیا۔ نہیں نہیں انہوں نے کشمیریوں کو آزادی نہیں دی بلکہ جو مظالم انہوں نے چودہ اگست کو ہجرت کے وقت مسلمانوں پر ڈھائے اس سے دوگنے مظالم انہوں نے 27 اکتوبر کو کشمیریوں پر ڈھائے۔ جی ہاں ان بدبختوں نے ہماری ماؤں بہنوں کی عصمت دری کی،گھر گھر جا کر چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ بھائی کے سامنے بہن کی ٖعزت کو نوچا گیا۔ بھائی کی غیرت جاگتی تو اسے فائر مار کے ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان بدبختوں نے ہمارے سفید ڈاڑھیوں والے بزرگوں کو بھی نہیں بخشا۔ سڑکوں پر لٹا لٹا کر انہیں بندوقوں کے بٹ مارے۔ انکے جسم کے ایک ایک عضو سے خون بہا دیا۔ان جابروں نے ہمارے بیٹوں کو اپنی بندوقوں کا نشانہ بنایا۔ غرض کہ اس جابر فوج نے ارض حسین کے باسیوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ مورخ اگر ماضی کے جھروکوں کو یاد کرتے ہوئے ان مظالم کی داستان لکھنے بیٹھے تو اسکے قلم کی سیاہی کاغذ پر گرنے سے پہلے اسکے آنسو کاغذ پر گر جائیں گے۔ انہی مظالم کو یاد کرتے ہوئے کشمیری اور حریت قائدین 27 اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں لیکن جیسے جیسے یوم سیاہ آتا رہتا ہے کشمیریوں کے خون میں آزادی کا جذبہ پیدا ہوتا رہتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ پاور کے ساتھ دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔

قارئین ان ہولناک مظالم کا سلسلہ 27 اکتوبر تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا۔ دن بدن بھارتی مظالم کے جبر و تشدد میں شدت آتی رہی۔ آج اکتہر برس ہو چکے ہیں لیکن جہاں بھارتی مظالم میں کمی نہیں ہوئی وہی کشمیریوں کے صبر و استقامت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ جرات مند کشمیریوں نے روز اول سے ہی کشمیر پر بھارت کا جابرانہ تسلط قبول نہیں کیا۔اور دلیری و بہادری کے ساتھ بھارتی افواج کے سامنے ڈٹے رہے۔ ماؤں نے اپنے لخت جگر تحریک آزادی کے لیے پیش کیے۔ بیٹوں نے اپنی پڑھائیاں چھوڑ کر قلم کی جگہ بندوقیں تھام لی۔ اور خولہ و صفیہ کی بیٹیاں بھی کسی صورت پیچھے نہ رہی۔ انہوں نے بھی جابر و قابض مسلح فوج کا مقابلہ پتھروں سے کیا۔ اسرائیل نے بھارت کو کشمیریوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ایک جدید گن تحفے میں دی۔ جسے پیلٹ گن کہا جاتا تھا۔ اس گن سے بیک وقت ستر چھرے فائر ہوتے ہیں جو بیک وقت ہی آنکھوں سے لے کر پیٹ کے نچلے حصے تک تمام اعضا کو نشانہ بناتے ہیں۔ بھارت نے اس گن کا کشمیر میں بے دریغ استعمال کیا اور ہزاروں کشمیری ماون بہنوں بچوں اور بڑوں کو قوت بینائی سے محروم کیا۔اور انکے جسم میں ایک ایک انچ تک کے سوراخ بن گئے۔ لیکن چشم فلک گواہ ہے کشمیری اس سب سے بھی نہیں گھبرائے بلکہ کشمیری نوجوان اپنی شرٹ اتار کر اس گن کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور للکارتے ہوئے کہتے
''آنکھیں تو چھین لو گے لیکن آزادی کے خواب کیسے چھینو گے''

اسی صبر و استقامت نے تحریک آزادی کو مزید پروان چڑھایا۔ آج بھارتی فوج کے افسران اور بھارتی جریدے خود اعتراف کرتے ہیں کہ ہم کشمیر میں بے بس ہو چکے ہیں۔ کشمیر ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ جب دشمن ہی اپنی شکشت کا اعتراف کر رہا ہے تو مجھے یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ شہدا کا خون رائیگاں نہیں جا رہا۔

آج ہزاروں شہدا کے خون سے اور کشمیریوں کے حوصلے اور ثابت قدمی سے تحریک آزادی کو اتنی تقویت ملی ہے کہ جہاں مائیں اپنا ایک لخت جگر محاذ پر بھیجتی تھی وہاں دو دو لخت جگر فی امان اﷲ کہہ کر رخصت کر دیتی ہیں۔ آج بہنیں اپنے بھائیون کو راہ جہاد پر بھیجتے ہوئے غمگین نہیں ہوتی بلکہ خوش ہوتی ہیں کہ انکا بھائی کسی دوسرے کی بہن کی عزت بچانے جا رہا ہے۔ آج نئی نویلی دلہن اپنا سہاگ اسلیے اجاڑ دیتی ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اسکا ہم سفر کسی دوسرے کا سہاگ اجڑنے سے بچا لے گا۔اور اﷲ کی جنتوں کا مہمان بن جائے گا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کشمیریوں کی اخلاقی و مالی سپورٹ جاری رکھیں۔ تا کہ وہ مزید صبر و استقامت سے سومنات کے پجاریوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ ارض پاک کی وزارت عظمی کے عظیم منصب پر فائز قوم کے راہنما کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنا مضبوط سے مضبوط موقف دیں۔ ہمارے وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر جو لب کشائی کی ہے وہ یقینا قابل تحسین ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ یہ سلسلہ صرف عارضی،رسمی یا وقتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ملک کے نمائندوں کو اقوام عالم کے جس جس پلیٹ فارم پر بولنے کا موقع ملا وہاں انہیں سامعین کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرنا چاہیے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا پر زور مطالبہ کرنا چاہیے۔ اگر حاکم وقت سابقہ حکمرانوں کی طرح سست نہ ہوا اور مسئلہ کشمیر پر ڈٹ گیا تو مجھے رب العزت سے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب یوم سیاہ منانے والے کشمیری،سبز ہلالی پرچم لیے یوم آزادی منائیں گے اور اس دن کشمیریوں کی اکثریت کی خواہش'' کشمیر بنے گا پاکستان'' پوری ہو چکی ہوگی۔ انشائاﷲ

KhunaisUr Rehman
About the Author: KhunaisUr Rehman Read More Articles by KhunaisUr Rehman: 33 Articles with 26716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.