تحریر: آمنہ وزیر
رستے دشوار گزار اور منزل دور
ہاتھ خالی اور سفر طویل
گھنا جنگل اور خوفناک جنگلی حیات
قدم بڑھاو جہاں وہی احتیاط لازم
ہمت اور حوصلے نے بڑھائے آگے قدم
یقیں محکم عزم مستقل ساتھ لئیے
کچھ دور دو رستے جو دکھائی دئیے
یہاں تعین اب درست راہ کا تھا لازم
جنگل کا یہ سفر انتہائی کٹھن اور مشکل تھا جہاں راہ میں خوفناک اور خونخوار
جانور جگہ جگہ مکین تھے اپنے آس پاس کسی کی موجودگی کا احساس لیے وہ ہمت
اور حوصلے سے قدم قدم انتہائی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کئی میل دور
تک سفر کرنے کے بعد اب دو راستے اس کے سامنے تھے لیکن اپنی منزل کی طرف کے
راستے کا تعین وہ کرچکا تھا۔ تمام خوبصوتی کو چھوڑ کر اس نے مشکل راہ کا
انتخاب کرنا مناسب سمجھا۔ وہ تازہ دم دستے کے سپہ سالار کی طرح آگے بڑھا جا
رہا تھا کہ پانی کے کنویں کو دیکھ کر رک گیا اس نے اپنا گھوڑا ایک طرف کھڑا
کیا اور کنویں سے اپنی ضرورت کے مطابق پانی پیا ۔ اچانک اس کی نظر کنویں کے
قریب رکھے سفید اور کالے موتی پر پڑی اس نے کافی سوچ بچار کے بعد سفید موتی
اپنے پاس محفوظ کرلیا اور دوبارہ اپنی راہ پر چل پڑا۔ کہیں دور سے اسے
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دینے لگی اسے تعجب ہوا کہ اس ویران اور کٹھن
راہ پر کون چلا آ رہا ہے لیکن جب اسے اپنے سفر کا خیال آیا تو اس نے تمام
خیالات کو جھٹک کر دوبارہ سفر شروع کر دیا کیونکہ اس کے پاس وقت کم اور سفر
طویل تھا شب و روز قدرت کے نظام کے مطابق تیزی سے گزرنے لگے۔
اک جانب روشنی اور
لوگوں کا ہجوم بھی بہت
لیکن
دوسرا رستہ خالی اور خاردار
پھر جو محتاط روی نے آگے بڑھایا
روشن راہ یا لازم انتخاب خالی راہ کا
جہاں خار دار جھاڑیاں صاف دکھائی دی
فیصلہ کرنا کچھ مشکل تھا
پھر نجانے کیا ہوا مشکل راہ کو چن لیا
بے شک رستہ طویل تھا
لیکن
مزید جو قدم آگے بڑھے
راہ میں اک صحرا حائل تھا
دشت میں پھر جو قدم رکھ دیا
دور دور تک کوئی دکھائی دیتا نہیں تھا
اور واپس جانا بھی اب ممکن نہیں تھا
اس سفر میں اس کے کئی برس بیت چکے تھے اور اب کے اس کا گزر ایک صحرا سے تھا
صحرا میں داخل ہوتے ہی جب اس نے نظر گھمائی تو حد نگاہ تک ریت ہی ریت
دکھائی دی۔ سورج اپنے جوبن پر تھا اور جھلسا دینے والی دھوپ اس کے بدن میں
سرایت کر رہی تھی۔ لیکن وہ ہمت ہارنا نہیں چاہتا تھا اس لیے اپنا سفر جاری
رکھے ہوئے تھا۔ اس کا حلق پیاس سے خشک ہونے لگا کہ اسی اثنا میں کہیں دور
ایک جھونپڑا نظر آیا اور اس نے اپنا گھوڑا اس جانب بڑھا دیا۔ جھونپڑے کے
قریب پہنچ کر اس نے اپنے گھوڑے کی لگام کو پیڑ سے باندھا اور پھر دروازے کی
جانب بڑھ گیا دروازے پر کافی دیر تک دستک دینے کے بعد جب اندر سے آواز نہ
آئی تو وہ اندر داخل ہو گیا۔ جھونپڑا عمدہ اور عالیشان تھا ایک طرف پانی کا
مشکیزہ نظر آیا اس نے پانی پیا اور مشکیزہ واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا اچانک
اس کی نظر سفید اور کالے موتی پر پڑی اس نے سفید موتی اٹھا کر سنبھال لیا۔
اپنے سفر کے دوران اس نے ایسے کئی موتی جمع کر لیے تھے اب وہ آرام کے لیے
لیٹ گیا۔ سفر کی تھکن سے نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اسے بے خبر سوتے کافی
وقت بیت چکا تھا ’’اٹھو ابھی تم نے لمبا سفر کرنا ہے، اٹھو! اٹھ بھی
جاؤ‘‘،کافی دیر تک مسلسل آوازوں سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ جب اس نے اپنے
چاروں اطراف دیکھا تو اسے کوئی دکھائی نہ دیا اس نے دوبارہ تیزی سے سفر
شروع کر دیا۔ اس کو اس بات کا یقین تھا کہ اس کے پل پل کو لکھا جا رہا ہے
وہ ہمیشہ اپنے دائیں بائیں کسی کو محسوس کرتا تھا۔
پھر چلتے چلتے کئی پتھر سمیٹے اور یونہی کئی سال گزر گئے
شب و روز کی انتہا تلاش سے روحانی سکون بھی مل گیا
شام کی سرخی آسمان پر پھیل چکی تھی اتنی مسافت طے کرنے کے بعد وہ کمزور ہو
چکا تھا۔ وہ ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گیا اور اپنی گٹھری کھول کر دیکھنے لگا
جس میں کئی موتی تھے سفید اور کالے۔ جو اس نے اپنے سفر کے دوران اکٹھے کیے
تھے نظر کی کمزوری کے باعث ان موتیوں کی گنتی ممکن نہیں تھی اس لیے اس نے
دوبارہ گٹھری بند کر کے ایک طرف رکھ دی۔
اب رستہ آگے کا مشکل نہیں تھا
اک اندھیر غار سے گزر تھا
طویل مسافت کے باعث
نگاہ بھی دھندلا گئی
اب جو آنکھ کھلی جہاں ہی بدل گیا
جہان فانی کا رستہ اس کی منزل پہ ہوا تمام
جس گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز وقتا فوقتا وہ سفر کے آغاز سے سنتا آ رہاتھا آج
وہ آواز اسے انتہائی قریب سے آتی محسوس ہو رہی تھی اور جیسے جیسے وقت گزر
رہا تھا آواز قریب سے قریب تر ہوتی گئی۔ بادل مکمل طور آسمان پر پھیل چکے
تھے بجلی کی کڑک سے اس کا جسم ہلکا ہلکا لرز رہا تھا اس نے ہلنا چاہا لیکن
جونہی اس نے خود کو حرکت دینے کی کوشش کی تو اس کے پاوں ساکت ہو چکے تھے
آہستہ آہستہ اس کا درد بڑھنے لگا اب کے اس کی مکمل ٹانگیں سن ہو چکی تھی۔
درد اس کی تڑپ میں اضافہ کر رہا تھا اور وہ مکمل طور پر بے بس ہو چکا تھا
انتہائی کرب کی کیفیت میں جونہی اس نے نظر گھمائی اسے اپنے تعاقب میں ایک
سایہ نظر آیا۔
وہ کچھ ڈر سا گیا لیکن پھر تمام ہمت اور حوصلہ اکٹھا کر کے اس نے مکمل
جائزہ لیا تو سایہ گھوم کر سامنے آ گیا۔ ’’تم کون ہو؟ اور میرا تعاقب کیوں
کر رہے ہو‘‘؟ اس کے سوال نے سامنے والے کے چہرے پر مسکان بکھیر دی۔ سب سے
پہلا سوال میں ’’کون ہوں‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں ’’فرشتہ اجل‘‘ ہوں
اور دوسرا سوال’’میں تمہارا تعاقب کیوں کر رہا ہوں‘‘تو تعاقب کی وجہ ’’میں
تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں‘‘۔ اب کے اس مختصر وضاحت سے وہ سمجھ چکا
تھا کہ کچھ وقت پہلے کی کیفیت وقت نزع کی تھی اس کا اس جہان فانی کا سفر
تمام ہو چکا ہے اور اب اس کے اگلے سفر کی روانگی کا وقت آ گیا ہے۔ اس کا
جسم مکمل طور پر مفلوج ہوچکا تھا ’’لا الا اﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘آخری الفاظ
کی ادائیگی کے بعد اس نے خاموشی سے فرشتہ اجل کا ہاتھ تھام لیا اور نئے سفر
پر روانہ ہو گیا۔
|