مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے71برس مکمل ہو چکے،اس عرصے
میں بھارت جو ظلم کر سکتا تھا اس نے کشمیریوں پر کیا اور کشمیری قوم نے بھی
پاکستان سے عملی محبت کا ثبوت دیا۔پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر گولیاں
کھانا یہ صرف کشمیری ہی کر سکتے ہیں جو پاکستان سے بے لوث محبت کرتے ہیں وہ
پاکستان کو مدینہ ثانی سمجھتے ہیں اسی لئے بھارتی فوج کے سامنے نہتے کشمیری
نوجوان ڈٹ جاتے ہیں۔گزشتہ ایک ہفتے میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے
نتیجے میں اب تک 18سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔سرینگر کے مضافاتی علاقے
سوٹھسو کلان نوگام میں فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان 5گھنٹوں تک جاری
رہنے والی جھڑپ میں شہید ہونے والے حزب المجاہدین کے سکالرجنگجو سبزار بشیر
عرف ڈاکٹر سیف اﷲ خالد اور اس کے ساتھی کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد
شہید ہوئے ،مجاہدین نے دونوں کو سلامی بھی دی ،وادی میں انٹرنیٹ اور ریل
سروس بھی معطل رہی۔ نماز جنازہ کے بعد لوگوں کی کثیر تعداد نے اسلام و
آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرئے کئے۔ بزرگ حریت رہنما
سید علی گیلانی نے ڈاکٹر سبزار احمد صوفی کے جلوس جنازہ سے اپنے ٹیلیفونک
خطاب کے دوران کہا کہ ایک زخم سے ابھی لہو ٹپک ہی رہا ہوتا ہے کہ دوسرا زخم
پہلے سے زیادہ گہرا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گیلانی نے بھارت کے قبضے سے
آزادی حاصل کئے جانے کے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کے مقدس لہو
کو کسی بھی صورت میں رائیگان ہونے نہیں دیا جائے گا۔لبریشن فرنٹ چیئرمین
محمد یاسین ملک کا 27 اکتوبر تک ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔انہیں جاوید احمد
میر،بشیر احمد کشمیری اور غلام محمد ڈار کے ہمراہ لالچوک چلو کال کے دوران
گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کو پولیس سٹیشن مائسمہ منتقل کردیا گیا۔انسانی حقوق
کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر کے ضلع
کولگام کے علاقے لارو میں اتوار کو ایک بم دھماکے جس میں سات شہری شہید
ہوگئے تھے کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور موثر تحقیقات کامطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آکار پٹیل نے نئی دلی میں
جاری ایک بیان میں کہاتنظیم نے بھارت سے بم دھماکے کے تمام ذمہ داروں کو
جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکامی پر قانون کے کٹہرے میں
لانے کامطالبہ کیا ہے۔کنونیئر کل جماعتی کشمیررابطہ کونسل ممبر قانون ساز
اسمبلی و سابق امیرجماعت اسلامی عبدالرشید ترابی کا وزیر اعظم اسلامی
جمہوریہ پاکستان عمران خان کے نام کھلا خط خط میں لکھا گیا ہے کہ ’’اسلامی
جمہوریہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر دلی مبارک باد قبول
فرمائیں ۔ اﷲ تعالیٰ اس عظیم منصب کی بجا آوری کے لیے آپ کی بھرپور رہنمائی
فرمائے۔پاکستان اﷲ کی ایک عظیم نعمت ہے ،اس کے استحکام اور ترقی کے ساتھ
اہل پاکستان ہی نہیں پوری امت مسلمہ کی قسمت وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری
دنیا میں مسلمانوں کی دعاؤں میں پاکستان شامل ہے ۔ مدینہ کی ریاست کو رول
ماڈل قرار دیتے ہوئے آپ نے جس لائحہ عمل کا اعلان کیا وہ ہر مسلمان کی دل
کی آواز ہے ۔ اﷲ پر توکل اور اس کی رضا کے حصول کے لیے آپ اپنے مشن پر
گامزن رہے تو یقیناً اﷲ آپ کو ضرور سرخروکرے گا ۔ یہی ہماری دعا ہے۔پاکستان
اپنی سلامتی اور معیشت کے حوالے سے اہم مسائل کا شکا رہے۔جن سے عہدہ برآ
ہونے کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ترجیح اول بنانا ہوگا،اس لیے کہ کشمیر کی
آزادی کے بغیر علامہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان نامکمل رہے گا۔
مستقبل میں پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے یا درجنوں
بند باندھ کر پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنے کے بھارتی عزائم آپ کے
سامنے ہیں۔در اصل کشمیر کی تحریک محض کشمیر کی آزادی کی ہی نہیں بلکہ
پاکستان کے دفاع اور تکمیل کی جنگ ہے ۔ اسی لیے قائد اعظم نے کشمیر کو
پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں قائدین حریت
اور نوجوان عزیمت اور استقامت کی ایک نئی داستان رقم کر رہے ہیں ۔برہان
وانی کی شہادت کے بعد برپا ہونے والے انقلاب میں جس طرح بھارتی سنگینوں کے
سائے تلے پاکستانی پرچموں کی بہار برپا کرتے ہوئے اہل پاکستان کے ساتھ
اظہار یکجہتی کر رہے ہیں ،وہ تاریخ کا انوکھا باب ہے۔ آج وہاں شہداء کے
جنازے پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کیے جا رہے ہیں اورشہداء کی قبروں
پر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔ 14اگست ، 23مارچ جس شان و شوکت سے منایا
جاتا ہے اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اہل پاکستان کی طرف سے
ان کی جو پشتیبانی کی جانا چاہیے تھی ، جس طرح حکومت ، سیاسی جماعتوں ،
ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو ان کا ترجمان ہونا چاہیے تھا ، اس کا شدید
فقدان ہے جس کے حوالے سے حریت قائدین بہت رنجیدہ ہیں ۔بھارت کی پوری کوشش
ہے کہ اہل پاکستان امت مسلمہ اور عالمی برادری کی پرجوش تائید سے کشمیریوں
کو مایوس کرتے ہوئے ان پر اپنی مرضی کا حل مسلط کرے۔اس پس منظر میں آپ کی
قیادت میں قائم ہونے والی حکومت سے ان کی بے پناہ توقعات ہیں۔جن کا اہتمام
ہونا تحریک آزادی کشمیر کی تقویت اور استحکام پاکستان کے لیے اشد ضروری
ہے۔آپ نے وکٹری سپیچ کے موقع پر بھارت سے تعلقات کو مسئلہ کشمیر پر پیش رفت
سے جس انداز سے مشروط کیا وہ بہت حوصلہ افزا ہے ۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے
کہ یہ بات محض ایک بیان اور تقریر تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے لیے ایک جامع
حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش خدمت
ہیں:۔رواں کشمیر پالیسی کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے حریت اور کشمیری قیادت
کی مشاورت سے ایک جامع کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے جو بین الاقوامی سطح پر
بھارتی مظالم بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت پر ٹھوس سفارتی دباؤ کا
ذریعہ بن سکے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل کی ایک جامع رپورٹ جس میں
بھارتی مظالم بے نقاب کیے گئے ہیں ، ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے۔اس کی
بنیادپر دستیاب بین الاقوامی اداروں کو متحرک کرنے کے لیے بھرپور مہم کا
اہتمام کیا جائے۔O.I.Cکا ایک سربراہی اجلاس صرف مسئلہ کشمیر پر منعقد کیا
جائے جس طرح حال ہی میں ترکی میں مسئلہ فلسطین پر اجلاس منعقد ہوا۔ہماری
تجویز ہے کہ آپ خود جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں ۔اس وقت دنیا آپ کا
موقف سننا چاہتی ہے ، نیز حسب روایت وہاں جانے سے قبل مظفر آباد میں کشمیر
اسمبلی سے آپ کا خطاب اور کشمیری قیادت سے مشاورت کا اہتمام ہو جس کے نتیجے
میں حریت لیڈروں کے حوصلے بڑھیں گے جو وقت کا اہم تقاضا ہے۔چیئرمین
پارلیمانی کشمیر کمیٹی اور وزیر امور کشمیر ایسے افراد مقرر کیے جائیں جن
کی اس کاز سے وابستگی ہو اور حریت کانفرنس کے لیے بھی قابل قبول ہوں ۔محض
خانہ پری نہ کی جائے ۔ نیز ایک کل وقتی نائب وزیر خارجہ کا تقرر بھی کیا
جائے جو کشمیر پر فوکل پرسن کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کرے۔آزاد خطہ تحریک
کے بیس کیمپ کی حیثیت سے ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہے۔جس کاقیام قائد اعظم کی
قیادت میں عمل میں آیا تھا ، ان کے ویژن کے مطابق اس کا حقیقی تحریکی کردار
بحال کیا جائے۔اس سلسلے میں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں
کو تحریک آزادی کا حصہ بنایا جائے اورا نہیں مالی اور انتظامی لحاظ سے
زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا جائے ۔بھارت اور مغربی ممالک میں رائے عامہ
ہموار کرنے کے لیے اہل دانش کو ہم خیال بنانے کے لیے آپ کا ذاتی حلقہ اثر
بہت اہمیت رکھتا ہے اسے خصوصی طور پر متحرک کیا جائے ۔امید ہے کہ کشمیر
پالیسی کے حوالے سے ان نکات کو ملحوظ خاطررکھا جائے گا۔
|