چناب اور جموں خطوں کے شہداء کو خراج عقیدت آج پیش کیا جا
رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال ، ریاستی دہشت گردی
کے دوران قربانیوں کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ کشمیری دنیا کی ایکنڈر ،بہادر
اور باوقار قوم کے طور پر منظر عام پر آ رہے ہیں۔جو بھارت کی طاقت کے سامنے
سرینڈر کرنے کو ہر گز تیار نہیں۔ قربانیوں کا تسلسل ہے۔یہ قربانیاں ضرور
رنگ لائیں گی۔ آزادی کی صبح ضرور طلوع ہو گی۔ شہداء کا لہو کبھی رائیگاں
نہیں جاتا۔ ایسے میں شہدائے جموں کی یاد نومبر کی آمد کے ساتھ ہی تڑپا کر
رکھ رہی ہے۔ زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔کئی معتبرشخصیات ان واقعات کی چشم دید
گواہ ہیں۔ متعدد بار ملاقات میں ان کی آنکھوں میں خون کے آنسو بہتے دیکھے ۔
آزادکشمیر لبریشن سیل کے سابق سیکریٹری عبدالرشید ملک کے سامنے ان کی اہلیہ
اور دیگر عزیز و اقارب کوشہید کیا گیا ۔ راولپنڈی پریس کلب کے سابق سیکرٹری
اور صحافی قیوم قریشی مرحوم کے خاندان کے کئی افراداورلبریشن فرنٹ کے سابق
چیئر مین ڈاکٹر فاروق حیدر مرحوم کے بھائی بھی شہدائے جموں میں شامل
ہیں۔چند افراد آج بھی زندہ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیاروں کے گلے
کاٹے گئے۔
92سالہ بزرگ صحافی اور دانشور قیوم قریشی مرحوم نے چشم دید واقعہ یوں بیان
کیا، ’’ اس زخم کی کہانی کا آغاز جمعرات6 نومبر 1947 ء کو صبح تقریباً دس
بجے جموں شہر کے چار ہزار سے زیادہ مسلمانوں سے بھرے ہوئی بسوں اور ٹرکوں
کی پولیس لائنز جموں سے روانگی کے ساتھ ہوا ان لوگوں کو یہ جھانسہ دیا گیا
تھا کہ انہیں ٹرکوں اور بسوں کے ذریعے سوچیت گڑھ پہنچا دیا جائے گا، جو
سیالکوٹ اور جموں کے درمیان سرحدی قصبہ ہے۔ یہ اس طرح کا دوسرا قافلہ تھا
جو جموں سے روانہ ہوا تھا اس سے ایک دن پہلے یعنی بدھ 5 نومبر 1947 ء کو
بھی سیالکوٹ پہنچانے کے جھانسے کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا، اس قافلے کا کیا
حشر ہوا تھا وہ ایک الگ داستان ہے۔ پہلے قافلے میں تو میں شامل نہیں ہوسکا
تھا لیکن دوسرے دن میں نے کسی نہ کسی طرح ایک بس کی چھت پر جگہ حاصل کرلی
اور پھر وہ پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جو قافلے کے مسافروں کے قتل عام
کی صورت میں ڈوگرہ اور بھارتی فوجیوں اور ہندوؤں اور سکھوں نے رچایا تھا
اور جموں میں بشناہ جانے والی سڑک پر نہر کے کنارے صبح گیارہ بجے سے تین
بجے سہ پہر تک جاری رکھا تھا۔‘‘
کشمیر آج برہان وانی اور ڈاکٹر عبدالمنان وانی ، ڈاکٹر سبزار احمد صوفی
سمیت ہزاروں کشمیریوں کی شہادت کے بعد مزاحمت کے ایک نئے دور میں داخل ہو
چکا ہے۔ ریاستی دہشتگردی اور رہائشی گھروں کو بارود سے اڑانے کے واقعات اور
کمیکل زہریلے اسلحہ کے استعمال کے باوجود عوام گلی کوچوں، سڑکوں اور
چوراہوں میں بھارتی فورسز کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔ آزادی ریلیاں نکل رہی
ہیں۔ ’’کشمیر چھوڑدو‘‘ اور’’گو انڈیا گو‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ ایسے
میں نومبر کا مہینہ وارد ہو گیا۔ نومبر کے مہینہ کوکشمیر کی تاریخ میں غیر
معمولی اہمیت حاصل ہے۔ 1947کو اسی مہینے جموں ڈویژن کے لاکھوں مسلمانوں کی
نسل کشی کی گئی اور اس مسلم اکثریتی خطے کے مسلمانوں کواقلیت میں بدل ڈالا
گیا۔چشم فلک نے پھرایسا وقت بھی دیکھا جب جموں کے غیر مسلموں نے شدید مظالم
سے دوچار وادی کے عوام کی ناکہ بندی کی اور وادی میں روتے بچوں کو دودھ اور
تڑپتے مریضوں کو ادویات سے محروم کر دیا۔گزشتہ 71سال سے کشمیریوں کی نسل
کشی جاری ہے۔جس خطے کی فضائیں اﷲ اکبر کی صداؤں سے معطر ہوتی تھیں وہ آج
مندروں کا شہر کہلاتا ہے، بھجن اور گھنٹیوں کی چیخ و پکارپر زمین بھی رو
رہی ہے۔ قیام پاکستان کی بڑی سزاکشمیر بالخصوص جموں کے مسلمانوں کو ملی۔چند
دنوں میں3لاکھ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔سٹیٹس مین ا
خبار کے ایڈیٹر آئن سٹیفن کی کتاب’’ ہارنڈ مون‘‘Horned Moon،کشمیر ٹائمز کے
مدراسی ایڈیٹرجی کے ریڈی اور لنڈن ٹائمز نے تصدیق کی کہ اکتوبراور
نومبر1947ء کو جموں اور اس کے نواح میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو بے دردی سے
قتل کیا گیا۔مغربی مصنف آلسٹر لیمب نے اپنی کتاب ’’ان کمپلیٹ پارٹیشن‘‘
Incomplete Partitionمیں لکھا کہ ہندو شرپسندوں کی لوٹ مار کے دوران بستیوں،
بازاروں اور350 مساجد کو آگ لگا دی گئی۔ جموں ضلع میں 1941 ء میں مسلمان کل
آبادی کا 60 فیصد تھے اور 1961ء میں وہ صرف 10 فیصد رہ گئے۔
6نومبر1947ء کو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ، مہارانی تارا دیوی،ہندوستان کے
پہلے گورنر جنرل اور سابق وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کی آشیر واد اوروزیر
اعظم جواہر لال نہرو کی ہدایت پرمسلمانوں کو گاڑیوں میں سیالکوٹ پہنچانے کے
بہانے شہید کیا گیا۔ تقسیم کے اصولوں کے منافی باؤنڈری کمیشن کے ریڈ کلف کی
بددیانتی سے ہندوستان کو کشمیر تک زمینی راستہ دینے کے لئے پنجاب کے مسلم
اکژیتی علاقہ گورداسپور کو پاکستان کا حصہ نہ بننے دیا گیا۔اور اسے بھارت
کو دے کر کشمیر تک راہداری دی گئی۔مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ4 ؍ نومبر
1947ء کو ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھابھائے پٹیل، وزیر دفاع سردار
بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ سردار دیوندر سنگھ نے جموں میں مہاراجہ کی
مشاورت سے تیار کیا تھا۔راوی کہتا ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام سے چناب کا سب
سے بڑا معاون دریا’’ توی‘‘ خون سے بھر گیا۔جموں کے گلی کوچوں سے بھی خون
بہہ رہا تھا۔ جموں ڈویژن سے نسلی صفائی میں جن سنگھیوں کو استعمال کیا
گیا۔اس سے قبل ڈوگرہ فورسزنے پوری ریاست کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ
کررکھا تھا۔ قبائل کشمیر میں داخل ہوئے تو ڈوگرہ راجہ 25؍ اکتوبر 1947ء کو
مقبوضہ وادی سے فرار ہوگیا۔ سرینگر سے جموں پہنچ کر رانی تارا دیوی نے سر
کے بال بکھیر دیئے۔ چیخ و پکار کی کہ مسلمان غلاموں نے کشمیر ہم سے چھین
لیا۔ ہندوؤں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کی ترغیب دی اور اسلحہ تقسیم کیا ۔
منادی کرادی کہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے ہر ہندو آزاد ہے۔ تارا دیوی
نے ڈوگرہ سرداروں کا اجلاس طلب کیا جس میں فیصلہ کیا کہ تمام مسلمان افسروں
کو نوکریوں سے برطرف کر دیا جائے اور کوئی مسلمان افسر کسی ذمہ دار عہدے پر
فائز نہ رہے۔کہا جاتا ہے کہ 30؍ اکتوبر 1947ء تک پورے جموں میں ایک بھی
مسلمان افسر کسی اہم اورذمہ دار عہدے پر فائز نہ تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ نے
شرپسندوں کی کمک جموں داخل کی ۔ قتل عام اورلوٹ مار کے بعد ہی مسلمانوں نے
جموں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو فوجیوں کی حفاظت میں لاریوں
میں پاکستانی سرحد پر آر ایس پورہ، ارنیہ، ڈگیانہ علاقوں میں اندھا دھند
گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ عورتوں کو علیٰحدہ کرکے ان کے برہنہ جلوس
نکالے گئے۔انہیں اغواء کیا گیا ۔جن کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکا۔سیکڑوں
عصمتیں بچانے کے لئے دریا میں کود گئیں ۔جس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو
پاکستان ہجرت کے موقعہ پر درندگی کا نشانہ بنایا گیا اسی طرح جموں کے
مسلمانوں پرقیامت ٹوٹ پڑی۔مسلمانوں کے قتل عام میں پنجاب کے راجواڑوں،
پٹیالہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ اور نواحی علاقوں کے مہاراجوں نے بھی حصہ لیا۔
یہ عید الاضحی کا موقع تھا جب ہندو دہشت گردوں نے ایک نعرہ کے تحت مسلمانوں
کی نسل کشی کی وہ کہہ رہے تھے کہ عید کو مسلے قربانی کرتے تھے اب آج کی عید
پر ہم ان کی قربانی کریں گے۔ مسلمانوں کے قتل عام سے قبل پورے جموں میں
کرفیو لگایا گیا۔ سیوک سنگھ، مہاسبھا اور اکالی دل کے جتھوں نے ایک دوسرے
سے سبقت لیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا عہد کررکھا تھا۔
چاروں اطراف سے جے ہند اورمت سری اکال کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ مسلمانوں
کے علاقوں میں انتظامیہ نے اعلان کیا کہ پاکستان نے مسلمانوں کیلئے گاڑیاں
بھیجی ہیں، اس لئے لوگ سیالکوٹ جانے کیلئے پولیس لائنز میں جمع ہو جائیں۔
اس وقت پولیس لائنز جموں توی میں تھا، جہاں بسوں پر پاکستانی جھنڈے لگا
دیئے گئے تھے۔شیخ عبداﷲ اپنی خود نوشت آتشِ چنار میں لکھتے ہیں کہ 5؍ نومبر
1947ء کو جموں شہر میں ڈھنڈورہ پٹوایا گیا کہ مسلمان پولیس لائنز میں حاضر
ہو جائیں تاکہ انہیں پاکستان بھیجا جاسکے۔ مسلمان بچوں اور عورتوں کے ساتھ
حاضر ہوگئے۔انہیں چالیس ٹرکوں کے قافلے میں سوار کیا گیا۔ ہر ٹرک میں 60
افراد سوار تھے۔ انہیں سانبہ کے قریب ایک پہاڑی کے نزدیک اتارا گیا جہاں
مشین گنیں نصب تھیں۔ جوان عورتوں کو الگ کرکے باقی تمام جوانوں، بچوں اور
بوڑھوں کو آن کی آن میں گولیوں سے اڑا دیا گیا ۔یہی سلوک کئی قافلوں کے
ساتھ ہوا۔ جس طرح پٹیالہ، فرید کوٹ اور کپور تھلہ میں مسلمانوں کا مکمل
صفایا کیا گیااسی طرح جموں سے مسلمانوں کا صفایا کرنا مقصود تھا۔کشمیر پر
27اکتوبر1947کوبھارتی فوجی قبضے سے قبل ڈوگرہ فوجیوں نے 20؍ اکتوبر 47ء کو
اکھنور میں مسلمانوں کو پاکستان لے جانے کیلئے جمع کیا او ر انہیں شہید کیا۔
کہا جاتا ہے کہ اکھنور پل سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ 23؍ اکتوبر کو جموں کے
آر ایس پورہ شاہراہ پر جمع 25 ہزار مسلمانوں پر ڈوگرہ اور پٹیالہ فورسز نے
اندھا دھند گولیاں چلاکر شہید کیا۔ آر ایس پورہ تحصیل میں مسلمانوں کے
26دیہات تھے۔ آج وہاں چند گھر ہی نظر آتے ہیں۔
جموں شہر کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار تھی جو
20 سال بعد 1961ء میں کم ہوکر صرف 50 ہزار رہ گئی۔مسلمانوں کی نسل کشی میں
دہشت گرد تنظیموں آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا اور دیگر فرقہ پرست جماعتیں
پیش پیش رہیں۔ یہ وہی فرقہ پرست تھے جنہوں نے مارچ 1947ء میں لدھیانہ،
جالندھر،امرتسر، کپورتھلہ، پٹیالہ،فرید کوٹ،پانی پت، کرنال، گوڑگاؤں وغیرہ
میں مسلمانوں پر حملے کئے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر میں
داخل ہوکر مقامی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کٹھوعہ، سانبہ، ادھمپور، بھمبر،
نوشہرہ، ہیرانگر، رام گڑھ، آر ایس پورہ، ارنیہ، سچیت گڑھ، جموں ، بٹوت حتیٰ
کہ مظفر آباد میں بھی ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ مہاراجہ نے ان دہشت گردوں کی خوب
آؤ بھگت کی۔ اس نے وزیر اعظم پنڈت رام چند کاک کو برطرف کر کے مہارانی تارا
دیوی کے قریبی رشتہ دار ٹھاکر جنک سنگھ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ مہاراجہ نے
اپریل 47ء کو راولاکوٹ کے دورہ کے موقع پر جب جنگ عظیم دوم کے ہزاروں
مسلمان فوجیوں کا نظارہ کیا تو واپسی پر فوری طور پر غیر مسلم راجپوت اور
ڈوگرہ فوج کے یونٹ قائم کئے۔ راجہ نے اپنے سسُرالی علاقہ کانگڑہ (رانی تارا
دیوی کا علاقہ) اور اس کے قرب وجوار کلو، چمبہ،گڑھوال وغیرہ سے بھی ہندو
فوجی بھرتی کئے۔ ان فوجیوں کو سرینگر اور جموں میں تعینات کیا گیا۔ مہارانی
تارا دیوی نے باؤنڈری کمیشن کے ممبر مہر چند مہاجن جیسے مسلم دشمن غیر
ریاستی شخص کو کشمیر کا وزیراعظم بنایا۔ مہاجن کو لارڈ موؤنٹ بیٹن اور
کانگریس ہائی کمان تک رسائی حاصل تھی۔ مہاجن نے اپنی کتاب’’Back Looking‘‘
میں تحریر کیا ہے کہ مہارانی نے ان کے ساتھ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں
مشاورت کی۔ وہ اپنے علیل بیٹے کرن سنگھ کے علاج کے لئے لاہور آئی ہوئی تھی
جو ایک بہانہ تھا۔ بعد ازاں مہر چند مہاجن کو چیف جسٹس آف انڈیا بنایا گیا۔
6 نومبر کو دنیا بھر میں کشمیری یوم شہدائے جموں اسی وجہ سے مناتے ہیں تاکہ
جموں خطے کے مسلمانوں کی اسلام، پاکستان اور تحریک آزادی کے لئے جانوں،
مالوں اور عزتوں کی قربانیاں یاد رکھی جائیں اور شہداء کے خون کے ساتھ سودا
بازی نہ کی جائے۔71سال گزرنے کے باوجود جموں کے ہندو دہشت گردوں کی ذہنیت
نہیں بدلی ہے۔ امر ناتھ شرائن بورڈ کے خلاف تحریک کے ردعمل میں جموں کے
انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے وادی کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ آج
بھی بھارتی فورسز کشمیریوں کو اقتصادی طور پر بدحال کرنے کے لئے کھیت اور
کھلیان جلا رہے ہیں۔ وادی کے مسلمانوں نے ہندوؤں کا ہمیشہ احترام کیا۔
مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات کے باوجود وادی میں ہندوؤں کے خلاف کوئی ایک
بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ کشمیری مسلمان صرف اپنے حقوق کے لئے برسرپیکار
ہیں جبکہ ہندو انتہا پسند جب بھی موقع ملے مسلمانوں کو تکالیف پہنچانے میں
پیش پیش رہتے ہیں۔ آج بھی ویلج دیفنس کمیٹیوں میں شامل ہندو انتہا پسند چن
چن کر مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔پنچ اور سرپنچ مقامی مسائل کی جانب
متوجہ ہونے کے بجائے بھارتی فورسز کے آلہ کار بن رہے ہیں۔بھارتی فوج اس
سلسلے میں تاریخ کا بدترین کردار ادا کر رہی ہے۔وہ کرگل جنگ کے دوران ہلاک
ہونے والے بھارتی فوجیوں کے لئے تابوتوں کی خریداری کے سودے میں بھی کرپشن
کرنے سے گریز نہیں کرتی جبکہ بو فورس توپوں کے سودوں میں اربوں کے سکینڈل
فوج کے لئے بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔یہی فوج کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں
شہریوں کو شہید کر کے ترقیاں اور تمغے پاتی ہے ۔ بارودی سرنگیں نصب کر کے
ان کی برآمدگی کے نام پر ترقیاں اور میڈلز وصول کرنے کے سکینڈلز بھی منظر
عام پر آ رہے ہیں۔کولگام میں بھی میزائل اور مارٹر گولے داغنے کے بعد
بارودی دھماکوں سے مکانوں کو زمین بوس کیا گیا۔ بھارتی فوج کی نصب بارودی
سرنگیں پھٹنے سے کئی کشمیری شہید اور زخمی ہوئے۔
وادی میں پیلٹ گن، ٹیئر گیس شیلنگ، زہریلی گیسوں اور تباہی پھیلانے والے
اسلحہ کا نہتے اور معصوم کشمیرہوں پر استعمال ہو رہا ہے۔اس قتل عام کے خلاف
وادی چناب اور پیر پنچال سمیت کرگل کے عوام نے بھی ہڑتالی کیں۔ احتجاجی
مظاہرے کئے۔ اس طرح انہوں نے بھی یک جہتی کا بھر پور اظہار کیا۔جس کے
انتقام کے طور پر درجنوں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔شہداء کے نام پر
سیاست چمکانے کا وقت گزر چکا۔ یہ مکار اور ایمان فروش لوگوں کا وطیرہ
تھا۔شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ اُن کی قربانیوں کو یاد
رکھنا اور مشن کو پورا کرنے کے لئے جدید اور سائنسی تقاضوں کے مطابق عملی
جدوجہدکرنا ہے۔ جموں ڈویژن کے 10اضلاع ہیں۔شہدائے جموں کا مشن تقسیم کشمیر
یا چناب فارمولے پر عمل درآمد نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ
والہانہ محبت، کشمیر کی مکمل آزادی تھا۔یہ دین کا رشتہ ہے، ورنہ کچھ نہیں۔
1947ء کومسلمانوں کی نسل کشی اور انخلاء کے باوجود ضلع ڈوڈہ ، کشتواڑ ،
پونچھ اور راجوری میں80فیصد مسلم آبادی ہے جبکہ ریاسی ، ادھمپور، کٹھوعہ
اور جموں اضلاع میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت کے طو رپر موجو دہیں۔اگرکشمیر
کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تو 1947کی طرح مسلمانوں کی ایک
بار پھر نسل کشی کا خدشہ پیدا ہو گا۔آج جموں کو ایک الگ بھارتی ریاست اور
لداخ کو دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے لئے ہندو انتہا پسندسرگرم
ہیں۔دوسری طرف جموں خطے سے ہجرت کرنے والے پاکستان میں کراچی سے کوہالہ تک
لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔انہیں دوہری شہریت حاصل ہے۔آزاد کشمیر اسمبلی
میں مہاجرین جموں مقیم پاکستان کے لئے 6نشستیں مختص ہیں۔لیکن نئی نسل اپنے
آباء و اجداد کی قربانیوں سے بے خبر اور لاتعلق ہو رہی ہے۔ ثقافت دم توڑ
رہی ہے۔ایک دوسرے سے تعلق اور تعاون کے فروغ کا تصور رفتہ رفتہ مفقود ہو
رہا ہے۔تقسیم کشمیر کی سوچ گمراہ کن ہے ۔ شہدائے جموں کے مشن کا تقاضا ہے
کہ کشمیری جسد واحد بن کر لسانی،علاقائی اور برادری ازم یا ادھر ہم ادھر تم
جیسے فتنوں سے بچتے ہوئے شہداء کے مشن کو پورا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا
کریں۔کیا آپ جانتے ہیں شہداء کے بچے کس حال میں ہیں؟ آزاد کشمیر کی حکومت
اب بھی عبوری حکومت ہے۔ اس کا آئین عبوری ہے۔ یہاں کے صدر، وزیر اعظم،
سیاستدانوں، بیوروکریسی کو قوم کو تقسیم اور منتشر کرنے کے بجائے پوری
ریاست جموں و کشمیر کو اپنا حلقہ سمجھنا چاہیئے۔سیاستدان صرف جنگ بندی لائن
پار کرنے کی کاغذی دھمکیاں دیتے ہیں۔ عملی طور پر بیس کیمپ کا کردار یہ ہے
کہ سب ایک ہو کر جنگ بندی لائن کی طرف مارچ کرتے۔ اسلام آباد میں دنیا کے
سفارتی مشنز کو صورتحال سے آگاہ کیا جاتا۔ بھارت کی نام نہاد سرجیکل
سٹرائیکس کے دعوؤ ں کے تناظر میں آزاد کشمیر کی آبادی کو جنگی تربیت اور
اسلحہ دینے پر غور کیا جاتا ۔تعلیمی نصاب اسی تناظر میں ترتیب ہوتا۔ شہداء
کی قربانیوں نے رنگ ضرور لانا ہے۔ ان شاء اﷲ۔ کون اپنا مخلصانہ حصہ ڈالتا
ہے اور کردار ادا کرتا ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔
|