ناکارہ اور بے کارسسٹم پھر سے کریش کرگیا۔

ناموس رسالتﷺ کے لیے ایک بار پھر مذہبی دھڑے سڑکو ں پر ہیں۔آسیہ بی بی کی رہائی پر جس قدر چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیر اعظم عمران خان وضاحتیں کررہے ہیں۔مذہبی دھڑوں کے احتجاج میں اتنی ہی شدت آرہی ہے۔مظاہرین حکمرانوں پر برس رہے ہیں۔ننگی زبان استعمال ہورہی ہے۔ڈرایا جارہا ہے کہ پچھلی حکومت کے انجام سے سبق سیکھو۔انہوں نے ختم نبوت ﷺ کے بل میں ترمیم کی۔ممتاز قادری کو پھانسی دی۔وہ خدا کی ناراضگی کے شکار ہوئے ہیں۔رسوائی ان کا مقدر بنی اور اب تحت سے زین پر آچکے۔خدا کی ناراضگی سے وہ ذلیل وخوار ہوئے ہیں۔حکمران ان کی بے بسی سے سبق سیکھیں باز آجائیں۔جس مغرب کی خوشنودی کے لیے آج کے حکمران کام کررہے ہیں۔وہ انہیں بچا نہ پائے گا۔مظاہرین کی باتوں میں ایک حد تک دم ہے۔سابق وزیراعظم اور ان کے حمایتیوں پر کڑا وقت ہے۔بلا شبہ وہ بے بسی کی تصویر بنادیے گئے ہیں۔کل تک و ہ آل ان آل تھے۔آج لاچار ہیں،روزانہ کی بنیادپر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔کہاں و ہ آزادانہ عوامی اجتماعات سے خطاب کیا کرتے تھے۔اب ان کی زبان بندی کردی گئی۔سابق حکمران واقعی نشان عبرت بن چکے۔مظاہرین کے جوش وخروش میں بدتدریج اضافہ ہورہا ہے۔سبب یہ کہ اب تک کسی طو رانہیں سیف ایگزٹ نہیں مل پارہا۔و عدلیہ کی طرف سے کسی قسم کے تاسف و پشیمانی کا کوئی عنصر ظاہر ہوا ،نا وزیر اعظم سمیت ان کی حکومت کے دوسرے اہم عہدے داران کی طر ف سے کچھ مداوہ کرنے کی بات ہوئی پہلے دن وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مظاہرین کو بندے کے پتر بننے کا کہا دوسرے دن وزیر اطلاعا ت نے دھمکی دی کہ حکومت کو کمزور نہ سمجھے آپ کو پتہ بھی نہ چلے گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہواہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی واضح کیا کہ جج کسی سے کم عاشق رسول ﷺ نہیں ۔کئی ججز بینچ میں بیٹھے درود پاک پڑھتے رہتے ہیں۔ہم کسی بے گناہ کو سزا نہیں دے سکتے۔مظاہرین کو یہ ردعمل بڑھکارہاہے۔توڑ پھوڑہورہی ہے۔گاڑیاں اور موٹر سائکلز نذر آتش کی جارہی ہیں،تین دن سے پور املک جام ہے۔آگے جا کے کیا ہوتاہے اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔کسی بات کی کوئی گارنٹی نہیں ۔اس بے یقینی کا سبب ہمارا ناکارہ سسٹم ہے ۔یہ کبھی بھی بوجھ برداشت نہیں کرپایا۔جب بھی بحران آیا دھڑام سے جا گرا۔اب جانے کتنے دن اور عوام بے حال رہتی ہے۔فیصلے سنانے والے جج سرخرو ہوچکے۔حکومت مطمئن ہے اوردھرنے والے اپنے جہاد پر خوش ۔کوئی پریشان ہے تو وہ عام آدمی ہے۔جس کی نقل وحرکت بند کردی گئی۔نہ کاروبار کے لیے جاسکتاہے۔نہ ہسپتال نہ سکول ۔ایک واقعہ نے ایک بار پھر ہمیں ایک نکمی اور بے حکمت قوم ثابت کردیا۔زیادہ ذمہ داری ارباب اقتدار پر عاید ہوتی ہے۔کیا انہیں اس ناکار ہ سسٹم سے آگاہی نہ تھی۔اگر انہیں پتہ تھاکہ اس طرح کا فیصلہ آنے کے بعد لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔تو انہوں نے اس کا مناسب بندوبست کیوں نہیں کیا؟۔اگر فیصلہ سنانا اتناہی ضروری تھاتو اپنی انتظامیہ کی قوت کو کیوں نہ ٹٹولا گیا۔اس فیصلے کے نفا ذ کے لیے کمزو ری کیوں دکھائی جارہی ہے؟کیوں پولیس ،رینجر اور آرمی کو طلب نہیں کیا جارہا۔یہ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا حکومت خاموش کھڑی تماشہ دیکھتی رہے گی۔انتظار کیا جائے گا کہ کب مظاہرین تھکتے ہیں؟ ایک بات لکھ لیں یہ بالکل نہ تھکیں گے۔یہ کوئی اتفاقی ہجوم نہیں ہے۔نہ ہنگامی ہجوم ہے۔یہ ایک پلانڈ ہجوم ہے۔اسے نہ کھانے پینے کی کمی آنے دی جائے گی نہ موسم کی سردی گرمی کا مسئلہ ہونے دیا جائے گا۔حکومت کو اگر اپنی انتطامیہ پر بھروسا نہ تھا، ملک کو ان مظاہرین کے رحم وکرم پر چھوڑنا تھا تو فیصلے کورکواکیوں نہ دیا گیا؟ وزیر اعظم عمران خاں کواب اصل معاملات کی کچھ کچھ سمجھ آرہی ہوگی۔وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی سوچے ہوئے تھے۔سو دن میں انقلاب لانے کی ٹھانے ہوئے تھے۔اب انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہورہا ہے۔اندازہ ہورہا ہوگاکہ فیصلے اور منصوبے بنانا اہم ہے۔مگر اس سے بھی زیادہ اہم ان پر عملدرامد ی ہے۔وہ اپنی انتظامیہ کی طرف سے بے رغبتی کی کوفت جھیل رہے ہیں۔یہ انتظامیہ کسی کے حکم پر متحرک ہونے کی بجائے اپنی مرضی کرنے کی عادی ہوچکی۔سابق وزیر اعظم کا مسئلہ بھی تو یہی تھا۔وہ انتظامیہ کو عوامی نمائندوں کے تابع کرنے کی سوچ رکھنے کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔کیا وزیر اعظم عمران خاں کی خواہش نہ ہوگی کہ ملک بھر میں جو پہیہ جام ہے۔ایک منٹ بھی جاری نہ رہے؟ مگر وہ کریں بھی تو کیا۔مظاہرین کی یہ بات تو سچ ہے کہ پچھلی حکومت کے ساتھ بہت برا ہو۔حکمران نشان عبرت بنادیے گئے۔دربدر ہیں۔کوئی جیل میں کوئی پیشیوں پراور کوئی مفرور قرارپایا۔مگر نئی حکومت کی بے بسی دیکھ کر مظاہرین کی یہ بات سچ ماننے میں نہیں آتی کہ سابقہ حکمرانوں کی یہ حالت خدا کی ناراضگی کے سبب ہے۔یہ ناراضگی خدا کی ناراضگی نہیں مانی جاسکتی۔اگر ممتاز قادری کی پھانسی۔اور ختم نبوتﷺ کے بل میں ترمیم پر خدا کی ناراضگی کی بات ہے تو یہ دونوں معاملات کسی طور سابق وزیر اعظم اور ان کچھ لوگوں کے گلے نہیں ڈالے جاسکتے جو نشان عبر ت بنائے گئے۔ممتازقادری کی پھانسی کے پیچھے مدعیان تھے۔عدالتی فیصلہ اس کا سبب بنا۔نہ تو مدعیا ن کا بال بیکا ہوا نہ ججز کا کچھ بگڑا۔دوسرامعاملہ ختم نبوتْ ﷺ کے بل میں ترمیم کا ہے۔اس ترمیم کی ژمہ دار صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں باقی بھی جماعتیں تھی۔خدا ناراض ہوتا تو وہ ناراضگی کبھی غیرمنصفانہ نہ ہوتی۔سبھی ذمہ داران اس کی گرفت میں آتے۔کسی ایک شخص کو کبھی بھی گرفت میں نہ لیا جاتا۔درحقیقت ناراض خدا نہیں تھا کچھ لوگ تھے۔وزیر اعظم عمران خان آسیہ بی بی کیس میں بڑی حد تک ان کچھ لوگوں کی جھلک دیکھ رہے ہونگے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141081 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.