آسیہ بی بی پنجاب کے شہر شیخپورہ کے ایک گاؤں کی غیر
معروف غیر تعلیم یافتہ مزدور کار عورت تھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی
یہ عورت گاؤں کی دوسری عورتوں کی طرح فالسے کے باغات میں کام کرتی تھی اور
بس۔اور پھر اچانک وہ اتنی مشہور اور طاقتور ہو گئی کہ پچھلے گیارہ سال سے
کسی نہ کسی حوالے سے ملکی حالات اور امن کو متاثر کرنے لگ جاتی ہے۔ملزمہ
ہونے کے باوجود وہ اتنی بااثر کیسے ہو جاتی ہے ، اس کی وجہ اس کا کوئی
ٹیلنٹ نہیں بلکہ ہمارے جذباتی عوام نے اسے عالمی سطح پر جانی پہچانی شخصیت
بنا دیا۔آسیہ بی بی کا اپنے گاؤں کی عورتوں سے ایک عام جھگڑا ہواجسے اتنا
بڑھا دیا گیا کہ ایک بین الاقوامی ایشو بنا کر رکھ دیا گیا اسے مقامی عدالت
نے توہین رسالت میں موت کی سزا سنائی اور اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے
اُس نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جہاں نا کافی ثبوتوں کی بنا پر
اُسے بَری کر دیا گیا اور فیصلہ آتے ہی ملک میں ایک مخصوص طبقے نے احتجاج
کے نام پر توڑ پھوڑ ، جلاؤ، گھیراؤ اور فسادہنگامہ د شروع کر دیا۔لوگوں کے
جذبات کو ناموسِ رسالت ﷺ کے نام پر اُبھارا گیا اور وہ کچھ کہا گیا جو کسی
بھی طرح جائز نہیں تھا۔ دوسروں کے دین اور مذہب پر سوالات اُٹھائے گئے
انہیں کافر، مرتد اور قادیانی کہا گیا۔ججوں نے فیصلہ ظاہر ہے ثبوتوں کی
بنیاد پر کرنا ہوتا ہے یہ نہیں کہ کسی نے الزام لگا دیا اور بس فیصلہ ہو
گیا کہ الزام درست ہے اگر ایسا ہے تو عدالتوں کی کیا ضرورت ہے ۔فیصلے اگر
سڑکوں پر ہونے ہوں تو ادارے کیوں بنائے جائیں اور ان پر اخراجات کیوں کیے
جائیں۔ کیا خادم حسین رضوی اپنی زبان سے نکلی ہوئی گالیوں اور گفتگو کے لیے
اُن لوگوں کے حوالے کر دیے جائیں جن کے خلاف وہ انتہائی قابلِ افسوس ، قابلِ
اعتراض اور نامعقول زبان استعمال کرتے ہیں۔اِن صاحب نے فیصلہ آتے ہی فتوے
جاری کر دیے ججوں کو قابلِ قتل قرار دیا اور حد تو یہ ہے کہ فیصلہ عدالت
میں ہوا لیکن انہوں نے فتوے جرنیلوں کے ایمان کے بارے لگا دیے ۔ان لوگوں کو
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بحیثیت مسلمان نبی پاک ﷺ کی ناموس اور عزت ہم سب کے
لیے اپنی جان اپنی عزت اور اپنی ناموس سے بڑھ کر ہے۔پیارے نبی ﷺ سے محبت
ہمارے ایمان کا جزو ہے کوئی مسلمان اپنے لیے تو بُرے الفاظ سن کر کسی نہ
کسی طرح برداشت کر لے گا لیکن بنی آخر الزمان ﷺ کی شان میں کوئی معمولی سی
گستاخی بھی قابلِ برداشت نہیں اور اس محبت پر کسی کو شک نہیں ہوناچاہیے۔ہم
آخر کیوں اپنے ذہن میں یہ بات بٹھائیں کہ کسی نے اُس ہستی کے بارے میں بُرا
کہا جن پر خودربِ ذوالجلال رحمت بھیجتا ہے۔ آپﷺ کی محبت ایک مسلمان کے لیے
باعث تسلی بھی ہے اور باعث فخر بھی کہ وہ اُس ہستی سے محبت کرے جس نے
انسانیت سے محبت کی اور دشمن کو بھی معاف کیا لہذٰ ایک مسلمان کو دوسرے
مسلمان پر جو علی الا علان اس محبت کا اظہار کر تا ہے یہ شک کرنے کا کوئی
حق نہیں کہ وہ ایسا دل سے کر رہا ہے یا نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں کھلم
کھلا یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں اور دوسروں کو گناہ گار اور کافر قرار
دینے والے یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ وہ خود گناہ کے مر تکب ہو رہے ہیں اور اس
کی وجہ دراصل یہی ہے کہ ان لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ جہاں اختلاف پیدا
ہوچاہے حکومت سے بحیثیت ریاست یا بوجہ سیاست اور یا چاہے کسی شخص یا ادارے
سے تو فوراََ قانون کو ہاتھ میں لے لیا جاتا ہے جس کا سر سامنے آیا توڑ دیا،
جس کی جان سامنے ہوئی نکال دی گئی، جس غریب کا قسطوں پر بڑی مشکل سے خریدا
ہوا رکشہ اور موٹر سائیکل نظر پڑا جلا دیا ،اُس گناہ کا سوچا ہی نہیں گیا
کہ جب رکشہ ہی نہیں رہا تو مشکل سے پوری ہونے والی روزی روٹی کہا سے آئے گی
اور کتنی ننھی جانیں کھانا نہ ملنے سے چلی جائیں گی اور کتنی بوڑھی سانسیں
دوا نہ ملنے سے ٹوٹ جائیں گے دراصل معاملہ یہاں بھی حکومت کا حصول ہی ہے
ورنہ خادم حسین رضوی اور اس کے رفقائے کار یہ نہ کہتے کہ ہمیں حکومت دے دو
بغیر قرضوں کے حکومت چلائیں گے بات قرضوں کی نہیں حکومت پانے کی ہے یعنی
وہی حکومت کی لالچ جس کے لیے دوسرے گناہ گار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ان لوگوں کا
گناہ یہاں تک محدود نہیں بلکہ بغاوت پر اُکسانے اور قتل پر آمادہ کرنے تک
ہے۔ پیر افضل قادری نے جس طرح ججوں کے ڈرائیوروں اور ملازمین کو اُکسایا کہ
وہ انہیں قتل کرد یں، جرنیلوں کو ان کی مسلمانی کا واسطہ دے کر آرمی چیف کے
خلاف بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی وزیراعظم کو یہودی بچہ بنا دیا یہ سارے
وہ جرائم ہیں جس پر ان لوگوں کو چھوڑ دینا بذاتِ خود جُرم ہے اس بار اگر
انہیں پکڑ لیا گیا تو آئندہ یہ ایسی ہمت نہیں کر سکیں گے اور صرف یہ لیڈر
ہی قابلِ سزا نہیں ان کے وہ پیروکار بھی برابر کے سزاوار ہوں جو آنکھیں بند
کر کے ان جاہل لیڈروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ اس کے لیے ہر قسم کی ویڈیوز،
چاہے موبائل سے ہوں یا میڈیا کے لیے لی گئی تصاویر کو استعمال کیا جائے جس
میں جو شخص توڑ پھوڑ کرتا ہوا نظر آئے اُسے سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی
اپنے آپ کو سرکاری اور دوسروں کی نجی املاک کا مالک نہ سمجھے ، جو خادم
حُسین رضوی جیسے مذہبی طور پر نیم خواندہ لوگوں کی پیروی کر کے یہ سمجھے کہ
وہ دوسروں کی جان ومال کے مالک بن گئے ہیں اور نہ ہی دین اور مذہب کے
ٹھیکدار بنیں انہیں یہ بھی صاف صاف بتایا جائے کہ نبی پاک ﷺ کی محبت پر ہر
مسلمان کا حق ہے صرف ان کا نہیں اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ آپﷺ نے دین
محبت کے ذریعے پھیلایا نفرت اور غصے کے زور سے نہیں اور ان سے یہ بھی پوچھا
جائے کہ انہیں کس نے بتا دیا کہ گلیوں بازاروں میں کھڑی موٹر سائیکلیں،
رکشے، کاریں کافروں کی ہیں لہذٰ انہیں توڑنا ثواب ہے اجازت تو اس کی بھی
نہیں کہ پُر امن غیر مسلم کی جان و مال کو نقصان پہنچا یا جائے انہیں کس نے
بتایا کہ عمر بھر کی پو نجی کسی دکان دار کی دکان، جلانے سے توہین رسالت کا
بدلہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ سب عوام کے مجرم اور ریاست کے باغی ہیں بلکہ بغاوت
پر اُکسانے کے مجرم بھی لہذٰ ان سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ جہاں تک
آسیہ کیس کا تعلق ہے اس کا فیصلہ عدالت نے کیا ہے اور ثبوتوں کے مطابق کیا
ہو گا تو آخر یہ خود کو دین کے ٹھیکیدار کہنے والے کیوں اس بات پر مصر ہیں
کہ خدانخواستہ یہ ثابت ہو جائے کہ ہمیں جان سے عزیز اوراللہ تعالیٰ کی
مخلوق میں محترم تریں ہستی کی شان میں گستاخی ثابت ہو جائے نعوذبا اللہ۔
میرا تویہ یقین ہے کہ جو ایسا کرے گا اگر وہ کسی طرح قانون سے بچ بھی جائے
تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی لعنت نازل ہو گی کہ وہ کہیں امان نہ
پائے گا اور اگر کسی نے جان بوجھ کراُ سے بچایا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ
کی گرفت سے بچ نہیں سکے گااور اگر ایسا ہے تو پھر کیوں جنت اور دوزخ کا
فیصلہ ہم سڑکوں پر لے آئے ہیں اور یہ اختیار کیسے کسی کو مل گیا لہٰذا
قانون اور خاص کر دین کو ہاتھ میں لینے والوں سے پوچھ گچھ اور حساب کتاب
بحق سر کار و عوام انتہائی ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی وہ نہ کرے جو اس بار
ہوا۔ |