چیف جسٹس ثاقب نثا ر قوم کو یقین دلانے میں لگے ہیں کہ
عدلیہ کو انقلابی تسلیم کرلے۔بڑی بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔وہ اپنے پیش رو جناب
افتخار محمد چوہدری کی طرح سبھی طرف کھینچائی کررہے ہیں۔جہاں ان کی حد ہے
او رجہاں مخالفین کے مطابق ان کی حد نہیں بھی ہے۔چیف جسٹس کے عہدے پر بیٹھے
ہونے کے سبب ان کی حد کیا ہے۔او رکیا نہیں ہے یہ کوئی اور نہیں طے
کرسکتا۔وہ اپنی حد خود ہی متعین کررہے ہیں۔او رحد کا دائرہ بدتدریج بڑھ رہا
ہے۔ان کے پاس بڑی معقول دلیل ہے کہ جج کی صوابدید ہے کہ وہ جس معاملے کو
چاہے پہلے سنے جس کو چاہے بعد میں۔ثاقب نثار بڑے متحرک ہیں۔کبھی اسلام آباد
میں ان کی گرج سنائی دیتی ہے۔کبھی لاہور میں دھاڑ سننے کو ملتی ہے۔کبھی
کراچی میں ان کی موجودگی نظر آتی ہے۔اور کبھی گوئٹہ میں ۔بڑی کوشش ہورہی
ہے۔بڑی تمنا ہے کہ عوامی تائید اور حمایت کا ٹھپہ لگ جائے مگر قسمت ساتھ
نہیں دے رہی۔قوم یقین کرتی ہے پھر جلد ہی کوئی وقوعہ ہوکر یہ یقین
توڑدیتاہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارجسٹس ، آصف سعید کھوسہ او
رجسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ کی جانب سے توہین رسالت کی مبینہ
ملزم آسیہ بی بی کو بے گناہ قراردے دیا گیا ہے۔اس فیصلے کے بعد ایک با رپھر
ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا۔سڑکیں بند ہیں۔سارا کاروبار ٹھپ اور
آمد ورفت رکی ہوئی۔دیکھیں یہ جمود کتنے دن تک رہتاہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ
ہے۔اس سے یہ توقع کرنا کہ ایک دن بعد واپس ہوجائے گاغلط ہوگا۔اس فیصلے پر
نظر ثانی کی اپیل کاراستہ موجود ہے۔یہ اگر اختیار کیا گیاتو ہفتو ں بعد ہی
فیصلہ آسکتاہے۔تب تک جانے کیا ہوگا؟اگر اس بیچ آسیہ بی بی وطن سے باہر چلی
گئی تو ہنگامہ بڑھ بھی سکتاہے۔ایسا ہونا ناممکن نہیں ۔آپ ذرا صورت حال کی
نزاکت سمجھیں کہ ایک فالسہ توڑنے والی مزدورآسیہ بی بی برسوں سے مقدمہ بازی
کررہی ہے۔اسے کہیں نہ کہیں سے تو معاونت ہورہی ہے۔یہاں تو یہ حال ہے کہ بڑے
بڑے زمیندار اور جاگیردار اتنے لمبے کیسوں میں ساری زمین او رجاگیر بیچنے
پر مجبور ہوجائیں۔آسیہ بی بی میں جانے کیا خوبی ہے کہ اس کا کیس ایک عدالت
سے دوسری عدالت تک چلتارہا۔حتی کہ اسے بری کرواکے دم لیا گیا۔بلاشبہ آسیہ
بی بی کے پیچھے کچھ لوگ چھپے ہوئے ہیں۔اگر وہ کل کو باہر بھجوادی گئی تو
تعجب نہ ہوگا۔یہ فیصلہ ہمارے کھوکھلے عدالتی نظام کی نشان دہی بھی
کرتاہے۔کیا سبب ہے کہ سپریم کورٹ میں بیٹھے ججز کو تو آسیہ بے گناہ نظر آئی
او رہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ میں بیٹھے ججز اسے پھانسی کی سزا دیتے
ہیں۔سپریم کورٹ اور عوام آمنے سامنے ہیں۔یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے
۔اپنی اپنی جگہ دونوں مقدم ہیں۔سپریم کورٹ نے فیسلہ شواہد کی بنا پر سنانا
ہوتاہے۔بری ہونے والا کالا ہے یا گورا ۔بر اہے یا اچھا۔یہ اس کی سردرد
نہیں۔مگر عوام بھی غلط نہیں وہ سمجھی ہے کہ ایک ایسی ریاست جو خالصتا مذہبی
بنیادوں پر بنی ہو۔وہاں توہین رسالت کی ملزمہ کو چھوڑدیا جائے او رناموس
رسالت کے دفاع کرنے والے ممتاز قادری کو پھانسی ہوجائے۔یہ کسی طور برداشت
نہیں ہوگا۔ملک بھر میں عدلیہ اور حکومت مخالف مظاہر ے شروع ہوچکے ہیں۔وزیر
اعظم عمران خاں کا خطاب بھی اسی بڑھتے ہوئے عوامی احساسات کے پیش نظر
تھا۔ان مظاہروں میں لگائے جانے والے نعرے بڑے خوفتاک ہیں۔وزیر اعظم ۔چیف
جسٹس اور کچھ دیگران کو بائی نیم برا بھلا کہا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی
مناسب نظام نہ ہونے کے سبب اس طرح کے حالات آئے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں۔جب
بھی کوئی بحران آتا ہے ہم سنبھال نہیں پاتے۔عوام اورریاست کے دیگر حصوں کے
درمیان اختلافات معمول کی بات ہے۔یہ دوریاں ایک پلاننگ کے تحت پیدا کی
جارہی ہیں۔یہاں ایک گروپ ایسا موجود ہے جو اس طرح کی بے ترتیبی کی تمنا
رکھتا ہے۔اسے سسٹم کا نام دے دیں۔خفیہ ہاتھ کہیںیا کچھ اور یہ لوگ کبھی بھی
یہاں سموتھ سسٹم کے حق میں نہیں۔یہ ایسی عدلیہ کے قیام کے حق میں نہیں جو
عوامی حمایت کی حامل ہو۔جس کے فیصلوں پر و ہ آمین کرسکے۔یہ لوگ عدلیہ کے
ساتھ ساتھ دوسرے اداروں پر بھی کام کرتے رہتے ہیں۔کوئی ادارہ بھی اس قدر
بہتر نہ ہوپائے کہ عوامی اعتما د حاصل کرسکے۔آج پھر بحران کا سامنا ہے
۔عدلیہ اپنی جگہ وضاحتیں کررہی عوام اپنی جگہ واویلا کررہے ہیں۔بیچ میں
کھڑا یہ شیطانی ٹولہ مزے لے رہا ہے۔یہ ٹولہ ایسا کوئی نظام نہیں بننے
دیتاجو اس طرح کے حالا ت کوسنبھال پائے۔موجودہ عدلیہ چاہتے نہ چاہتے شیطانی
ٹولے کی سہولت کاری کرگئی۔یہ سہولت کاری آج عدلیہ میں بیٹھے ان لوگوں کے
لیے مصیبت بن رہی ہے جو نیک نیت اور ایماندارقراردیے جانے کے متمنی ہیں۔
حالات و واقعات دیکھنے کے بعد ان کی تمنائیں پوری نہیں ہوتی نظر آرہی ۔ان
کی باتوں پر یقین کرنا مشکل ہورہاہے۔ |