احتجاج و دھرنا کا اختتام اور آئندہ کا لائحہ عمل

حکومت اور دھرنا دینے والی جماعت کے مابین ہونے والے ۵ نکاتی معاہدہ کے تحت دھرنا ختم ہو گیا

توہین رسالت میں سزا یافتہ عاصیہ مسیح کے گزشتہ بدھ 30 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کی جانب سے رہائی کے فیصلے کے نتیجے میں ملک گیر احتجاج اور دھرںوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور جس کی بندش 5 نکاتی ایجنڈے پر جمعہ کی شب یعنی 2 نومبر 2018 کو پاکستانی حکومت اور مزہبی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللٰہ کے مابین ایک معاہدے کی بدولت عمل میں آئی معاہدے میں تحریر پانچ نکات حسب ذیل ہیں

1۔ عاصیہ مسیح کے مقدمے میں نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی گئی ہے جو کہ مدعا علیہان کا قانونی حق و اختیار ہے جس پر حکومت معترض نہیں ہو گی
2۔ عاصیہ مسیح کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں شامل کرنے کے لئے قانونی کاروائی کی جائے گی
3۔ عاصیہ مسیح کی بریت کے خلاف تحریک میں اگر کوئی شہادتیں ہوئی ہیں ان کے بارے میں فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے گی
4۔ عاصیہ مسیح کی بریت کے خلاف 30 اکتوبر اور اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئی ان افراد کو فورا رہا کیا جائے گا
5۔ اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلا جواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے

اللٰہ کا شکر ہے کہ احتجاج ختم ہوا اور اب سے قانونی راستہ اپنایا جائے گا اگرچہ فیصلہ آنے کے دن سے لے کر معاہدہ ہونے تک حکومتی اور عام عوام کی پراپرٹی کا بہت بے دردی سے ضیاع کیا گیا ہے جو کہ قطعا قابل مذمت ہے اور عام عوام کو اس کا کافی ہرجانہ بھگتنا پڑا ہے ملک و قوم کو ان ایام کے دوران کافی نقصان کا متحمل ہونا پڑا ہے

بے شک ہمارا دین اسلام ہمیں بے گناہوں کے مال و جان کا نقصان کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے ناموس رسالت کے سلسلے میں ہر ایک دین اسلام کا پیروکار بہت حساس ہے نہ صرف مزہبی جماعتیں بلکہ ہر مسلمان توہین رسالت کی سختی سے مذمت اور کسی بھی صورت برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ایک مسلمان کا ایمان تب تک کامل نہیں جب تک نبی پاک کو اپنی جان سے مقدم نہیں رکھے

بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی خدانخواستہ نبی پاک کی شان میں گستاہی کا ملزم ہو تو اسے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ہم طریقہ کونسا اپنا رہے ہیں الزام کوئی بھی کسی پر بھی لگایا جا سکتا ہے اور جیسا کہ اپنے نبی محترم حضرت محمد کے معاملے میں سبھی مسلمان بہت حساس ہوتے ہیں جس کو جانتے ہوئے کچھ خبیث صفت لوگ ہماری اس عقیدت عشق کو اپنے ناپاک عزائم جیسا کہ کسی کو تباہ و برباد کرنے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں لحاظہ سب سے بہترین طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے اور ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے جب ملزم کا جرم ثابت ہو جائے اور وہ مجرم قرار دے دیا جائے تو ریاست کا فرض ہے کہ اسے نیست و نبود کرے اور عبرت کا نشان بنائے

جیسا کہ حالیہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت متنازع اور ہر خاص و عام کو اس پر تحفظات ہیں احتجاج کی بجائے نظر ثانی کے لئے تبھی اپیل کر دینی چاہیے تھی تاکہ اگر کچھ پہلو پوشیدہ رہ گئے ہوں یا واقعات کو استغاصہ صیح سے بیان نہیں کر پایا ہو تو ان خامیوں کو دور کر کے دوبارہ کیس پیش کیا جائے تاکہ اگر واقع ہی عاصیہ مسیح نے یہ ںاقابل معافی گناہ کیا ہے جیسا کہ ماضی میں وہ اس کا اقرار کر چکی ہے اور دو عدالتوں نے اسے مجرم جان کر سزا بھی سنائی ہے تو اسے اپنے کیے پر سزائے موت کو یقینی بنانا ریاست پر فرض ہے

اس کے ساتھ ساتھ عدالت سب پہلووَں کو بہت باریکی سے جانچے اور اگر عاصیہ مسیح بے قصور ہے تو جن لوگوں نے یہ گنووَنا الزام لگایا ہے اور سب مسلمانوں کے جزبات کو انتہائی ٹھیس پہنچائی ہے تو شریک سبھی لوگوں کو توہین رسالت کی مد میں سزائے موت کی سزا ضرور ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی آئندہ کے لئے کسی سے دشمنی یا مفاد کی خاطر ایسا نا قابل معافی جرم نہیں کرے

Syed Zulfiqar Haider
About the Author: Syed Zulfiqar Haider Read More Articles by Syed Zulfiqar Haider: 23 Articles with 25852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.