رسولِ گرامی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے مسلمانوں
کا رشتہ روح کا ہے۔ ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے مابین
حساس رہا ہے اور جب بھی عقیدے کے اِس پہلو پر آنچ آئی مسلمان تڑپ اُٹھے۔
جانوں کا نذرانہ پیش کر کے رسولِ گرامی صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت و
اُلفت کا بھر پوراظہار کیا اور گستاخِ رسول کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر ہی
دَم لیا۔علامہ ارشدالقادری لکھتے ہیں:
’’ حبِ رسول کی وارفتگی کا یہ رُخ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی گستاخ
کے خلاف غم و غصہ اورنفرت و غضب کے اظہار کے سوال پر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ
نشانے پر کون ہے؟ باہر کا ہو یا اندر کا جس نے بھی رسول کی شان میں
گستاخانہ جسارت کا اظہار کیا مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کی تلوار اُس کے
خلاف بے نیام ہو گئی…………علماے دیوبندکے خلاف بھی ہمارے غم و غصہ کی سب سے
بڑی بنیاد یہی ہے کہ اُن کے اکابر نے اپنی بعض کتابوں میں رسول محترم صلی
اﷲ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں سخت گستاخانہ کلمات استعمال کیے ہیں۔
‘‘(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ
پبلشنگ کمپنی لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۶۔۷، مقدمہ)
علماے دیوبند کی وہ کتابیں جن میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جناب میں
توہین صادر ہوئی، ان پر علماے حق نے باز پرس کی اور ان عبارتوں سے باز آنے
کی گزارش کی لیکن بجائے ندامت و توبہ کے وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ ان پر قائم
رہے اور اپنی گستاخانہ عبارتوں کی بے جا تاویلیں کرتے رہے۔
ہندوستان میں وہابیت کا آغاز:
ہندوستان میں وہابیت کا آغاز شاہ اسماعیل دہلوی کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘
سے ہوا۔ اس وقت اکابرینِ اسلام نے اس کا رد کیا ۔اس کتاب کی تعریف میں
مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’کتاب تقویۃالایمان نہایت عمدہ کتاب ہے۔‘‘
چند سطروں کے بعد لکھتے ہیں: ’’اس کا رکھنا اور پڑھنا اور عمل کرنا عین
اسلام ہے۔‘‘(فتاویٰ رشیدیہ، مولوی رشید احمد گنگوہی،فرید بک ڈپو دہلی، س ن،
ص۷۸)
شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی ’’تقویۃالایمان‘‘ سے متعلق لکھتے ہیں:
’’حضرت مجدد (الف ثانی) کے زمانے سے ۱۲۴۰ھ تک ہندوستان کے مسلمان دوفرقوں
میں بٹے رہے:ایک اہلِ سنت وجماعت ، دوسرے شیعہ۔ اب مولانا اسماعیل دہلوی کا
ظہور ہوا، وہ شاہ ولی اﷲ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین اور
شاہ عبدالقادر کے بھتیجے تھے۔ ان کا میلان محمد بن عبدالوہاب نجدی کی طرف
ہوا اور نجدی کا رسالہ ’’ردالاشراک‘‘ ان کی نظر سے گزرا اور انھوں نے اردو
میں ’’تقویۃالایمان‘‘ لکھی، اس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا،
کوئی غیر مقلد ہوا، کوئی وہابی بنا، کوئی اہلِ حدیث کہلایا، کسی نے اپنے
کوسلفی کہا، ائمہ مجتہدین کی جومنزلت تھی اوراحترام دل میں تھا وہ ختم ہوا۔
معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے۔ اورافسوس اس بات کا ہے کہ
توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہِ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات کا
سلسلہ شروع کردیا گیا۔ یہ ساری قباحتیں ماہ ربیع الآخر ۱۲۴۰ھ کے بعد سے
ظاہر ہونی شروع ہوئی ہیں۔ اس وقت کے تمام جلیل القدر علما کا دہلی کی جامع
مسجد میں اجتماع ہوا اور ان حضرات نے بہ اتفاق اس کتاب کا رد کیا۔‘‘(مولانا
اسماعیل دہلوی اور تقویۃالایمان، شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی، حضرت شاہ
ابوالخیر اکاڈمی دہلی۶،۱۴۳۲ھ/۲۰۱۱ء،ص۹۔۱۰)
مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی’’وہابیت‘‘سے متعلق لکھتے ہیں:
’’ اس وقت اور ان اطراف میں ’’وہابی‘‘ متبعِ سنت اوردین دار کو کہتے
ہیں۔‘‘(فتاویٰ رشیدیہ،فرید بک ڈپو دہلی،س ن، ص۱۱۰)
’’محمد بن عبدالوہاب کو لوگ وہابی کہتے ہیں وہ اچھا آدمی تھا۔‘‘(فتاویٰ
رشیدیہ،فرید بک ڈپو دہلی،س ن، ص۲۸۰)
’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ
تھے۔‘‘(مرجع سابق)
شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی ’’وہابیت‘‘ کی ’’دیوبندی شاخ‘‘ سے متعلق
لکھتے ہیں: ’’جمادی الآخرہ ۱۳۱۷ھ میں حضرت حاجی (امداداﷲ) صاحب رحلت فرمائے
خلدبریں ہوئے۔ اب مولوی(اشرف علی تھانوی) صاحب کے واسطے راستہ صاف ہوا۔ ان
پر نئی تحقیق کی راہیں کھل گئیں۔ سب سے پہلے انھوں نے علم غیب کے مسئلہ کو
چھیڑا اور رسالہ ’’حفظ الایمان‘‘ لکھ کر بے حساب غلامانِ بارگاہِ رسالت کو
ایذا پہنچائی۔ یہ واقعہ ۱۳۱۹ھ کے اوائل کا ہے۔‘‘(مقاماتِ خیر۱۳۹۲ھ،شاہ
ابوالحسن زید فاروقی،شاہ ابوالخیر اکاڈی دہلی۱۹۸۹ء،ص۲۴۳)
حسام الحرمین:
علماے حق نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر علماے دیوبند اور برصغیر میں پنپ رہے
باطل عقائد پر شرعی گرفت کرتے ہوئے انھیں سمجھانے کی کوشش کی اور آخرت کا
خوف دلایا۔ جب دیکھا کہ وہ جنبش کو تیار نہیں تو پھر ان کا شرعی مواخذہ کیا
۔ ان علماے ربانیین میں ایک نام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی
(ولادت ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء -وصال ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کا ہے۔آپ نے ان عقائد و گستاخیوں سے
متعلق تنبیہ و توبہ کی ترغیب کے بعد دینی ضرورت سمجھتے ہوئے علماے حرمین کی
خدمت میں بِلا کم وکاست گستاخانہ عبارتوں کو پیش کیا اور حکم شرع واضح کرتے
ہوئے علماے حرمین سے تصدیق چاہی۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ علامہ فضل
رسول بدایونی (م۱۲۸۹ھ)کی کتاب ’’المعتقد المنتقد‘‘ پر امام احمد رضا نے
حاشیہ لکھا بہ نام ’’المعتمد المستند‘‘، اس کا خلاصہ امام احمد رضا نے
دوسرے سفر حج ۱۳۲۳ھ میں علماے حرمین کی خدمت میں پیش کیااور اس میں
ہندوستان میں پیدا ہونے والے فرقوں مثلاً قادیانی، نیچری،وہابی، دیوبندی،
غیر مقلد وغیرہم کے عقائد ذکر کیے۔جس پر ۳۳؍علماے حرمین نے مذکورہ فرقوں پر
فتاویٰ کفر صادر فرمایا جس کی اشاعت ’’حسام الحرمین علی
منحرالکفروالمین‘‘(۱۳۲۴ھ) کے نام سے ہوئی۔
فتاویٰ حسام الحرمین کی اشاعت عربی میں ہوئی جب کہ اردو اور انگریزی تراجم
بھی ہندوپاک سے بار بار شائع ہو چکے ہیں اور ساری دُنیا میں ان کی مقبولیت
ہے۔
الصوارم الہندیہ:
علماے حرمین کی تصدیقات’’حسام الحرمین‘‘ کے نام سے شائع تھیں۔ اعلیٰ حضرت
کے وصال (۱۳۴۰ھ) کے پانچ سال بعد ۱۳۴۵ھ میں مولانا حشمت علی خان قادری نے
ان فتاویٰ پر علماومشائخِ برِ صغیر کی تصدیقات لیں اور ان کی اشاعت
’’الصوارم الہندیہ‘‘(۱۳۴۵ھ)کے نام سے کی۔ راقم کے پیشِ نظر ’’الصوارم
الہندیہ‘‘کا جو ایڈیشن ہے وہ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہورکا شائع کردہ
ہے۔ اس میں ۲۶۸؍تصدیقات ہیں۔
ان سطور میں یہ بتانا مقصود ہے کہ فرق ہاے باطلہ کی تردید و مخالفت میں
جہاں دوسرے سلاسلِ طریقت کے مشائخ وعلما کا اہم رول رہا ہے وہیں سلسلۂ
نقشبندیہ سے وابستہ اکابر نے بھی اہلِ سنت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ باطل
عقائد کی کھلی مخالفت کی اور فتاوے و تصدیقات جاری کیں۔آج کل وہابی دیوبندی
اپنی حقیقت چھپا کر ’’منافقت‘‘ سے کام لیتے ہیں اور کبھی نقشبندی، قادری یا
چشتی کہلوا کر بھولے بھالے مسلمانوں کو دیوبندی بنانے کی کوششیں کرتے ہیں،
یہی حال ان کی تبلیغی جماعت کا بھی ہے۔اس ضمن میں سید اکرام حسین سیکری
(سجادہ نشین خانقاہ عالیہ سیکر شریف میرپورسندھ) کے نام (مکتوب
محررہ۲۳؍دسمبر۲۰۰۳ء میں) پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمدنقشبندی لکھتے ہیں:
’’یہ آپ نے صحیح فرمایا کہ سلسلۂ نقشبندیہ میں وہابیہ دیوبندیہ داخل ہوگئے
ہیں۔ فقیر نے ’’جہانِ امام ربانی‘‘ میں اس کا ازالہ کیا ہے۔ بلکہ شروع ہی
میں امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کا ذکر کر دیا ہے اور اپنے
ابتدایے میں یہ واضح کیا ہے کہ وہابیہ دیوبندیہ نے حضرت مجدد الف ثانی علیہ
الرحمہ(کی تعلیمات) کا استحصال کیا ہے اور دوسری طرف امام احمد رضا نے
-تعلیماتِ مجددیہ- کو فروغ دیا۔‘‘(مکتوباتِ مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی،
ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۶۷۔۶۸)
امام احمد رضا محدث بریلوی نے’’حسام الحرمین‘‘ کی اشاعت کروائی۔ جس پر
علماے دیوبند کی طرف سے کفریہ عبارتوں کی تاویل کی کوشش میں
’’المہند‘‘(ازمولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی) شائع ہوئی۔ اس کے حقائق کا
پردہ چاک کرتے ہوئے شاہ ابوالحسن زیدفاروقی مجددی لکھتے ہیں: ’’المہند نے
حفظ الایمان کی عبارت کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے:’’اس غیب سے مراد کیا ہے۔
یعنی غیب کا ہرہر فرد یا بعض غیب، کوئی کیوں نہ ہو،پس اگر بعض غیب مراد ہے
تو رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی تخصیص نہ رہی۔ کیوں کہ بعض غیب کا علم
اگرچہ تھوڑا سا ہو، زید و عمرو بلکہ ہر بچہ اور دیوانہ بلکہ جملہ حیوانات
اور چوپاؤں کوبھی حاصل ہے۔‘‘ اور اسی عبارت کو عربی جامہ پہنایا ہے۔ رسالہ
حفظ الایمان میں جو عبارت ہے، یہ عاجز نقل کر چکا ہے۔ دونوں عبارتوں کے
الفاظ میں بڑافرق ہے۔ اور خرابی کی جڑ ’’کلمۂ ایسا‘‘ ہے کو معرب و مترجم
صاحب نے حذف کردیا ہے۔ عبارت کو ان ہی الفاظ سے جو حفظ الایمان میں ہیں، نہ
لکھنا اور خرابی کی جڑ کو حذف کرنا، ظاہر کررہا ہے کہ خود معرب و مترجم کو
پورا کھٹکا تھا کہ اگر وہی الفاظ بیان کیے گئے اور انھیں کو عربی کا لباس
پہنایا گیا تو یقینا علماے کرام کی آرا موافقت میں نہیں آئیں گی۔‘‘(مقاماتِ
خیر۱۳۹۲ھ،شاہ ابوالحسن زید فاروقی،شاہ ابوالخیر اکاڈی دہلی۱۹۸۹ء،ص۲۴۵)
مشائخ نقشبندیہ اور اہلِ سنت:
مشائخِ نقشبندیہ نے ہر دور میں عقائد ومعمولاتِ اہلِ سنت کی حفاظت کے لیے
سرگرمی دکھائی اور فرق ہاے باطلہ کی تردید کی۔ اس ضمن میں چند مثالیں
ملاحظہ کریں:
[۱]حضرت حاجی دوست محمد نقشبندی قندھاری تحریر فرماتے ہیں: ’’ولی کی علامت
یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اہل سنت والجماعت کے اعتقادات پر ثابت قدم ہو اور
باقی سب اہلِ قبلہ یعنی شیعہ، وہابیہ، رافضیہ وغیرہ وغیرہ فرقوں کے
اعتقادات سے دور رہتا ہو۔‘‘(تحفۂ ابراہیمیہ؛مکتوباتِ مولانا دوست محمد
قندھاری، اردوترجمہ:محمداحمد،طبع زوار اکیڈمی کراچی جولائی ۱۹۹۸ء،ص۹۳)
حضرت دوست محمد قندھاری نقشبندی؛ خان ملا خان کے نام مکتوب (محررہ ربیع
الآخر۱۲۸۱ھ)میں لکھتے ہیں:
’’عرض یہ ہے کہ دس رسالے جو فرقۂ وہابیہ کے اقوال وعقائد کے رد کرنے کے
سلسلہ میں تحریر کیے گئے ہیں وہ اس فقیر کو دست یاب ہوئے ہیں۔ چنان چہ آپ
کی خدمت میں ارسال کیے جارہے ہیں، ان شاء اﷲ آپ کو مل جائیں گے۔آپ کو چاہیے
کہ ہمارے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین متین کی ترقی کے لیے ان رسالوں
کو رائج کریں۔فقیر دعا گوہے کہ رب جلیل آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور اﷲ
جل شانہٗ شریعت مطہرہ اور اہلِ سنت وجماعت کے عقائد پر سلامتی نصیب
فرمائے۔‘‘(تحفۂ ابراہیمیہ؛مکتوباتِ مولانا دوست محمد قندھاری،
اردوترجمہ:محمداحمد،طبع زوار اکیڈمی کراچی جولائی ۱۹۹۸ء،ص۱۶۸۔۱۶۹)
وہابی فرقے کی تردید و مخالفت میں رسائل کی اشاعت کی ترغیب حضرت دوست محمد
قندھاری نقشبندی نے ۱۲۸۱ھ میں دی اس وقت اعلیٰ حضرت کی عمر صرف ۱۰؍سال تھی۔
شیخِ نقشبندیت نے اعلیٰ حضرت کے فتاوے سے قبل ہی وہابیت سے بیزاری کا اظہار
کیا۔
[۲] ۱۳۴۱ھ کے میلاد سے متعلق شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی لکھتے ہیں: ’’
میلاد شریف کے مخالف اور اس کو کُُلُّ بِدْعَۃٍضَلَالَۃ کہنے والے افراد
جیسے مولوی اشفاق الرحمن اور صدر بازار دلی کے اہلِ حدیث جو اچانک آزمائش
کے لیے اس مبارک محفل میں آگئے تھے اور یہی کہتے ہوئے گئے کہ بڑی بابرکت
محفل تھی تو پھر نیک دل افراد پر اگر بعض حقائق کا اظہار ہو تو اس میں تعجب
کی کوئی بات نہیں۔‘‘(مقاماتِ خیر۱۳۹۲ھ،شاہ ابوالحسن زید فاروقی،شاہ
ابوالخیر اکاڈی دہلی۱۹۸۹ء،ص۳۸۱)
میلاد سے متعلق شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی کا یہ قول ہے کہ : ہم یہ مبارک
محفل (میلاد) اس لیے منعقد کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی محبت پیدا ہو۔ آپ کی محبت اصلِ ایمان ہے۔ اس اصل ہی کو حاصل
کرنے کے لیے اس مبارک محفل کا قیام کیا جاتا ہے۔ ‘‘(مقاماتِ خیر۱۳۹۲ھ،شاہ
ابوالحسن زید فاروقی،شاہ ابوالخیر اکاڈی دہلی۱۹۸۹ء،ص۴۴۳)
[۳]حضرت شاہ احمد سعید مجددی مہاجر مدنی فرماتے ہیں:’’مکہ مکرمہ کے یکتائے
روزگار مفسرمحدث مولانا عبداﷲ سراج حنفی جن کے حلقۂ درس میں اس نومولود
فرقہ(وہابیہ) کا سردار نہ صرف با زانوئے ادب حاضر ہوا کرتا تھا بلکہ آپ کی
جامعیت کا معترف بھی تھا، نے بھی قیام کے مستحسن ہونے کا فتویٰ دیا ہے، آپ
کا مُہر زدہ فتویٰ راقم (شاہ احمد سعید) کے پاس موجود ہے، جو چاہے دیکھ
سکتا ہے۔‘‘ (اثبات المولدوالقیام،شاہ احمد سعید مجددی، مترجم مولانا محمد
رشید نقشبندی، مرکزی مجلس رضا لاہور اکتوبر ۱۹۸۰ء،ص۳۰)
حضرت شاہ احمد سعید کے فرزند گرامی حضرت شاہ محمد مظہر نقشبندی مجددی مہاجر
مدنی قدس سرہ فرماتے ہیں:
ولم یذکراحدابالسوء الاالفرقۃالضالۃ الوہابیۃ لتحذیرالناس من قباحۃ افعالھم
واقوالھم
پھر اسی صفحہ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں:وکان قدس سرہ یقول ادنی ضررصحبتھم ان
محبۃالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم التی ھی من اعظم ارکان الایمان تنقص ساعۃ
فساعۃحتی لایبقٰی منھا غیر الاسم والرسم فکیف یکون اعلاہ فالحذر الحذر عن
صحبتہم ثم الحذر الحذر عن رؤیتھم اہ فاحفظہ (منہ)
حضرت شاہ احمد سعید قدس سرہ کسی کی برائی نہیں کرتے تھے سوائے وہابیہ کے
گمراہ فرقہ کے، تاکہ لوگوں کو ان کے افعال واقوال کی قباحت سے ڈرائیں، حضرت
فرمایا کرتے تھے کہ وہابیوں کی صحبت کا معمولی نقصان یہ ہے کہ نبی اکرم صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت جوایمان کے بڑے ارکان میں سے ہے، لحظہ بہ لحظہ
کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نام ونشان کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا، جب
معمولی ضرر کا یہ حال ہے تو بڑے نقصان کا کیا عالم ہوگا؟ لہٰذا ان کی صحبت
سے بچو، ضرور بچو، بلکہ ان کی صورت تک دیکھنے سے ضرور بالضرور اجتناب کرو۔
(محمدمظہر مہاجر مدنی، مولانا شاہ، المناقب الاحمدیہ والمقامات السعیدیہ،
مطبوعہ قزان۱۸۹۶ء،ص ۱۷۶-تحقیق الفتویٰ، مقدمہ از علامہ عبدالحکیم شرف
قادری،المجمع الاسلامی مبارک پور۱۴۲۵ھ/۲۰۰۴ء،ص۳۵۔۳۶)
نوٹ: مقاماتِ سعیدیہ-پہلے فارسی میں۱۲۷۷ھ میں دلی کے اکمل المطابع میں
چھپی، پھر عربی میں ۱۳۱۲ھ میں قزان میں چھپی۔(مقاماتِ خیر۱۳۹۲ھ،شاہ
ابوالحسن زید فاروقی،شاہ ابوالخیر اکاڈی دہلی۱۹۸۹ء، ص۸۸)
[۴]مولانا شاہ محمد معصوم مجددی ابن عبدالرشید(م۱۳۴۱ھ) نے میلاد کے جواز پر
’’احسن الکلام فی اثبات المولد والقیام‘‘(تالیف ۱۳۰۵ھ) نام سے کتاب لکھی۔
آج کل سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ کو ’’دیوبندی‘‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے۔حالاں کہ اکابر نقشبندیہ کے عقائد وہی تھے جن کی تصریحات امام احمد
رضا کی کتب و فتاویٰ میں ملتی ہیں، وہ بھی معمولاتِ اہلِ سنت پر کاربند
تھے، بلکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی ولادت سے کافی پہلے جب وہابی تحریک
کا آغاز ہوا اس وقت اکابرِ نقشبندیہ نے وہابیت کی تردید و بیخ کنی میں
فتاوے صادر فرمائے، کتابیں تصنیف کیں، علما کی کتابوں پر تصدیقات ثبت کیں۔
اس تحریر میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے مشہورفتاویٰ ’’حسام الحرمین‘‘ پر
علما ومشائخ نقشبندیہ کی تصدیقات دکھانا مقصود ہے۔اس لیے اسی رُخ سے نکات
درج کیے جارہے ہیں۔
علما ومشائخ نقشبندیہ کی تصدیقات:
[۱]پیر جماعت علی شاہ نقشبندی:
سلسلۂ نقشبندیہ کی عظیم وقدیم خانقاہ ’’علی پورشریف‘‘ کے بزرگ حضرت پیر سید
جماعت علی شاہ محدث علی پوری -حسام الحرمین- کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حسام الحرمین کے فتاویٰ حق ہیں اور اہلِ اسلام کو ان کا ماننا اور ان کے
مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ جو شخص ان کو تسلیم نہیں کرتا وہ راہِ راست سے
دور ہے، حضرت رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان مبارک میں جو شخص
عمداً و سہواً بھی گستاخی کرے اور آپ کی ادنیٰ توہین و تنقیص کا تقریراً یا
تحریراً مرتکب ہو وہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے۔‘‘
(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ
پبلشنگ کمپنی لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۵۵)
پیر جماعت علی شاہ نقشبندی محدث علی پوری کی اس تحریرپر مولانا محمد حسین
(مہتمم مدرسۂ نقشبندیہ علی پور سیداں)، محمد کرم الٰہی بی اے، مولانا خان
محمدوغیرہم کے دستخط ہیں۔
[۲]مولانا دیدار علی الوری نقشبندی:
مولانا دیدار علی الوری رضوی نقشبندی مجددی (سابق خطیب و مدرس مسجد وزیر
خان لاہور) تحریر فرماتے ہیں: ’’حسام الحرمین جو فتویٰ علماے حرمین شریفین
ہے، وہ سر تاپا حق وبجا ہے۔ اور جن اقوال پر فتویٰ دیا گیا ہے فریقین میں
منصف کو ان کی کتابوں سے ان اقوال کو مطابق کر کے دیکھنا کافی ہے۔‘‘
(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ
پبلشنگ کمپنی لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۵۸)
اس پر مزید دستخط کنندگان میں مولانا سید فضل حسین نقشبندی مجددی گجراتی،
سید عبدالرزاق نقشبندی مجددی حیدرآبادی، حاجی احمد نقشبندی شامل ہیں۔
[۳]حضرت قاضی فضل احمد نقشبندی مجددی لدھیانوی:
ٍ حضرت قاضی موصوف تحریر فرماتے ہیں: ’’تمام مسلمانانِ اہلِ سنت وجماعت کو
کتاب مستطاب ’’حسام الحرمین‘‘‘ کے مندرجہ فتاویٰ کو مان کران پر عمل پیرا
ہونا لازم ہے۔ اس کے سوا ایک دیگر کتاب ’’تقدیس الوکیل عن توہین
الرشیدوالخلیل‘‘( تصنیف از مولانا غلام دستگیر قصوری ہاشمی نقشبندی مجددی)
مصدقہ علما ومفاتی ائمہ اربعہ حرمین شریفین زادہمااﷲ شرفا وتعظیماً میں بھی
اسی طرح لکھا ہے جیسے کہ کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ یہ بات طے شدہ ہے کہ عقائد
واقوال مندرجۂ استفتا کلماتِ کفریہ ہیں۔‘‘(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب
مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی
لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۶۸)
[۴] مفتی اعظم دہلی مفتی مظہر اللّٰہ نقشبندی:
مفتی مظہر اﷲ نقشبندی مجددی (سابق شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی) لکھتے
ہیں:
’’اس عاجز کا یہ کہاں زہرہ کہ حضرات علماے کرام حرمین شریفین کے مخالف جنبش
لب کشائی کر سکے، ان حضرات نے جو کچھ فرمایا حق و واجب العمل ہے۔‘‘(الصوارم
الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی
لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۶۸)
مفتی صاحب کے فرزند پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی لکھتے ہیں:
’’حضرت (مفتی محمد مظہراﷲ نقشبندی دہلوی- م۱۹۶۶ء) کے نقش قدم ہمارے سامنے
ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے جن حضرات کی تکفیر فرمائی۔ حضرت قبلہ نے ’’الصوارم
الہندیہ‘‘میں اس کی تائید فرمائی۔اور مسلک کی علامت اور نشانی بن گئے۔ فقیر
نے بھی یہی روش اختیار کی اور اغیار سے نہ کبھی مفاہمت کی اور نہ کسی کو یہ
مشورہ دیا۔‘‘(مکتوباتِ مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام
احمدرضا کراچی۲۰۰۵ء، ص۴۷۲۔۴۷۳)
[۵]مولانا نبی بخش حلوائی نقشبندی:
پیر سیدجماعت علی شاہ لاثانی نقشبندی علی پوری کے خلیفہ مولانا نبی بخش
حلوائی نقشبندی (م۱۳۶۵ھ/۱۹۴۵ء- مصنف تفسیر نبوی) مرید مولانا غلام دستگیر
قصوری ہاشمی نقشبندی اپنی تصدیق میں لکھتے ہیں:
’’جو شخص گنگوہی و تھانوی و دیوبندی مذکورین کا معتقد ہو وہ ضرور وہابی،
کافر و مرتد ہے۔ اس کی کلمہ گوئی و قبلہ روئی وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں وہ
قولہ تعالٰی و من الناس من یقول امناباللّٰہ وبالیوم الآخروماھم بمومنین کا
مصداق ہو کر اہلِ اسلام سے خارج ہوگیا۔گو بظاہر مسلمان کہلائے۔
…………دیوبندی علما آدم نما ابلیس ہیں۔ مسلمانوں کی بولی بول کر کافر بناتے
ہیں۔‘‘(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ
پبلشنگ کمپنی لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۷۵۔۷۶)
[۶]مولانا محمد ریحان حسین عمری مجددی:
مولانا محمد ریحان حسین مجددی (مدرس :مدرسہ ارشادالعلوم رام پور) فرماتے
ہیں: ’’فتاویٰ حسام الحرمین یقینا قابلِ عمل ہے اور صحیح ہے۔‘‘(الصوارم
الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی
لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۷۷)
[۷]مولانا محمد نورالحسین نقشبندی مجددی رام پوری:
مولانا موصوف لکھتے ہیں: ’’حسام الحرمین میں جن علماے حرمین شریفین اہل
السنۃوالجماعۃ کے فتوے ہیں وہ حق اور صواب ہیں۔‘‘(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ،
مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی
لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۱۰۰)
[۸] مولانا محمد معوان حسین مجددی رام پوری:
خانوادۂ مجدد الف ثانی کے فردِ فرید شاہ احمد سعید نقشبندی دہلوی کے شاگرد
و مرید مولانا شاہ ارشاد حسین مجددی رام پوری کے فرزند مولانا محمد معوان
حسین مجددی رام پوری(مدرسہ ارشادالعلوم) لکھتے ہیں:
’’حسام الحرمین کے احکام حسبِ نقول صحیحہ معتبرہ لازم الاتباع
ہیں۔‘‘(الصوارم الہندیہ۱۳۴۵ھ، مرتب مولانا حشمت علی خان قادری، نوریہ رضویہ
پبلشنگ کمپنی لاہور،جنوری۲۰۱۱ء،ص۱۰۱)
یوں ہی دیگر علماے سلسلۂ نقشبندیہ میں مولانا سید غیاث الدین بن مولانا سید
غلام محی الدین نقشبندی(سورت)،مولانا محمد حسن عرب المدنی المغربی السنوسی
القادری النقشبندی الفضل الرحمانی، مولانا فقیر محمد حسن فاروقی مجددی
وغیرہم نے بھی فرق ہاے باطلہ وہابیہ دیابنہ کی تردید کی اور اہلِ سنت پر
استقامت کی تلقین کی۔
مولاناشاہ عبدالغنی مجددی کے شاگرد شیخ عثمان بن عبدالسلام داغستانی
(م۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء مدینہ منورہ) نے امام احمد رضا کی کتب الدولۃالمکیۃ، حسام
الحرمین و فتاویٰ الحرمین نیز تقدیس الوکیل (از مولانا غلام دستگیر قصوری
ہاشمی نقشبندی) پر تقاریظ لکھیں۔(تاریخ الدولۃالمکیۃ، عبدالحق انصاری، بہاء
الدین زکریا لائبریری چکوال ۲۰۰۶ء،ص۱۱۶)
مولانا شاہ عبدالغنی مجددی کے شاگرد مولانا محمود بن صبغۃاﷲ مدراسی نے امام
احمد رضا کی تصنیف الدولۃالمکیۃپر تقریظ لکھی۔آپ حضرت شاہ محمد مظہر
نقشبندی مجددی ابن حضرت شاہ احمد سعید مجددی کے مرید تھے۔(تاریخ
الدولۃالمکیۃ، عبدالحق انصاری، بہاء الدین زکریا لائبریری چکوال
۲۰۰۶ء،ص۱۲۷)
مزید جستجو کی جائے تو فروغِ اہلِ سنت کے لیے نقشبندی تعلیمات اور مشائخِ
نقشبندیہ کے کافی اقوال مل جائیں گے۔ اس پہلو سے راقم کی ایک کتاب ’’مشائخ
نقشبندیہ: عقائد وافکار‘‘ جلد ہی شائع ہو گی۔ جس میں باطل فرقوں کے استیصال
میں علما و مشائخِ نقشبندیہ کا کردار اور عقائد ومعمولاتِ اہلِ سنت کے تحفظ
کے لیے علمی وعملی و تحریری خدمات پر صراحت و وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی
ہے۔ اس کتاب کے اندر درجنوں ملفوظات ایسے درج کیے ہیں جن میں وہابیہ سے
بچنے کی تلقین وتاکید ہے اور سلسلۂ نقشبندیہ کی اصل تعلیمات جو مسلک اہلِ
سنت کے مطابق ہے پر سختی سے گامزن رہنے کی نصیحت کی گئی ہے۔اسی طرح اس میں
’’دیوبندی‘‘ نقشبندی تعلیمات سے منحرف ہیں پر شواہد ودلائل پیش کیے گئے
ہیں۔
اﷲ کریم ہمیں مسلک اہلِ سنت جسے شناخت کے لیے مسلکِ اعلیٰ حضرت بھی کہا
جاتا ہے، پر استقامت عطا فرمائے اور مشائخِ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی
توفیق عطا کرے۔
ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے
٭٭٭ |