مدینہ مارکیٹ آتشزدگی تصویری فاتحہ ‘ اور فوج ؟؟؟؟

مدینہ مارکیٹ آتشزدگی تصویری فاتحہ ‘ اور فوج ؟؟؟؟

آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے سب سے مشہور تجارتی مرکز مدینہ مارکیٹ میں مسعودی جنرل سٹور کے اندر آگ لگنے سے 10 دکانات جل گئیں اگر ابتداء میں آگ پر قابو پا لیا جاتا تو باقی دکانات محفوظ رہتیں اور ایک نوجوان کم از کم جل کر کوئلہ جیسا رنگ اختیار کرتے ہوئے زندگی سے محروم نہ ہوتا مگر ہمارے ملک خصوصاً آزادکشمیر میں زلزلہ سیلاب آتشزدگی حادثات ہوں یا ہسپتالوں میں بروقت ادویات انجکشن نہ ملنے پر دم توڑتے مریض ہوں اللہ کے رحیم کریم اور گناہ گاروں کیلئے لمبی رسی ہونے کی حکمت کا سفاکی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اللہ کی مرضی مقدر کا لکھا کہہ کر مٹی پاؤ فارمولے کے تحت انفرادی ‘ اجتماعی غفلت و لاپرواہی کے جرائم کو پردہ ڈال دیا جاتا ہے حد یہ ہو گئی ہے فاتحہ خوانی سے ختم شریف اور نماز جنازہ تک میں کیمرے ‘ تصاویر اور پھر دنیا سے رُخصت ہونے والے کے غم سے نڈھال ورثاء سے زبردستی بغلگیر ہو کر حاضری لگوانا ثواب سے زیادہ اہم بنا لیا گیا ہے جسے تصاویر طبعی وفات والے کی سفارش ہوں گی آئینی منصف پر فائز شخصیات اور اُن کے ساتھ لیڈروں کی ایک سلائی مشین مجبور بوڑھی عورت کو دیتے ہوئے ہاتھ رکھ کر خصوصی پوز بنوانے یا آٹے کے تھیلے کے ساتھ یہ مناظر غلبہ بے حسی کا عکاس ہوتے ہیں ‘ چار سو یا چار ہزار کی سرکاری خرید کی چیز اس طرح دیتے ہوئے تماشے عام ہیں اور ستم بالا ستم یہ ہے آزادکشمیر اور بیرون ملک ممالک مقبوضہ کشمیر ‘ مرد ‘ عورت ‘ بزرگ ‘ نوجوان بچوں کی شہادتوں اور دُکھ تکالیف سے لبریز تحریک کو بھی معافی نہیں دی جاتی ‘ الحاق ہو یا خود مختاری کا نعرہ مستقل حل اور فقید سے پہلے رائے و فکر کا اظہار سب کا حق ہے جس کے لیے مقتل میں قربان ہونے والے شہادت کے جام نوش کر کے مقصد کو زندگی دے رہے ہیں ‘ آر پار ‘ بیرون ملک اپنی تحریک سے بے لوث وابستگی کے ساتھ بغیر نام چرچا کے کام کر رہے ہیں مگر کام کے بجائے الحاق خود مختار کے نام پر نام نہاد جگاڑ والے جذبات کا کھلواڑ کر کے موجیں اُڑاتے چلے آ رہے ہیں تو پھر زلزلہ ‘ سیلاب ‘ آتشزدگی ‘ حادثات کے اسباب کیا معنی رکھتے ہیں ‘ ماسوائے کرپشن ‘ غفلت کام چوری کے باوجود (101) اکاؤنٹ کے سرکاری غیر سرکاری استفادہ کاروں کا بازار چلتا رہے ورنہ یہ سب انصاف کرنے والے آج کے کافروں کے ملکوں ‘ معاشروں میں ہوتا تو چین کی طرح ان کو لائن میں کھڑا کر کے گولیاں ماری جاتیں ۔ مگر یہاں صرف ہزار روپے اور زرہ بھر چیز کیلئے اجتماعی مفاد کو قربان کرنے میں سب شامل ہو جاتے ہیں ورنہ بڑے یا چھوٹے نقصانات شدت کے حامل ہرگز نہیں ہوتے‘ مارکیٹوں ‘ محلوں میں ایمبولینس ‘ فائر بریگیڈ گاڑیاں داخل نہیں ہو سکتیں ‘ کیوں کہ گلیاں چوڑی نہ کرنے دی گئیں ‘ تھڑوں چھجوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دیں ‘ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور سول ڈیفنس سمیت اداروں کے پاس جدید گاڑیوں ایکوپیمنٹ سے لیس ہونے کے باوجود ناکام ہوتے ہیں پھر وہی فوج بلانی پڑتی ہے جس ادارے کو طنز کا نشانہ بنا کر بہادری کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے اور عملی شکل میں سانپ سونگھ جاتا ہے ‘ زلزلہ کے بعد فالٹ لائنوں کے زندہ وجود کے باوجود اپنے اپنے مفاد ‘ دلچسپیوں کیلئے اجتماعی مفاد اور حقیقت کے ادراک سوچ و عمل سے گریزاں ہو کر ہر خاص عام نے ایک اور زلزلے کے خطرے کو جائیکا پلان کے مطابق شہر آبادیوں کو محفوظ بنانے کے تمام اقدامات پر مجبور کرنے کی آواز کے بجائے اپنے بچوں اور خود کو داؤ پر لگایا ہوا ہے کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے ورنہ سات ارب کے ناکام واٹر سپلائی ‘ سیوریج سسٹم دو سال سے فنڈز کے باوجود میڈیکل کالج نہ بننے دینے والے زمینوں کے مافیا ‘ شاپنگ پلازہ فیز ٹو نہ بننے دینے والے پلازوں کے اونرز قرضہ سے بننے والے پراجیکٹ کو کرسیوں ‘ پلازوں اور گریڈ والوں کو فروخت کردینے والوں سمیت سینکڑوں سکینڈلز کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا علم بلند کیا جاتا مگر برادری ‘ علاقہ ‘ رشتہ ‘ تعلق داریاں اور ہوس ‘ مفاد اپنی اور نئی نسلوں کی زندگیوں سے زیادہ قیمتی ہیں پھر اداروں ‘ حکومتوں کو مورود الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے ؟؟؟؟
 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 148980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.