اگر کوئی بچہ کبھی ایسی شے کے لئے شدید ضد کرنے لگے جو
اسے نہیں دینی ہے تو والدین کو کیا کرنا چاہیئے:
1- ضد پوری کردیں
2- پیار سے سمجھائیں کہ یہ کیوں نہیں لینی چاہیئے
3- سختی سے ڈانٹ کر خاموش کریں
4ـ اگر باز نہ آئے شور شرابہ کرے تو سزا دیں
لیکن ٹھہرئیے
جواب دینے سے پہلے شاید آپ اس بچے کے والدین سے بھی پوچھنا چاہیں گے کہ بچے
کو پہلے ہی سے اس شےء کا شعور کیوں نہیں دیا تاکہ بے جا ضد نہ کرتا
اب آپ اپنا جواب اس بچے کے بارے میں ایک باپ بن کر دیجئے اور پھر وہ اپنا
سوال بھی خود سے ہی پوچھیں
اگر آپ اس ضدی بچے کے لئے مناسب جواب تلاش کرچکے ہیں تو ذرا اپنی ٹیم کی
پالیسی سے اس جواب کا موازنہ کر لیجئے
.
.
لیکن صرف اپنی ٹیم کا کپتان بن کر نہیں بلکہ ایک باپ کی نظر سے دیکھئے
کیونکہ.....
بطور سربراہ مملکت اس وقت آپ قوم کے لئے ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہیں!
مجھے آپ کے قائدانہ خلوص اور صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں، میں تو بلکہ اس پر
فخر کرتا ہوں کہ یہ کپتان ہے اب میرے پاکستان کا لیڈر .... لیکن
کوئی ایسا "تھنک ٹینک" بھی حسب سابق بدستور حکومتی حلقہ کے قریب ہے کہ جس
نے آسیہ بی بی کیس کو جلدی نمٹا دینا ریاستی اداروں کی ساکھ کے لئے بہت
ضروری .... انصاف کے حق میں بول بالا.... اور بیرونی دنیا میں پاکستان کی
نیک نامی کے لئے ناگزیر قرار دیا ہوگا.
لیکن عوامی سطح پر یعنی اسٹریٹ لیول پر نتائج آپ کے سامنے ہیں.
انہوں نے ہی مشورہ دیا ہوگا کہ "محض چند لوگ" احتجاج کریں گے، لیکن
گھبرائیں نہیں سب ٹھیک رہے گا
پھر فیصلہ ہو گیا.... اور قلیل نہیں بلکہ کثیر عوام کے دل کو ٹھیس لگی، کسی
نے اپنے مقصد کے لئے انہیں بھڑکادیا تو غصہ میں بھی آگئے،
یا تو وہی عدلیہ، میڈیا اور حکومتی ترجمان پہلے سے عوام کو اس کیس پر
اعتماد میں لیتے، گستاخی رسول کے شرعی قانونی پہلو پر شعور دیتے، تعلیم
دیتے، مذاکرے کراتے اور انہیں آگاہ کرتے. لیکن ایسا نہیں ہوا
اور یا پھر آپ کے پرانے تجربہ کار افسران سابقہ ادوار کی طرح اس احتجاج کو
بھی وقت پر اپنے آزمودہ ہتھکنڈوں سے ناکام بناتے..... وہ یہ کرسکتے تھے
لیکن انھوں نے بھی ایسا نہیں کیا اور ہنگامہ آرائی ہونے دی
اب آپ کو وہی تھنک ٹینک یہ باور کروا رہا ہے کہ مظاہرین نے دہشت گردی کی،
انہیں چن چن کر پکڑیں اور سخت کاروائی کریں!
آپ سے گزارش ہے کہ اپنی قوم کا ہمدرد باپ بن کر ان باتوں پر پھر سے غور
کیجئے شاید آپ کو نیا کچھ سمجھ میں آجائے کہ اپنے جذباتی عوام سے کس طرح
پیش آؤں.
شاید کسی نے آپ کو یہ نہ بتایا ہو کہ وہ اپنے ہی لوگ تھے دہشت گرد نہیں
تھے... وہ مظاہرین تھے، دکھی تھے اور اشتعال میں تھے.
اور وہ جو واقعی دہشت گرد ہیں وہ اس موقع کو استعمال کر بھی گئے. ان میں آپ
کے سیاسی مخالف شکست خوردہ بھی تھے.
بار بار غور کیجئے....
شاید آپ یہ بھی جان لیں کہ آپ کے دشمن آپ کو ملنے والے مشوروں میں بھی چھپے
بیٹھے ہیں! |