سپریم کورٹ آف پاکستان نے آخر کار آسیہ بی بی کیس کا
فیصلہ ۳۱ اکتوبر کو سنا دیا جس میں آسیہ بی بی کو جیل سے رہا کر دیا گیا
اور ان کی سزائے موت کو بھی معتل کر دیا۔ پورے پاکستان میں اس کے بعد تحریک
لبیک کی جانب سے مظاہرے کیئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے اکشر بڑے شہروں سے
دنگے اور فسادات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ تمام صورتحال دیکھ کر یہ لگتا
ہے کہ جیسے کوئی بڑی مصیبت وطن عزیر پر آگئی ہے۔ مگر اﷲ سے دعائے خیر کرنی
چاہیئے۔ آسیہ بی بی کہ مقدمے کی بات کی جائے تو ان پر 2010 میں توہین رسالت
کا جرم عائد کیا گیا تھا جو کہ پچھلے 8 سال تک سچ اور آج اچانک غلط ثابت ہو
گیا۔ اس فیصلے کے بعد ہمارے عدالتی نظام پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایک فیصلے
کے لئے اتنا لمبا عرصہ کس بات کا انتظار کیا گیا اور فیصلہ بھی ۸ سال قبل
کچھ اور تھا اور آج کچھ اور۔ یقینناََ اس فیصلے نے پوری دنیا میں ایک بحث
شروع کر دی ہے جو کہ ایک لمبے عرصے تک خبروں کی ذینت رہے گی۔ ہر دانشور
اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق تنقید اور تعریف کرے گا۔ آسیہ مجرم تھی یا نہیں،
یہ ایک الگ بحث ہے۔ مختلف لوگوں کی اس پر مختلف رائے ہے۔ کسی کے مطابق آسیہ
نے توہین رسالت کی اور کسی کے مطابق آسیہ نے یہ جرم نہیں کیا۔ ہر فرقے کا
اس پر اپنا موقف ہے، جس کا احترام کرنا مجھ پر لازم ہے۔ اس لئے میں اس بحث
میں نہیں پڑوں گا کہ آسیہ نے توہین رسالت کی یا نہیں۔ہاں کچھ سوال ضرور
اٹھاوں گا جو کہ میرا فرض اور حق بھی ہے۔ اگر آسیہ بے قصور تھی تو اسے 8
سال تک جیل میں کیوں رکھا گیا؟ اسے کیوں اتنا عرصہ اپنے گھر والوں سے ،
اپنے بچوں سے دور رکھا گیا؟ اسے میں پاکستان عدلیہ کی کمزوری سمجھوں یا
آسیہ کی قسمت؟ دماغ سمجھنے سے قاصر ہے۔ آج جیسے ہی آسیہ کی رہائی کی خبر
سامنے آئی ،تحریک لبیک کی جانب سے احتجاجوں کا سلسہ شروع کر دیا گیا۔ سڑکیں
بند، لوگوں کا نقصان، پاکستان کے حالات کو ایک بھرپور طریقے سے بگاڑا گیا۔
تحریک لبیک کی جانب سے ان احتجاجوں ں کا اعلان پہلے ہی کر دیا گیا تھا کہ
اگر رہائی دی گئی تو ہم سڑکوں پر آجائیں گے، جیسے انہیں پہلے ہی فیصلہ پتہ
ہو۔ اس پر کچھ بھی کہنے سے گریز کروں گا کہ آسیہ کی رہائی ایک درست فیصلہ
ہے یا غلط۔ مگر جس طرح پچھلے 8 سال سے یہ مقدمہ چلایا گیا اور جس طرح اس کا
اختتام ہوا اور اس کے بعد پاکستان کے موجودہ حالات، یہ سب کچھ بالکل درست
نہیں۔ موجودہ حالات کی وجہ سے نا جانے کتنے بچے سکول نہ جا سکے، کتنے ہی
بچے گھروں کو واپس بہت مشکل آئے۔ کئی نوکری کرنے والے لوگ اپنے دفاتر نہ
پہنچ سکے، وہ مزدور جو روزانہ کی اجرت سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا اس کے
بچے تو بھوکے سوئے ہوں گے نا۔ لیکن ہمیں کیا! ہم نے تو دین کا ٹھیکا اٹھا
لیا ہے نہ کہ جیسے ہم ہی پوری دنیا میں دین کو جانتے ہیں۔ اگر آسیہ نے
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے بارے میں کچھ نا قابل برداشت الفاظ برداشت
کئے تھے تو اسے اس کی سزا دینا قانون کا فیصلہ ہے، اس کی سزا جزا کا معاملہ
میں اﷲ اور ہماری عدلیہ پر چھوڑنا مناسب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ نہ تو میرا
اتنا علم ہے اور نہ ہی اتنی اوقات کہ کسی دوسرے یا اپنے دین اسلام کی بنیاد
پر کسی کو کچھ کہوں۔ دین اسلام نے ہمیشہ پیار محبت کا درس دیا ہے۔ حضرت
محمد ﷺ نے ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے ان پر کوڑا پھینکا۔ آسیہ
کا فیصلہ بہت سوں کو اچھا لگ رہا ہے اور بہت سوں کو برا۔ کچھ عدلیہ کو
گالیاں دے رہے ہیں تو کچھ آسیہ کو۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر اکثر
خبریں گردش کر رہی ہیں کہ شاید آسیہ کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا، میرا
اس پر ضرور ایک موقف ہے کہ اگر آسیہ نے کوئی جرم سرزد نہیں کیا اور اگر وہ
بے قصور ہے تو اسے پاکستان میں رہنا چاہیئے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے الکیتوں
کو ان کے حقوق اور احترام دیا جاتا ہے۔ آسیہ کو بھی پاکستان میں رہتے ہوئے
اپنے آپ کے لئے لڑنا چاہیئے۔ باقی توہین رسالت کے اوپر عدالت نے جو فیصلہ
دیا ہے اس کا احترام کرتے ہوئے ہمیں اگر احتجاج بھی کرنا ہے تو پر امن
طریقے سے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کے کب کس وقت ہمارے کس پاکستانی بھائی کو
اس کا نقصان ہو جائے۔اﷲ ہمارے ملک پاکستان کو سلامت رکھے اور ہم سب کو دین
اسلام پر عمل کرنے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی تو فیق عطا کرے، آمین۔
|