اردو ناول نگاروں میں نسیم حجازی ایک مقبول اور معتبر نام
ہے ۔ جب بھی اردو ناول کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں نسیم حجازی کے نام اور
کام کو ایک خصوصی مقام حاصل ہوگا۔ نسیم حجازی کو جو بات دوسرے ہم عصروں سے
ممتاز کرتی ہے وہ ان کا جذبہ اسلامی ہے انہوں نے تاریخ اسلام کاگہرا اور
بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اسلاف کے
عظیم کارناموں سے سبق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسباب زوال کامطالعہ بھی
کرناچاہیئے ۔ یہی تفکر درحقیقت نسیم حجازی کا ناول نگاری کا سبب بنا ۔
انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخی داستانیں بڑے پر شکور اور دلکش
انداز میں بیان کی ہیں ۔ان کے ناولوں میں مسلمانوں کے عروج اور زوال کے
اسباب بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔ ان کے ناولوں میں خیر اور شر کے
نمائندہ کردار پوری شدت اور تابناکی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے ہیں لیکن
انہوں نے تاریخی واقعات کے پہلو بہ پہلو باہمی منافقت ٗ سازشوں ٗ ریشہ
دوانیوں اور قومی غداریوں کی حقیقتوں کو بھی فراموش نہیں کیا۔وہ صحافت کے
میدان میں بھی برسر عمل رہے اور بطور صحافی بھی ان کی خدمات فراموش نہیں کی
جا سکتیں۔
آپ گرداس پور کے نواحی گاؤں سجانپور کے ایک آرائیں خاندان میں 1914ء کو
پیدا ہوئے۔ (ایک اور جگہ آپ کی جائے پیدائش لکھنؤ لکھی ہوئی ہے )لکھنے
لکھانے کا شوق آپ کو بچپن سے ہی تھا ۔ والد چاہتے تھے کہ نسیم حجازی فوج
میں کمیشن لیں کیونکہ قلمکاری وغیرہ بیکار لوگوں کے مشاغل ہیں لیکن نسیم
حجازی کا نقطہ نظر ان سے بہت مختلف تھا۔ شروع دن سے ہی ان کے اندر دو
تحریکوں نے جنم لیا ایک تحریک لکھنے کی اور دوسری تحریک پاکستان۔ قیام
پاکستان کے بعد آپ اپنے خاندان سمیت خاک اور خون کا دریا عبور کرکے لاہور
چلے آئے ۔آپ کا شمار 20 ویں صدی کے عظیم اورممتاز رائٹروں میں ہوتا ہے آپ
کے ہمعصر ادیبوں میں ابن صفی ٗ سعادت حسن منٹو اور شفیق الرحمان شامل تھے ۔
آپ نے پہلی کہانی لکھی تو اس کا ہیرو اسلام کا مجاہد بنایا ۔ اس زمانے میں
آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ اگر سپین میں صدیوں سال حکومت کرکے
مسلمان ختم ہوسکتے ہیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کو ختم کیوں نہیں
کیاجاسکتا ۔ انہی دنوں آپ نے اپنی مشہور زمانہ کہانی " انسان اور دیوتا "
لکھی ۔ 1951ء میں جب آپ مصر اور مشرق وسطی کے دورے پر آئے تو پھر دوماہ کے
لیے امریکہ کے دورے پر چلے گئے ۔ اس عرصے میں آپ سلطان محمود غوری پرضروری
تاریخی مواد جمع کرچکے تھے لیکن طبیعت لکھنے پر مائل نہیں ہورہی تھی ۔ لیکن
ایک روز شکاگو اسٹیشن پر اچانک آپ نے خود پر وہی موڈ طاری ہوتا ہوامحسوس
کیا جو آپ اتنے عرصے سے لانا چاہ رہے تھے ۔ آپ ایک الگ کمرے میں بیٹھ گئے
اور جب ساڑھے تین گھنٹے کے بعد اٹھے تو اہم واقعات قلمبند کرچکے تھے ۔ آپ
کا شہرہ آفاق ناول "آخر ی معرکہ" بھی اسی طرح مکمل ہوا ۔ وہ اکثر کہا کرتے
تھے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو نسیم حجازی ٗ نسیم حجازی نہ ہوتا ۔
بے شک نسیم حجازی کی شہرت ایک تاریخی ناول نگار کی حیثیت سے مسلمہ ہے لیکن
ان کی عملی زندگی کا آغاز بحیثیت صحافی ہوا۔ پہلے پہل اپنی اس خوبی کی بنا
پر کراچی کے روزنامہ حیات سے منسلک ہوئے جو انسانی اوراخلاقی اوصاف ان کے
اندر تڑپ رہے تھے اور جو اختلاف انہیں حکومت وقت سے تھا جسے وہ ایک سامراجی
استعماری قوت ہی نہیں بلکہ ایک دھوکہ باز اور غاصب حکومت بھی گرادانتے تھے
۔ کھل کر سامنے آیا اگر بات انگریز حکمرانوں تک ہوتی جنہیں بالاخر ہندوستان
چھوڑ کر واپس جانا تھا تو بھی قابل برداشت ہوسکتی تھی مگر مسئلہ انگریز
حکومت کی زیرسرپرستی پروان چڑھنے والی کانگرسی حکومت کا تھا جو تن تنہا
حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی اور ہندوستان میں دوسری اقوام کو نیچا
دکھا کر اپنے مستقبل کے ارادوں سے باخبر کررہی تھی یوں بھی کانگریس سے 23
مارچ 1940کااعلان لاہور ہضم نہیں ہورہا تھا وہ تو ہندوستان کی تقسیم کا
تصور بھی نہیں کرسکتے تھے مگران کے قول و کردار نے علامہ اقبال کے خطبہ الہ
آباد کی باز گشت کو حقیقت کے قریب ترلاکھڑا کیا تھا ۔ اب مسلمانوں کا کام
دو محاذوں پر لڑنا تھااورپھر مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں اس بات کا ذمہ
دار تھا اس ملک میں انگریزوں کے چلے جانے کے بعد کیسے زندہ رہا جائے ۔جب
نسیم حجازی نے بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا تو راستے مسدود
نظر آئے مگر ابتداء میں ہی لڑکھڑا کر گر جانے یا حالات سے سمجھوتہ کرنے کے
بجائے انہوں نے ہر اس دیوار کو پھاند جانے کا فیصلہ کیا جو قومی غیرت اور
آزادی کی راہ میں رکاوٹ تھی ۔اس زمانے میں جب وہ روزنامہ زمانہ کراچی سے
وابستہ تھے تو حکومت کی جانب سے اخبارات کو وار فنڈ کے نام پرگرانٹ عطا
ہوتی تھی روزنامہ زمانہ کراچی کو بھی 10 ہزار روپے کی رقم اس مد میں ملی
مگر نسیم حجازی نے ان سرکاری ہتھکنڈوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے واہ واہ
اور سب ٹھیک ہے لکھنے کی بجائے وارفنڈ کے خلاف اداریہ لکھا اور ساتھ ہی
اخبار سے استعفی دے دیا ۔ کیونکہ انہیں یہاں اپنے قلمی خود داری کی موت نظر
آرہی تھی۔
بظاہر ایک ملازمت چھوڑی تھی لیکن اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا تھا یہ وجہ
تھی کہ انہیں بلوچستان جانے کاموقع نصیب ہوا جہاں دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ
ساتھ ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ ( 1948 تا 1943)سے منسلک رہے ۔ اسی دوران
روزنامہ تعمیر راولپنڈی ( 1940 تا 1952) کے لیے بھی ان کے قلم سے نکلی
تحریریں شامل اشاعت رہیں ۔صحافت کے میدان میں ان کااصل کام روزنامہ کوہستان
کے حوالے سے یاد رکھنے کے قابل ہے ۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ قیام
کوئٹہ میں ہفت روزہ تنظیم کے ذریعے تحریک پاکستان میں بلوچستان کی شمولیت
کو ایک حقیقت کا روپ دے چکے تھے۔ جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ بلوچستان میں ان
کی موجود گی اشدضروری نہیں تو اپنے مہربان دوستوں سے رخصت چاہی اور پنجاب
کے مختصر قیام کے بعد ایبٹ آباد چلے گئے یہاں آکر انہیں محسوس ہواکہ یہی وہ
جگہ ہے جس کا وہ بار ہا خواب دیکھ چکے ہیں ۔
انہیں مناظرات فطرت کی رنگینوں سے ہمیشہ پیار رہا۔ سرسبز پہاڑ اور برف پوش
چوٹیاں ان کے لیے عجیب کشش رکھتی ہیں انہیں عالم خواب میں اپنی رہائش گاہ
ایک ایسے کوہستانی علاقہ میں نظر آتی تھی جہاں ان کا قیام ایک سفید دو
منزلہ مکان میں ہوتا تھا جس کے سامنے اونچے اونچے پہاڑ نظر آتے ہوں ۔ خشک
اور چٹیل پہاڑ نہیں بلکہ اونچے اونچے درختوں سے سرسبز پہاڑ یہ ان کی محض
خواہش نہیں بلکہ پسندیدہ جگہ تھی اس قسم کے مناظر اور کوہ پیمائی کا شوق
انہیں بہت پہلے سے تھا اور پھر سرسبز بلند قامت پہاڑوں کے تصور نے انہیں
اپنے اخبار کا نام رکھنے میں مدد فراہم کی ان کاانداز فکر پہاڑوں کی طرح
بلند اور ان کی اس سبزہ کی مانندنرم تھی جو پہاڑوں پر موجود ہوتا ہے ان کا
تخیل ان فطری نظاروں اور ان برف پوش پہاڑوں کے ساتھ ان حسین آبشاروں کی
مانند کارفرما تھا جو ان کے قیام کے قریب جوار کی زینت تھے یہاں رہ کر
انہوں نے کوہستان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دیں یہ
اخبار بیک وقت راولپنڈی ٗ لاہور اورملتان سے شائع ہوتا رہا مگر افسوس اس
ملک کی بدقسمتی کہ جن جمہوری اصولوں کی بنیاد پر یہ ارض مقدس قائم ہوئی ۔
وہی جمہوری روایات اس ملک میں پھل پھول نہ سکیں جب جمہوریت کا خاتمہ ہوا تو
آمریت پسند حکمران صحافیوں کو خریدلینا یا ان کے ہونٹ سی دیناچاہتے تھے اور
یہی کچھ نسیم حجازی کے ساتھ ہوا اور انہیں مجبورا 1966 میں اس اخبار سے
علیحدہ ہونا پڑا ۔
جب مسلمانوں نے اعلان لاہور کے ذریعے قراردادلاہور منظور کی توہندووں نے
مسلمان رہنماؤں کو خریدنے اور رشوت کے ذریعے منہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ
صحافتی حلقوں میں زر خرید غلام کی استعمال کر نا چا ہا اگر ہم تاریخ کے
آئینے میں نسیم حجازی کی صحافتی زندگی کا جائز ہ لیں تو جب انہیں وار فنڈ
کی رشوت اپنے قلم کی مو ت کی صورت میں نظر آئی اور انہوں نے عز یمت کا
راستہ اختیار کیا حالانکہ رفعت کے بہت سے اور طریقے مو جو د تھے مگر فتوے
کے بجا ئے تقویٰ کا راستہ ہی کا میا بی کی علا مت ہواکرتا ہے روزنامہ حیات
کر اچی سے علیحدگی کے حوالے سے مندرجہ بالا اصولوں کو اختیار کر کے اپنے
ضمیر کا سودا کرنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور آنیوالی
مشکلات اور مسائل کو بالائے طاق رکھ کر اصل مقصد حیات کی طرف رواں دواں
رہے۔کچھ عرصہ کیلئے زمانہ کر اچی کے مدیر کے حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام
دیں ۔ کراچی کے دوران قیام میر جعفر جمالی کی دعوت مو صول ہو ئی اور یو ں
بلو چستان میں وارد ہونے کا موقع نصیب ہو ا۔قبائلی سرداروں اور وڈیروں کے
بارے ان کی رائے زیاد ہ اچھی نہ تھی مگر ذاتی تجربے نے نسیم حجازی کو اپنی
رائے بدلنے پر مجبورکردیاکہ بظاہر سخت اور تندمزاج لو گ اندرسے کس قدر حلیم
اور مہربان ہواکرتے ہیں پھر انہوں نے یہی محسوس کیا یہاں ان کی اشد ضرورت
ہے یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں پو لیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے انگریز کی حکو
مت قائم تھی اور انگریز ہندوستان چھوڑنے کے بعد بھی بلو چستان سے دست کش ہو
نے کا کو ئی ارادہ نہ رکھتا تھا جبکہ سازش نو اب قلا ت کے ذریعے اعلا ن
آزادی کردینے سے منسوب تھی ہر محاذ پر سنبھل سنبھل کر اور ٹھہر ٹھہر کر
ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہنے کی ضرورت تھی نسیم حجازی اپنے محسنو ں کے
ہمراہ اسی راہ مستقیم پر چل رہے تھے۔
ڈاکٹر تصدیق راجا ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کو ئٹہ سے نکلنے والے اخبار تنظیم
کی اشاعت کے سلسلے میں سارے مصارف سردار میر جعفر جمالی برداشت کرتے تھے
اور 500 اہم اور سرکردہ اشخاص کو یہ اخباربلا کسی قیمت کے بھیجا جاتا تھا۔
میر جعفر جمالی کہتے تھے کہ اگر یہ 500افراد تحریک پاکستان سے قلبی و ذہنی
طور پر وابستہ ہو گئے تو پورابلو چستان پاکستان زندہ بادکے نعروں سے گو نج
اٹھے گا اور ہوا بھی یہی۔ بعد کے حالا ت نے یہ ثابت کر دیا کہ آج بھی
پاکستان کو میر جعفر جمالی اور نسیم حجا زی جیسے مخلص وطن دوست انتھک کا م
کرنے والو ں کی ضرورت ہے۔ تنظیم کو ئٹہ کا کردار تحریک پاکستان میں ناقابل
فراموش ہے نسیم حجازی کی شکل میں بلو چستان کے سرداروں کے درمیان ایک ایسا
شخص مو جو د تھا جو پاکستان کا مقدمہ لڑرہا تھا قبائلی روایات اور ذہنیت کو
ہمہ گیر مطالعہ کر نے کے بعد انتہا ئی سنبھل سنبھل کر قدم رکھتا تھا کیو
نکہ یہاں تحریک پاکستان کے رہنما قبائلی عداوتوں کے پیش نظر اتحاد ملت کو
بالائے طاق رکھ دیتے تھے اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ اپریل 1947ء میں اس
وقت نمایا ں ہو اجب چوہدری خلیق الزماں کی زیر صدارت مسلم لیگ کے ایک جلسے
میں قاضی محمد عیسیٰ نے قبائلی نظام اور قبائلی سرداروں کو آڑے ہاتھوں لیا
اور جو ش خطاب میں انہیں انگریزوں کی اولا د قراردیا یہ انتہائی نازک
معاملہ تھا تحریک پاکستان کو اس سے بہت نقصان پہنچ سکتا تھا جس کی ابتداء
گل محمد جمالی کے حادثاتی قتل سے رونما ہو ئی اگلے روز کو ئٹہ میں جلسہ ہو
اجس میں میر جعفر جمالی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا بعد ازا ں نسیم حجا
زی اور عبد الخالق کا کڑنے خا ن قلات سے ملاقات کی اور یہ معاملہ خو ش
اسلوبی سے حل ہو ا۔ جس کے بعد نسیم حجازی کا تاریخی مضمون شائع ہو جس میں
جلسے کی کارروائی کا مذاق اڑانے کے بعد اے جی جی اورکوئٹہ کی انتظامیہ کو
جی بھر کرکوساگیا تھا ان کی صحافتی ذمہ داری نے میر صاحب کو گرفتاری سے بچا
لیا اور تحریک پاکستان ایک نازک نزاعی معاملے سے بچ گئی اس کے علاوہ تنظیم
کے ایک مضمون میں پیش گوئی کی گئی کہ شاہی جرگہ بلوچستان کے حال اور مستقبل
کا فیصلہ کرنے میں ایک فیصلہ کن عنصر ثابت ہوگا اور بعد کے حالات نے اس کی
تصدیق کر دی ۔ یہ اندازہ درست ثابت ہوا اور پھر جب بلوچستان کی قسمت کے
فیصلہ کے لیے 3 جولائی 1947ء کی تاریخ مقرر ہوئی مگر بلوچستان سے نمائندگی
کرنے والے نواب محمد خان جوگیزئی نے 29 جون 1947ء کو اے جی پی مسٹر جیڑے
پرائر کی موجودگی میں یہ اعلان کیا کہ ہم بالا اتفاق یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ
بلوچستان پاکستان میں شامل ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کے الحاق کا
معاملہ ایک مسئلے کی شکل میں موجود تھا اور خدشہ تھا کہ قبائلی سردار ذاتی
رنجشوں کی بناپر الحاق پاکستان کا مسئلہ کھٹائی میں نہ ڈلوا دیں ۔
ماہ ستمبر میں ہفت روزہ تنظیم میں ایک دھماکہ خیز خبر شائع ہوئی اور جو لوگ
بلوچستان کی سیاست سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے تھے انہیں یہ محسوس ہوا کہ
افق کی تاریکیاں چھٹ رہی ہیں ۔ خبر کا متن تھا کہ میر حبیب اﷲ خان
نوشیروانی "والی فاران" نے میر احمد یار خان کی قیادت تسلیم کرنے سے انکار
کردیا اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان ریاستوں کے مستقبل سے متعلقہ
سمجھوتہ کرنے سے پہلے آپ پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کریں ۔ جب نوکر
شاہی کے کل پرزے حرکت میں آئے تو معلوم ہوا کہ گزشتہ رات والئی فاران نے
بولان ہوٹل میں نسیم حجازی سے ملاقات کی تھی نسیم حجازی کا کام جو بلوچستان
میں رہ کر انہوں نے خود کو تفویض کیا تھا پورا ہوتا نظر آیا پھر قیام
پاکستان اور بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی
قیام پاکستان کے بعد نسیم حجازی کوئٹہ اور بلوچستان کو خیر بادکہہ کر پنجاب
کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے ایبٹ آباد پہنچے جہاں رہ کر انہوں نے اردو
صحافت اور کوہستان کی خدمت میں اپنا تن من دھن لگادیا ۔ لیکن اس سے قبل
نسیم حجازی راولپنڈی سے روزنامہ تعمیر کے مدیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں
انجام دے چکے تھے ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روزنامہ تعمیر راولپنڈی سے جاری
ہونے والے اولین روزناموں میں شامل ہے لیکن ختم نبوت کی تحریک میں عوام کو
اشتعال دلانے کے الزام میں زمیندار ٗالفضل ٗ تسنیم اور تعمیر ( راولپنڈی )
کو ایک سال کے لیے بند کردیاگیا ۔ اخباروں کی جرات مندی اور صحافتی ذمہ
داریوں کو پرکھنے کے لیے ان کے مدیروں کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ۔ نسیم
حجازی ہفت روزہ تنظیم میں اپنی ذمہ داریاں با احسن و خوبی انجام دے کر
کوئٹہ سے رخصت ہوکر تعمیر ( راولپنڈی) سے وابستہ ہوئے لیکن بہت جلد دوسروں
کے زیر اثر کام کرنے کو ترک کردیا پھر رالپنڈی سے کوہستان جاری کیا جو بعد
میں لاہور اور ملتان سے بھی شائع ہونے لگا اس وقت تک نسیم حجازی بحیثیت
تاریخی ناول نگار اپنی شناخت پیدا کرچکے تھے اور ان کے ناولوں کے کئی
ایڈیشن شائع ہوچکے تھے کہ صحافی ذمہ داریوں میں خود کو مصروف کرکے وہ عملی
سیاست میں سرگرم رہنا چاہتے تھے ۔
ہر اچھے کام کی تعریف اور ہر غلطی اور کوتاہی پر احتساب نے انہیں شہرت کی
بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سے نکلنے والے دوسرے اخبار اس
کے دائرہ اثر میں آنے لگے ۔ عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں کہ کوہستان پاپولر
جنرل ازم (ہر دلعزیز صحافت ) کاایک نمونہ ہے اوراس کی دیکھا دیکھی دوسرے
اخباروں نے بھی یہ رنگ اختیار کرلیا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی کوہستان میں بہت سی دیگر خوبیاں تھیں جنہیں اگر یہ کہاجائے
تو نسیم حجازی اور عنایت اﷲ کے امتزاج سے رونما ہوئی تھیں ۔
اس اخبار کا سنہری دور 1961 سے 1963 تک کاہے جب اس کی اشاعت تقریبا 75 ہزار
تک جا پہنچی جو اس زمانے کے اعتبار سے روزنامہ جنگ کے علاوہ کسی اخبار کو
حاصل نہ تھی۔ مگر افسوس 1963 میں جب یہ اخبار اپنے بام عروج پر تھا حکومت
کے جبر کانشانہ بن گیا ۔ مجبورا 1966 ء میں اس اخبارکو برسراقتدار جماعت
کنونشن لیگ کے ہاتھوں فروخت کردیاگیا۔ یہیں سے اس اخبار کا زوال شروع ہوگیا
جب کنونشن لیگ کے بعد جماعت اسلامی کے ایک سرکردہ شخص نے یہ اخبار خریدلیا
۔ وہ بھی نہ چلاسکے تو اسے کارکنوں کے حوالے کردیا گیا اور چند مہینے چل
سکنے کے بعد اخبار بند ہوگیا۔ا س موقع پر نسیم حجازی نے ہوا کے رخ کو
دیکھتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کرلی اور پھر کارکنوں کی باہمی چپقلش اور
اخبار کی گرتی ہوئی سرکولیشن اسے تاریخ کا حصہ بناگئی اگر ہم ماضی کی
جھرکوں میں دیکھیں تو کوہستان اور نسیم حجازی ایک دوسرے سے وابستہ رہے ان
کی شخصیت میں جو بے باکی اور نڈر پن زندگی کی ابتدا سے موجود تھا ان کے قلم
کے ذریعے قرطاس پر منڈلاتا رہا ۔ کیونکہ ان کے اندر کاانسان دبنے والا اور
ڈرنے والانہیں تھا۔نسیم حجازی نے کو ئٹہ میں رہ کر تنظیم جمالی کے ذریعے
نظریاتی اور جغرافیائی حدود کے تحفظ اور آزادی کیلئے اپنا کر دار اس خوبی
سے ادا کیا کہ بلو چستان نہ صرف آزاد ہو ا بلکہ پاکستان کیلئے ان کی کو شش
کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ جانتے تھے کہ قائداعظم کی جلد مو ت اور مفاد پرست
ٹولے کا بر سر اقتدار آجانا ملک کی سالمیت کیلئے نقصان دہ ہے اس مقصد کی
تکمیل کیلئے کہ ان دشمنا ن وطن کے نقاب الٹا کے عوام کو حقیقت حال سے آگاہ
کیا جائے کے کردار کو ایک صحافی کے روپ میں ادا کیا ۔ محض خبروں کی اشاعت
اور اخبار ان کا مطمح نظرنہ تھا بلکہ جدت اور ترقی کے اندازکو اختیار کر کے
خو ب خوب صورت ترین عوام کے من پسند انداز میں اخبار کو سامنے لا نا انہی
کا مرہو ن منت ہے آپ نے روزنامہ کوہستان اور تعمیر کے ذریعے تعمیر وطن اور
اصلا ح عوام کا اہم فریضہ سرانجام دیا نا ول نگار ی کی طرح آپ نے صحافت میں
بھی مقصد یت کو شامل کیا آپ کو اردو زبان اور ادب پر مہارت حاصل تھی آپ
مشکل اور پیچیدہ مسائل کو بڑے آسان فہم انداز میں عوام تک پہنچاتے یہ ہی
وجہ ہے کہ کو ہستان اور تعمیر کی عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو ا آپ
نے اپنے اخبارت کو جدید رنگ میں پیش کیا ۔
ڈاکٹر شفیق احمدماہنامہ اردو ڈائجسٹ کی اشاعت ستمبر 1989ء میں نسیم حجازی
کے فن ناول نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں -:
شہرت و مقبولیت کے اعتبار سے مختلف شعراء اور اہلِ ادب کا جائزہ لیا جائے
تو شاید علامہ اقبال رحمتہ اﷲ کے بعد نسیم حجازی کا مرتبہ سب سے بلند رہے
گا۔ اُردو خواں طبقے میں ایسے لوگ تو خاصی تعداد میں مل جائیں گے جو مختلف
وجوہ کی بناء پر اقبال کو قابلِ لحاظ حد تک پڑھنے سے قاصر رہے ہوں مگر ایسا
کوئی شخص شاید ہی ملے جس نے نسیم حجازی کا کوئی ایک آدھ تاریخی ناول نہ پڑھ
رکھا ہو لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اُردو ناول کے تنقید نگاروں نے نسیم
حجازی کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے۔ اوّل تو تنقید کی کسی کتاب میں نسیم حجازی
کا ذکر ملتا ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو یہ ذکر دوچار سطور سے تجاوز نہیں
کرتا اور اس میں بھی اکثر و بیشتر تنقیص کا پہلو غالب رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ناقدین کے علاوہ
ان لوگوں نے بھی نسیم حجازی کو نظرانداز کیا ہے جن کے نزدیک کسی ادیب کی
شاعر کی عظمت کا واحد معیار عوام میں اس کی مقبولیت ہے غالباً اس کی وجہ یہ
ہے کہ نسیم حجازی بیرونی نظریات و افکار اور فلسفوں کا پرچار کرنے کے بجائے
اسلام اور پاکستان کی بات کرتا ہے اور اپنی تحریروں میں ان خطروں کی
نشاندہی کرتا ہے جن کے باعث ماضی میں مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنتیں
دیکھتے ہی دیکھتے نابود ہو گئیں اور موجودہ زمانے میں بھی مسلمان ان خطروں
کی وجہ سے اذیت ناک صورتِ حال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ نسیم حجازی کے ناولوں میں فنی اعتبار سے کچھ
نقائص بھی بیان کیے جا سکتے ہیں مثلاً ان کے اکثر پلاٹ ایک حد تک یکساں
نوعیت کے ہوتے ہیں‘ ان کے کردار عام طور پر کسی اُبھری ہوئی انفرادیت کے
حامل نہیں ہوتے اور اپنے افعال و اعمال کی یکسانی کی وجہ سے ایک دوسرے میں
اس طرح گڈمڈ ہو جاتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے ممیز کرنا دشوار نظر آتا ہے۔
نسیم حجازی کے کردار بعض اوقات ایک جیسے مکالمے بولتے ہیں اور جن میں
اختصار کا حسن نہیں پایا جاتا اور مکالمے اکثر اوقات تقریروں کی شکل اختیار
کر لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے تاریخی ناولوں میں مخصوص تاریخی دور کامل
طور پر زندہ ہو کر سامنے نہیں آتا۔
ان اعتراضات کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ نسیم حجازی کے ناول فنی حسن سے یکسر
تہی نہیں۔ مثلاً کردار نگاری کے ضمن میں ان کے تاریخی ناول ’’شاہین‘‘ کا
کردار ابوداؤد‘ اردو ناول کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے اسی طرح ’’آخری
چٹان‘‘ میں انہوں نے بغداد کے گلی کوچوں میں مناظرہ بازی کا جو نقشہ کھینچا
ہے‘ وہ منظر نگاری کی انتہا کو چھوتا ہے جب کہ اس کے پسِ منظر میں واقعاتی
مزاح کی جو تصویر نسیم حجازی نے بنائی ہے‘ وہ بھی لاجواب ہے۔
طنزومزاح نگاری کے ضمن میں اگر نسیم حجازی کی دیگر تصانیف مثلاً ’’سفید
جزیرہ‘‘ وغیرہ نظرانداز بھی کر دی جائیں تو بھی اپنے بعض ناولوں کے حوالے
سے وہ اُردو کے بڑے مزاح نگار قرار دیئے جا سکتے ہیں جب کہ نالوں کے سنجیدہ
موضوعات کے باعث ان کے فن کے اس پہلو کی طرف مناسب توجہ نہیں دی جا سکی۔
’’آخری چٹان‘‘ کے علاوہ ’’خاک اور خون‘‘ کے مرکزی کردار سلیم کے گاؤں میں
موجود بعض مزاحیہ کرداروں مثلاً رمضان وغیرہ کو انہوں نے جس انداز میں پیش
کیا ہے‘ وہ ان کے سحر طراز قلم کا حصہ ہے پھر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ نسیم
حجازی نے تاریخی ناول لکھتے ہوئے کہانی اور قضہ پن کے جملہ تقاضے پورے کرنے
کے باوجود کسی تاریخی شخصیت کا دامن تارتار کیا ہے نہ تاریخی حقائق کو داغ
دار کرنے کی غلطی کی ہے جب کہ اُردو کے معروف تاریخی ناول نگار عبدالحلیم
شرر کے بہت سے ناولوں میں سے صرف ’’فردوسِ بریں‘‘ کو مندرجہ بالا نقص سے
بَری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور غالباً وہ بھی اس لیے کہ ’’فردوسِ
بریں‘‘ میں ایک ایسی تحریک کو موضوع بنایا گیا ہے جس کے بارے میں کافی
معلومات میسر نہیں اور اسی بناء پر شرر کا آسودہ تخیل اس تحریک کے نقش
اُبھارنے میں کامل طور پر آزاد تھا۔ بصورتِ دیگر معمولی کردار تو درکنار
شرر نے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسی مشہور شخصیت کے بارے میں بھی ٹھوکر
کھائی ہے اور ان کے بیٹوں تک کے ناموں میں گڑبڑ کر دی ہے۔
اس کے برعکس نسیم حجازی نے جتنے بھی ناول لکھے ہیں‘ ان میں قصے اور کہانی
کے تاریخ سے متغائر تقاضوں کے باوجود اصل حقائق مسخ نہیں ہونے دیئے اور
واقعات کی معمولی تفاصیل اور جزئیات تک ہیں بھی کسی طرح کا ردوبدل نہیں
کیا۔ اکثر اوقات ناولوں کے نام بھی کسی تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے
ہیں۔ 1947ء میں ہزاروں مسلم خاندانوں نے پاکستان کے لیے آگ اور خون کے
سمندر عبور کیے اور وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود سلطان ٹیپو نے انگریزوں
کے خلاف اس وقت تک جہاد جاری رکھا جب تک خود ان کی تلوار نہیں ٹوٹ گئی۔
’’خاک و خون‘‘ اور ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘ میں یہی اشارے موجود ہیں جب کہ
نسیم کے ناول ’’آخری چٹان‘‘ کے ہیرو سلطان جلال الدین کے بارے میں ڈاکٹر
براؤن نے ‘‘تاریخ ادبیاتِ ایران‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے‘ وہ اس ناول کے نام
کے لیے تاریخی استناد کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جلال الدین غارت گر اور تباہ کار تاتاریوں کے خلاف اسلام کی آخری پناہ
گاہ تھا۔‘‘ (بحوالہ تاریخِ خوارزم شاہی از غلام ربانی عزیز)
تاریخی ناول نگاری کے لیے عام طور پر کسی ایسے عہد کو موزوں سمجھا جاتا ہے
جس کے بارے میں مؤرخ ہمیں کچھ زیادہ نہ بتا سکے اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ
ناول نگار تاریخ کے بنیادی کمزور ڈھانچے کو پیشِ نظر رکھ کر کہانی میں اس
کے تقاضوں کے مطابق رنگ بھرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ تاریخی ناول نگار کے لیے
ایسے زمانے کا انتخاب بھی بہتر ہوتا ہے جس میں کوئی معاشرہ تہذیبی ترقی کے
اعتبار سے کمال کی حدوں پر پہنچا ہوا ہو ایسے میں تاریخی ناول نگار تہذیبی
ترقی کے پسِ منظر میں اپنے قارئین کی دلچسپی کا سامان پیدا کر سکتا ہے لیکن
نسیم حجازی کے بیشتر ناولوں میں جن ادوار کو موضوع بنایا گیا ہے وہ عہد
عتیق کی ذیل میں شمار کیے جا سکتے ہیں نہ ناول نگار اپنے طے شدہ موضوع سے
انحراف کر کے اپنے قارئین کو تہذیبی ترقی کی رنگینیوں میں گم کرنے کی سعی
کرتا ہے اس کی سب سے نمایاں مثال ہندوستان کی طرف دو سو سال پُرانی تاریخ
کے بارے میں لکھے گئے ناول ہیں جن کا بنیادی موضوع سلطنتِ بنگال اور سلطنتِ
میسور سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے یہ زمانہ ایسا ہے جس کے بارے میں ایک دو نہیں
مختلف زبانوں میں لکھی ہوئی درجنوں کتابیں موجود ہیں جن میں اس دور کے پیش
آمدہ واقعات کی ادنیٰ سے ادنیٰ تفصیلات بھی محفوظ کر دی گئی ہیں اس کے
باوجود جب نسیم حجازی اپنے ناول ’’معظم علی‘‘ اور ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘
میں اس عہد کے واقعات کو اپنا موضوع بناتے ہیں تو تاریخ میں معمولی سا تغیر
کیے بغیر نہایت کامیابی سے اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں اور ہم ناول نگار
کے تاریخی شعور سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
انہیں معلوم ہے کہ مغلوں کے زیر اثر قائم ہونے والی اتنی طویل و عریض اور
مضبوط و مستحکم سلطنت کی عمارت اورنگ زیب عالمگیر کے بعد یکے بعد دیگرے آنے
والے نااہل حکمرانوں اور ان کی کمزوری سے فائدہ اُٹھانے والے طالع آزماؤں
کی پیدا کردہ طوائف الملوکی کے باعث چند ہی برس میں زمین بوس ہو گئی۔
غداروں اور مفاد پرستوں کے علاوہ اس عظیم الشان سلطنت کو تباہ کرنے میں
روہیل کھنڈ حیدرآباد‘ میسو اور بنگال و اودھ کی خودمختار اور باہم جنگ آزما
رہنے والی چھوٹی چھوٹی سلطنتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا……
نسیم حجازی کو اس امر کا احساس بھی ہے کہ مغلیہ ہندوستان اور اس کی بنیاد
پر قائم ہونے والی ان چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو بھی کوئی زیادہ بڑا خطرہ لاحق
نہیں ہو سکتا تھا اگر ان کے بیشتر امراء خود کو چھوٹی چھوٹی مصلحتوں اور
وقتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھا دیتے۔ وہ بنگال کے حکمران علی وردی خاں کے
ایک کمانڈر کی غداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
چند دن بعد یہ خبر آئی کہ علی وردی خاں کا ایک کمانڈر میر حبیب اور فوج کے
چند اور افسر بنگال سے غداری کر کے مرہٹوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور پنڈت
بھاسکر نے اعلان کیا ہے کہ بنگال کی فوج سے غداری کرنے والوں کو مرہٹہ فوج
میں اپنے سابقہ عہدوں پر لے لیا جائے گا۔‘‘ (معظم علی)
علی وردی خاں کی افواج کے کمانداروں کی غداری کا ذکر مؤرخین بھی اسی طرح
کرتے ہیں اور کمانداروں کے سرغنہ کا نام بھی وہی ہے جو نسیم حجازی نے دیا
ہے جیسا کہ ہاشمی فرید آبادی لکھتے ہیں:
’’بنگال کے میرحبیب اور مرتضیٰ خان‘ شمشیر خان وغیرہ کئی پٹھان سپہ سالاروں
کا بار بار نام آتا ہے جنہوں نے مرہٹہ غارت گروں کو دعوت دی اور ان سے مل
کر ناظمِ بنگالہ سے جگہ جگہ لڑتے‘ فتنہ فساد کھڑا کرتے رہے۔‘‘
(تاریخ مسلمانانِ پاکستان و بھارت)
1756ء میں علی وردی خاں کے انتقال کے بعد بنگال کے خصوصی حوالے سے برصغیر
کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ پانی پت کی لڑائی ہے جو متحدہ مسلم ہندوستان نے
احمد شاہ ابدالی کی قیادت میں مرہٹوں کے خلاف لڑی اس جنگ کے بیان میں نسیم
حجازی کا قلم سنہ وسال ہ نہیں بلکہ واقعات و اشخاص کی حد تک بھی تاریخ کی
مکمل پیروی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’13 جنوری 1761ء کا آفتاب ہندوستان کی تاریخ کا ایک عظیم معرکہ دیکھ رہا
تھا۔ طلوعِ سحر کے ساتھ مرہٹہ فوج نے میلوں لمبی صفوں میں اپنے پڑاؤ سے نکل
کر آگے بڑھنا شروع کیا۔ ان میسرہ پرگاردی کے تربیت یافتہ دستے تھے اور اس
کے ساتھ گیکواڑ کی فوجیں تھی۔ میمنہ میں ملہار راؤ ہلکر اور جنکوجی سندھیا
تھے‘ قلبِ لشکر میں بھاؤ اور بشواش راؤ ایک جنگی ہاتھی کے ہودج میں بیٹھے
ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے لشکر کے قلب میں ابدالی کا وزیراعظم شاہ ولی خاں تھا
اور اس کی کمان میں درانی فوج کے دو آزمودہ کار جانباز تھے جو کئی میدانوں
میں دادِ شجاعت دے چکے تھے۔ میسرہ پرشاہ پسند خاں اور نجیب الدولہ تھے۔
شجاع الدولہ کی افواج میسرہ اور قلبِ لشکر کے درمیان تھیں۔ میمنہ کی قیادت
برخوردار خاں کے ہاتھ میں تھی اور روہیلہ‘ مغل اور بلوچ سپاہیوں کے کئی
دستے اس کے ساتھ تھے۔‘‘
(معظم علی)
نسیم حجازی نے معظم علی کے لیے جس جغرافیائی خطے کا انتخاب کیا‘ وہ سرزمینِ
بنگال کہلاتا ہے جہاں مسلمانوں کی آزادی کا سورج برصغیر کے تمام علاقوں کی
نسبت سب سے پہلے گہنایا لیکن سراج الدولہ کی شکست اور شہادت کے بعد اس
علاقے پر کیا گزری اور حکومت حاصل کر لینے کے باوجود ان غداروں کے سپرد جو
ناخوش گوار فرض ہوا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ اس عہد کی ایک مقتدر
شخصیت میرقاسم کی زبانی کہلواتے ہیں:
’’پلاسی کی جاگ کے بعد میں نے تم جیسے کئی نوجوانوں کو سزا پاتے دیکھا ہے
اور میں ہمیشہ اپنے دل کو یہ تسلی دینے کی کوشش کرتا تھا کہ یہ ہمارے
خاندان کے دشمن ہیں لیکن آج بنگال پر ہمارا خاندان نہیں انگریز حکمران ہے……
میر جعفر اور میر مدن ان دنوں انگریزوں کے لیے روپیہ جمع کرنے کے سوا کچھ
نہیں سوچ سکتے۔‘‘
(معظم علی)
یہ ایسا موقع ہے جہاں ایک کردار جذباتیت کا شکار ہو کر یا خود ناول نگار
جذباتی صورتِ حال میں بہت کچھ مبالغہ کر سکتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ
نسیم حجازی نے حقائق سے تجاوز نہیں کیا اس لیے کہ خود ایک انگریز مؤرخ
بنگال پر انگریزی اقتدار کا اس سے مختلف نقشہ پیش نہیں کرتا۔ وہ لکھتا ہے:
’’فتح پلاسی کے بعد انگریزوں کے لیے سب سے اہم اور ضروری کام ایک باوقار
انتظام کا بحال کرنا تھا۔ انہوں نے میر جعفر کو نوابی کے اختیارات اس
معاہدے کے ساتھ دیئے تھے کہ کلکتہ اور دیگر انگریزی کارخانہ جات پر سراج
الدولہ کے قبضہ کر لینے کے بعد جو نقصانات ہوئے اور جنگ میں جو اخراجات ان
کو برداشت کرنا پڑے تھے‘ ان سب کی تلافی کے لیے رقومِ خطیر انگریزوں کی نذر
کرے۔‘‘
(ہندی مملکت‘ برطانیہ کا عروج اور وسعت ازالفریڈ میر جعفر وغیرہ انگریزوں
کے مطالباتِ زر پوری کوشش کے باوجود پورے کرنے سے قاصر رہے لہٰذا ایک ایک
کر کے اپنے انجام کو پہنچتے رہے۔ میر جعفر اور اس کے ساتھیوں ہی پر کیا
موقوف‘ نسیم حجازی کے نزدیک ملتِ اسلامیہ کے عاقبت نااندیشوں مثلاً
ابوداؤد‘ ابن علقمی‘ مہلب بن داؤد‘ ابوعبداﷲ اور میر صادق سب کو بالآخر
اپنی غداری کی سزا بھگتنا پڑی۔ اودھ کے فرماں روا شجاع الدولہ جو پانی پت
کی تیسری جنگ میں احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دے کر شانِ عزیمت کا مظاہرہ کر
چکے تھے بعدازاں اپنی ذاتی مصلحتوں اور وقتی مفاد پرستی کے باعث انگریزوں
اور مرہٹوں کے دام میں آ گئے جس کی وجہ سے ریاست روہیل کھنڈ ہی کو تباہی سے
دوچار نہیں ہونا پڑا بلکہ شجاع الدولہ کے جانشین آصف الدولہ اور اودھ کی
شاہی بیگمات کو بھی اس کی سزا بھگتنا پڑی اس سلسلے میں نسیم حجازی لکھتے
ہیں:
’’نواب وزیر اودھ شجاع الدولہ کی وفات 29 جنوری 1775ء کے بعد اودھ کی حکومت
آصف الدولہ کے ہاتھ آئی۔ روہیل کھنڈ پر قبضہ کرنے کے لیے وارن ہیسٹنگز سے
مدد لینے کے باعث شجاع الدولہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا مقروض ہو چکا تھا۔ آصف
الدولہ کے گدی پر بیٹھتے ہی وارن ہیسٹنگز نے اس سے پندرہ لاکھ روپے کا
مطالبہ کیا۔ آصف الدولہ کے پاس روپیہ نہ تھا مگر اس نے برٹش ریذیڈنٹ کی مدد
سے اپنی بیوہ ماں اور دادی سے ساڑھے پانچ لاکھ پونڈ کی رقم اس شرط پر حاصل
کی کہ اس کے بعد وہ یا انگریز ان سے کوئی اور مطالبہ نہیں کریں گے لیکن
وارن ہیسٹنگز کے کانوں تک بیگماتِ اودھ کی دولت کے قصے پہنچ چکے تھے اور وہ
روپیہ حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ جائز سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے آصف الدولہ
اور لکھنؤ کے انگریز ریذیڈنٹ کو بیگماتِ اودھ سے مزید روپیہ حاصل کرنے پر
مجبور کیا جب آصف الدولہ ایک حد سے آگے جانے کے لیے تیار نہ ہوا تو ہیسٹنگز
نے انگریز ریذیڈنٹ کو حکم دیا کہ وہ انگریز سپاہیوں کا ایک دستہ فیض آباد
بھیج کر بیگمات کے محلات کا محاصرہ کرے اور انہیں ہر ممکن اذیت پہنچا کر
روپیہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انگریز ریذیڈنٹ مڈلٹن نے جب بیگمات سے مزید
روپیہ حاصل کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تو وارن ہیسٹنگز نے اس مقصد
کے لیے اس کی جگہ ایک نیا ریذیڈنٹ بھیج دیا۔ نئے ریذیڈنٹ نے بیگمات کے محل
کا محاصرہ کرنے کے بعد ان کے نوکروں کو حراست میں لے لیا اور خفیہ خزانے کا
پتہ معلوم کرنے کے لیے چند ماہ تک ان پر بے پناہ مظالم توڑتا رہا…… قریباً
ایک سال بدترین اذیتیں برداشت کرنے کے بعد بیگمات نے سب کچھ انگریزوں کے
حوالے کر دیا تو ان کی خلاصی ہوئی۔‘‘
(معظم علی)
ان واقعات کو ایک انگریز مؤرخ ای پی مون ان لفظوں میں پیش کرتا ہے:
’’بیگماتِ اودھ فیض آباد کے ایک نہایت شان دار قلعے میں رہا کرتی تھیں جو
شجاع الدولہ کی مرغوب جائے رہائش تھی۔ مڈلٹن اور کمپنی کے کچھ سپاہی ساتھ
لے کر نواب وہاں جا پہنچا‘ قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور بیگماتِ اودھ سے
مطالبہ کیا کہ شجاع الدولہ کا خزانہ حوالے کر دیں۔ انہوں نے سختی سے انکار
کیا…… ان میں سے دوسر برآوردہ خواجہ سرا تھے جو بے حد مکار ہونے کے علاوہ
بے حد امیر بھی تھے۔ اصل میں یہی دو شخص تھے جو بیگمات کی دولت سے ہر قسم
کا فائدہ اُٹھاتے تھے اور انہی دونوں نے نواب کے مطالبے کی مخالفت کرنے میں
بیگمات کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ نواب نے دونوں کو گرفتار کر لیا اور انہیں
پابہ زنجیر کر کے فاقوں رکھا اس تدبیر سے اچھے نتائج نکلے اور چند ہی روز
میں وہ اپنے گھروں کے خفیہ تہ خانوں میں سے پچپن لاکھ روپیہ نکال لائے پھر
1882ء میں ان پر ایسا ہی دباؤ ڈالنے سے پچاس لاکھ روپیہ اور برآمد ہوا۔ ان
رقوم کا بہت بڑا حصہ نواب کے قرض کی ادائیگی میں کمپنی کے حوالے کیا گیا۔‘‘
(وارن ہیسٹنگز اور انگریزی راج)
یہاں بظاہر ای پی مون اور نسیم حجازی کے بیانات میں اختلاف نظر آتا ہے۔
نسیم حجازی نے لُوٹ کھسوٹ کے لیے ظلم و زیادتی کی ذمہ داری کمپنی پر ڈالی
ہے جب کہ مون کے نزدیک اس معاملے کا ذمہ دار خود آصف الدولہ تھا لیکن یہ
اختلاف بخوبی سمجھ میں آ سکتا ہے اس لیے کہ ہم جانتے ہیں کہ ان دونوں میں
سے ایک انگریز ہے اور دوسرا مسلمان اور مسلمان بھی اس دور کا جب برصغیر کے
مسلمانوں کو کمپنی بہادر سے کوئی خطرہ نہیں تھا جب کہ یہ حقیقت اپنی جگہ
اہم ہے کہ دونوں کے نزدیک روپیہ بہرحال بیگمات اودھ اور ان کے ساتھیوں کی
تجوریوں سے نکل کر کمپنی کے خزانوں میں گیا۔
’’آخری چٹان‘‘ کے لیے نسم حجازی نے وسط ایشیا کے اس علاقے کو منتخب کیا ہے
جس کا زیادہ تر حصہ اب سوویت یونین میں شامل ہے۔ مؤرخین سلطنتِ بغداد کے
دورِ آخر کی ہم عصر اس سلطنت کو خوارزم شاہی سلطنت کے نام سے یاد کرتے ہیں
چونکہ یہ سلطنت سلطنتِ بغداد سے متصل واقع تھی لہٰذا ناول میں عباسی خلافت
سے متعلق واقعات و حالات بھی آ گئے ہیں ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ جدید
دور میں پاکستان اور افغانستان کی طرح عباسی خلافت کی بقاء کی جنگ بھی
خورازم شاہی سلطنت میں لڑی گئی تھی اور جیسے ہی خوارزم شاہی سلطنت کا خاتمہ
ہوا تاتاری سیلاب نے بغداد کو بھی تباہ و برباد کر کے عباسیوں کی عظیم
الشان سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
غزنی کے محاذ پر خوارزم شاہی افواج کو تاتاریوں کے ہاتھوں غیر متوقع طور پر
شکست ہوئی اس کا سبب سلطان جلال الدین خورازم شاہ کے امیروں میں باہمی
چپقلش تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے نسیم حجازی لکھتے ہیں:
’’شیگی توتو کی شکست کے بعد جو مالِ غنیمت سلطان کے ہاتھ آیا اس میں ایک
خوب صورت گھوڑا بھی تھا اس گھوڑے پر امین الدین اور سیف الدین اغراق میں
تکرار ہوگئی۔ سیف الدین کے منہ سے کوئی سخت جملہ نکل گیا اور امین الدین نے
غصہ میں آ کر اسے چابک رسید کر دیا…… سیف الدین کے بھائی نے فوراً تلوار
کھینچ لی اور امین الملک پر حملہ کر دیا۔‘‘
(آخری چٹان)
اس سارے جھگڑے اور اس کے باعث پیش آنے والے واقعات کو مؤرخین نے بھی اسی
طرح پیش کیا ہے۔
غزنی کے محاذ پر شکست کے بعد جلال الدین خورازم شاہ نے ہندوستان کا رُخ
کیا۔ تاتاری اس کے تعاقب میں تھے‘ دریائے سندھ کے کنارے شدید لڑائی ہوئی‘
تاتاری چاہتے تھے کہ جلال الدین کو گھیر لیں اس صورتِ حال کا احساس ہوتے ہی
جلال الدین نے اپنا گھوڑا دریائے سندھ میں ڈال دیا اس واقعہ کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے نسیم حجازی لکھتے ہیں:
’’جلال الدین کے اکثر ساتھی تاتاریوں کے تیروں اور بعض دریا کی تندوتیز
موجوں کا شکار ہو چکے تھے لیکن جلال الدین تیروں کی زد سے دُور جا چکا تھا۔
وہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر ایک ٹیلے پر چڑھا اور دُور بیٹھ گیا۔‘‘
اس واقعہ کے متعلق معین الدین ندوی لکھتے ہیں:
’’جلال الدین دریائے سندھ کے ساحل پر موجود تھا۔ چنگیز نے اس کو گھیر لیا۔
جلال الدین نے اپنی مختصر سپاہ کے ساتھ مقابلہ کیا …… لیکن ایک طرف دریائے
سندھ تھا اور دوسری سمت کمان کی شکل میں تاتاری…… جلال الدین نے جب یہ
دیکھا تو اس نے بے محابا گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔‘‘
(تاریخ اسلام‘ صفحہ 347)
نسیم حجازی یہاں تک محتاط ہیں کہ وہ تاریخی شخصیات کے بعض اہم اور تاریخی
مکالموں تک میں ردوبدل نہیں کرتے مثلاً جب جلال الدین تاتاریوں سے بچ کر
دریائے سندھ عبور کر گیا تو چنگیز خاں نے اس کی ہمت و جواں مردی سے متاثر
ہو کر ایک جملہ کہا تھا جسے غلام ربانی عزیز نے حبیب السیر کے حوالے سے نقل
کیا ہے۔ چنگیز خاں نے کہا تھا:
’’از پدر پسر چنیں باید۔‘‘
(تاریخ خوارزم شاہی)
نسیم حجازی اس جملے کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خوش نصیب ہے وہ باپ جس کا بیٹا جلال الدین جیسا ہو اور مبارک ہیں وہ
مائیں جو ایسے شیروں کو دودھ پلاتی ہیں۔‘‘
(آخری چٹان)
واقعات کے پسِ منظر سے اُبھرنے والی جذباتی صورتِ حال کی پیش کش میں بھی
نسیم حجازی کا قلم تغیر وتبدل کا روادار نہیں ہوتا حالانکہ ایسے مقامات پر
جذباتی صورتِ حال کے باعث ناول نگار پر بہت کچھ لکھ سکتا ہے لیکن نسیم
حجازی یہاں پر بھی تاریخ کی پیروی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً جب اندلس کی
اسلامی مملکت کا آخری فرماں روا ابوعبداﷲ اندلس سے روانہ ہوا تو نسیم حجازی
اس کی روانگی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
ابوعبداﷲ نے البشارات کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ کر اپنا گھوڑا روکا اس
نے آخری بار غرناطہ کی طرف دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بہادر ماں نے
حقارت آمیز لہجے میں کہا تم جس سلطنت کی حفاظت کے لیے مردوں کی طرح اپنا
خون نہ بہا سکے اب اس کی بربادی پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا
فائدہ۔‘‘ (شاہین)
غرناطہ سے ابو عبداﷲ کی روانگی کا نقشہ پیش کرتے ہوئے اسٹینلے لین پول
لکھتا ہے:
’’کوہستانی دروں کی طرف چلا لیکن جب حب الوطنی نے دل میں کچھ تلاطم پیدا
کیا ازخود رفتہ ہو کر پہاڑ پر چڑھا اور ایک قلعہ کوہ پر جس کو پاڈل کہتے
تھے‘ کھڑے ہو کر حسرت انگیز نگاہ سے اپنی گزشتہ شان و عظمت کا نظارہ کرنے
لگا…… جب فرطِ الم سے تاب نہ رہی تو اﷲ اکبر کا نعرہ مار کر زار زار رونے
لگا اس کی والدہ عائشہ نے جو پاس کھڑی تھی کہا جس چیز کو تم کل مردوں کی
طرح نہ بچا سکے اس پر آج عورتوں کی طرح رونے سے کیا فائدہ۔‘‘
(مسلمان اندلس میں)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کی اس حد تک پیروی کرتے ہوئے نسیم
حجازی تاریخ اور ناول میں فرق کس طرح برقرار رکھتے ہیں اور کیا ان کے ناول
بھی محض خشک تاریخ کو تو نہیں چوکتے جہاں بھی انہیں تخیل کی رنگ آمیزی کا
موقع ملے‘ وہ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن ایسا فقط وہاں ہوتا ہے
جہاں تاریخ کے اوراق خاموش ہیں مثلاً سلطان جلال الدین کے بارے میں مؤرخین
عام طور پر یہی لکھتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایک رات اپنے خیمے
سے نکلا اور نہایت خاموشی سے کسی طرف چلا گیا۔ نسیم حجازی تاریخ کی اس
خاموشی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سلطان جلال الدین خوارزم شاہ برف باری کے طوفان میں روپوش ہو گیا اور اس
کے بعد کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں ہے۔
کئی برس تک اس کے متعلق عجیب و غریب داستانیں مشہور ہوتی رہیں کبھی یہ
افواہ اُڑتی کہ اسے فلاں بستی میں ایک درویش کے لباس میں دیکھا گیا‘ کبھی
یہ قصہ مشہور ہوتا کہ وہ کسی جنگل میں گوشہ نشینی اختیار کر چکا ہے اور
کبھی یہ خبر آتی کہ وہ دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر تاتاریوں سے آخری جنگ لڑنے
کے لیے جاں بازوں کی ایک زبردست فوج منظم کر رہا ہے اور اچانک کسی دن فلاں
مقام پر ظاہر ہوگا۔ تاتاریوں نے اس کی تلاش میں ملک کا کونہ کونہ چھان
مارا۔ سینکڑوں آدمیوں کو جلال الدین سمجھ کر موت کے گھاٹ اُتار دیا اور اس
کا سراغ لگانے والوں کے لیے بڑے بڑے انعامات مقرر کیے لیکن اس کا پتہ نہ
چلا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ عام سپاہی کے لباس میں وہ تاتاریوں کی کسی
چوکی پر حملہ کرنے کے بعد شہید ہو چکا ہے اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اسے
قوم کے کسی غدار یا تاتاریوں کے کسی جاسوس نے قتل کر دیا۔‘‘
(آخری چٹان)
اس طرح دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نسیم حجازی نے اردو میں تاریخی ناول
نگاری کی روایت میں نہایت اہم اضافہ کیا ہے اور آج ناول کی یہ قسم اس مقام
سے بہت آگے ہے جہاں شرر نے اسے چھوڑا تھا۔ فنی نقطۂ نظر کے علاوہ یہ بات
بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اُردو کے کسی دوسرے ناول نگار کو قارئین میں وہ
شہرت و مقبولیت نہیں ملی جو نسیم حجازی کے حصے میں آئی ہے اور یہ ایک ایسی
بات ہے جسے آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
..............
نسیم حجازی نے صحافتی فیلڈ میں بھی اپنا ایک منفرد مقام پیدا کیا ۔ آپ
روزنامہ کوہستان روزنامہ حیات ٗ روزنامہ زمانہ اور روزنامہ تنظیم سے منسلک
رہے ۔ ایٹم بم بنانے کے حوالے سے آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ "پاکستان کے لیے
بین الاقوامی خطرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں ہر حالت میں ایٹم بم بنانا
چاہیئے ۔ ہمیں دشمن کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں ٗ ہر جنگ کے لیے
ایک نئی حکمت عملی ہوتی ہے لہذا ایک مقررہ طے شدہ حکمت عملی کے تحت کوئی
بھی ملک ٹھیک سے اپنی سرحدوں کا دفاع نہیں کرسکتا لہذا ایٹم بم بنانا بہت
ضروری ہے۔"
آپ کے ناول اور کتابوں کی تفصیل
خاک اور خون
یوسف تاشفین
آخری چٹان والیم ون اینڈ ٹو
آخری معرکہ
اندھیری رات کے مسافر
اور تلوار ٹوٹ گئی والیم ون اینڈ ٹو
داستان مجاہد
گمشدہ قافلے
انسان اور دیوتا
کلیسا اور آگ
محمد بن قاسم
پاکستان سے دیار حرم تک ( سفر نامہ )
پردیسی درخت
پورس کے ہاتھی
قافلہ حجاز
قیصری و کسری
ثقافت کی تلاش
شاہین ( ( والیم ون اینڈ ٹو )
سوسال بعد
سفید جزیرہ
نسیم حجازی مارچ 1996 میں فوت ہوئے ان کی وفات سے اردو ادب اور صحافت ایک
جید اور قابل لکھاری سے محروم ہوگئی ۔ قلم کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ
یاد رکھی جائیں گی آپ بنیادی طور پر قلم کاروں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے
تھے جو با مقصد ادب کی ترویج کے لیے کوشاں ہوتا ہے ۔ نسیم حجازی نے تاریخ
کے حوالے سے ناول نگاری میں نہ صرف ایک اہم مقام بنایا بلکہ ان کے بعد آنے
والوں نے بھی ان کی اسی روشن پر چلنے کو ترجیح دی ۔ آـپ کانام ہمارے لیے
اعزاز ہے ۔
|