میرا دوست افتخار مجاز

جب بھی میرے دوستوں کا ذکر شروع ہوتا ہے تو افتخار مجاز کانام فہرست میں سنہرے لفظوں سے لکھا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ میرا دوست ہی نہیں بلکہ رہنما بھی ہے ۔ میری ان سے ملاقات کا سبب ایک کتاب ""کارگل کے ہیرو " بنی ۔ مجھے نہیں علم کہ میری یہ کتاب ان کے پاس کیسے پہنچی ۔لیکن ایک دن ان کی ایک کال مجھے بنک آف پنجاب میں موصول ہوئی جہاں میں بطور میڈیا کوارڈی نیٹر ملازمت کررہاتھا وہاں میرے سنیئر مراتب علی شیخ صاحب تھے جو ڈائریکٹر پبلک ریلشنز حکومت پنجاب کے عہدے پر فائز ہونے کے بنا پر افتخار مجاز کے قریبی دوست تھے ‘ یہ رشتہ اس لیے استوار ہوا کہ افتخار مجاز پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر کے شعبہ کرنٹ آفیئر کے ہیڈ تھے اس حیثیت سے وہ ادیب ‘ شاعراور سیاست دانوں کے بارے میں بے شمار معلومات رکھتے تھے ۔ ایک شام مراتب علی شیخ صاحب مجھے اپنے ساتھ لے کر بیڈن روڈ کے لاجز میں پہنچے ۔ یاد رہے کہ انہی لاجز میں سعادت حسین منٹو ‘ ملک معراج خالد بھی کبھی رہاکرتے تھے ۔ بہرکیف کراچی سے چندافراد لاہور تشریف لائے تھے جن کا تعلق پبلک ریلیشنز شعبے سے تھا ۔ چونکہ ہمارا اور افتخار مجاز کاتعلق بھی اسی شعبے سے ہے اس لیے زندگی میں پہلی مرتبہ ہم ایک ہی چھت کے نیچے جمع ہوئے اور پہلی ہی ملاقات ہمیں اس قدر قریب لے آئی کہ ایک وقت ایسابھی آیا کہ ہم روزانہ ٹیلی فون پر طویل گفتگو کرنے لگے ۔ چونکہ ہمارا دونوں کا مزاج بھی ایک جیسا تھااس لیے ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے میں زیادہ دقت نہ ہوئی بلکہ یوں محسوس ہوا کہ افتخار اور میں بہت مدت سے دوست چلے آرہے ہیں ۔

ایک دن میں حسب معمول بنک آف پنجاب کے ہیڈ آفس 7 ایجرٹن روڈ لاہور پہنچاتو افتخار صاحب کی کال موصول ہوئی ۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اتنی صبح ان کو مجھ سے بات کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے ۔ جب ریسور کانوں کو لگایا تو انہوں نے جذباتی اندازمیں بتایا کل رات میں آپ کی کتاب "کارگل کے ہیرو " پڑھ رہا تھا رات کافی بیت چکی تھی ‘گھر کے تقریبا سبھی افراد سو چکے تھے ‘ سردیوں کی راتوں میں لحاف میں لیٹا ہوا کتاب پڑھنے میں مصروف تھا کہ اچانک خوشبو کاایک جھونکا میرے قریب سے گزرا ۔ یکدم مجھے خوشبو کا احساس ہواتو میں نے ارد گرد دیکھا کہ رات گئے کون اتنی خوشبو لگا کر میرے کمرے میں آیا ہے ۔ کمرے میں مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا ۔یہ مجھ پر خوشگوار حیرت کا اثر تھا کہ میں دیر تک خوشبو بھرے ماحول ہی کتاب پڑھتا رہا اس لمحے میری آنکھوں میں آنسو تھے ۔شاید یہ کسی شہید کی روح کا میرے کمرے سے گزر ہوا تھا ۔ افتخار مجاز نے بتایا کہ صبح صبح فون کرنے کی وجہ یہ تھی ۔میرا تو دل کررہا تھا کہ میں رات کے اسی لمحے آپ کو اپنی جذباتی کیفیت سے آگاہ کروں لیکن میں ان خوشگوار لمحات کو صبح تک ہی محسوس کرتا رہا ۔

افتخار مجاز سے گہری دوستی کی بنیاد میری کتاب "کارگل کے ہیرو " بنی ۔ اس کے بعد یہ دوستی دن بدن مضبوط ہوتی چلی گئی اور ایک وقت یہ بھی آیا جب وہ میری کتابوں کی رونمائی کے میزبان بننے لگے ۔ اﷲ تعالی نے ان کو کمپیئرنگ کرنے ‘ شخصیات کا تعارف کروانے اور گفتگو کرنے کا جو سلیقہ انہیں عطا کیا تھا وہ کسی عام شخص کے نصیب میں نہیں ۔میری فیملی کا ہر فرد ان سے والہانہ محبت کرتا بلکہ میری والدہ "ہدایت بیگم "جب بھی کتاب کی رونمائی کے موقع پر آڈیٹوریم میں تشریف لاتیں تو افتخار مجاز انہیں اپنی ہی والدہ تصور کرکے اتنی عزت دیتا کہ والدہ گھر پہنچ کر بھی ان کے لیے بے شمار دعائیں دیتیں ۔ افتخار مجاز سے دوستی اور محبت کا رشتہ اس قدر استوار ہوا کہ ادب و صحافت کے لوگ ہمیں بھائی ہی تصور کرنے لگے۔ اسی ناطے افتخار کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کو میں اپنا بڑا بھائی ہی تصور کرتا اور مجھے جب بھی ان کی ضرورت پڑتی تو وہ بھی اپنے مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کتاب کی رونمائی میں نہ صرف تشریف لاتے بلکہ سیر حاصل گفتگو بھی کرتے ۔

مجھے یادہے کہ افتخار مجاز کی بدولت ہی ایک مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لاہور سنٹر میں میری کتاب "کارگل کے ہیرو "کا پروگرام ریکارڈ اور نشر ہوا تھا ۔اس پروگرام کے پروڈیوسر افتخار مجاز تھے جبکہ میزبان اعزاز احمد آذر تھے ۔گفتگو میں سیدوصی شاہ ‘ میں اور ایک اور شخصیت شامل تھی جن کا مجھے اب نام یادنہیں رہا ۔ یہ ٹی وی پروگرام میری زندگی کا یادگار پروگرام تھا جس کی ریکارڈنگ بھی شاید میرے پاس کہیں محفوظ ہے ۔ جو جنرل منیجر سلیمہ ہاشمی کی اجازت سے مجھے ملی تھی ۔

زندگی سدا ایک ہی رخ اور فتار سے نہیں چلتی ‘ درمیان میں کتنے ہی حادثات ایسے رونما ہوتے ہیں جو انسان کو غم اور پریشانی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبو دیتے ہیں ۔افتخار مجاز کی عظیم ماں کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئیں ۔میں تعزیت کے لیے جب ان کے گھر واقع علامہ اقبال ٹاؤن کے نظام بلاک گیا ۔گھنٹی بجتے ہی گھر کا دروازہ کھلا میرے سامنے نحیف و نزار اور غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا افتخار مجاز کھڑا تھا جس کی آنکھوں میں اس لمحے آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کے ان کو گلے لگا لیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے ہم دونوں میاں بیوی اس عظیم اور بے مثال ماں کی نا گہانی موت پر تعزیت کرنے کیلئے آئے تھے جن کے فرزندوں میں سے ایک کا نام افتخار مجاز ہے۔ افتخار ایک پر خلوص اور بے مثال شخص کا نام ہے ،اس سے دوستی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں اس دوران میں نے انہیں ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے پیار کرنے والاانسان ہی پایا اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹوں اور گفتگو میں چھپے ہوئے قہقہوں کو دیکھ کر میں ہمیشہ یہ دعا کیا کرتا تھا کہ خدایا افتخار کی ز ندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہ آئے جب میں اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھوں۔ میں نے افتخار کو شیخ زید ہسپتال میں بھی اس وقت مسکراتے ہی دیکھا جہاں وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر علاج کیلئے داخل تھا۔ مجھے جب اس کی بیماری کی خبر ملی تو ان کے ساتھ گزارے ہوئے محبت بھرے لمحات نے میری آنکھوں میں آنسو بھر دئیے دل سے یہی دعا نکلی‘ اے خالق کائنات شیخ زید ہسپتال جب پہنچوں تو افتخار درد سے تڑتپا ہو انظر نہ آئے بلکہ مسکراہٹیں اور قہقہے جو ہمیشہ اس کی شخصیت کا حصہ رہتے ہیں‘ فضا میں بکھیرتے نظر آئیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دل سے نکلی ہوئی دعا اثر رکھتی ہے پھر جب میں ان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچا تو حسب توقع افتخار بیڈ پر بیٹھا مسکرا مسکرا کے باتیں کر رہا تھا۔ اہلیہ اور بچے ان کے گرد اپنی محبت نچھاور کر رہے تھے افتخار کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر میں نے رب کا شکر ادا کیا اور صحت یابی کیلئے ڈھیروں دعائیں دیں۔

افتخار کی آنکھوں میں آنسوؤں کو دیکھ یوں محسوس ہوا کہ یہ ایک بیٹے کا اپنی ماں کے حضور آنسوؤں کا خراج ہے۔ (بے شک ہم سب اﷲ کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں کا رشتہ ہی انمول ہے اولاد کو اگر کچھ ہو جائے تو ماں‘ بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتی ہے اگر ماں بیمار پڑ جائے تو اولاد بے چین ہو جاتی ہے بظاہر تو دونوں کے جسم الگ الگ نظر آتے ہیں۔ لیکن ماں، اولاد کو اپنے جسم کا حصہ ہی قرار دیتی ہے تخلیقی عمل کے دوران بچہ 9ماہ تک ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے پھر جب وہ دنیا میں آتا ہے تو ماں کی ہر ادا بلا شبہ بچے پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس طرح یہ واقعہ بھی زبان زد عام ہے کہ :
’’دنیا میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چھوٹا سا ننھا منا سا! وہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آ کر بہت حیران ہوا۔ انوکھی دنیا‘ انوکھے لوگ‘ انوکھی باتیں! اس نے اپنے خالق سے سوال کیا کہ اے آسمانوں اور زمینوں کے خدا! میں اتنا چھوٹا سا ہوں کہ ہل جل نہیں سکتا‘ کچھ بول نہیں سکتا‘ کچھ کرنہیں سکتا‘ مجھے کسی کی بات سمجھ نہیں آ رہی‘ میں کسی کو کچھ سمجھا نہیں سکتا۔ مجھے بتا کہ میں نے پہلو بدلنا ہو گا تو ایسا کیسے کر سکوں گا؟ جواب آیا کہ تم فکر نہ کرو‘ میں نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے وہ یہ سب کچھ کر دیا کرے گا۔ بچے نے پھر سوال کیا کہ میں کسی کو کچھ سمجھانا چاہوں گا تو کیسے سمجھا سکوں گا؟ آواز آئی کہ وہ فرشتہ تمہاری بات سمجھ کر آگے بیان کر دے گا۔ بچہ پھر بولا میں کسی کی بات نہیں سمجھ سکتا لوگ میرے ساتھ باتیں کریں گے تو میں کیسے سمجھوں گا؟ جواب آیا کہ وہ فرشتہ یہ کام بھی کرے گا۔ بچے نے آخری سوال کیا کہ میرے خالق اب ایک مسئلہ باقی رہ گیا ہے کہ مجھے اس فرشتے سے کوئی بات کرنا ہو گی تو اسے کس نام سے پکاروں گا؟ جواب آیا ’’تم اسے ماں کہہ کر تو دیکھنا‘‘! وہ تم پر اپنی جان نچھاور کر دے گی۔
ماں دنیا کی ہر زبان کا خوبصورت ترین لفظ ہے ! جس کی مامتا نہ صرف زندگی کو جنم دیتی ہے ‘ بلکہ اسے رواں بھی رکھتی ہے ! دنیا میں مامتا نہ ہوتی تو انسانوں اور حیوانات کی زندگی آگے نہ بڑھ سکتی‘‘۔ جہاں ماؤں نے اشفاق احمد، میرزا ادیب، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی جیسے عظیم لکھنے والے پیدا کیے وہاں ماں نے افتخار مجاز اور اعزاز احمد آذر جیسے دوسروں کے دکھ بانٹنے والے اور محبتیں شیئر کرنے والے فرشتہ صفت انسان بھی پیدا کیے ہیں افتخار کی ماں بھی دنیا کی کسی ماں سے ممتا کے ایثار و قربانی اور محبت کے اعتبار سے کم نہیں تھی۔

افتخار کی عظیم ماں گزشتہ چند سالوں سے صاحب فراش تھیں ویسے بھی آخری عمر میں بڑھاپا سب سے بڑی بیماری بن جاتا ہے۔ بیماریاں رخ بدل بدل کے انسانی صحت پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ اولاد ہونے کے ناطے افتخار اور ان کے تمام بھائیوں‘ ان کی بیگمات اور بچوں نے ماں کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی ۔مجھے یاد ہے کہ افتخار جس کے پاس سواری تک نہیں ہے پھر بھی وہ ہنستا مسکراتا پیدل، کبھی ویگن‘ پر کبھی بس پر گھر سے ٹی وی سینٹر اور یہاں سے گھر تک کا سفر ہر روز کرتا ہے اس دوران اگر کوئی خلوص سے کسی فنکشن میں بلا لے تو وہ فاصلوں کو سمیٹتا ہوا اکثر اوقات پیدل ہی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ میں اس لیے بھی افتخار کا بے حد ممنون ہوں کہ میں نے جب بھی اور جہاں بھی اپنی کتاب کے فنکشن کا اہتمام کیا افتخار آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوتا ہے۔ ناگواری کی شکن اس کے ماتھے پر نہیں ہوتی اور نہ ہی اس نے کبھی مصروفیات کابہانہ بنا کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔

بہر کیف جب میں اظہار تعزیت کیلئے افتخار کے دامن گیر ہوا تو مجھے ان کے گرم گرم سانسوں کے ساتھ ساتھ چند سسکیاں بھی محسوس ہوئیں یہ سسکیاں کیوں نہ نکلتیں جس ماں کی کوکھ سے جنم لیا اس کی محبت بھری آغوش میں شعور کی حالت کو پہنچا سارا بچپن اس کے محبت بھرے آنچل میں ہی گزرا۔ مونہہ زور جوانی کی منزلیں اس کی دعاؤں کے سہارے نہایت پاکیزگی اور طہارت سے بسر کیں۔ شادی کا موقع آیا تو اپنی مرضی کی بجائے والدین کے فیصلوں کا ہی احترام کیا۔ آزمائش کے ہر مرحلے میں ماں کی دعاؤں نے اِرد گرد حصار قائم کیے رکھا۔ افتخار کی ہی زبانی میں نے یہ واقعہ بھی سنا کہ جب ڈاکٹروں نے انہیں انجیو پلاسٹی کروانے کی حتمی رائے دی تو وہ سخت پریشان تھے۔ ابھی بائی پاس آپریشن کا فیصلہ نتائج کو دیکھ کر کیا جانا تھا۔

ایک تندرست انسان کیلئے ماہر ڈاکٹروں کی یہ رائے سخت پریشانی کا باعث تھیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق افتخار بڑے حوصلے اور جرأت کا مالک ہے بحیثیت انسان اس صورت حال میں افتخار کیلئے بھی تشویش میں مبتلا ہونا ایک فطری امر تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے افتخار کو جہاں باقی رشتے بہت عظیم اور انمول عطا فرمائے ہیں وہاں کھلے دل سے محبت کرنے والی بیوی بھی عنایت فرمائی ہے۔ جو بلاشبہ افتخار کی خوشیوں پر خوش ہوتی ہے اور پریشانیوں میں اپنا دکھ بھول کر انہیں حوصلہ فراہم کرتی ہے۔

ابھی انجیو گرافی کیلئے دن اور وقت کا تعین ہونا باقی تھا ۔ نیک سیرت بیوی نے التجا بھرے لہجے میں افتخار سے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں اگر اﷲ کے مقرب بندے اور ولی کامل حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستانے پر جا کر اﷲ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا مانگی جائے تو ہو سکتا ہے ان جان لیوا مصیبتوں سے چھٹکارا مل جائے افتخار چونکہ خود بھی حضرت داتا گنج بخشؒ سے والہانہ محبت کے ناطے پکی دوستی کا دعویٰ رکھتا ہے اس لیے بیگم کی رائے کو پذیرائی بخشتے ہوئے وہ ایک دن ولی کامل حضرت داتا گنج بخش ؒ کے دربار عالیہ پر حاضر ہوکر وہ ان کی وساطت سے پروردگار سے اپنی صحت یابی کیلئے دعا مانگنے لگا وہاں نوافل ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بیگم کی ترغیب پر صدقہ بھی دیا۔ جب افتخار اور ان کی بیگم داتا دربار سے باہر نکل رہے تھے تو بیگم نے نہایت عاجزی سے مشورہ دیا کہ کیوں نہ متوقع انجیو پلاسٹی کے حوالے سے ماں کو بھی بتا دیا جائے۔ افتخار نے ابھی تک یہ منحوس خبر ماں سے اس لیے مخفی رکھی تھی کہ سن کر انہیں اذیت ہو گی لیکن بیگم کا اصرار تھا کہ جب ماں کو بیٹے کی تکلیف کے بارے میں علم ہو گا تو یقینا اُس کے ہاتھ دعاکیلئے اُٹھیں گے۔ ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ جب فرشتے خالق کائنات تک پہنچا دیں گے۔ پروردگار جو انسان کو خود ستر ماؤں جتنی محبت کا دعویٰ کرتا ہے وہ کس طرح ماں کی دعا کو رد کرے گا۔ بیگم کی بات دل کو لگی تو افتخار نے ماں کی قدم بوسی کے ساتھ ساتھ انہیں پیش آمدہ حالات کے بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ افتخار کے مطابق جب وہ ماں کے روبرو ماہر ڈاکٹر وں کی رائے بتا رہا تھا تو ماں کی زبان سے بے ساختہ الفاظ نکلے ’’افتخار تمہیں کچھ نہیں ہو گا‘‘۔ اﷲ تمہیں تتی (گرم) ہوا بھی نہیں لگائے گا۔ ماں کی دعا لیے جب اگلی صبح افتخار‘ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی انجیو گرافی کیلئے پہنچا تو رزلٹ آنے پر ڈاکٹر حیران رہ گئے کیونکہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر صولت صدیق کی رائے غلط ثابت ہوئی تھی۔ یہ کیسے ہوا اس کے بارے میں تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ صدقہ خیرات نے مصیبت ٹالی‘ ولی کامل کی دعا نے اثرکیا۔ یا ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعا نے بیٹے کو اس موذی بیماری سے نجات دلائی۔ماں کی رحلت کے بعد افتخار مجھے یہ واقعہ سنا رہا تھا تو اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ ماں سے والہانہ محبت کے حوالے سے آپ ہر شخص کیلئے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔

22مارچ2005ء کو جب افتخار کی ماں کا انتقال ہوا تو مجھے اس کی شخصیت ریزہ ریزہ نظر آئی۔ وہ افتخار نہیں تھا جو ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ آج اس کی گفتگو میں ماں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ گھنٹوں ماں کی شفقت و ایثار بھری باتوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ اس لمحے میں نے اسے کہا کہ افتخار مائیں کبھی نہیں مرتیں بلکہ وہ تو ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ ماں کی دعائیں تو زندگی کی آخری سانس تک اپنے بچوں کے گرد حصار بنائے رکھتی ہیں۔ کسی نے ممتاز افسانہ نگار ممتاز مفتی کو وہم ڈال دیا کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ وہ ایک بزرگ کے پاس حاضر ہوا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ بزرگ کچھ دیر مراقبے میں رہے۔ پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمانے لگے کہ ممتاز مفتی تم پر کوئی جادو ٹونہ نہیں ہو سکتا ‘ تمہاری ماں کی دعاؤں نے تمہیں ہر طرف سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ میں نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ افتخار تمہاری ماں مری نہیں صرف آنکھوں سے اوجھل ہوئی کیا تمہیں اس کے دامن کی خوشبو اپنے ارد گرد محسوس نہیں ہوتی ماں تو اتنی شفیق ہوتی ہے پر اس کی دعاؤں کا حصار تو اب بھی تیرے اِرد گرد قائم ہو گا۔ افتخار تم تو خوش نصیب ہو کہ آخری سانس تک تم نے ماں کی خدمت کی۔ وہ تم سے بے حد خوش تھیں اور روزِ محشر کے دن ماں کی زبان پر یہی الفاظ ہوں گے افتخار تمہیں تتی ہوا نہ لگے۔ ماں کی زبان سے نکلی ہوئی دعا کا بھرم خالق کائنات بھی انشا اﷲ رکھے گا۔ کاش ماں سے تم جیسا محبت کرنے والا شخص ہر گھر میں ہو۔ جو روشنی کا مینار بن کے ہمارے معاشرتی اندھیروں کو اجالوں میں بدل دے۔

بہرکیف تمام مقدس رشتوں اور دوستوں سے محبت کرنے والا اور بات بات پر مسکرانے والا افتخار مجاز آج کل ویلنشیا ٹاؤن کے ایک کلینک میں بیماری کے ہاتھوں نڈھال لیٹا ہوا ہے ۔ پہلے اسے فالج کے مرض نے بے حال کیا ‘ ملاقات کے لیے جانے والے دوستوں نے بتایا کہ افتخار ہمیں دیکھ کر پہلے کی طرح مسکرایا اور یوں محسوس ہوا جیسے بیماری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔ وہ ایک بار پھر فالج کی بیماری کو شکست دینے کے لیے اپنی جسمانی قوتوں کو اکٹھا کررہا تھا کہ اچانک دل کے مرض نے ایک بار پھر سر اٹھالیا جو بہت پہلے سے ان کو لاحق چلاآرہا ہے ۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے ریٹائر منٹ کے بعد افتخار کو میں نے اکثر ویل ڈریس ہوکر ہر ادبی محفل میں شریک دیکھا ۔میری ان سے آخری ملاقات جناب سعید جاوید کی افطار پارٹی تھی جس کااہتمام انہوں نے ایم ایم عالم روڈ پر واقع ایک عالیشیان ہوٹل میں کررکھا تھا ۔افطار ڈنر میں افتخار مجاز کے علاوہ ممتاز ادیب اور ماہنامہ ارد ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر الطاف حسن قریشی ‘ ممتا ز شاعر اور ادیب امجداسلام امجد ‘ روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ‘ خالد رسول ‘ ممتاز ادیب اختر عباس ‘ ممتاز مصنف سعید جاوید اور میں شریک تھا ۔ یہ افطار ڈنر اس اعتبار سے یادگار قرار پایا کہ ایک ہی چھت کے نیچے تمام ممتاز ادیب اور شاعر جمع ہوئے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔افتخار مجاز اس محفل کے ایک پھر دولہا تھے ان کی شگفتہ بیانی اور مزاحیہ گفتگو کا مزا ہر شریک کار نے خوب لوٹا ۔

ناسازی طبع کی وجہ سے میں ان کی عیادت کے لیے ویلنشیا ٹاؤن تونہیں جاسکا لیکن ہر لمحے ان کی یاد دامن گیر رہتی ہے ‘ ہر صبح نماز تہجد کے وقت ان کی صحت یابی کے لیے دعا کرتا ہوں ۔اﷲ نے چاہاتو وہ جلد صحت یاب ہوکر ہمارے درمیان ہوں گے ۔ دوستوں کا دوست اور یاروں کا یار افتخار ایک بار پھر ہنستا مسکراتا نظر آئے گا ۔ان شاء اﷲ

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.