*ڈاکٹر ماریہ نقاش*
وہ ایک تاروں بھری رات تھی۔۔۔آسمان بادلوں سے پاک تھا ۔۔۔ہلکی ہلکی ہوا کے
ساتھ سرد جھونکے جسم میں سرایت کرتےہوے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔ہوا سے جھولتی
ڈھالیاں اور سرسراتے پتے۔۔۔ ماحول کی خاموشی کا سینہ چاک کر رہے تھے۔۔۔۔
دور کہیں سے گاہے بگاہےکسی بے قرار کتے کے بھونکنے کی آواز آتی اور پھر
سکوت چھا جاتا۔۔۔۔سماں کچھ بوجھل سا تھا۔۔۔ اس نے چائے کا کپ پکڑا اور کرسی
ڈال کر بالکنی میں بیٹھ گیا۔۔۔اور بغور چاند کو دیکھنے لگا۔۔۔ چاند اپنے
جوبن پر تھا۔۔۔ہر سو چاندنی بکھر رہی تھی۔۔۔ رات دھیرے سے سرک رہی تھی۔۔۔
آسماں کی زینت پر۔۔۔ کہکشاں ستارے بن کر بکھر رہی تھی۔۔۔اداسی گلیوں میں
بھٹک رہی تھی۔۔۔دنیا غافل سو رہی تھی۔۔۔ وقت بیت رہا تھا۔۔۔لمحے تھم رہے
تھے۔۔۔اسکی سوچوں کی گہرائ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔وہ یکا یک چاندکو دیکھے جا
رہا تھا۔۔۔چائے کا کپ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈا ہونے کو تھا۔۔۔شفاف چاند کا عکس
اسکی روشن آنکھوں میں تھا۔۔۔ داغدار مگر پر روشن چاند کی نکھری چاندنی نے
اسکے خیالات کا رخ اس ذات کی طرف موڑ دیا جسکے دامن میں کوئ داغ نہیں ۔۔۔۔
جسکی زندگی اجلے پانی سے زیادہ شفاف اور آب حیات سے زیادہ پاکیزہ۔۔۔اور
جسکی محبت میں جنت کی چاھ سے زیادہ کشش ہے۔۔۔ اور جسکا نام لب پر آنے سے
واجب ہے کہ لب بوسہ لیں اس نام کا۔۔۔جو چلے تو بادل اپنے آپ سایہ کریں۔۔۔
جس کا نام لینے پر دس نیکیاں دس انعامات دس درجات کا وعدہ خود رب نے کیا ہے۔۔۔
جسکے متعلق رب تعالی نے خود فرما دیا وہ دعا ،دعا نہیں جس میں میرے نبی کا
ذکر نہ ہو۔۔۔
وہ نماز ،نماز نہیں جس میں میرے نبی کا ذکر نہ ہو۔۔۔ وہ ہستی جس سے رب خود
اتنی محبت کرتا ہو اس شخص کی محبت واجب الاحترام , اور واجب العقیدت ہے۔۔۔
کیسے ممکن ہے کہ کوئ بد بخت ایسی شخصیت کی شان میں گستاخی کر کے آزادانہ
زندگی جئیے۔۔۔ اسے کوئ حق نہیں جینے کا۔۔۔اس کوئ حق نہیں سانس لینے کا۔۔۔
اسے کوئ حق نہیں سر اٹھا کر چلنے کا۔۔۔انہی سوچوں کے ساتھ اسکا سانس پھولنے
لگا۔۔۔وہ غصے میں بیچ و تاب کھانے لگا۔۔۔اور بے اختیار وہ چیخ اٹھا۔۔۔
ایسے شخص کا صرف ایک ہی انجام ہے اور وہ ہے۔۔۔۔۔۔
*موت*
اس فیصلے کے بعد اس نے گہرے گہرے سانس لیے اور سونے چل دیا۔۔۔۔
اگلے دن وہ حسب معمول اٹھا
۔۔ لیکن۔۔۔
گھر سے نکلتے ہوئے غیر معمولی طور پر خنجر لیا اور اپنی منزل چل دیا۔۔۔
فاتحانہ چال چلتے وہ گستاخ رسول کے سامنے جا پہنچا۔۔۔اور للکارتے ہوئے بولا
آ تجھے دکھا دوں کہ ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا انجام کیا
ہوتا ہے۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے خنجر والا ہاتھ بلند کیا اور آن کی آن میں وہ
خنجر اسکے سینے میں اتر گیا۔۔۔
گستاخ خوں اور بدکار جسم کا ساتھ چھوڑنے میں روح نے کوئ دیر نہ کی...
تڑپتا ہواجسم بھی آخر ٹھنڈا پڑ گیا۔۔۔
قتل کے بدلے قتل۔۔۔اسلامی قوانین کے مطابق غازی علم دین کو بھی پھانسی کی
سزاسنا دی گئ۔۔۔
پھانسی کا پھندا آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔موت چند انچ دور تھی۔۔۔ زندگی کی
شام ہو رہی تھی۔۔۔ دوست احباب، رشتے دار گھر بار، فیملی سب چھوٹ رہی تھی
۔۔۔لکن اس مرد مجاھد کے چہرے پر شکن تک نہیں تھی۔۔۔ موت کی پرچھائ تک اس ک
وجود میں نہ دکھتی تھی۔۔وہ سینہ جومحبت رسول سے سر شار تھا۔۔ اس میں موت کا
غم بھی سرایت نہ کر سکا۔۔۔ نبی ص سے اسکی عقیدت اسکےاحترام اور محبت نے اسے
سر خرو کر دیا تھا۔۔۔ وہ فانی دنیا کی جان لیوا تکلیفوں سے آزاد ہو کر اپنے
رب سے کی ہوئ تجارت کی اجرت لینے اپنے پروردگار کی جنت کا مہمان بننے جا
رہا تھا۔جب منزل اتنی خوبصورت ہو تو راہ کی رکاوٹوں کی تکلیف دکھ نہیں دیتی۔۔۔
اس نے آخری بار رب سے اپنی اس تجارت کی اجرت مانگنے اور اپنےرب کو اسکے کیے
ہوے وعدے کے مطابق جنت ملنے پر شکر ادا کرنے کیلیےدونفل کی اجاذت
مانگی۔۔۔نفل ادا کر کےخوشی خوشی اپنا سر راہ حق میں پیش کر دیا۔۔۔اور اپنی
منزل کی طرف کوچ کر گیا۔۔۔۔ اس نے جان دے کر معاوضے میں محبت رسول کے بدلے
اللہ سے جنت مانگ لی۔۔۔ بیشک اسکا سودا گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ |