مولانا سمیع الحق ۔۔۔۔۔ایک عہد ساز شخصیت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(مولانا محمد حنیف جالندھری)
مولانا سمیع الحق بھی بالآخر جام شہادت نوش کر گئے۔ دکھ ہے اور بے حد ہے ،یادیں ہیں اور بے حساب ہیں ،سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھیں اور کیا کہیں؟ایک بوڑھا جرنیل جس کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، کوئی ایک شعبہ اور کوئی ایک جہت نہیں بلکہ مولانا سمیع الحق نے ہمہ جہت خدمات سرانجام دیں،درس و تدریس کو دیکھ لیجئے کہ ڈھیر سارے مشاغل،آئے روز کے اندرون وبیرون ملک اسفار،حالات کے نشیب و فراز اور زندگی کے مختلف مراحل میں عشروں سے مولانا سمیع الحق جامعہ حقانیہ کے دارالحدیث میں مسند تدریس پر رونق افروزنظر آتے ہیں۔اگر انہوں نے زندگی میں اور کوئی خدمت نہ بھی سرانجام دی ہوتی تو محض یہی ایک خدمت کافی تھی کہ وہ عشروں سے درس حدیث دے رہے تھے اور ان سے بلاواسطہ اور بالواسطہ کسب فیض کرنے والوں کی تعداد بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے۔کیا پاکستان اور افغانستان اور کیا دنیا کے دیگر خطے ۔۔۔!جہاں جانا ہوتا ہے جامعہ حقانیہ کے فضلاء اور مولانا سمیع الحق کے تلامذہ گرانقدر خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں پھر مولانا کی محض تدریس ہی نہ تھی بلکہ اہتمام و انصرام میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے ،جامعہ حقانیہ جیسی عظیم درسگاہ کو انہوں نے خون جگر دے کرسینچا- ان کی سیاسی سرگرمیوں,ان کے تنظیمی مشاغل,بدلتے ہوئے حالات کی گرمی سردی۔۔۔ کچھ بھی تواس درسگاہ پر اثرانداز نہ ہو سکا- اتنے بڑے ادارے کی ضروریات کا بندوبست ہی کارے دارد مگر آفرین ہے کہ مولانا نے اسے عمر بھر بڑی کامیابی سے نبھایا- جامعہ حقانیہ کی کامیابی میں مولانا سمیع الحق کی وسعت ظرفی کا بڑا دخل تھا، انہوں نے کیسے کیسے اہل فن چن کر لائے۔کیسے کیسے اساطین علم کو جامعہ حقانیہ سے وابستہ کیا اور کھل کر کام کرنے کا موقع دیا، جامعہ حقانیہ کے مشائخ،اساتذہ حتی کہ طلبہ میں بڑی تعداد ایسی تھی جن کے نظریات و افکار مولانا سمیع الحق سے مختلف اور تنظیمی و جماعتی وابستگی بھی مولانا سمیع الحق سے جدا تھی لیکن مولانا سمیع الحق نے تعلیمی اور انتظامی معاملات میں اپنی پسند ناپسند،اپنے افکار و نظریات اور اپنی تنظیمی و جماعتی ترجیحات سمیت کسی چیز کو آڑے نہ آنے دیا اور ہمیشہ جامعہ حقانیہ کا گلشن سرسبز و شاداب رہا،آباد رہا ،اﷲ رب العزت تاابد آباد رکھیں۔آمین

مولانا سمیع الحق نے تصنیف و تالیف کے حوالے سے ماہنامہ الحق سے جو سفر شروع کیا ،اس کا بھی ایک پورا جہان آباد کیا،ہم نے تو ابتداء میں مولانا سمیع الحق کو ماہنامہ الحق میں ہی دیکھا،قلم پر کیا گرفت تھی،حالات پر کیسی نظر تھی اور علمی طور پر کیا رسوخ تھا اور پھر اکابر کی نسبت و صحبت نے ان کے اندر کے قلم کار کو کندن بنا دیا تھا،مولانا سمیع الحق کا قلم یوں تو تاریخ کے ہر موڑ پر اپنی جولانیاں دکھاتا نظر آتا ہے لیکن 1974ء میں قادیانیت کے حوالے سے قومی اسمبلی میں جو محضر نامہ پیش کیا گیا اس پر علمی و تحقیقی کام کے حوالے سے اس عہد کے جن چند باہمت نوجوانوں نے شبانہ روز محنت کر کے پوری امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ،ان میں مولانا سمیع الحق پیش پیش تھے-مولانا سمیع الحق کا یہ کمال تھا کہ وہ دوسروں سے لکھوانے اور پھر اسے چھپوانے میں خاص مہارت رکھتے تھے چنانچہ ماہنامہ الحق کی پرانی فائلیں اور خاص نمبر اٹھا کردیکھ لیجئے مولانا کا یہ کمال جابجا نظر آئے گا۔

مولانا سمیع الحق کا یہ بھی کمال تھا کہ وہ اہل زبان نہ ہونے کے باوجود بہت شستہ اور نستعلیق اردو لکھتے تھے اور اس سے بھی بڑا کمال یہ کہ وہ کوئی برگد کا ایسادرخت نہ ثابت ہوئے جس کے سائے تلے کوئی اوردرخت پروان ہی نہ چڑھ پاتا ،آپ نے موتمر المصنفین کی بنیاد ڈالی اور کیسے کیسے ہیرے تراشے صرف مولانا عبدالقیوم حقانی،مولانا مفتی غلام الرحمن،حافظ راشد الحق کی تحریری و تصنیفی خدمات کو ہی سامنے رکھیے تو مولانا سمیع الحق کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے-

مولانا سمیع الحق کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے علمی ذخیرہ سنبھال کر رکھا اورصرف سنبھال کر ہی نہ رکھا بلکہ اسے سجا کر اور چھپوا کر امت کے سامنے پیش بھی کر دیا، اس حوالے سے مشاہیر کے خطوط و پیغامات اور مراسلات پر مولانا نے جو کام کیا وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کارنامہ ہے-مولانا سمیع الحق کی تصنیفی و تالیفی زندگی میں جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ کہ انہوں نے ہمیشہ وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا، ابھی آخری عمر میں انہوں نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا تھا اسی کودیکھ لیجئے کہ امام التفسیر حضرت شیخ لاہوری رحمہ اﷲ کے تفسیری نکات اورترجمہ ڈھونڈے سے نہ ملتا تھا حالانکہ وہ ایک تاریخی ورثہ اور علمی ذخیرہ تھا مولانا سمیع الحق نے اسے جس انداز سے سجا سنوار کر اورعام فہم بناکرامت کے سامنے پیش کرنے کا عظیم منصوبہ شروع کیا تھا وہ جب منظر عام پر آئے گا تب خبر ہوگی کہ مولانا سے اﷲ رب العزت نے کتنا عظیم کام لیا۔

آخری عمر میں مولانا سمیع الحق سے جب بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے دو منصوبوں کا بطور خاص تذکرہ کیا، ایک امام لاہوری کے تفسیری نکات پر تحقیقی اوراشاعتی کام کا اور دوسرا جامعہ حقانیہ کی عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا۔ مولانا کی دلی خواہش تھی کہ یہ دونوں کام مکمل کرنے کی انہیں مہلت مل جائے اگرچہ یہ دونوں کام سوفیصد تو ان کی زندگی میں مکمل نہ ہو پائے تاہم ان پر زیادہ کام ہو گیا اﷲ رب العزت اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں۔

ابھی مولانا پر لکھنے بیٹھا ہوں تو یادوں کی ایک بارات چلی آ رہی ہے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں مگر لکھتے ہوئے سب سے زیادہ دل ودماغ پر جو بات غالب ہے وہ یہ کہ مولانا نے اپنی آخرت کے لیے کیاکیا زاد راہ ساتھ لے لیا اور کیسے کیسے کارنامے اورصدقات جاریہ ہیں ان کے نامہ اعمال میں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی کے پلے ہوتا تو بہت تھا-مگر مولانا سمیع الحق کی حیات مستعار میں تو صدقات جاریہ کی ایک کہکشاں ہے جگ مگ کرتی نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔اﷲ رب العزت اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں۔

مولانا سمیع الحق کی تحریکی زندگی بھی ایک مکمل داستان ہے گزشتہ چار عشروں کی ہر تحریک میں مولانا سمیع الحق ''گھنٹہ گھر'' دکھائی دیتے ہیں۔سب تحریکوں کو ایک طرف رکھیے صرف جہاد افغانستان کی بات کیجیے تو مولانا سمیع الحق اس کے صحیح معنوں میں ''ماسٹر مائنڈ'' نظر آتے ہیں۔وہ تحریک ِجہاد جس نے دو سپر پاورز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اس کے جی ایچ کیو کو سلیس زبان میں مولانا سمیع الحق اور ان کی درسگاہ کہا جا سکتا ہے-مولانا سمیع الحق اگرچہ عسکری دنیا کے آدمی نہ تھے لیکن عسکری میدانوں کے لیے جس فکری،علمی،اخلاقی،نظریاتی کمک کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب مہیا کرنے کا ڈپو مولانا اور ان کے رفقاء کے پاس تھا اور کمال یہ کہ حالات کے جبر نے مولانا سمیع الحق کے لہجے کے بانکپن کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا اور انہوں نے کمال استقامت اور پامردی سے جہاد،مزاحمت،آزادی اور پاکستان و افغانستان کے دفاع کی جنگ لڑی اور آخر تک سرنڈر نہ ہوئے۔

ہمارا مولانا کے ساتھ ہمیشہ بہت محبت اور احترام والا رشتہ رہا صرف مولانا ہی نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کے ساتھ دیرینہ اور محبت و خلوص سے لبریز مراسم رہے، مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ مدارس کے کاز کے لیے بے لوث تعاون فرمایا، جب بلایا چلے آئے،جب ضرورت پڑی کندھے سے کندھا ملائے دکھائی دئیے ،انہوں نے مولانا انوار الحق کو تو گویا وفاق المدارس کے لیے وقف کر رکھا تھا،جب بھی خیبر پختون خواہ کی طرف سفر ہوا جامعہ حقانیہ ضرور حاضری ہوتی اور مولانا کی میزبانی،خلوص،شفقت اور محبت کے کتنے زمزمے بہتے نظر آتے،اﷲ کرے علم وعمل اور خلوص و محبت کے یہ زمزمے سدا بہتے رہیں۔
مولانا سمیع الحق کی سیمابی طبیعت،ان کی زندگی بھر کی ریاضت اور جدوجہد کے بعد جچتی تو ان کے ساتھ شہادت کی موت ہی تھی لیکن سفاک اور درندہ صفت قاتلوں کی سنگدلی پر اور مولانا کی جدائی پر دل خون کیآنسو رو رہا ہے ۔"حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا "۔
 

Abdul Quddus Muhammadi
About the Author: Abdul Quddus Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddus Muhammadi: 120 Articles with 128333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.