میرا بستہ واپس کرو

“میرا بستہ واپس کرو“ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے آجکل سب ہی واقف ہیں ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پانچ سالہ پٹھان بچّے احمد شاہ کی وہ ویڈیو ہے جس میں وہ بلاشبہ اپنی ٹیچر سے مخاطب ہے جنہوں نے اس بچّے کا بستہ اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور احمد اپنی ٹیچر سے وہ بستہ واپس مانگ رہا ہے مگر اس کی ٹیچر اسے بستہ واپس کرنے کے بجائے مزید غصّہ دلا کر اس کی ویڈیو ریکارڈ کر رہی ہیں اور وہ معصوم بچّہ بس غصّے میں چلّا رہا ہے کہ میرا بستہ واپس کرو۔ احمد کو مسلسل اکسایا جاتا ہے کہ وہ غصّہ کرے اور پھر اس کاتمسخر بنایا جائے ۔

یہ کہاں کی تعلیم ہے یہ کہاں کی تربیت ہے جو ایک بچّے کو اس کے استاد سے بدتمیزی کرنا سکھا رہی ہے۔ ایک استاد اور شاگرد کے مابین احترام کو ختم کر رہی ہے استاد روحانی والدین کی حیثیت رکھتا ہے استاد کا رتبہ بہت عظیم ہوتا ہے ایسی بہت سی احادیث اور روایات ملتی ہیں جن میں استاد کی عظمت بیان کی گئی ہے ۔ لیکن یہاں استاد خود طالبِ علم کو بدتمیزی کرنا سکھا کر خوش ہو رہا ہے اور یہ بات صرف یہاں تک نہیں رہی احمد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وہ سوشل میڈیا پر مشہور ہوگیا اور اس کو مارنگ شوز میں مدعو کیا جانے لگا ۔ شو میں بار بار احمد کو غصّہ دلایا جاتا ہے تاکہ ٹی آر پی بڑھائی جا سکے۔

لمحہ فکریا تو یہ ہے کہ یہ ظالم دنیا اپنے مزاح اور اپنے مفادات کی خاطر معصوم احمد کی تربیت پر ظلم کر رہی ہے اگر بچّے کو قدرتی طور پر ذیادہ غصّہ آتا ہے تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ احمد کے غصّے کو مذاق کا نشانہ بنایا جائے یہ اس بچّے کے ساتھ ذیادتی ہے ۔ آج احمد چھوٹا ہے اسے نہیں معلوم کہ اسکا غصّہ لوگوں کو لطف اندوز کر رہا ہے یا کسی کی کمائی کا ذریعہ بن رہا ہے ۔ لیکن جب وہ بڑا ہوگا تو یہ غصّہ اس کی طبیعت کا لازمی حصّہ بن جائے گا اور پھر وہی لوگ جو آج اسکا غصّہ انجوائے کر رہے ہیں کل اس کو بدتمیز کہ کر پکاریں گے اور اگر تب بچّہ استاد سے بدتمیزی کرے گا تو اس کے گھر نو ٹس بھیجا جائے گا اس کے والدین سے شکایات کی جائے گی اور پھر یہ کسی کو یاد تک نہیں ہوگا کہ اس بچّے کے غصّے سے کبھی لطف اندوز بھی ہوا جاتا تھا ۔

بچّے کی تربیت میں سارا عمل دخل ان افراد کا ہوتا ہے جو بچّوں کے ساتھ ذیادہ تر ہوتے ہیں جیسے والدین بہن بھائی یا اساتذہ وغیرہ ۔ ہم تربیت کرتے ہوئے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ بچّہ ہماری ہر بات نوٹ کرتا ہے جیسے ہمارا بولا گیا چھوٹا سا جھوٹ بچّے کو بڑے جھوٹ بولنا سکھا سکتا ہے مثال کے طور پر بچّے سے کوئی چیز چھپانے کے لئے کہ دینا کہ بلّی لے گئی یا چڑیا لے گئی بلا شبہ بچّہ اس وقت یہ نہیں سمجھ پائے گا کہ یہ جھوٹ تھا مگر اس کی تربیت میں جھوٹ کی ملاوٹ ہو جائے گی ۔ بچّے کو جھوٹے لالچ دینا کہ تم فلاں کام کرلو تو میں تمہیں فلاں چیز دنگی اور بعد میں بچّے کو وہ چیز نہ دینا یہ سا جھوٹ کے ضمرے میں آتا ہے اور وہی بچّہ جب خود جھوٹ بولے گا تو ماں اس کو سزا دیتی ہے کہ تم نے جھوٹ کیون بولا ۔ تو جناب بچّے نے جھوٹ اس لئے بولا کیونکہ آپ نے اسے سکھایا ۔ ہمیں بچّے سے پہلے اس معاملے میں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔

بچّے کو جو سکھاؤ وہ وہی سیکھتا ہے جی ہاں بچّہ سیکھتا ہے ، بچّہ وہ بھی سیکھتا ہے جو غیر اراداتی طور پر آپ بچّے کو سکھاتے ہیں ۔ جیسے بچّے سے کہا جاتا ہے کہ “ بیٹا باہر دروازہ پر جو صاحب یا صاحبہ ہیں ان کو کہ دو کہ ابّو یا امّی گھر پر نہیں ہیں جب کہ وہ گھر پر ہی موجود ہوں ۔ باہر آنے والے شخص سے ملاقات سے بچ کر آپ اپنے ہی بچّے کو جھوٹ کی راہ پر گامزن کر بیٹھتے ہیں۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی دی گئی اچھی تربیت کل بچّے کا اچھا مستقبل روشن کرسکتی ہے۔ ہر ماں باپ اپنے بچّے کو معاشرے کی برائی سے بچانا چاہتے ہیں لیکن وہ کہیں نہ کہیں اس بات سے انجان ہیں کہ ان کی طرف سے کی گئی چھوٹی سی لاپرواہی بچّے کی تربیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔

Munazza Hussain
About the Author: Munazza Hussain Read More Articles by Munazza Hussain: 10 Articles with 7082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.