از افادات: عالمی مبلغ اسلام ترجمان حقیقت مفکر اسلام
علامہ پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
صالحین کا ذکر: اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر انبیا کا ذکر ، ان کے
متعلقین کا ذکر اور ان کی خوبصورت کہانیاں، ان کے تذکرے، اور حضرت یوسف
علیہ السلام کا تذکرہ جس طرح کیا گیا ہے اور پھر ان کے خواب سے لے کر کے ان
کے تخت پر براجمان ہونے تک کی کہانی کو جس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے اور
اسے ’’احسن القصص‘‘ بتایا گیا ہے؛ کہ ایک خواب دیکھا تھا کہ سورج اور چاند
ستارے میرے آگے سجدہ ریز ہیں؛ اور پھر اس خواب تک پہنچنے کے لیے چالیس سال
کا عرصہ بیت گیا۔ اور چالیس سال کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام اور بھائی
جب وہاں پہنچتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں تو پھر جنابِ یوسف کہتے ہیں یٰأَ
بَتِ ہٰذَا تَأْوِیلُ رُوْیٰیَ مِنْ قَبْلُ ! (سورۃ یوسف، آیۃ ۱۰۰)میرے باپ
یہ ہے وہ میرے خواب کی تعبیر جو مَیں نے بہت پہلے دیکھا تھا ۔ تو چالیس سال
کے بعد اس تعبیر تک پہنچے کا بیان آیا۔
مقصود کیا ہے یہ گفتگو کرنے کا؟کہ صالح لوگوں کا ذکر کرنا سنتِ الٰہی ہے۔
اسی طرح حضور علیہ السلام کے اصحاب کا تذکرہ، آقا کریم کی عترت کا، آل کا
ذکر کرنا ، حضور کی امت کے ولیوں کا ذکر کرنا اور مشاہیر علما کا ذکر؛ یہ
معمول ہے اور ہمارے یہاں مروج ہے۔ اور یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ یہ
قرآن مجید ہی سے ہمیں اسلوب ملا ہے۔ بلکہ میرے حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب
صالح لوگوں کا ذکر کرو تو میرے عمر کا ذکر بھی کیا کرو۔
تو اچھے لوگوں کا ذکر یقینا ہمارے لیے غذاے روح ہے۔ بلکہ صالحین کو اولیاء
اﷲ کے لشکروں میں سے ایک لشکر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے خطبۂ جمعۃ المبارکہ
کے موقع پر مَیں نے حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کی تعلیمات کے
حوالے سے کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھی تھیں۔ اور آج مَیں جس ہستی کا ذکر
کرنے جارہا ہوں ؛ وہ برصغیر پاک و ہند میں ایسی نرالی شان کی مالک ہے؛ کہ
اﷲ نے ان کے ذریعے سے وہ کام لیا جو انہیں کا مقسوم تھا۔ اور پھر اﷲ تعالیٰ
نے ان کو جن گو نا گو صلاحیتوں سے نوازا تھا اور جو کرم نوازیاں ان پہ
بچپنے کی عمر ہی میں ہوئیں اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو جس کام کے لیے چُناپھر
وہ کام انہوں نے کر دکھا یا ۔ اس ہستی کا نام امام احمد رضا خاں فاضلِ
بریلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ ہے۔
اعلیٰ حضرت اور علمی کمال: آپ تیرہ سال اور کچھ ماہ کی عمر میں مروجہ علوم
کی تکمیل کر لیتے ہیں۔ جب بچے گلیوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں؛ اعلیٰ حضرت
مسندِ تدریس پہ بیٹھے تھے۔ بچے گلیوں میں کھیل رہے ہیں اور وہ مسندِ ارشاد
پہ بیٹھے ہیں۔ جب بچے گلیوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں؛ اعلیٰ حضرت دارالافتاء
میں بیٹھ کر فتویٰ لکھا کرتے تھے۔ آپ کے مالدِ ماجد مولانا نقی علی خاں
رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ؛ ان کے پاس کوئی فتویٰ لینے آیاتو آپ نے کہا
دارالافتاء میں چلے جاؤ؛ وہاں مفتی صاحب بیٹھے ہیں؛ آپ کو فتویٰ لکھ دیں گے۔
وہ گئے؛ تو اعلیٰ حضرت کی عمر چودہ سال کی تھی؛ وہ واپس آگئے اور کہا کہ
حضرت وہاں تو کوئی مفتی صاحب نہیں ہے۔ کہا کہ اندر ہی تو تھے۔ اُس نے کہا
کہ اندر ایک بچہ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ نے کہا کہ وہی تو ہمارے مفتی ہیں۔
چودہ سال کی عمر میں لوگوں کو فتاویٰ دے رہے ہیں۔ اور اﷲ نے ان سے جو کام
لیا اور جن جن شعبوں میں لیا؛ اﷲ اکبر! …… دین کا کوئی شعبہ نہیں تھا جس
میں اعلیٰ حضرت نے اپنی صلاحیتوں سے خدمت پیش نہیں کی ہو۔ کوئی فن اور کوئی
علم ایسا نہیں تھا جس میں آپ کی یادگار تصنیف موجود نہیں۔ ایک ہزار سے
زیادہ آپ کی تصنیفات ہیں۔ جو علما کے لیے ایک بہت بڑی سوغات ہے۔ ’’فتاویٰ
رضویہ‘‘ جو آپ کے دیے ہوئے فتاویٰ جات کا مجموعہ ہے؛ یہ اب بتیس ۳۲؍ جلدات
پر چھپ کر منظر عام پر آیا ہے۔اور اس طرح آپ نے ایک ہزار کتابیں تصنیف
فرمائی ہیں۔ ایک ہزار سے زائد کتابوں کی تحقیق ہے۔ اور کئی طرح کے علوم و
فنون پر اﷲ نے مہارت عطا کی تھی۔ اور پھر جس سمت بھی آئے؛ سکے بٹھادیے۔
اﷲ نے ان سے خاص طور سے فقہ پہ جو کام لیا ہے؛ وہ بھی ایک نادرِ روزگار کام
ہے۔ اس زمانے میں اﷲ نے یہ کام ان سے لیا اور جو تحقیقی فتاویٰ جات آپ نے
لکھے ؛ پھر اس طرح سے مدلل وہ فتاویٰ تھے کہ ان کے رد کی کسی میں ہمت نہیں
پڑی۔ اور ان دلائل کا آج تک کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اﷲ نے یہ ان سے کام
لیے۔
اعلیٰ حضرت نے جہاں دیگر بہت سارے امور پہ جہتوں میں اور شعبہ ہائے دین میں
کام کیا ہے؛ وہاں آپ کا ایک بہت بڑا کام ’’ردِ بدعات‘‘ پر ہے۔ جو بدعتیں
لوگوں کے نفس گھڑتے ہیں؛ ان کے رد پر اعلیٰ حضرت نے باقاعدہ کام کیاہے۔ یہ
آپ کی غیرتِ دینی تھی۔اور آپ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم کے دین میں کوئی اپنی خواہشات کو شامل کردے۔ یہ خاص ایک شعبہ ہے
؛ اور اس پر آپ کا کام بہت نمایا ہے۔
کرامات اور تعلیمات: عمومی طور پہ جب ہم کسی بزرگ کا تذکرہ کرتے ہیں؛تو اس
بزرگ کی خصوصیات بیان کردیتے ہیں یا اس بزرگ کی کرامات کے باب کو کھولتے
ہیں اور لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں کہ یہ بزرگ صاحب کرامت تھے۔ ان کو یہ یہ
کرامتیں دی گئی تھیں اور وہ لوگوں کو بیان کردیتے ہیں۔مَیں کرامت کا منکر
نہیں ہوں؛ اور کرامت کا کوئی بھی منکر جو من حیث الکرامت کرامت کا انکار
کرے وہ کافر ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں۔ کیوں کہ کرامت قرآن مجید سے
ثابت ہے۔ آصف بن برخیا کا تخت بلقیس لانا، حضرت مریم کے حجرے میں بے موسم
پھلوں کا موجود ہونا ؛ چوں کہ یہ نبی نہیں ہیں؛ ولی ہیں۔ اور ان کی یہ
کرامات کہلائیں گی۔ تو اس کا انکار کفر ہوگا۔ ہاں ! بزرگوں کی کرامات کا
انکارکفر تو نہیں ہے لیکن محرومی ضرور ہے؛ ان کا اگر انکار کیا جائے۔
لیکن جس بات کی طرف مَیں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بزرگوں کی
تعلیمات کو اختیار کرنے سے ، ان کے راستے پہ چلنے سے ہم ان کی زیادہ برکات
حاصل کر سکتے ہیں۔ کرامات کا بیان سنیں اور ان کی تعلیمات سے نا آشنا رہیں؛
تو ہم فائدہ نہیں پا سکتے۔ تو اس لیے یہ روش کہ صرف فضائل اور مناقب ہی
بیان کیے جائیں اور ان کی تعلیمات کو چھوڑ دیا جائے تو لوگ بے عملی کی طرف
راغب ہوجائیں گے۔ اقبال نے اپنے زمانے میں کہا تھا۔
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
اس لیے ان کی تعلیمات کو اختیار کرکے خود ایک زندہ کرامت بننا چاہیے۔ اور
ان کی تعلیمات کو اختیار کرکے باطنی امراض کا علاج کرنا چاہیے۔ باقی اگر اس
باب کے اندر بھی اعلیٰ حضرت کو دیکھیں؛ تو ان کی بہت ساری کرامات موجود
ہیں۔
شدت اور تقاضا: اچھا اعلیٰ حضرت کے حوالے سے عمومی طور پہ جو چیز بہت زیادہ
شہرت پا گئی ؛ وہ یہ تھی کہ وہ طبعاً بہت زیادہ سخت تھے۔ تو طبع میں سختی
ہو بھی سکتی ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت نے جو فتاویٰ جات دیے ہیں وہ طبعی شدت کی
وجہ سے نہیں دیے ہیں بلکہ شریعت کا تقاضا تھا کہ یہ فتویٰ بنتا تھا تو وہ
دیے۔ تو یہ بات کر کر کے اور یہ جو انداز اختیار کرکے کہ وہ شدت پسند تھے
اور ان کے مزاج میں شدت اور اور سختی تھی تو ان کے کام کو داغ دار کرنے
والی بات ہے۔ کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ طبعاً اتنے سخت تھے کہ جو بھی سامنے
آتا تو اس کے اوپر سخت گیر حکمِ شرعی لگا دیتے ۔ کیسے لگا سکتے؟ کہ جب کوئی
حکم لگتا نہیں تھا۔ تو یہ وہ شخص کہتا ہے کہ جس نے اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ
جات کو پڑھا نہیں ہے۔ فتاویٰ جات سنے ہیں؛ ان کے پیچھے جو دلائل تھے ان کو
نہیں دیکھا۔ تو اُس نے یہ کَہ دیا کہ وہ فتویٰ کا لہجہ بہت سخت رکھتے تھے۔
ایسا نہیں ہے۔بلکہ آپ نے جو بھی بات کی ہے دلیل سے کی ہے۔ اور دلائل کے
انبار لگادیے ہیں۔ قرآن مجید کی آیات سے اور احادیث طیبہ سے۔ تو یہ ان کے
مزاج کا شاخشانہ نہیں ہے بلکہ قرآن اور احادیث کی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ
جس نے جو کیا ہے اس پر جو حکمِ شرعی لگتا تھا وہ انہوں نے نافذ کردیا۔ اور
جو اہلُ اﷲ ہوتے ہیں ان کی جو سختی ہوتی ہے وہ دین کے لیے ہوتی ہے۔ آپ
دیکھیے! اﷲ کے محبوب علیہ السلام نے ساری زندگی سختی تو نہیں کی ہے ؛ حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کا لہجہ اتنا نرم تھا، انداز اتنا نرم تھاکہ دیکھنے والا
تھا۔ خود اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا
نفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ۔ (سورۃ آل عمران، آیۃ ۱۵۹) اور لوگوں نے پتھر بھی
مارے، اوجھڑیاں بھی ڈالیں، کیا کچھ نہیں ہوا۔ لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے ماتھے پہ شکن بھی نہیں آیا؛ کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن جب ذات باری
تعالیٰ کی بات آئی ہے، غیرتِ توحید کی بات آئی ہے تو پھر حضور کے تیور
دیکھنے والے تھے۔
ایک جنگ میں نمازِ ظہر قضاء ہوجاتی ہے۔ اﷲ اکبر!…… اﷲ کے لیے پڑھی جانے
والی نماز قضاء ہوگئی ان لوگوں کی وجہ سے؛ تو پھر حضور کے ہاتھ اُٹھتے ہیں۔
جس محبوب نے ساری زندگی کسی کو بد دعا نہیں دی ہے۔آج حضور کے ہاتھ اُٹھتے
ہیں۔ اے اﷲ ! ان کے پیٹوں میں آگ بھر دے۔ کہ ان کی وجہ سے تیری نماز، تیرے
حضور جو ہم نے سجدہ ریزی کرنی تھی؛ وہ قضا ہوگئی۔ تو وہ جو شدت ہے؛ وہ دین
کے لیے ہے۔ طبع کا نتیجہ نہیں ہے؛ بلکہ شریعت کا تقاضا تھا۔ اور اس تقاضے
کے تحت آپ نے بھی ایسی بات کہی۔
ردِّ بدعات: اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام اہلِ محبت امام الشاہ احمد رضا
خاں فاضلِ بریلوی نے بدعات کے رد میں با قاعدہ کام کیا ہے۔ اور آپ کے پاس
زیادہ تر استفتاء آتے تھے اور اس طرح کے سوال جواب سے پوچھے جاتے۔ تو آپ
پوری شدت کے ساتھ شریعت کا جو حکم ہوتا وہ اس کے اوپر نافذ کرتے۔ اور وہ
حکم بتاتے اور کہتے کہ یہ اس کا حکم ہے۔ مختلف زبانوں میں مختلف لوگوں نے
مختلف سوال پوچھے۔ وہ بہت سارے نمونے آپ کے فتاویٰ جات میں دیکھے جاسکتے
ہیں۔کسی نے کچھ پوچھا کسی نے کسی نے کچھ پوچھا تو آپ نے ان کی نفی کی۔
آخری بدھ: صفر المظفر کا آخری بدھ؛ جسے آخری چہار شنبہ کہتے ہیں؛ عمومی طور
پہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اﷲ کے محبوب علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس دن
غسلِ (صحت) فرمایا تھا اور ایک طبعی مرض سے شفا پائی تھی اور پھر اس کے بعد
حضور کا وصال ہوا تھا۔ تو آج کچھ لوگ اس دن میں اہتمام کرتے ہیں۔ چنے تقسیم
کرتے ہیں، کھانے تقسیم کرتے ہیں اور اس دن غسل کرتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت سے جب
پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس دن تو مرضِ پاک
کا آغاز ہوا تھا۔مرض حضور کو سلامی دینے آئے تھے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ اس دن
حضور شفا یاب ہوئے تھے۔
ضعیف الاعتقادی: اسی طرح اور بہت سارے امراض سے بچاؤ کے لیے نظرِ بد سے اور
دیگر چیزوں سے اور سائے سے بھوت پریت سے بچنے کے لیے لوگ کے مختلف ٹونے اور
ٹوٹگے ہوتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے دھاگے اپنے ہاتھوں کے ساتھ باند لیتے ہیں ۔
یہ ہندوانہ رسمیں ہیں۔ چوں کہ ہم جس معاشرت میں رہ رہے ہیں؛ اس معاشرے میں
ایک طویل عرصہ ہم ہندوؤں کے ساتھ گزارتے آئے ہیں اور بہت ساری ضعیف
الاعتقادیاں ابھی تک ہمارے اندر موجود ہیں۔ اور یہ کسی نے امام ضامن باندھ
لیا، کسی نے دھاگا باند لیا، کسی نے نئی گاڑی خریدی تو اس کے پیچھے ٹوٹا
ہوا جوتا باندھ لیا کہ گاڑی کو نظر نہ لگے ۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے
سمجھ دار لوگوں کی گاڑیوں میں بھی پیچھے جوتے بندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح
گھوڑے کے پاؤں کے نیچے جو کُھری ہوتی ہے؛ توکچھ لوگ اسے مقدس سمجھتے ہیں
اور اس کُھری کو پتا نہیں کسی سے دم کرواکے اپنے گھروں کی چوکھٹ یا کہیں
لگاتے ہیں کہ اس سے برکت ہوگی۔ جو گھوڑے کے پاؤں تلے گندگی کو روندتی کُھری
ہے؛ اس میں غلاظت تو آسکتی ہے؛ اس میں برکت کیسے آسکتی ہے۔ تو اِس طرح کی
چیزیں اُس دور میں لوگوں کے اندر میں مروج تھیں۔ اور آج بھی بعض جہلا کے
اندر ایسی چیزیں مروج ہیں۔ اور اس طرح کی چیزیں لوگ اندر رکھتے ہیں۔ …… لال
کافر کے بارے میں اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت علی نے اس کو
ماراتھا؟ اور وہ پھر سال کے بعد اُٹھتا ہے اور چیختا ہے کہ کیا قیامت آگئی
ہے؟ یا نہیں آئی ہے؟ اسے بتایا جاتا ہے کہ نہیں آئی؛ تو پھر وہ دوبارہ وہاں
لیٹ جاتا ہے۔ پھر سال کے بعد اٹھتا ہے ۔ کچھ لوگ اس پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ کوئی ایسی کہانی ہی نہیں ہے۔ اسی طرح
اور بہت سارے قصے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ، سیدۃ
فاطمۃ الزہرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے بہت سارے (فرضی)قصے موجود ہے۔
ہمارے گھروں کے اندر ’’دس بیبیوں کی کہانی‘‘ پڑھی جاتی ہے۔ اور اسی طرح بعض
جگہ پہ’’حضرت علی المرتضیٰ کا معجزہ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ صاحب! معجزہ تو ولی کا
ہوتا ہی نہیں ہے۔ معجزہ تو ہوتا ہی نبی کا ہے۔ لیکن وہ پڑھا جاتا ہے۔ اچھا!
اُس میں ایسی ایسی خرافات ہیں کہ یہ جو دس بیبیوں کی کہانی پڑھی جائے گی اس
میں وہ چیز تقسیم کی جائے گی جس کے نام میں تانیث ہو۔ یعنی برفی تقسیم کی
جائے گی۔ جلیبی تقسیم کی جائے گی۔ اس میں لڈو تقسیم نہیں کیا جائے گا کیوں
کہ لڈو مذکر ہوتا ہے۔ تو برفی چوں کہ یہ تانیث کے صیغے کے ساتھ ہے۔ حالاں
کہ کئی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اردو میں تانیث کے ساتھ بولی جاتی ہے؛ عربی
میں یا دوسری زبانوں میں بطورِ تذکیر استعمال ہوتی ہیں۔ اس طرح پھر وہ لوگ
مردوں کو نہیں دیتے کہ یہ برفی ہے اور یہ دس بیبیوں کی کہانی ہے اس کا تبرک
مرد نہیں کھا سکتے۔ اور جو حضرت علی المرتضیٰ کے حوالے سے ہیں تو وہ عورتیں
کھالیتی ہیں؛ جب کہ اس طور پر نہیں کھانا چاہیے!…… تو یہ عجیب کہانی ہے اور
یہ آج بھی ہمارے معاشرے میں مروج ہے۔ اعلیٰ حضرت نے بڑی شدت سے، بڑی سختی
کے ساتھ ان ساری چیزوں کی تردید کی ہے اور ان ساری چیزوں کی نفی ہے۔
عورتیں اور مزارات کی حاضری : اسی طرح خواتین کے اور بہت سارے مسائل ہیں۔
مزارات پہ خواتین کا جانا یہ محرم کا موسم آتا ہے؛ بسوں کی بسیں بھر کے یہ
عورتیں سلطان باہو جارہی ہیں، یہ فلاں دربار پہ سلامی دینے جارہی ہے۔ اور
وہ بھی بغیر محرم کے، بغیر محارم کے خواتین جارہی ہیں۔ حالاں کہ محرم کے
بغیر خاتون حج بھی نہیں کر سکتی؛ جو اﷲ کی طرف سے فرض ہے اس کے اوپر۔ اگر
اس کے پاس پیسے بھی ہیں،رقم بھی ہے، صحت بھی ہے، فرصت بھی ہے۔ اور وہ کسی
اور کو بھی اپنی خدمت کے لیے کسی مرد اور کسی خاتون بلکہ آٹھ دس لوگوں کو
بھی اپنے ساتھ لے جا سکتی ہے؛ لیکن اس کا محرم کوئی نہیں ہے؛ تو وہ حج ہی
نہیں کرے گی۔ اﷲ اکبر!
ایک خاتون کا مجھے فون آیا؛ وہ کہنے لگی کہ مَیں عمرے پہ جانا چاہتی ہوں
اور میرا محرم نہیں ہے تو کسی کے ساتھ چلی جاؤں؟ تو مَیں نے کہا کہ نہ! آپ
نہیں جائیں گی۔ تو ا س نے کہا کہ سرکار صلی اﷲ علیہ وسلم کا روضہ دیکھنے کو
بڑا جی کرتا ہے۔ مَیں نے کہا سرکار نے ہی منع کیا ہے۔ جن کا روضہ دیکھنے کو
جی کرتا ہے؛ انہیں نے منع کیا ہے۔ ایک صاحب آئے مدینہ شریف سے تو ہاتھ میں
کڑا ڈالا ہوا تھا۔ وہاں سے لوگ کڑے لے آتے ہیں چاندی کے اور لوہے کے۔ تو
انہوں نے باقاعدہ ہاتھ میں کڑا ڈالا ہوا تھا۔ مَیں نے کہا کہ یہ تم نے کیا
کیا؟ یہ تو مردوں کے لیے تو حرام رکھا گیا ہے۔ سونا بھی، (اتنی مقدار میں
)چاندی بھی، لوہا بھی، پیتل بھی۔ یہ کڑے، شڑے یہ سب مرد نہیں پہنتے۔ یہ تم
نے کیا پہنا ہوا ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ یہ مدینہ شریف سے آیا ہوا ہے۔ مَیں
نے کہامدینے والے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ہی نے تواس کو منع کیا ہے۔
تو اس عقیدت سے کہ یہ مدینہ شریف سے آیا ہے؛ اسی طرح درباروں پہ جاکے
مزاروں پہ جا کے بَھنگ پی جاتے ہیں کہ فلاں بابے کی بَھنگ ہے؛ تو یہ بھنگ
بابے کی ہو یا ملنگ کی ہو؛ بھنگ تو بھنگ ہی ہوتی ہے۔ تو اس طرح مختلف
مزارات پہ جا کر کے کوئی چیزیں جائز نہیں ہوجاتیں۔ جو چیزیں یہاں حرام ہیں
مدینہ شریف میں وہ زیادہ حرام ہیں۔ اﷲ والوں کی صحبت میں جاکے وہ زیادہ
حرام ہیں۔ ان کو اور زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ وہاں جب جائیں گے
تو اس دربار احترام بھی تمہارے اوپر لازم ہے اور بھنگ گھوٹ کے پی رہے ہو!
اور اسی طرح کے نعرے لگارہے ہو ۔ اور جب مستی چڑھ جاتی ہے اور چکر آنے لگ
جاتے ہیں تو اس کو سمجھتے ہوں تم کہ ہم رب سے ہم کلام ہورہے ہیں!؟……معاذ اﷲ
! استغفر اﷲ!
تو یہ ساری خرافات ہیں ؛ جو قوم کے اندر مِن حیث القوم موجود ہے۔ اور انہیں
خرافات کا نتیجہ ہے یہ کہ جو بھی کوئی دعویٰ لے کر کھڑا ہوتا ہے ؛ لوگ اس
کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہ مختلف عاملین، مختلف ملنگ اور مختلف شریعت کے
باغی ؛ یہ لوگ معاشرے کے اندر پنپتے ہیں اور ا ن کے گردایک دم لوگوں کا
ہجوم جمع ہوجاتا ہے۔ اور مجھے سب سے زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب یہاں کوئی
جمعۃ المبارک پڑھنے والا یا پیر شریف کی محفل میں آنے والا یا ہمارے ساتھ
وابستہ کوئی شخص؛ اس کے بارے میں مَیں سُنوں کہ وہ کسی ملنگ کے پاس گیا۔
مَر جاؤ! لیکن ان کے پاس مت جاؤ۔ اس لیے کہ یہ جو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کی شریعت کے باغی ہیں ؛ ان کے پاس جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ……یہ ایک
بہت بڑی درد ناک صورتِ حال ہے کہ ہمارے معاشرے میں ضعف الاعتقادی پائی جاتی
ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا یہ کہ لوگ ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں ۔
طریقت اور تصوف کا حقیقی چہرہ: اسی طرح طریقت کا جو معیار ہے ۔ اعلیٰ حضرت
نے اس پر بھی بات کی ہے۔اصلاح کی ہے اور زور دیا ہے۔ باقاعدہ چار شرائط
رکھی ہیں پیر کے لیے۔ حالاں کہ ماضی کے اندر ہمارے اسلاف نے تو بڑا ہی زور
دیا تھا۔ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ تو فرماتے ہیں کہ پہلے سندِ حدیث
ہو۔ پھر اس کے بعد طریقت کا سفر طے کیا ہو۔ اور باقاعدہ کسی شیخ کی صحبت
پائی ہو۔ اور اس سے اجازت و خلافت ہو تو پھر اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ مسندِ
ارشاد پہ بیٹھ کے کسی کو وعظ و تلقین کرے اور اس کی روحانی رہنمائی کرے۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ کم از کم یہ شرائط پائی جائے۔ اور اس سے
بھی پیچھے چلے جائیں اور اس کے بعد بھی کئی صوفیہ نے کہا ہے کہ اتنی دیر تک
حق ہی نہیں ہے کسی کو طریقت میں داخل کرنے کا کہ جب تک وہ لوحِ محفوظ پہ
نظر نہ رکھتا ہو کہ یہ شقی ہے یاسعید ہے۔ اگر وہ شقی ہے تو اس کی شقاوت کو
پہلے سعادت میں بدلے پھر طریقت میں داخل کرے۔ تو یہاں تک ماضی میں شرائط
تھیں۔ حضور غوث اعظم نے بارہ شرائط لگائی ہیں؛ مسندِ مشیخیت کے اوپر بیٹھنے
کے لیے۔ اس طرح مختلف ادوار کے اندر مختلف بزرگوں نے مختلف شرطیں لگائی
ہیں۔ اپنے اپنے ادوار کے مطابق۔ لیکن یہ دور؛ جس میں ہم ہیں ؛ اعلیٰ حضرت
نے صرف چار شرطیں لگائی ہیں۔ پہلی شرط کہ اس کا سلسلہ متصل ہو جنابِ رسالت
مآب صلی اﷲ علیہ وسلم تک۔ کہ وہ بغیر اجازت کے مسند پہ نا بیٹھا ہو۔ بلکہ
اس کا دست بدست سلسلہ حضور علیہ السلام تک پہنچتا ہو۔ ایک تو شرط یہ ہے۔
دوسری شرط آپ نے یہ لگائی کہ فاسقِ معلن نہ ہو۔ اعلانیہ فسق نہ کرنے والوں
ہو۔ متقی ہو ، تقویٰ شرط ہے اس کے لیے۔ چوں کہ یہ راستہ خیر کا راستہ ہے
نا۔ تو اگر خود فاسقِ معلن ہوگا اعلانیہ فسق کرے گا ،شریعت رسالت مآب صلی
اﷲ علیہ وسلم سے باغی ہوگا ؛ پھر وہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ مسندِ مشیخیت کے
اوپر بیٹھے۔ اور تیسرا فرمایا کہ وہ عالم ہو عالم۔ اپنی ضرورت کے مسائل کتب
سے نکال کرکے معلوم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور اگر یہ اس کے اندر صلاحیت
نہیں ہے تو پھر وہ کس طرح کسی کی رہنمائی کرے گا۔ اورآج اس دور میں دیکھ
لیجیے ؛ اگر صرف انہیں معیارات پہ پرکھیں گے جو اعلیٰ حضرت نے ہمیں بتائے
ہیں ؛ تو انہیں معیارات پر کتنے لوگ فارغ ہوجائیں گے۔ اور آپ نے چوتھا
معیار یہ بیان فرمایا بلکہ وہ بنیادی ہے کہ صحتِ عقیدہ رکھتا ہو۔ (سُنّی
صحیح العقیدہ ہو۔)اس کے عقیدے میں صحت ہو۔ وہی عقائد جو ہمارے اسلاف کے
ہمارے بزرگوں کے عقائد تھے۔ بہت سارے لوگ تو یہاں فارغ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے
کہ ان کے عقائد روافض کے عقائد ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فاسق معلن؛ اعلانیہ
فسق کرنے والے ، شریعت کے باغی، بغیر حجاب کے خواتین سے ملاقات کرنے والے
اور مرد و زن سے اختلاط کرنے والے ، اس کے بعد پھر علم سے تو واسطہ ہی
نہیں؛ بلکہ وہ تو سیدھا سیدھا کہتے ہیں کہ اپنی اور مولوی کی کبھی لگی ہی
نہیں۔ تو کیوں لگے گی آپ کی اور مولوی کی؟ کیوں کہ علما شریعت کا راستہ
بتاتے ہیں اور تم شریعت سے بغاوت سکھاتے ہو۔ اور جو سچا صوفی ہوتا ہے وہ
سچا عالم بھی ہوتا ہے۔ وہ شریعت کا پہرے دار بھی ہوتا ہے اور وہ شریعت کا
نوکر بھی ہوتا ہے۔ پھر اس کا سلسلہ حضور تک متصل ہو۔ یہ چوتھی شرط ہے ۔ اور
ظاہر ہے کہ ایسے لوگ، ان کو کون اس مسند پہ بٹھا کے گیا ہے؟ تو وہ از خود
براجماں ہوگئے ہیں۔ اور وہ پہلے تو ہوتا تھا نا ’’سجادہ نشین‘‘ ؛ مَیں نے
اس سے پہلے بتایا تھا عربی میں سجادہ’’ مصلے‘‘ کو کہتے ہیں۔ کہ اپنے باپ کے
مصلے پہ بیٹھ جائے وہ معمولات اختیار کرے۔ تو اب سجادہ نشین تو نہیں ہیں اب
تو گدی نشین ہیں۔ اور وہ اس گدی پہ بیٹھ گئے ہیں۔ اور کمائی کا ایک ذریعہ
ہے۔ بڑا ساگلّہ رکھ لیے ہیں۔ جتنا بڑا دربار بنالوگے اتنا کاروبار بڑا چل
جائے گا۔ اسی لیے یہ دوڑ لگ گئی ہے۔ یہ باتیں تلخ ہوں گی لیکن حقیقت پر
مشتمل ہیں۔ آپ دائیں بائیں نظر اُٹھا کرکے دیکھو جنہیں شریعت کے بنیادی
مسائل بھی نہیں آتے؛ بنیادی مسائل بھی نہیں آتے؛ وہ مسندِ مشیخیت پہ بیٹھے
ہیں۔ جنہیں طہارت کے مسائل بھی نہیں آتے، ظاہری طہارت کے ؛ وہ لوگوں کا دل
پاک کرنے کی ذمہ داری لیے بیٹھے ہیں۔ جنہیں بدن کی طہارت کے اسلوب سے بھی
آگہی نہیں ہے ؛ وہ دل صاف کیسے کریں گے؛ جنہیں بدن صاف کرنا نہیں آتا۔ جن
کا سلسلہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تک اپنا متصل نہیں ہے تو وہ ہاتھ پہ ہاتھ
لے کرکے کسی کا ؛ اس کو حضور کی دہلیز تک کیسے پہنچائیں گے۔ جو خود فاسقِ
معلن ہیں؛ اعلانیہ فسق کرنے والے ہیں تو وہ کس طرح کسی کو شریعتِ اسلامیہ
کا خوگر اور عادی بنائیں گے۔ تو اعلیٰ حضرت نے تصوف کا جو حقیقی چہرہ تھا
وہ لوگوں کے سامنے رکھا۔ جو بدعات، منکرات اور خرافات تھیں ان سے لوگوں کو
بچانے کی کوشش کی۔ اور لوگوں کو صحیح راستہ دکھایا۔
مزارات پر حاضری، طواف و سجدۂ قبور: اسی طرح آدابِ شرع بتائے۔ مزارات پہ
حاضری کے آداب بتائے۔ کہ وہاں جا کر کے قبر کو چومنا بھی نہیں ہے ، سجدہ
بھی نہیں کرنا۔ فرمایا طوافِ قبور اور سجدۂ قبور بالاتفاق حرام ہے۔ کوئی
بھی اس کو حلال نہیں کہتا۔ جائز نہیں کہتا۔ اس کے جواز کا چودہ صدیوں میں
ایک عالم بھی قائل نہیں رہا۔ طوافِ قبور بھی حرام ہے اور سجدۂ قبور بھی
حرام ہے۔ زیارتِ قبور بالاتفاق جائز ہے۔ قبروں کی زیارت کرنا اس میں بھی
کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سارے کہتے ہیں قبروں پہ جانا چاہیے۔ اور قبروں کی
زیارت کرنی چاہیے۔ یہ دو مسئلے؛ ایک بالاتفاق حرام؛ یعنی سجدۂ قبور اور
طوافِ قبور بالاتفاق حرام۔ اور زیارتِ قبور، حاضریِ قبور بالاتفاق جائز۔
درمیان میں آگیا بوسۂ قبور؛ یعنی قبر کو چومنا۔ تو کہا قبر کو چومنا مختلف
فیہ ہے۔ اس میں اختلاف ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ چومنے میں کوئی حرج
نہیں۔ ان کی دلیل حضرت بلال حبشی کا عمل ہے۔ جب وہ حضور کے وصال کے بعد
شہرِ مدینہ چھوڑ گئے تھے۔ کہتے تھے کہ ان گلیوں میں اب حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم نظر نہیں آتے۔ حضور کے وصال کے بعد تو ایک قیامت بپا ہوگئی تھی نا
صحابہ پر! حضرت سیدہ فاطمہ بولیں
صبت علیَ مصائب لو انھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
میرے اوپر مصیبتوں کے وہ پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں ؛ اگر دنوں پہ پڑتے تو دن کالی
راتیں بن جاتے۔ اﷲ اکبر!…… حضرت حسان ابن ثابت کہتے ہیں کہ کاش! مجھے کالا
سانپ کاٹ جاتا۔ اور اتنا گہرا ڈنک لگاتا کہ مَیں دوسری سانس نہ لیتا۔ حضرت
عمر تلوار لیے کھڑے تھے کہ کسی نے کہا کہ حضور کا وصال ہوا ہے ؛ مَیں گردن
کاٹ لوں گا۔ ایسی سکتے کی کیفیت ان پر طاری تھی۔ عجیب عالم تھا۔ وہ دراز
گوش جس کے اوپر حضور سواری کیا کرتے تھے؛ وہ قبیلہ بنو سُلیم کے کنویں میں
چھلانگ لگا کے جان کی بازی ہار دیتا ہے کہ حضور چلے گئے ہیں ہم نے جی کے
کیا لینا ہے۔ وہ اونٹنی ؛ جو حضور کی سواری تھی وہ سیدہ فاطمہ کے دروازے پہ
سر رکھ کے باقاعدہ روتی تھی۔ اور رو رو کے اندھی ہوگئی تھی۔ لوگوں نے پھر
اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی تھی۔ وہ نابینا ہوگئی تھی رو رو کے۔ لوگ چارہ
دیتے تھے چارہ نہیں کھاتی تھی۔ حضور کی جدائی کا غم اور صدمہ اسے ندھال کئے
ہوئے تھا۔ حضرت عبداﷲ بن زید اپنے باغ میں پانی دے رہے ہیں؛ کسی نے جا کے
کہا کہ حضور کا وصال ہوگیا ہے۔ انہوں نے ہاتھ اُٹھایا اللّٰھم اذہب بصری
حتیٰ لا اریٰ بعد حبیبی محمد احدا۔ اے اﷲ! میری آنکھوں کی بینائی اُچک لے۔
یہ آنکھیں اس لیے روشن تھیں کہ تیرے محبوب کو دیکھتا تھا۔ اب حضور ہی چلے
گئے ہیں تو مَیں نے آنکھوں کے دِیے کیا کرناہے؟ تو ان کی آنکھوں کی روشنی
اُٹھالی گئی۔ کسی نے جاکے افسوس کیا؛ کہ بڑا افسوس ہے کہ تم نابینا ہوگئے
ہو۔ آپ نے کہا کہ تمہیں افسوس ہوگا مجھے تو نہیں۔ مَیں نے تو آنکھیں رکھی
ہی حضور کو دیکھنے کے لیے تھی۔
تو وہ بڑا منظر تھا۔ حضور کے وصال کے بعد صحابہ کے درد کا۔ قیامتیں ٹوٹ گئی
تھیں۔ مدینے کی گلیوں کے اندر صحابہ روتے تھے۔ اور حضرت بلال حبشی تو پھر
حضور کی محبت میں فریفتہ، حضور کے خاذن، حضور کے مؤذن۔ حضور علیہ السلام ؛
جو بھی رقم ہوتی جو بھی پیسہ ہوتا وہ بلال حبشی کو دیتے ؛ لو تم جانو اور
گھر کا سامان جانے۔ حضور کے خاذن بھی تھے۔ اور حضور کے مؤذن بھی تھے۔ حضور
کے خادم بھی تھے۔ اب حضور چلے گئے ہیں تو یہ شہر ہی چھوڑگئے ہیں۔
شام کا شہر ہے ’’داریہ‘‘ وہاں جاکے انہوں نے سکونت اختیار کرلی۔ حضرت عمر
کے زمانے میں حضور خواب میں ملے حضرت بلال حبشی کو۔ اور کیا کہا؟ ما ہٰذہ
الجفوۃ یا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟ بلال! یہ کیا بے وفائی؟ یار ہوکے ملنے
بھی نہیں آتے ہو؟بس پھر بلال پر قیامت ٹوٹ گئی۔ اُٹھے، اپنی تیز رفتار
سواری پہ بیٹھے اور دن رات سفر کرتے ہوئے مدینے پہنچے۔ اور جب مدینہ پہنچے
؛ تو اب جو مَیں عرض کرنے لگا ہوں ؛ حدیث کے لفظ ہیں و مرغ وجہہ علیٰ قبر
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و الہٖ وسلم۔ ابنِ عساکر نے اس کو لکھا ہے۔ تاریخ کی
کتاب ہے ابن عساکر۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب شاید سب سے بڑی کتاب
ہو۔ میرے پاس ساری کتاب تو نہیں ہے کتاب کا خلاصہ مَیں نے خریدا تھا۔ چالیس
جلدوں پر ہے۔ کتاب کا جو خلاصہ ہے وہ چالیس جلدوں میں ہے۔ میرے خیال سے ایک
لاکھ بیس ہزار روپے میں اب اس کو خلاصہ آرہا۔ اور اگر وہ کتاب ہو تو وہ
کتنی بڑی ہوگی؟ جو اس کو شارٹ کر کرکے خلاصہ بنایا ہے۔ تو اس میں یہ واقعہ
موجود ہے۔ کہ حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ آئے و مرغ وجہہ علیٰ قبر رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے روضۂ انور پہ، حضور کی
قبرِ انور کی مٹی پہ اپنا رخسار ملتے تھے۔
تو جنہوں نے چومنے کا جواز ثابت کیا ہے ؛ وہ حضرت بلال کے عمل سے کیا ہے۔
اسی طرح مروان بن حَکم آیا مدینہ منورہ میں؛ تو اس نے دیکھا کہ حضور کے
روضۂ انور پہ کوئی شخص بازو پھیلاکے حضور کے حضور کے روضۂ انور کو چوم رہا
ہے۔ حضور کی قبر شریف کو چوم رہا ہے۔اپنے رخسار رگڑ رہا۔ تو اس نے جھڑکنے
کے انداز میں کہا : کون ہے؟ تو وہ جو چوم رہا تھا نا! وہ بھی کوئی معمولی
شخص نہیں تھا۔ اس نے سر اُٹھا کے کہا : مَیں کسی پتھر کو نہیں پوج رہا۔
اپنے آقا کی قبر کو چوم رہا ہوں۔ تو جب وہ بولا تو مروان کو پتا چلا کہ یہ
کون ہے؛ فاذا ہوا الشیخ ابو ایوب الانصاری! یہ صحابیِ رسول، میزبانِ رسول
حضرت ابو ایوب انصاری ہیں۔
تو یہ دو واقعات ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس سے ثابت ہوا کہ یہ صحابہ
کاعمل ہے؛ تو چومنا جائز ہے۔ بعض نے کہا کہ نہیں۔ جب کوئی چوم رہا ہو تو شک
پڑتا ہے کہ سجدہ ریز نہ ہو رہا ہو تو اس لیے احتیاط لازمی ہے۔ یہ علما کے
مابین اختلاف ہے۔ اعلیٰ حضرت کا اپنا موقف کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں؛ احوط یہ
ہے کہ نہ چوما جائے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ نہ چوما جائے۔ میرا خیال یہ ہے
کہ اعلیٰ حضرت نے جو کہا وہ درست کہا۔ اور ان دو اصحاب نے جو چوما اس کی
کیا وجہ تھی؟ کہ ایک مدت کے بعد یہ آئے تھے۔ حضرت بلال حبشی اور ان کی
کیفیت تھی۔ اگر کوئی اس کیفیت میں ہو تو اس کا حکم اور ہے۔ لیکن اگر آپ عام
حالت میں ہوں؛ تو پھر یہی ادب ہے کہ آپ پیچھے ہٹ کے کھڑے ہوں ، سلام پیش
کریں ، فاتحہ پڑھیں اور واپسی۔
اعلیٰ حضرت نے یہ سب کچھ واضح کردیا۔ پھر خواتین کے حوالے سے پوچھا گیا۔ کہ
ان خواتین کو مزارات پہ جانا چاہیے یا نہیں جانا چاہیے؟ تو بڑا سخت موقف
دیا۔ کہا تم یہ پوچھتے ہو ؛ مجھ سے یہ پوچھو کہ جانے والی عورتوں پہ لعنتیں
کتنی پڑتی ہیں۔ یہ نہ پوچھو کہ جانا چاہیے یا نہیں جانا چاہیے۔ تو اگر
محارم کے بغیر خواتین جاتی ہیں، بے پردہ جاتی ہیں ، وہاں پہ اختلاطِ مرد و
زن ہوتا ہے۔ تو یہ موجب لعنت ہے۔ جن لوگوں نے خواتین کے جانے کا جواز بیان
کیا ہے اور کہا کہ جو حضور نے اجازت دی تھی اس میں خواتین بھی شامل ہیں ؛
تو انہوں نے بھی شرائط پہ اجازت دی ہے۔ اور وہ شرطیں ہیں کہ وہاں اختلاطِ
مرد و زن نہ ہو۔ عورتیں محارم کے بغیر نہ ہوں۔پردے کے بغیر نہ ہوں۔ اور
وہاں جزع فزع نہ کریں؛ آہ و بقا نہ کریں۔ یہ چار شرطیں پائی جائیں تو پھر
کم از کم جائز ہوتا ہے؛ ضروری نہیں ہوتا۔ اور اگر یہ چار شرطیں نہیں ہیں؛
اِن میں سے کوئی ایک بھی کم ہے تو پھر عورتوں کو نہیں جانا چاہیے۔ …… تو یہ
اعلیٰ حضرت نے ہمیں پاکیزہ ، ستھرا، نکھرا ہوا مسلک دیا ہے۔ اب ہمارے جہلا
سُنّی کہلانے والے مسلمان کہلانے والے اگر قبروں پہ جاکے اگر سجدہ ریز ہوں
یا ماتھے رگڑیں یا اس طرح کے غیر شرعی امور بجا لائیں یا اپنے ہاتھوں پہ
دھاگے باندھتے پھریں یا اپنی گاڑیوں پہ جوتے باندھیں یا جانوروں کی کھریاں
باندھیں یا وہ ملنگوں کے پاس بیٹھے ہوں اور بھنگ کو گھوٹ گھوٹ کے پی رہے
ہوں اور متعفن اور بد بو دار لوگوں کو اپنا ہادی یا رہ نما سمجھتے ہوں ؛ تو
یہ ان کی اپنی اُفتادِ طبع ہے؛ نہ یہ دینِ رسول کی تعلیم ہے اور نہ یہ
مسلکِ اعلیٰ حضرت کا پیغام ہے۔ اس لیے کہ اعلیٰ حضرت نے تو ان کی تردید کی
ہے۔ اور سختی سے تردید کی ہے۔ اور بہت سارے امور ہیں؛ جن پر بحث کی جا سکتی
ہے لیکن وقت کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ مَیں اس وقت مزید تفصیل سے
بات کروں ۔
25-10-2018٭٭٭
|