من و عن دوسروں کی سن کر عمل کرنے والے ایک دن خود فیصلے
کرنے کے عادی نہیں رہتے۔
دوسروں کی باتوں میں آکر اپنا نقصان کروانا بدترین بے وقوفی ہے، دوسروں کی
تسلیم کرنے سے پہلے اپنے نفع نقصان کا ضرور سوچ لینا چاہیے تاکہ بعدازں یہ
کہنے سے بچ سکیں کہ ہم نے کسی کی بات مان لی تھی۔
کل برا گذرا تو آنے والاکل اچھا مثبت سوچ رکھنے سے گذر سکتا ہے
دعا دوسروں کے لئے جتنا زیادہ کی جائے گی آپ اپنے لئے مزید آسانیاں حاصل
کرتے جائیں گے۔ انشا اللہ
ہم منفی باتوں اور ماضی کو مثبت سوچ کے ساتھ مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش
نہیں کرتے ہیں
کچھ کہنے سے قبل سوچ لینا چاہیے کہ ردعمل کچھ زیادہ سخت ہو سکتا ہے لہذا
ردعمل کو نہیں اپنی کہی بات کو کہنے سے روک لینا چاہیے یا پھر کھلے دل سے
جوابی ردعمل کو برداشت کرنا چاہیے۔
جن لڑکیوں کی سسرال میں عزت کی جاتی ہے وہ وہی ہوتی ہیں جو اپنے گھر کی
نسبت سسرال کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہیں اوروقت کے ساتھ ساتھ سب
سرالیوں کے دلوں پر راج کرتی ہے۔
جہاں عورت نے بسنا ہو وہاں وہ لب بند رکھ کر گذارہ کر جاتی ہے
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم لوگ آنکھوں دیکھی باتوں پر ایمان نہیںلاتے ہیں
انداز گفتگو کسی بھی انسان کی پہچان کرا سکتا ہے کہ وہ کیسا ہے۔ کسی بھی
فرد کی کہی جانیے والی باتیں اکثر ایسی ہوتی ہیں جو اس کو بھی اپنی لیپٹ
میں لے لیتی ہیں اور رسی کا پھندہ بھی بن جاتی ہیں لہذا ہر بات دیانت داری
, فساد سے بچانے اور نجات والی کرنی چاہیے۔
کبھی کبھی تجربہ کار بھی اناڑی سے ہار جاتا ہے کہ استادی پر گھمنڈ ہو جاتا
ہے
مسلسل محنت اور کوشش سے منزل تک رسائی ناممکن نہیں رہتی ہے۔
اپنے تخلیقات کو دنیا کے سامنے لانا چاہیے تاکہ آپ کو یہ علم ہو سکے کہ جو
آپ کی کوشش ہے وہ کس قدر مفید اور کارآمد ہے۔
بے کار رہنے سے بھی ذہنی طور پر انسان پریشان رہتا ہے لہذا مصروفیت میں
جینا سیکھیں۔
حوصلہ افزائی کرنے سے صلاحیتوں میںمزید نکھار آتا ہے۔
تعلق توڑ دینے سے یادیں ختم نہیں ہو جاتی ہے، بلکہ وہ تلخ حقیقت باربارذہن
میں آکر ستاتی ہے،یوں ہم کسی سے لاتعلق ہو کر بے تعلق نہیں رہتے۔
بچوں کو اچھے اور برے فرد کی تمیز سکھلانے سے بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا
ہے۔
جن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے وہ بہت کم ہی شیطانی بہکاوے میں آتے ہیں، اپنے
ایمان کو سلامت رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی ذات پر بھرپور
اعتماد کریں۔
کنوئیں کے مینڈکی مانند کچھ لوگ بھی اپنی سوچ کو ایک خاص حد سے زیادہ نہیں
لے کر جا سکتے ہیں، لہذا منفی باتوں کو نظر انداز کرنے کی عادت اپنائیں، آپ
خوشحال زندگی بسر کریں گے،۔
آپ کا بہترین استاد وہ ہے جو آپ کی سوچ کا دھارا بدل کر حوصلے زیادہ کر کے
منزل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر تاہے۔
جھوٹ کے ہزاروں خریدار ہیں مگرسچ خریدنے والا کوئی نہیں ہے۔
بچوں سے جب ہم خود دوسروں کے آگے جھوٹی بات کہلوائیں گے تو یہ کیسے ہو سکتا
ہے کہ وہ ہمارے سامنے جھوٹ نہ بولیں۔بچے وہی کرتے ہیں جو وہ ہوتا ہوا
دیکھتے ہیں لہذا بچوں کی تربیت کرتے وقت ان عناصر پر توجہ رکھیں ورنہ
بعدازں آپ ہی پریشان ہونگے۔
اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو مولوی کہا جاتا ہے مگرشیطانی عمل
کرنے والے پھر بھی مسلمان کہلواتے ہیں یہ عجیب ترین بات ہے۔
دوسروں پر الزام تراشی کرنے سے بہتر ہوتا ہے کہ آپ اپنے گریبان میں جھانک
لیں، اکثر دوسروں سے زیادہ ہمارا اپنا رویہ معاملات خراب کرنے کا سبب ہوتا
ہے۔
بچوں کے سامنے جیسا کیا جائے گا ویسا ہی وہ آپ کے سامنے کریں گے، لہذا بچوں
کے لئے قابل رشک مثال چھوڑیں بصورت دیگر بعدازں آپ کو وہی نظر آئے گا جو آپ
کر چکے ہونگے۔
ہم اسوقت تک بہت اچھے اورسچے ہیں جب تک ہم دوسروں کی امیدوں اور خواہشات کو
پورا کرتے رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ ضمیر کے سو جانے کا ہے اگر وہ سو جائے تو جاگتے ہوئے آدمی
کو اچھائی اور حق کے حصول کے لئے آمادہ کرنا مشکل ترین ہے۔
نازک لمحوں میں کوئی بھی اپنی اہمیت ثابت کر سکتا ہے کہ وہ کتنا قابل
بھروسہ ہے۔
کڑوی سچائی کو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر بات سچ یہی ہے کہ ہم اسلام کا
لبادہ اوڑھ کر سیاہ کاتوت سرانجام دینے کے شوقین بنتے جارہے ہیں۔
عمدہ تعلقات رکھنے کےلئے دل و دماغ کو پرسکون رکھتے ہوئے فیصلے کرنا پڑتے
ہیں۔
|