شام کے سائے آہستہ آہستہ پھیلتے جا رہے تھے ۔پرندے اپنے
آشیانوں کی طرف پلٹ رہے تھے مگر بابو کا ہوٹل اب جاگنا شروع ہوا تھا۔اسے
ساری رات جاگنا تھا۔بابو کا ہوٹل مرکزی شاہراہ پر واقع تھا جہاں سے دوسرے
شہروں کو جانے والی گاڑیاں گزرتی تھیں۔بابو کے گاہک زیادہ تر ڈرائیور ہی
ہوتے تھے ۔اور بابو کے دوسرے گاہک ہم تھے جن کو لوگ غنڈے،جواری،بدمعاش اور
نہ جانے کن کن ناموں سے پکارتے تھے۔ہم بابو کے ہر وقت کے گاہک تھے ۔بابو
خود غلط آدمی نہیں تھا لیکن وہ ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھاہم
جو مرضی کریں وہ اتنا ضرور کہتا کہ بچو کچھ ایسا مت کر نا کہ جس سے میری
نیند اور اعتماد خراب ہو ،ہم سب اسکی بات مانتے تھے۔
اس روز یونہی ہنسی مذاق کے دوران رستم اور شیرا میں پنجہ آزمائی کی شرط
ہوگئی وہ دونوں ایک میز کے گرد بیٹھ کر مقابلہ کرنے لگے ہم سب بھی ان کے
گرد بیٹھ کر بڑھاوا دینے لگے۔اچانک میری نگاہ ایک چارپائی پر پڑی جہاں پر
ایک اجنبی بیٹھا غور سے رستم اور شیرا کی پنجہ آزمائی دیکھ رہا تھا۔وہ حلئے
سے کوئی ڈرائیور نہیں لگ رہا تھا بلکہ اسکے انداز اور حلئے میں کوئی ایسی
خاص بات ضرور تھی جو اسے دوسروں سے الگ کرتی تھی۔’’بابو! یہ کون ہے؟‘‘ میں
نے بابو کو ٹہوکا مار کر پوچھا۔
’’پتا نہیں ،پہلی بار آیا ہے،تم لوگ اپنے ہی قصوں میں الجھے رہتے، ہو کبھی
ادھر ادھر بھی دیکھ لیا کرو ‘‘بابو نے ناگواری سے کہا پھر میں اجنبی کی طرف
متوجہ ہوا۔’’اوئے !مردوں کی طرح بازی لگاکر کھیلو،آر یا پار،گھنٹا ہو گیا
تمہارا فیصلہ ہی نہیں ہو رہا۔میں بتاتا ہوں پنجہ کیسے لڑاتے ہیں۔‘‘
وہ اجنبی یہ کہتا ہو اپنی جگہ سے اٹھا اور میز کے قریب آگیا جہاں شیرا اور
رستم پنجہ آزمائی کر رہے تھے
اجنبی کی مداخلت سے سب چونک گئے تھے۔وہ اجنبی شیرا کو ہٹا کر رستم کے
مقابلہ میں بیٹھ گیااور اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھ دیئے ۔
ہم سب مسکرانے لگے کیونکہ رستم اور شیرا نہاہت طاقتور پنجہ آزمائی کے ماہر
تھے اسلئے ان کو ہراناآسان بات نہ تھی۔رستم نے غرا کے اجنبی کا پنجہ پکڑا
اور اپنی پوری قوت سے اسکا ہاتھ گرانے کی کوشش کی۔اجنبی پر سکون انداز میں
یوں بیٹھا مسکراتا رہا جیساکہ کوئی بچہ اسکا ہاتھ گرانے کی کوشش کر رہا
ہو۔پھر یکایک اجنبی نے تھوڑا سا زور لگایااور رستم کا ہاتھ یوں میز پر گرا
دیا ہو جیسے یہ رستم کا نہیں کسی نازک اندام حسینہ کا ہاتھ تھا۔یہی حشر
شیرا کا بھی ہو،باقی خود ہی پیچھے ہٹ گئے۔ہمارے منہ حیرت سے کھلے تھے۔ہمیں
حیرت زدہ چھوڑ کر وہ اٹھا اور کاؤنٹر پر بابو کی طرف آیا۔وہ لمبا
،چوڑا،مضبوط جسم اور پرکشش نقوش کا حامل انسان تھا۔بڑی سی گرم چادر اسکے
گلے میں لٹک رہی تھی۔بلاشبہ وہ ایک پرکشش نو جوان تھا۔
’’بابو کھانا اچھا تھا اور چائے بھی پسند آئی،لہذا اب آتا رہوں گا،میرا نام
منصور ہے‘‘ اسنے بابو کی طرف ہاتھ بڑھایا بابو نے بھی حیرت کے عالم میں کسی
روبوٹ کی طرح ہاتھ جلدی سے آگے بڑھایا۔وہ بابو سے ہاتھ ملا کر سب کو نظر
انداز کر تا ہوا وہاں سے چلا گیا ۔وہ جب تک نظر آتا رہا سب اسی سمت دیکھتے
رہے پھر وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔عجیب آدمی تھا ۔بالکل فلمی ۔۔آیا آتے
ہی چھاگیا اور پھر غائب۔۔
اس دن کے بعد اکثر ہم منصور کا ذکر کرتے تھے کی کون ہے، کہاں سے آیا ہے،
کیا کرتا ہے وغیرہ ہم سب اسکے بارے میں سخت تجسس میں مبتلا تھے پھر اسکا
ذکر بھی ختم ہوگیا اور منصور بھی ہمارے ذہن سے نکل گیا۔اس دن سخت دھوپ تھی۔
ہم تپتی دھوپ سے چل کر آئے تھے ۔سائے میں آتے ہی چارپائیوں پر ادھر ادھر پڑ
گئے،کوئی پانی مانگ رہا تھا تو کسی کو کھانے کی طلب تھی۔کھانے کے بعد ہم
چائے پی رہے تھے کہ وہ آگیا۔اسے دیکھتے ہی ماحول پر ایک دم جیسے سناٹا
چھاگیا ہو۔ہم سب بھی چپ چاپ اسے دیکھ رہے تھے ۔وہ بھی اس تبدیلی پر ٹھٹک سا
گیا۔پھر وہ اعتماد سے چلتا ہوا ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا اور خوش دلی سے
مسکرا کر بولا ’’دوستو !مجھے دیکھ کر خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘
’’اوئے باؤ تو کون ہے ،کیا کرتا ہے؟‘‘شیرا نے غصے سے کہا۔
’’ اوئے مجھے لگتا ہے تو کسی بڑے باپ کا بیٹا ہے۔خالی خولی ضائع ہو جائے
گا۔‘‘ رستم نے بھی دھاڑتے ہوئے کہا۔
رستم اور شیرا کی باتیں سن کر ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کے تاثرات
بدلے۔اس نے سرد مہری سے ان دونوں کو گھورا پھر ہماری طرف دیکھا لیکن اگلے
ہی لمحے وہ مسکرا دیا اور مسکرانے سے اس کے چہرے کے تاثرات ہی نہیں بدلے
بلکہ وہ انتہائی معصوم اور نرم مزاج انسان معلوم ہونے لگا۔وہ مسکراتے ہوئے
بولا ’’میں تمہارے جیسے کام کرتا ہوں اورنہ کسی بڑے باپ کا بیٹا ہوں‘‘
’’پھر کیا ہو؟کیا کرتے ہو؟‘‘حمید نے پوچھا
’’میں کچھ بھی نہیں ہوں ،کسی کا کچھ نہیں لگتا،بس بڑے کام کرتا ہوں ،تمہاری
طرح نہ میں کانٹا ہوں اور نہ چھوٹی چوریاں کرتا ہوں اور نہ کسی کو ڈرا
دھمکا کر پیسے بٹورتا ہوں۔‘‘
اسنے ہمارے بارے میں انکشاف کرکے ہمیں حیران کر دیا ،میں سوچ رہا تھا کہ
اسے ہمارے بارے میں یہ تمام حقیقت معلوم کیسے ہوئی ۔یہ کہیں یہ خفیہ پولیس
والا تو نہیں میں الجھن آمیز انداز میں اسے دیکھ رہا تھا ۔ اسنے ایک پل کے
لئے میری طرف دیکھا اور مسکراکر کہا ۔
’’تم غلط سوچ رہے ہو ،میں پولیس کا آدمی نہیں ہوں بس بڑے بڑے کام کرتا
ہوں‘‘اس نے ایسا کہہ کر مجھے مزید حیران کر دیا میں اسکی اس خوبی اور طاقت
سے حد درجہ متاثر ہو چکا تھا
پھر وہ تقریباً ہر روز آنے لگا ،سبھی اس سے کسی حد تک بے تکلف ہوگئے،لیکن
اسکا رعب کچھ ایسا پڑا تھا کہ وہ تو سب سے بے تکلفی سے بات کرتا مگر ہم سب
قدرے لئے دئے رہتے۔ہم سب نے کتنی بار چاہا کہ وہ ہمارے ساتھ رات رک جائے
اور تاش کھیلے مگر وہ صاف انکار کر کے کہتا کہ میں جوا نہیں کھیلتا۔وہ
ہمارے لئے ایک معمہ سا بن گیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آتا
ہے، کیا کرتا ہے،ا ور کدھر گم ہو جاتا ہے۔چار سال کا عرصہ بیت گیا اس بات
کو جب ہم سے منصور پہلی بار ملا تھا اور آج تک اسکا رویہ پہلے دن ایسا ہی
تھا البتہ دوسروں کی نسبت وہ مجھ سے زیادہ قریب ہوگیا ہم دونوں کے درمیان
خود با خود ایک نا معلوم سا تعلق قائم ہوگیا تھا۔
ایک دن مجھے گاؤں کا ایک آدمی ملا اور اسنے بتایا کہ کسی نے تمہارے گھر
والوں کو گاؤں سے باہر کسی جگہ دیکھا ہے اس کا خیال تھا کہ وہ وہیں رہتے
ہیں ۔یہ سن کر میں بے چین ہو گیا ،ہواکچھ یوں تھا کہ کسی بہت بڑی چوری کے
الزام میں پولیس نے مجھے پکڑ لیا تھا جسکا مجھے علم بھی نہیں تھا اور اس ہی
کیس میں مجھے سزا سنائی گئی ،میرے باپ بہت غریب تھا اسکے پاس میری ضمانت کے
پیسے نہیں تھے اسلئے مجھے تین سال جیل میں گزارنا پڑا ۔جب میں باہر آیا
تواپنے گھر والوں کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر نہ ملے،آج جب مجھے پتا چلا
تو دوستوں نے خدشہ ظاہرکیااور کہیں یہ جھوٹ ہی نہ ہو ،کیونکہ ہمارے کاموں
کی وجہ سے زمین دار ہی نہیں کئی دوسرے لوگ بھی ہمارے دشمن تھے ۔مگر میں نے
ایک نہ سنی اور رستم کو ساتھ لیا اور ہم نکل پڑے سب سے پہلے گاؤں والی
مسجدمیں پوچھا کیونکہ میرے والد نماز کے بہت پابند ہیں ۔اگر وہ گاؤں میں
رہتے ہیں تو نمازی انہیں جانتے ہوں گے مگر انھوں نے بھی صاف انکار کر دیا
کہ آج تک گاؤں میں کوئی نیا گھرانہ آباد ہوا ہی نہیں ہے اور میرے گھر والوں
کو گاؤں چھوڑے آٹھ نو سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔میں نے آ کر رستم کو
ساری بات بتائی ۔میں بہت اداس تھا ،رستم نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا ’’یار!
کسی دشمن کی چال بھی تو ہو سکتی ہے ،کیا پتا ہمیں یہاں بلا کر بدلہ لینا
چاہتا ہے ‘‘۔میں نے واپسی پر اپنے گھوڑے کی رفتار کم رکھی تھی ہم آپس میں
یہی باتیں کرتے آرہے تھے کہ اچانک ہمیں کہیں سے آواز آئی ’’ آج اسے بچ کر
نہیں جانے دیں گے‘‘میں نے اور رستم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ہم نے اپنے
گھوڑے تو پہلے ہی روک لئے تھے ،ہم ایک درخت کی آڑ میں آگئے اور کھوڑے کی
زین سے بندھی کلہاڑیاں نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیں۔دوبارہ ایک اور فائر ہوا
گولی گھوڑے کے قریب سے گزری گھوڑابدک گیا اور زور زور سے ہنہنانے لگا اسے
ہم نے بمشکل چمکار کر چپ کرایا’’ایل جی کا فائر لگ رہا ہے شکر کرو ہم یا
گھوڑا بچ گئے‘‘رستم نے فائر کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا۔
اتنے میں کوئی جھاڑیوں سے نکل کر ہمارے سامنے آیاہم ایک دم چونک گئے ، رستم
نے حملہ کرنے کے انداز میں کلہاڑی کو بلند کر لیا تھا ۔میں نے آنے والے کو
چاندنی میں فوراً پہچان لیا ’’منصور تم‘‘ رستم نے حیرانی سے کہا۔اس نے منہ
پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کے لئے کہا ہم کافی دیر وہاں پر دبکے بیٹھے رہے
پھر ہم نے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا منصور رستم کے ساتھ گھوڑے پر پیچھے
بیٹھ گیا اور ہم نے گھوڑے سر پٹ دوڑا دئیے۔ہم ابھی کچھ دور ہی گئے تھے کہ
دو آدمی ہمارے سامنے آ گئے ،ایک نے نشانہ باندھ لیا اسکے آگے بڑھے بازو
رستم نے بھی دیکھ لئے تھے اس لئے اسنے گھوڑے کو تیزی سے دائیں طرف موڑا اور
تیزی سے بھگانے کی کوشش کی میں نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ آدمی منصور کی پشت کا
نشانہ باندھ رہا تھامیں تیزی سے منصور کو بچانے کے لئے لپکا میرا ارادہ یہ
تھا کہ میں منصور کو اپنی آڑ میں لے لوں کیونکہ میں سمجھ گیا کہ وہ لوگ
وہاں پر منصور کو مارنے کے لئے گھات لگائے بیٹھے تھے ورنہ ہم سے انہیں کوئی
واسطہ نہیں تھا،میں تیزی سے منصور اور اس ریوالور بردار شخص کے درمیان
آگیا۔وہ ہر قیمت پر منصور کو آج قتل کر دینا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے
میری پرواہ کئے بغیر ہی مسلسل فائرنگ شروع کر دی ،دو گولیاں تو میرے قریب
سے ہی گزر گئیں مگر تیسری گولی میرے بازو میں گھس گئی،اس وقت تک ہم انکی
فائرنگ رینج سے نکل چکے تھے
گولی لگنے سے میرے بازو میں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے آگ لگ گئی ہومیرے منہ
سے ہلکی ہلکی سسکی نکل رہی تھی جو گھوڑوں کے قدموں کے شور میں دب سی گئیں
میں نے اپنے لب سختی سے بھینچ لئے۔کافی آگے جا کر رستم کو احساس ہوا کہ
خطرہ ٹل گیا ہے اسنے گھوڑا روک کر پوچھا کہ ’’کسی کو گولی تو نہیں لگی
‘‘۔۔۔۔۔
’’نہیں ،سب ٹھیک ہے،تم جلدی سے ہوٹل پہنچنے کی کوشش کرو ‘‘ میں نے کوشش کی
کہ آواز میں کوئی لغزش نہ ہو ،تاکہ یہ یہیں نہ رک جائیں۔میں راستے میں جیسے
تیسے چادر کو بازو کے گرد لپیٹ لیا۔ہوٹل پہنچ کر ہم نے دروازہ کھولا اور
اندر آگئے ۔’’ یار! بڑی دیر لگا دی ،میں تو فکر کر رہا تھا۔اور یہ منصور
کہاں مل گیا ۔‘‘شیرا نے دروازہ بند کر کے پوچھا
’’لمبی کہانی بن گئی ہے۔پہلے سانس تو لینے دو۔‘‘ رستم بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’اوئے، تجھے کیا ہوا یہ خون کیسا ہے! کالے کے ہاتھ سے پتے چھوٹ گئے۔
اسکی آواز پر سب میرے گرد جمع ہوگئے ،میری چادر خون میں لتھڑی ہوئی تھی
،میں نے منصور کی طرف دیکھا ،اسکا چہرہ زرد ہوگیا تھا۔
منصور نے وحشت زدہ انداز میں میرے اوپر سے چادر ہٹائی ،بازو میں گولی لگی
دیکھ کر اسکو قدرے سکون ہوا،اسنے کہا میں گولی نکال سکتا ہوں۔ فی الحال
گولی نکالتے ہیں اسکے بعد سکون آور گولی کی ضرورت پڑے گی خون کافی ضائع ہو
چکا ہے باقی صبح کریں گے بابو نے اسے کہا کہ درد دور کرنے والی دوائیں میرے
پاس ہیں ۔منصور نے گولی نکالی اور مجھے دو سکون آور گولیاں کھلا کر لٹا دیا
،مجھے تکلیف تو ہوئی پراب میں قدرے سکون میں تھا۔تھوڑی دیر میں میں سوگیا
مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ رات انہوں نے میرے سرہانے جاگتے گزار دی تھی آج
پہلی دفعہ منصور بھی وہیں رہا۔
اگلے دن منصور ،شیرا اور رستم مجھے شہر لے گئے ،ڈاکٹر نے پٹی کھولی اور زخم
دیکھ کر کہا ۔’’گولی بڑی صفائی سے نکالی گئی ہے ،جس کی وجہ سے انھیں بہت
آرام ہے ،ورنہ اب تک تو یہ بے حال ہوچکے ہوتے۔‘‘
’’جی ،وہ ایک کمپاؤ نڈر نے نکالی ہے ،اسکے پاس دوائیں نہیں تھی ہم رات کو
یہاں آنہیں سکتے تھے ،اسلئے پٹی کر دی تھی‘‘منصور نے جلدی سے کہا،اسنے
ڈاکٹر کو نہ جانے گولی سے متعلق کیا کہا تھا کہ ڈاکٹر نے ہمارے سامنے گولی
لگنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی،
بازوبالاخر ٹھیک ہوگیا،لیکن ہمیں ایک اندازہ تو ہو گیا کہ منصور یقیناًبے
حد ذہین اور بہت سی ذہنی صلاحیتوں کا مالک ہے ۔پہلے دن سے ابھی تک اس کی
ایک سے بڑھ کر ایک خوبی ہم پر آشکار ہو رہی تھی ،وہ حیران کر دینے والی
شخصیت کا مالک تھا ۔
اس واقعہ کے بعد منصور میرے اور قریب ہو گیا ،جب میں بالکل ٹھیک ہو گیا تو
وہ ایک دن کہنے لگا کہ’’ اگر گولی تمہارے بازو کی بجائے سینے میں لگ جاتی
تو۔۔۔۔؟‘‘
میں تمہیں بچانے کے لئے آگے ہوا تھا ،گولی نے کہاں لگنا تھا ،اسکی مجھے خبر
تھی نہ پرواہ۔میرے جواب پر وہ نہ جانے کیوں حیران ہو کر میری طرف دیکھتا
رہا۔اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔وہ رشتوں پر اعتبار کرنے والا شخص
نہیں تھا ۔میری اس قربانی نے اسے کشمکش میں مبتلا کر دیا۔
ایک دن وہ آیا اور مجھے اکیلے بیٹھا دیکھ کر کہنے لگا ۔’’آؤ پھر کہیں گھوم
کر آتے ہیں۔‘‘میں اسکے ساتھ چل پڑا ،ہم یونہی بلا مقصد باتیں کرتے اوپر
نیچے راستوں پر سے چلتے ہوئے ایک سبزاور سایہ دار جگہ بیٹھ گئے۔ اس وقت نہ
جانے میرے دل میں خیال آیا کہ اس سے اس دن والے واقعے کے بارے میں پوچھوں
مگرنہ جانے کیوں میں خاموش رہ گیا۔
’’تم شاید کچھ کہنا چاہ رہے تھے!‘‘وہ بھانپ گیا۔
اسنے اپنے درست اندازے سے مجھے حیران کر دیا کیوں کہ ا سکی توجہ دوسری طرف
تھی اور میرے لب اتنے واضح بھی نہیں تھے۔
’’نہیں وہ کچھ نہیں !‘‘ میں نے گڑبڑا کر کہا
’’بو لو یار! اب تو ہم دوست ہیں، تم جھجک کیوں رہے ہو۔‘‘ اس نے مجھے حوصلہ
دیا۔
’’اس دن کیا ہوا تھا ،وہ لوگ کون تھے اور تمہیں کیوں قتل کر نا چاہتے
تھے؟کب سے یہی پوچھنا چاہ رہا تھا لیکن تم سے اس لئے نہیں پوچھتا تھا کہ تم
نہیں بتاؤ گے‘‘
’’ارے نہیں یار ! تب اور بات تھی اب تم میرے دوست ہی نہیں مجھے عزیز بھی ہو
،اب تم سے کیا چھپانا،سنو! اس دن جو ہوا وہ کوئی خاص بات نہیں کبھی کبھار
ایسا ہو جاتا ہے ۔لیکن اس کے پیچھے یہ سوال ہے کہ میں کون ہو ؟ کیا کرتا
ہوں ، بو لو صحیح کہا؟ وہ مسکرایا
میں نے حیران ہو کر اسے دیکھا ’’یار تم کیا چیز ہے ذہن میں جو بات ہو وہ تم
کس طرح سمجھ لیتے ہو ؟؟
وہ کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا ،پھر اپنے ماضی کو کھنگالتے ہوئے گویا ہواس
نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی۔
*
میری کہانی کچھ ایسی انوکھی نہیں ،دنیا میں آنکھ کھولی ،کچھ ہوش سنبھالا تو
پتا چلا ماں اس جہاں میں نہیں ہے۔میں اور میرے بابا ایک دوسرے کی کل کائنات
تھے ۔بابا نے مجھے بے حد پیار و شفقت دی ۔لوگ بابا سے کہتے کہ دوسری شادی
کر لو مگر بابا صاف انکار کر دیتے۔چھوٹی سی عمر میں مجھے بابا نے سکول داخل
کروا دیا وہ مجھے خوب پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے۔وہ مجھے اپنی
گود میں اٹھا کر خود سکول چھوڑنے جاتے اور واپس بھی خود لاتے تھے۔حالانکہ
مجھے سکول سے واپس لانے کی وجہ سے انھیں خاصی پریشانی ہوئی مگر وہ خوش تھے۔
بابا کے ایک دوست تھے جو کہ بابا کی دوسری شادی کروانے پر بہ ضد تھے۔انکی
ایک عزیزہ بیوہ تھیں اور انکے چار پانچ بچے تھے۔بابا کے دوست اپنی ان بیوہ
عزیزہ سے بابا کی شادی کروانے کے خواہش مند تھے۔ان کے باربار کے اصرار پر
بابا نے اپنے دوست سے کہا ٹھیک ہے تم اس عورت سے بات کر و۔اگر وہ تیار
ہوجائیں تو ٹھیک ہے۔میرے پاس خدا کا دیا کافی ہے ،انکا بھی گزارہ ہو جائے
گا اور میرے منصور کو بھی ماں کی ممتا اور بہن بھائیوں کا پیار مل جائے
گا۔بابا کے دوست تو تھے ہی اس انتظار میں انہوں نے اس عورت کو پیغام
پہنچایا تو وہ فوراً رضامند ہو گئیں۔اس دوران بابا مجھے ذہنی طور پر تیار
کرتے رہے مگر میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا تھا۔پھر ایک ر وز باباسادگی
سے نکاح ہو گیا اور وہ عورت اور اسکے بچے ہمارے آگئے۔میں شروع ہی سے تنہائی
کا عادی تھا اسلئے یہ سب آئے تو مجھے عجیب سا لگا ،مگر بابا کے سمجھانے پر
میں ان بہن بھائیوں کو قبول کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔
سب سے پہلا دھچکا مجھے تب لگا جب سوتیلی ماں نے بابا سے کہا کہ’’منصور کو
اپنے ساتھ کیوں سلاتے ہو اسے بھی الگ کمرے میں بچوں کے ساتھ سلائیں ،یہ
کوئی بچہ تو نہیں جو ڈر جائے گا‘‘
میں بچہ ہی تو تھا ، بابا مجھے اٹھا کر دوسرے کمرے میں چھوڑ گئے ،مجھے ساری
رات نیند نہیں آئی کیونکہ میں بابا کے ساتھ سونے کا عادی تھا لیکن سوتیلی
ماں کی وجہ سے بابا نے پہلی دفعہ مجھے خود سے الگ کیا ۔ساری رات میں چپکے
چپکے روتا رہا مجھے احساس ہو گیا کہ یہ میری ماں نہیں ہے۔اب میں سکو ل جاتا
تو بابا کے ساتھ مگر آتا اکیلا تھا ،بابا سے شکوہ کرتا تو ماں کہتی کہ
انہیں فلاں کام تھا اور اس طرح بابا مجھ سے دور ہوتے چلے گئے اور میں اکیلا
رہ گیابابا کیا بدلے میری حیثیت ہی بدل گی،میرے سارے کپڑے ،جوتے ماں نے
اپنے بچوں کو دے دیئے اسکی لڑکیاں بھی میرے کپڑے پہنے پھرتیں،بابا نے دیکھا
تو ان سب کو نئے کپڑے لا دئے میرے لئے بھی شاید لائے ہوں پر ماں نے مجھے
کوئی کپڑا نہ دیا میں پرانے جوتے اور کپڑوں میں پھرتا رہتا۔وہ بچے مجھ سے
اور میں ان سے مانوس نہیں تھا اور نہ ہی ماں نے کبھی مانوس کروانے کی کوشش
کی لہٰذا وہ سب کھیلتے رہتے اور میں اکیلا کھڑا ان کو دیکھتا رہتا۔
میں شروع ہی سے پڑھائی میں تیز تھا اور کلاس میں اوّل آتا تھا بابا اس موقع
پر سب کو مٹھائی کھلایا کرتے تھے اور مجھے بہت ساری چیزیں لے دیا کرتے تھے
مگر اس دفعہ مجھے کسی نے مبارک باد تک نہ دی ۔ماں تو سوتیلی تھی بابا نے
خود کو بھی سوتیلا بنا لیا ،پھر میرے ذہن میں بددلی اور بغاوت پیدا
ہوگئی،میں ہر چیز سے بیزار ہو گیا،سکول بھی بے دلی سے جاتا اس کو نتیجہ یہ
نکلا کہ میں بمشکل پاس ہو ۔میری کامیابیوں پر تو کسی نے مبارک باد نہ دی
تھی مگر فیل ہونے پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا،بابا نے پہلی بار مجھے مارا ،ماں
نے بھی انہیں شہہ دی اور کہا کہ’’اسے مت بھیجو سکول‘‘ پر بابا نے انکار کر
دیا کیونکہ میری تعلیم انکا خواب تھی۔جب سے بابا نے مجھے مارا تھا میں انکے
سامنے آنے سے گریز کرنے لگا ،اور میری یہ کیفیت ماں نے نوٹ کر لی ،حالانکہ
بابا کے سامنے نہ جانے کا میرا مقصد یہ تھا کہ بابا مجھے منائیں اور پیار
کریں لیکن میری اس دوری کو میری ماں نے نہ جانے کیا سمجھا اور بابا کو ایسی
پٹی پڑھائی کہ بابا مجھے آئے دن مارنے لگے ۔پھر یہ ہوا کہ میرے دل میں انکا
ایسا خوف بیٹھا کہ میں ان کے سامنے آتے ہی میری حالت بگڑ جاتی۔میری اس
کیفیت کا ماں نے فائدہ اٹھایا اور ایک دن کہنے لگی کہ’’یہاں تمہارے بابا کے
پیسے رکھے تھے جو تم نے چرا لئے ہیں ۔تمہارے بابا کو یہی یقین ہے وہ تمہاری
تلاش میں گئے ہیں کہ رہے تھے کہ آج اسے زندہ نہیں چھوڑونگا‘‘بس یہ سننا تھا
کہ مجھے اور کچھ نہیں سوجھا میں گھر سے ہی بھاگ گیابس اسکے بعد در در کی
ٹھوکریں کھائیں،میری مجبعری پیٹ تھا اور کام لوگوں کی ضرورت لہٰذا میں
آہستہ آہستہ لوگوں کی ضرورت بنتا گیا ۔
باپ کا کردار بدلا تو مجھے دنیا سے نفرت ہو گئی ،مجھے لوگوں سے کوئی غرض
نہیں تھی کام مرضی کا ہوتا تو کر لیتا ورنہ انکار کر دیتا ۔میرے انداز میں
ایسی جارحیت تھی کہ ہر کوئی مجھ سے جھک کر بات کر تا،چونکہ باپ کے رشتے سے
اعتبار اٹھنے پر مجھے ہر شخص سے نفرت ہوگئی تھی ۔ابتداء ہی سے غصہ ور واقع
ہوا تھا اسلئے میں اس غصے میں بڑوں بڑوں سے اکڑ جایاکرتا تھا ،حالات اور
لوگوں نے مجھے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا ،اگر ایک جرم مجبوراً کیا تو
پھر مصلحت نے جکڑ لیا۔لوگوں کو اپنی دشمنیاں ہوتیں تو وہ اپنے دل میرے
ذریعے ٹھنڈا کرتے تھے۔میں نے لوگوں کی فصلیں تباہ کیں ،ڈاکے ڈالے،آئے دن
مار پیٹ کی ۔اب بھی میں یہی کرتا ہوں،میرا کوئی مستقبل ٹھکانہ نہیں ہے اور
نہ کوئی گروہ میں اکیلا ہی ہوں اس لئے کہ میں کسی پر اعتبار نہیں کرتا
،اپنے حالات ،مفاد اور غرض کی بنا پر لوگ بدل جاتے ہیں۔لہٰذا میں اکیلا ہی
رہنا پسند کرتا ہوں،اور کبھی کسی ویرانے میں بسیرا کر لیتا ہوں۔یہ تھی میری
کہانی مجھ جیسے اور بھی بہت ہونگے جنکی بھی ایسی کہانی ہوسکتی ہے۔‘‘یہ کہہ
کر منصور خاموش ہو گیا۔
’’تمہارے باپ کو تمہارا پتا نہیں ہے؟‘‘میں نے اس سے پوچھا
’’انہیں سب پتا ہے وہ کونسا سات سمندر پار رہتے ہیں،جب بچہ تھا تو زیادہ تر
عورتوں میں رہتا تھا۔ان سے بات پھیل جاتی اور میرے باپ کو میرا پتہ چل
جاتاکہ میں کہاں ہو ں‘میرے ذہن پر بابا کو ایسا خوف سوار تھا کہ میں ان سے
بھاگتاپھرتا،ان کو پھر بھی میری خبر رہتی تھی۔سوتیلی ماں اپنے منصوبے میں
تو کامیاب ہوچکی تھی ،اس نے میرے بابا کو مجھ سے جدا کر دیا تھا ۔بعد میں
مجھے حقیقت بھی معلوم ہوگئی تھی کہ بابا اس دن میری تلاش میں نہیں بلکہ
اپنے کسی کام سے باہر گئے تھے اور کوئی پیسے چوری نہیں ہوئے تھے،بس اس عورت
کو پتا چل گیا تھا کہ منصور اپنے باپ سے خوفزدہ ہے ۔اس نے مجھے باپ کا ایسا
خوف دلایا کہ میں بغیر سوچے سمجھے گھر سے بھگ کھڑا ہوا۔اسکے بچے پڑھتے نہیں
تھے اس لئے وہ مجھے کیسے پڑھتا دیکھ سکتی تھی اور دوسری وجہ وہ جائیداد تھی
جسکا میں واحد وارث تھا،کیونکہ وہ میرے باپ کے بچوں کی ماں نہیں بن سکتی
تھی۔اسکا پہلا شوہر جب زندہ تھا تبھی ڈاکٹرز سے اسے بتا دیا تھا کہ وہ
دوبارہ ماں نہیں بن سکے گی ،اور اس بات کا میرے باپ کو کوئی علم نہیں
تھا،بلکہ وہ تواب تک میرے باپ کو تعویزوں کے چکروں میں لئے پھرتی ہے،در
حقیقت وہ جائیداد اپنے بچوں کے نام کروانا چاہتی ہے۔
میرے باپ کو ان شاید مجھ سے کوئی غرض نہیں ،کبھی سامنا ہوجائے تو اجنبیوں
کی طرح بات کر لیتے ہیں وہ بھی رسمی بات،میرے لئے ان کے دل میں اب بھی وہی
نفرت اور غصہ ہے۔‘‘منصور نے وضاحت سے بتایا ۔میں گم صم بیٹھا تھا،پھر وہ
مجھے اپنے نئے ٹھکانے کا بتا کر چلا گیا۔
اس کے بعد منصور کئی دن تک نہ آیا ۔میں اکژر اسکے بارے میں سوچتا رہتا،اس
کے اچانک غائب ہونے پر میں اندر ہی اندر فکر مند تھا ،مجھے احساس تھا کہ
اسکے سب دشمن ہیں وہ اکیلا ہے۔میرے دل میں وہم اٹھ رہے تھے کہ اسے کہیں کچھ
ہو نہ گیا ہو ۔ایک دن میں بے چین ہو کر اسے ڈھونڈنے نکل پڑا ۔
بالاخر اس جگہ پہنچ گیا جس کی نشانیاں منصور نے بتائیں تھیں۔مگر یہاں کسی
انسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اتنی ویران جگہ تھی اور جس جگہ میں کھڑا
تھا اس سے چند قدم آگے تقریباً دس فٹ چوڑی بیس فٹ گہری اور تقریباً پچیس
،تیس فٹ لمبی غار نما سی ایک جگہ تھی۔میں نے ایسی جگہیں کئی بار دیکھیں
تھیں مقامی لوگ ان جگہوں کواپنے مخصوص نام سے پکارتے ہیں اور عام لوگ ان
جگہوں سے دن کی روشنی میں بھی خوف زدہ ہوتے ہیں۔اس غار کے دہانے پر درخت
ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے سایہ کئے ہوئے ہوں اور درختوں کی شاخیں ایسی گھنی
تھیں کہ دہانہ چھپ کر رہ گیا تھا ۔مجھے کچھ خوف محسوس ہوا ،میں پچھتا رہا
تھا کہ کسی کو بتا کر یا کم از کم ساتھ کے کر آتا ۔ابھی میں جانے کے لئے
مڑا ہی تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میرے جسم میں ایک سنسنی سی
پھیل گئی ۔
ٓ ’’کون ہو ؟اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘میں آواز پہچان گیا یہ منصور تھا
،میں تیزی سے پلٹا وہ مجھے بھی پہچان گیا ۔’’آؤ یار !اب آئے ہو تو میرے گھر
ہی چلو‘‘اس نے یوں کہا جیسے اس کا محل یہیں کہیں ہو ،میں حیران تھا کہ گھر
کہاں ہے مجھے دور دور تک ویرانہ ہی نظر آرہا ہے ۔منصور نے مجھے پیچھے آنے
کا کہا اور مڑ گیا ۔میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا۔
وہ ایک دوسرے راستے سے اسی گہرے غارکے اندر کی طرف جارہاتھا۔میری سمجھ ہیں
کچھ نہیں آرہا تھا ۔کچھ آگے چل کرتاریکی کچھ زیادہ ہی گہری ہو گی ،میں نے
منصور کا بازو پکڑ لیا ۔کچھ دیر بعد منصور ایک جگہ رک گیا ۔اس نے ٹٹول کر
ایک جگہ سے ماچس اٹھائی اور لالٹین جلا دی ۔وہ ایک صاف ستھری سی جگہ تھی
،زمین پر دری بچھی ہوئی تھی ہم اس پر جاکر بیٹھ گئے ۔ضرورت کی کچھ اور بھی
چیزیں ادھر رکھی تھیں میں اسکےرہنے کہ جگہ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔میں
حیران ہو رہا تھا کہ وہ اس قدر اندر رہتا ہے اور اسے کیسے معلوم ہوا کہ
باہر کوئی موجود ہے اور وہ ٹھیک اسی جگہ پہنچ گیا جہاں میں موجود تھا۔یہی
بات میں نے اس سے پوچھ لی۔
’’در اصل مجھے ہوشیار رہنا پڑتا ہے ،دشمن بہت ہو گئے ہیں نا!اور جس کے دشمن
بہت ہوں اسکی حسیات بیدار ہو جاتی ہیں لہٰذا مجھے بھی احساس ہو گیا تھا‘‘وہ
مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اچھا یہ بتاؤ،اتنے دن سے کہاں غائب تھے ۔میں بہت پریشان تھا ،اس لئے یہاں
تک پہنچا ہوں ‘‘میں اصل بات پر آگیا۔
’’تمہارہ یہی ادا تو مجھے بھا گئی ہے ،جانتے ہو کہ تم میری زندگی کے پہلے
سچے دوست ہو،بہر حال میں کہیں نہیں گیا،یہیں تھا ،طبیعت ٹھیک نہیں تھی‘‘اس
نے بتا یا تو میں اور پریشان ہو گیا
’’یا ر!عجیب آدمی ہو ،ہماری طرف آجاتے،یہاں پڑے پڑے تو ویسے ہی بندہ بیمار
ہو جائے۔‘‘
’’بیماری ہی ایسی تھی کہ یہیں سکون مل رہا تھا‘‘اس کی آواز میں کرب نمایاں
تھا۔
’’کیا مطلب ؟کیسی بیماری؟‘‘۔۔۔۔۔بتا نایار !!!
پہلے تو وہ ٹال گیا میں نے ضد کی تو کہنے لگا: ’’یار! دنیا سے اعتبار اٹھ
گیا تھا،جب تم نے میری خاطر گولی کھائی ،اور اپنی جان داؤ پر لگائی تو
احساس ہو کہ میرا بھی کوئی عزیز ہے،اسلئے تمہیں اپنا دوست اور بھائی
کہاہے۔لہٰذا جو پوچھتے ہو بتا دیتا ہوں ۔حالانکہ میں نے کسی سے اپنی ذات کے
بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن تمہارے سامنے اپنی زندگی کا یہ پر دہ بھی
اٹھا دیتا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر وہ چپ رہا ،پھر اسکے ہونٹوں میں جنمبش ہوئی۔
’’میں نے اپنی زندگی میں بہت سی لڑکیاں دیکھیں پر سب کو نظرانداز کرتا
رہاکیونکہ میری لائن دوسری تھی ،لیکن ایک بار میں نے شاہین کو دیکھا ،تو وہ
نہ جانے کیوں مجھے دوسری لڑکیوں سے مختلف نظر آئی۔پھر وہ کئی بار ہونہی
اچانک ملی اور ہر بار میرے دل میں اس کے لئے جذبہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا
گیا ۔میں نے کئی بار خود کو سمجھانے کی کوشش کی مگر دل سمجھدار ہوتا تو کچے
گھڑوں کو کون وسیلہ بناتا!میں بھی دل کے ہاتھوں ہار گیا لیکن وہ مجھے
دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتی تھی۔
وہ ایک غریب گھرانے کی لڑکی تھی اس کی بہنیں زیادہ تھیں اور بھائی تو ابھی
چھوٹے تھے میں نے سوچا اس کے باپ سے رشتہ مانگ لوں وہ کبھی انکار نہیں کرے
گا بلکہ وہ تو شکر کرے گا کہ چلو ایک لڑکی تو اپنے گھر کی ہو جائے ۔مگر ان
دنوں میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرا اپنا کوئی در کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں بیوی
کو کہاں لئے پھروں گا۔ادھر شاہین کا رشتہ طے ہو گیا اور جسکے ساتھ طے ہوا
اسکے بچے شاہین سے کچھ ہی چھوٹے ہونگے،مجھے اس بوڑھے میں کوئی خوبی نظر
نہیں آئی سوائے اسکے کہ وہ دو وقت کی روٹی آرام سے کھاسکتا ہے۔میں نے سوچا
کہ میرا باپ اسے کہیں زیادہ امیر ہے ،میں باپ سے بات کرتا ہوں اور کچھ نہیں
تو دباؤ میں آکر تو رشتہ مانگ لے گا اس بوڑھے کی کیا مجال کے انکار کر سکے
۔پھر دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ سوتیلی ماں ایسا نہیں کرنے دے گی ،وہ مجھ سے
جان چھڑاتی تھی رشتہ کیسے کرنے دیتی۔ اور پھر میری غیرت نے بھی گوارہ نہ
کیا کہ آج تک باپ نے حال نہیں پوچھا میں ان کے سامنے ہاتھ کیسے پھیلاؤں،ان
دنوں میں انھیں سوچوں میں گمتھا کہ مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ شاہیں خود فتح
محمد کو پسند کرتی ہے اور دونوں میں یہ جذبہ اس وقت پروان چڑھا جب فتح محمد
کی بیوی بیمار رہتی تھی اور پھر وہ مر گئی اور فتح محمد نے ذرا دیر نہیں کی
اور شاہین کا رشتہ مانگ لیااس انکشاف کے بعد میں شاہین سے ملا اور اس کو
کہا کہ’’ مجھے شادی سے کوئی خاص غرض نہیں میں اس لئے تم سے شادی کرنا چاہتا
ہوں کہ تم صرف میری ہو،اب ایسا نہیں ہو سکا کہ تو صرف ایک بار کہ دو کہ تم
صرف میری ہو اور فتح محمد سے شادی کر نا تمہاری مجبوری ہے۔‘‘
پر وہ مجھے نفرت سے گھورتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔پھر میرا کئی بار اس سے
سامنا ہوا اور وہ مجھے دیکھ کر زمین پر تھوکتی ہوئی وہاں سے چلی جاتی اور
اسکی اس حرکت سے میرے جسم میں الاؤ سا جل اٹھتا میں پھر بھی برداشت کرلیتا
۔پھر اسکی شادی ہو گئی ،میں کوشش کر تا کہ میں اس سے بات نہ کروں پر جب بھی
وہ میرے سامنے آتی میرے منہ سے بے اختیار نکل آتا کہ’’شاہیں ایک بار کہ دو
کہ تم میری ہو‘‘شاید کہ یہ میرے اندر کی پیاس تھی ۔میرے رویے نے شاہین کے
دل میں میرے لئے نفرت اور بڑھا دی ۔اس نے فتح محمد کو بھی شاید میرے بارے
میں بتا دیا تھا اسلئے فتح محمد مجھے حقارت اور نفرت سے گھورتا اور کبھی
کبھی تو راستے میں آجاتا اور لوگوں کے سامنے میرے لئے حقارت آمیز جملے کہتا
اور اسکی ان حرکتوں سے میرے لہوکی گردش تیز ہو جاتی میں اسلئے برداشت کرتا
کیونکہ وہ شاہین کا شوہر ہے،کبھی جب شاہین ساتھ ہوتی تو اس کو اور شے ملتی
تھی وہ بات بات پے قہقہے مار کر مجھ پر جملے کستا اسکے رویے سے میری
کنپٹیاں سلگنیں لگتیں میں شاہین کی وجہ سے طرح دے جاتا۔عجیب بات ہے کہ
شاہین کے اتنے برے رویے سے بھی میرے دل میں اسکے خلاف کوئی بات نہیں
آئی۔میں صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ صرف میری محبت کا اعتراف کر لے پر وہ روز
بہ روز مجھ سے نفرت کررہی تھی ۔ پتاہے مجھے سب سے زیادہ صدمہ اس بات کا
پہنچا کہ وہ بھی روایتی سوتیلی ماں بنی ہوئی ہے ،بچوں کو ذرا پیار نہیں
کرتی ۔فتح محمد کے بچے رلتے بھرتے ہیں ۔میں بھی ایسی ہی عورت کے ہاتھوں بر
باد ہوا ہوں ۔اگر ایسا ہی کرنا تھا تو کسی کنوارے یا بے اولادسے شادی کرتی
،یہ عورتیں بھی نا بس ظلم کرنا جانتی ہیں ‘‘وہ خاصا جزباتی ہو گیاتھا۔
’’یار تم ٹھیک کہتے ہو ،پر سب عورتیں ایک جیسی نہیں ہوتی‘‘میں نے کہا
’’سب ایک جیسی ہوتی ہیں ،میں نے یہی دیکھا ہے ۔اس نے تلخ انداز میں جواب
دیا ‘‘ میں خاموش ہو گیا
پھر ایک دن میں نے شاہین اور فتح محمد کو بھی دیکھ لیا واقعی دونوں کی
عمروں کے درمیان اتنا فرق تھا کہ وہ باپ بیٹی معلوم ہوتے تھے پر یہ انوکھی
بات نہ تھی بلکہ انوکھی بات یہ تھی کہ فتح محمد گلے میں پستول لٹکائے ہوئے
تھا اور منصور کو دیکھتے ہی غصے اور نفرت سے پھول گیا جیسے لڑاکا مرغا
لڑائی کے وقت پھول جاتا ہے ،منصور اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا
تھا،ہم خاموشی سے وہاں سے گزر گئے جہاں پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اسی وقت
میں نے منصور سے شکوہ کرتے ہوئے کہا
’’یار اتنے دن تم آئے ہی نہیں کہاں تھے؟‘‘
منصور نے جواب دینے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ فتح محمد نے تیزی سے کہا
’’ہوگا کہیں کسی کی بہن بیٹی کو تاکتا پھر رہا ہوگا‘‘
’’چاچا جی ! آپ سے کسی نے بات کی ہے؟ اورمنصور نے کبھی کسی کی عزت کو میلی
نگاہ سے نہیں دیکھا ،آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
میں تمیز سے کہا پر نہ جانے یہ سنتے ہی فتح محمد کیوں آپے سے باہر ہو گیا
اور پستول ہاتھ میں لے کر منصور پر انتہائی گھٹیا جملے کسنے لگا ،میں
نےمنصور کہ طرف دیکھا اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا پھر وہ اچانک آگے بڑھا اور
فتح محمد کے ہاتھ سے پستول جھپٹ لیا ۔فتح محمد کا چہرہ ایک دم زرد پڑ گیا
اسکی ساری اکڑ ختم ہو گئی وہ سہمی ہوئی نظروں سے منصورکو دیکھ رہا تھا۔میں
تیزی منصور کی طرف بڑھا کہ اس سے پستول چھین لوں مگر منصور نے تیزی سے کہا
’’کوئی بھی میرے قریب نہ آئے ورنہ۔۔۔‘‘اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا میں نے
اس کو سمجھا نے کی کوشش کی مگر اس پر جنون سوار تھا پل بھر میں اس نے فتح
محمد کا جسم چھلنی کر دیا۔’’بہت لحاظ کیا ۔۔۔پر سر چڑھ گیا تھا۔۔۔ہر وقت
کتے کی طرح بھونکتا رہتا تھا۔‘‘ اسنے تیز تیز سانسوں کے درمیان رک رک کر
کہا۔
شاہین نے کوئی رپٹ درج نہیں کروائی تھی اور نہ ہی کسی سے یہ تذکرہ کیا تھا
کہ قتل منصور نے کیا ہے۔لوگ منصور سے ڈرتے تھے کوئی قتل کا گواہ نہ بنا۔یوں
یہ بات ختم ہو گئی ۔میں حیران تھا کہ شاہین نے اپنے شوہر کے قتل کا منصور
پر کوئی الزام نہ لگایا ،اوہ نہ ہی اپنے بیان میں منصور کا ذکر کیا ۔اس قتل
کے کئی دن بعد میں نے منصور سے پوچھا’’کیا اب شاہین سے شادی کرو گے ؟‘‘
’’نہ وہ مجھ سے شادی کرے گی اور نہ ہی میں اس سے شادی کر سکتا ہوں ۔‘‘ اس
نے جواب دیا
’’مگر کیوں ؟‘‘ میں الجھ سا گیا ۔
’’اسلئے کہ وہ اب اقرار نہیں کرے گی کہ وہ میری ہے۔‘‘
منصور کی ہر بات ہی عجیب تھی ،وہ شادی کے لئے سنجیدہ بھی نہیں تھا ،اسے اس
سے بھی کوئی غرض نہیں تھی وہ تو بس اس سے یہ کہلوانے کی کو شش کرتاکہ وہ
اسکی ہے۔یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی اور نہ اسنے کبھی سمجھائی۔
وقت گزرتا گیا اور منصور نے اس عرصے میں شاہین کے بارے میں اگر کوئی بات کی
تو وہ یہ کہ اب وہ اپنے سوتیلے بچوں سے پیار کرنے لگی ہے ۔اس سے قبل شاہین
نے منصور کو شادی کا پیغام بھی بھجوایا ۔ایک بار شاہین کے باپ نے بھی منصور
سے بات کی مگر منصور نے ٹھکرا دی۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا
’’یار اس عورت پر اعتبار نہیں،اس میں بھی کوئی چکر ہو گا؟‘‘
اب اس سر پھرے سے میں کیا کہتا ۔۔۔بچپن میں سوتیلی ماں کے رویے نے اس کے دل
میں عورت کی نفرت پیدا کر دی تھی ۔جو کہ اب راسخ ہو چکی ہے اسلئے اس کو
شاہین کی پیش کش میں بھی کوئی چال نظر آرہی ہے۔منصورنے مجھے کئی باربتا یا
کہ وہ اب اپنے سوتیلے بچوں سے پیار کرنے لگی ہے وہ یہ بات بتاتے ہوئے کافی
سنجیدہ ہو جاتا ۔’’میں اسکو سمجھاتا کہ اس میں سنجیدہ ہو نے والی کیا بات
ہے ماں پہلے مر گئی اب تو باپ بھی نہیں رہا اسلئے شاہین ہی انکا سب کچھ ہے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا احساس ذمہ داری بڑھا ہو گا لہٰذا وہ اپنے بچوں
سے پیار کرنے لگی ہے اس میں اتنی الجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘
’’یہ بات میرا ذہن قبول نہیں کرتا دیکھو،وہ ان سے نفرت کر تی تھی ،شوہر کے
بعد مجھے شادی کا پیغام بھیجا تب ا سے سوتیلوں کا کوئی خیال نہیں تھا پھر
مجھ سے مایوس ہوکر اب وہ ان سے یوں پیار کر نے لگی ہے گویا ماں اورباپ یہی
ہے ،اور وہ اسے باجی باجی کہتے نہیں تھکتے۔‘‘
اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔پہلے پہل تو اس موضوع پر خوب سوال و جواب چلتے
پھر ہم نے یہ موضوع بھی چھوڑ دیا
میں اکثر تنہائی میں منصور کے بارے میں سوچتا تھا کہ اگر یہ شخص صحیح راستے
پر چلا ہوتا تو کتنے ہی لوگ اس سے فیض یاب ہو سکتے تھے ۔میں نہ تو بڑا مجرم
تھا اور نہ ہی نیکی کی راہ کی نشانی میرے دل سے مٹی تھی اسلئے میں اکثر
منصور کی صلاحیتوں کے بارے میں سوچتا مثلاً اگر وہ میڈیکل کی فیلڈ میں جاتا
تو نامور ڈاکٹر یا سرجن ہوتا،اگر وہ سا ئنسی ایجادات کے راستے پر چلتا تو
پاکستانی سائنس دانوں میں ایک بڑے نام کا اضافہ ہو تا ،اور جب میں ویرانوں
میں اسکے ہاتھ کا بنا اسکا عرضی گھر دیکھتا تو سوچتا کہ منصور ایک ماہر
تعمیرات بن سکتا ہے ،پھر جب میں یہ سارے خیالات منصور کو سناتا تو وہ قہقہے
لگانے لگتا اسکے آنکھوں میں نمی سی آجاتی جسکو وہ نہایت ہی خوبصورتی سے
چھپالیتا تھا۔ایک بار میں نے اس سے کہا کہ’’ منصور تمہاری دشمنیاں کچھ
زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں اور خطرہ بھی بڑھ گیا ہے،لہٰذا تم اسلحہ کے بغیر کہیں
نہ جایا کرو،‘‘
’’مرد اسلحہ لے کر چلتا ہے تو وہ مرد نہیں چوہا لگتا ہے ۔جانتے ہو جو لوگ
اسلحہ کے سہارے چلتے ہیں وہ بہت بزدل ہوتے ہیں انکے دل میں خوف کا
بسیراہوتا ہے اور مجھے کس کا ڈرہے؟‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتا ،میں اسکی
لاپرواہی پر جھنجلا جاتا ،کیونکہ مجھے اس کی بہت فکر رہتی تھی میں کوشش
کرنے لگا کہ فی الامکان اسکے ساتھ رہوں ۔اسکی حفاظت کے خیال سے میں نے اپنے
پاس پستول رکھنا بھی شروع کر دیا تھا ۔
چند سال گزر گئے اب ہم لڑکے نہیں رہے تھے گو کہ اب جوانوں میں شمار ہونے
لگے تھے مگر قدرے سنجیدگی آگئی تھی ۔منصور تو اور خوبصورت پرکشش لگنے لگا
تھا ۔اس میں وقار سا آگیا تھا ،اسکی دہشت اپنی جگہ مگر شخصیت اتنی مرغوب
کردینے والی تھی کہ کسی کو اسکے سامنے بولنے کی جرات نہ ہوتی تھی ۔اس عرصے
میں، میں نے شاہین کو ایک بار اسکے سوتیلے لڑکوں کے ساتھ دیکھا۔وہ لڑکے
شاہین سے بھی بڑے لگنے لگے تھے ۔وہ پانچ تھے اور پانچویں ایک جیسے لگ رہے
تھے ۔یہ پہچاننا مشکل تھا کہ کون بڑا ہے،کون چھوٹا ۔
میں بہت حیران ہوا منصور کو بتایا تو وہ کہنے لگا ۔’’یار ان میں چھوٹائی
بڑائی کا اتنا فرق نہیں تھا ،مگر شاہین نے بالکل ہی فرق مٹادیا۔پتانہیں
انھیں کیا کھلاتی پلاتی رہی ہے؟‘‘
اس دن منصوراپنے علاقے کی طرف گیا ہوا تھا، مجھے کہیں چین نہیں آرہا تھا،
میں اس کے پیچھے نکل پڑا ،اس کے علاقے میں لوگوں سے پوچھتا ہوا ادھر ادھر
گلیوں میں اسے تلاش کر رہا تھا کیونکہ مختلف لوگوں سے معلوم ہوا تھا کہ وہ
کچھ دیر پہلے یہیں تھا ۔
ایک گلی سے گزرتے ہوئے مجھے گھبرائی ہوئی مردانہ آواز آئی،اس مردانہ آواز
نے جو بات کہی اس کو سن کر میں چونک اٹھا اور بے اختیار دیوار سے لگ کر
باتیں سننے لگا کوئی نہایت گھبرائے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’باجی ! ہم اسے مار آئے!‘‘
’’کسے؟‘‘زنانہ آواز آئی۔
’’ہم سنسان راستے پر اس سے پہلے پہنچ چکے تھے ،جہاں سے اسے گزرنا تھا ،وہ
ہمیں دور سے نظر آرہا تھا ،راستہ چونکہ گہرائی میں تھا ہم اوپر جھاڑیوں میں
چھپے بیٹھے تھے۔ اسے دیکھتے ہی میں نے پہلی گولی اسکے ٹانگ میں مارے ،پھر
ہم نے چاروں کی طرف سے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی،پھر وہ وہیں گر گیا
تھا،پھر وہ لڑکھڑاتا ہوا جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا تھا ،میرا خیال ہے کہ وہ
اب تک مر چکا ہو گا،‘‘مردانہ آوازنے تفصیل سے بتایا ۔
’’تم کیا سمجھتے ہو وہ مر گیا ہوگا؟ ہونہہ یہ ناممکن ہے اس سے پہلے کہ وہ
تمہارے سروں پر پہنچے ،میں نے جو پستول تیار رکھے ہیں وہ لے جاؤ اور اس پر
خالی کردو اور یاد رکھنا اگر اس میں سے ایک بھی گولی ضائع ہوئی تو سمجھو کہ
وہ بچ جائے گا پہلا حملہ اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے،جاؤ جلدی کرو اس سے
پہلے کہ وہ اپنی پناہ گاہ میں چھپ جائے۔اسے ختم کردو ‘‘ زنانہ آواز نے سفاک
لہجے میں کہا ۔اسکے ساتھ ہی بھاگنے کی آوازیں آئیں ۔ میں نے آگے پیچھے
دیکھا کوئی نہیں تھاپھراچھل کر دیوار کے ساتھ لٹک گیا کہ دیکھوں کیا چکر
ہے؟میں نے دیکھا کہ شاہین بے چینی سے صحن میں ادھر ادھر ٹہل رہی تھی۔میں
جلدی سے نیچے ہوگیا میرا ذہن فوراً منصور کی طرف گیا،دل انجانے خوف سے
دھڑکنے لگا، پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا کہ میں کہاں ہوں بس اندھا دھند اس سمت
بھاگ رہا تھا جہاں شاہین کے سوتیلے لڑکے گئے تھے۔
پھر اچانک مجھے منصور نظر آگیا جو کہ لڑکھڑاتا ہوا اپنی پہاڑی پناہ گاہ کی
طرف جارہا تھا اسکی چال تیز تھی شاہین کی یہ بات درست ثابت ہوئی کہ پہلے
حملے اسکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔اسے زندہ دیکھ کر میں خوشی سے پاگل
ہورہا تھا کہ اتنے میں مجھے شاہین کے سوتیلے لڑکے نظر آگئے جو کہ منصور سے
تھوڑے فاصلے پر تھے ۔میں نے تیزی سے اترنے کی کوشش کی مگر اسمیں میرا پاؤں
پھسل گیا ۔بمشکل میں ایک درخت کی ٹہنی پکڑکر میں نے خود کو گہرائی میں گرنے
سے بچایا۔خود کو بچانے کی کوشش میں میرا دھیان منصور کی طرف سے ہٹ گیا میں
نے چونک کر نیچے دیکھا پانچوں لڑکے پورے راستے پر پھیل کر کھڑے ہو گئے تھے
اور سامنے منصور بالکل تنہا کھڑا تھا اسکی ٹانگ سے مسلسل خون بہہ رہا تھا
۔اسکی قمیض بھی خون سے سرخ ہو چکی تھی ۔میں نے وحشت زدہ انداز میں ان لڑکوں
پر فائرنگ شروع کردی،پہلے تو وہ ایک دم ساکت ہوگئے ،پھر گھبرا کر بھاگ کھڑے
ہوئے،میں نے وہیں سے نیچے چھلانگ لگادی،اس وقت مجھے اپنی جان کی بالکل
پرواہ نہیں تھی ،میں عجیب سے بے ڈھنگے انداز میں لڑھکتا ہوا نیچے گرا اور
تیزی سے منصور کی طرف بھاگا وہ اس وقت تک زمین پر گر چکا تھا اور اکھڑی
اکھڑی سانسیں لے رہا تھا مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پرایک مسکراہٹ سی رینگ
گئی ۔مجھے یوں لگا کہ وہ کہہ رہا ہو کہ دیکھا دوست میں نہ کہتا تھا کہ اس
عورت پر اعتبار نہ کرو ۔دیکھا وہ اپنا وار کر گئی نا۔
میں نے جلدی سے منصور کا سراپنی گود میں رکھ لیا ،منصور کی ٹانگوں، بازو
،پیٹ اور سینے پر کافی گولیاں لگی تھیں وہ خون میں تر بتر تھا ۔
’’منصور تم یہیں لیٹو میں تمہیں اسپتال لے کر جاؤنگا۔‘‘
’’بیٹھا رہ میں اب زیادہ دیر زندہ نہیں رہونگا‘کچھ وقت ہے ۔ کچھ باتیں میری
غور سے سن لے۔‘‘
’’بکواس مت کر تو زندہ رہے گا۔‘‘میں تڑپ تڑپ کر رورہا تھا۔
اسی وقت منصور نے اٹک اٹک کر کہا ۔’’دیکھا میں کہا کرتا تھا ناں کہ اسکو
اپنے سوتیلوں سے پیار میں کوئی بات‘کوئی چال ضرور ہے ۔اس سے اپنے سوتیلے
بیٹوں سے کہا ہوگا کہ تمھارے باپ کا قاتل منصور ہے پھر اس نے اپنا انتقام
لینے کے لئے اپنے بیٹوں کو قاتل بنا دیا واہ ری عورت!‘‘
اب منصور کی آواز کچھ بدلنے لگی تھی اور سانس بھی اٹکنے لگی تھی پھر وہ اٹک
اٹک کر بولا ۔’’چھوڑو جو ہوا اب عورتوں کی طرح رو نہیں‘مجھے مسکرا
کر رخصت کر ‘تو ہی تو ایک میرا عزیز ہے ۔تبھی تجھے الہام ہوجاتا ہے اور تو
میری حفاظت کے لئے موقع پر پہنچ جاتا ہے۔چل اب مسکرا تاکہ میری روح پُر
سکون ہو جائے۔یار میرے بھائی میں تیری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا
‘مسکرا ناں!۔۔۔۔وہ بمشکل بول رہا تھا اور پھر۔۔۔پھر وہ مر گیا۔۔۔میں اسکے
مرنے پر بلک بلک کر رو دیا ۔۔وہ دن ۔۔وہ منظر میں کبھی نہیں ۔۔کبھی نہیں
بھول سکتا!۔۔۔‘‘
میں منصور کی لاش کو اپنے گاؤں میں لے آیا میں نے اسکے باپ سے کہہ دیا کہ
اسکی لاش پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے ‘ میں نے اسکو بہت باتیں سنائیں کہ وہ
ہی منصور کو اس راہ پر ڈالنے والا ہے جب وہ زندہ تھا تو آپ اس سے ناراض رہے
اور اب جب وہ مرگیا تو بیٹے کی محبت دل میں زندہ ہو گئی ۔منصور کا کفن دفن
میں نے خود کیا ‘اور قسم کھائی کہ منصور کے قاتلوں کو بخشوں گا نہیں۔میری
حالت دیوانوں ایسی ہو رہی تھی میں اپنے آپ کو زندہ نہیں سمجھ ریا تھا‘اتنا
پیار تو مجھے اپنے سگے ماں باپ ،بہن بھائی نے نہیں دیا تھا کہ جتنا منصور
نے دیا ۔اس کے قتل سے سارے علاقے میں کہرام مچ گیا ۔کون سی آنکھ تھی جو
اشکبار نہ تھی ۔منصور کے باپ نے ساری جائیداد غریبوں کے لئے دے دی،کبھی
کہتا کہ میرے منصور کے نام پہ اسپتال بنا دو ،میرے منصور کے نام پہ سکول
کھول دو۔کبھی مجھ سے معافیاں مانگتا کہ تم معاف کردو میں سمجھونگا منصور نے
کچھ تو معاف کیا ۔مجھے ان پر ترس آنے لگا،وہ منصور ،منصور کرتے پاگل سے ہو
گئے ،انھیں منصور کے مرنے کا اتنا غم تھا کہ وہ منصور کے مرنے کے کچھ عرصے
بعد ہی انتقال کرگئے۔جائیداد نہ ملنے اورشوہر کے جانے کے بعد منصور کی
سوتیلی ماں اوراسکے بچے جو کچھ کرنا نہیں جانتے تھے د ر در کی ٹھوکریں
کھانے پر مجبور ہو گئے۔
شاہین کے اپنے ہی گاؤں کے کسی آدمی کے ساتھ مراسم ہوگئے شاہین کے سوتیلے
بچوں کو جب پتا چلا تو انھوں نے نہ صرف شاہین کو بلکہ اس آدمی کو بھی ہلاک
کر دیابلاخرشاہین بھی زندگی کی تمنا میں ہار گئی۔
میں نے ہر وہ جگہ چھوڑ دی جہاں منصور کی یاد تھی۔منصور اور میرے بعد باقی
بھی ایک ایک کرکے بکھر گئے ۔اب میں سارا سارا دن منصور کی قبرپر یا کسی
ویرانے میں گزار دیتا ہوں۔نہ میں نے شادی کی اور نہ میں واپس اب اس دنیا
میں جاسکتا ہوں ۔میں اس شجر کی مانند ہو جو صحرا میں اکیلا کھڑا برسوں سے
ہوا کے تھپیڑے کھا رہا ہو اور ڈھلتی عمر کے ساتھ زمین بوس ہونے کا منتظر
ہو۔
میں نے برسوں سے منصور سے برابر والی جگہ اپنی قبر کے لئے منتخب کی ہوئی ہے
۔لوگ ہماری دوستی کی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایسے تو سگے
نہیں نبھاتے جیسے ان دو منہ بولے بھائیوں نے نبھائی۔
منصور کہا کرتا تھا ۔ ’’یار!تو میری خوبیوں اور صلاحیتوں پر نگاہ رکھتا
ہے۔جب میں غنڈے اور بدمعاش کی چادر اوڑھتا ہوں تو یہ چھپ جاتی ہے۔‘‘آج دنیا
نے اس غنڈے اور بدمعاش کی چادر اتار دی اور سب کو اسکی خوبیاں صلاحیتیں اور
مردانہ وجاہت و وقار یاد آتا ہے لیکن یہی وہ دنیا ہے جو پل بھر میں چادر
بدلتی ہے۔پتا نہیں اور کتنے منصور ہونگے جن کو اس دنیا نے سونے سے پیتل بنا
دیا ۔ ! |