بچوں کی تربیت میں اسکول کا کردار

تحریر:معصومہ ارشاد
کہتے ہیں کہ بچوں کے بگڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہے۔سچ ہے مگر کچھ حد تک۔کافی اور بھی عناصر ہیں جو ان کو اس حد تک پہنچانے کے ذمے دار ہیں کہ بچہ اپنا اچھا برا پہچانے بغیر تمیز و تہذیب کی ہر حد پار کر جاتا ہے۔ان عناصر میں ایک تو ان کے ماں باپ کی عدم توجہی شامل ہے۔جو بچوں کی ہر ضرورت تو پوری کر دیتے ہیں مگر یہ تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے آیا ان کے بچے ضرورت کی ان چیزوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔کہیں وہ ضرورت کی ان اشیاء سے غیر ضروری کام کرکے اپنا آپ تو غیرضروری نہیں کیے جارہے اور کچھ مخصوص ٹیچرز جن کو وہ اپنی فطرت کے حساب سے آئیڈئلائیز کرتے ہیں ان کی بے جا سپورٹ صرف اس لیے کہ وہ ہمیشہ ان کے آئیڈیل بنے رہیں۔وہ بچوں کی کسی بھی غلط بات کو غلط نہیں کہتے نہ ان کو اس عمل سے روکنے کی ہمت کرتے ہیں جو ان کی زندگی کو کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔

یوں بچے اور شہہ پاجاتے ہیں اور ہمیشہ اسی راستے کو درست قرار دیتے ہیں کہ ان کے آئیڈل ٹیچر کی نظر میں بھی وہ عمل درست ہے اور سب سے بڑھ کر ایسا ماحول ذمے دار ہے جو ان کو یہ سب چیزیں آسان کر کے دیتا ہے۔

جیسے کہ بچے نے کوئی غلطی کی تو ماں باپ نے بچہ سمجھ کر نظر اندازکردیاکہ بچہ ہے جب بڑا ہوجائے گا تو خود ہی سمجھ جائے گا۔آگے چل کر پھر کسی کے ساتھ مل کر اس نے وہ غلطی دہرائی تو یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کیا کہ سارا قصور ساتھ والے کا ہے۔اس نے ہی ورغلایا ہے۔وہ ہی بچہ ا سکول میں کوئی غلطی کرے اس کو سزا دی جائے تو ماں باپ خاندان میں اپنی ریپوٹیشن خراب ہونے کا خیال رکھتے ہوئے استاد کی شکایت لگانے پہنچ جاتے کہ ہم فیس اس بات کے لیے نہیں دیتے کہ ہمارے بچوں کو سزا دواور اسکول انتظامیہ اپنے ادارے کی ریپوٹیشن بچانے کے لیے بجائے پیرنٹس کو سمجھانے اور بچے کی تربیت کرنے کے ایک استاد کو صرف نصابی تعلیم پوری کرنے تک ہی محدود کر کے رکھ دیتی ہے۔ایک وقت تھا کہ بچوں کی تربیت کی خاطر ماں باپ اپنے بچوں کو اساتذہ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔

مگر آج کل اساتذہ کو صرف نصابی تعلیم دینے تک ہی محدود کر دیا گیا۔تربیت کا نام ونشان تعلیمی اداروں سے مٹانے والی سکول انتظامیہ ہی ہے۔جن کا رویہ دیکھ کر آج کل پرائیویٹ سکولز میں بس نصابی تعلیم ہی پر توجہ دینے اور خود کو سراہے جانے پر خوش ہونے والے ہی ان ادراروں میں نمبر ون بنتے جارہے ہیں کیوں کہ وہ اپنے نام نہاد معیار اور اعلی اسٹینڈرڈ اور انتظامیہ سے وابستگی کے حوالے سے وہاں براجمان رہتے ہیں۔جب کہ ایک مخلص اور قابل استاد اپنی ذمے داری سے دغا نہیں کرتے ہوئے،انتظامیہ کی طرف سے ہر بار کسی نئی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جہاں تک گھر اور محلے کی بات ہے وہ ہر ایک کے لیے ایک سا ہونا قطع ممکن نہیں۔لیکن ہاں اگر ان بچوں کوا سکولز میں تعلیم کے ساتھ بہتر تربیت دی جائے تو کافی حد تک اس بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکا جا سکتا ہے۔کیوں کہ کہتے ہیں بچہ ماں باپ سے بڑھ کر اپنے استاد کی بات کو اہمیت دیتا ہے بشرطیکہ وہ استاد تعلیم سے بے انتہا پیار کرتا ہے۔

آج کل اسکولز میں بچوں کی تربیت سے غفلت ا ور بے راہ روی میں سب سے بڑا ہاتھ چند ایسے اساتذہ کا ہے جو اپنے پیشے کی ذمے داری ،اہمیت اور اس کے رتبے سے خود واقف نہیں ہوتے۔جو تعلیم جیسے مقدس پیشے کو فقط روزگار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور سب سے بڑا ہاتھ اس انتظامیہ کا ہے جوا سکولز کو صرف پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔وہ یا توواقعی اس ذمے داری سے انجان ہوتے ہیں کہ ان کے زیرِ سرپرستی ایک نسل تربیت پارہی ہے، ان کی غفلت ایک نسل کے مستقبل کو تاریک کرسکتی ہے۔

ایک استاد ہونا صرف اک استاد نہیں ہوتا۔اس میں کئی کردار سمائے ہوتے ہیں۔وہ بیک وقت ایک استاد بھی ہوتا ہے تو بچے کے ساتھ اس کا رشتہ ماں باپ جیسا بھی ہوتا ہے۔وہ ان کی بہتر پرورش کے ذمے داار ہوتے ہیں۔ کبھی اس کو اپنے طالب علم کی ذہنی کشمکش تک پہنچنے کے لیے بہن بھائی کا کردار بھی ادا کرنا ہوتاہے۔کچھ طالب علم کی ذہنی سطح کو اجاگر کرنے کے لیے اک استاد کو اس کی کلاس میں پڑھنے والے ہر بچے کا دوست بھی بننا پڑتا ہے۔ایسے ہی کوئی اپنے بچوں کا بیسٹ ٹیچر ،رول ماڈل اور آئیڈیل نہیں بنتا ہے۔بچے بہت معصوم ہوتے ہیں خدارا ان کے مستقبل سے ساتھ ایسے نہ کھیلیں۔اور جن کو اس بات کا احساس ہے ان کی قدر کریں۔اپنی انا اور رتبے کی خاطر اپنے بچوں کو ایسے انسان کے ہاتھوں بے راہ روی کا شکار نہ ہونے دیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.