منگل 6 نومبر کو شام چھ بج کر چون منٹٰ پر اے ٹی ایم سے
ملنے والی بیلنس شیٹ دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرے پاس اربوں یا
کھربوں نہیں مائنس تین سو بیاسی روپے بینک میں محفوظ ہیں، یہ دیکھنے کی
ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ کل ہی سلمان کا فون آیا تھا، اس کی دکان سے 4
نومبرکے وعدے پر 1200روپے کی پرچیزنگ کی تھی، ادھار اسی طرح چلتا رہتا ہے،
تنخواہ ملتے ہی جس جس کے پیسے باقی رہتے ایک منٹ کی تاخیر کیے بغیر ادا
کردیتا تھا، جاوید سے اس طرح باڈی اسپرے وغیرہ لے جاتا تھا، زیادہ تر کیش
ہی دیتا مگر کچھ باقی رقم 4 نومیرکے وعدے پر ادھارکر لیتا، محلے کے تمام
دکاندار جانتے تھے کہ میں خریداری نقد ہی کرتا ہوں، کبھی کبھار بجٹ کم پڑتا
تو یہ ناگوار ادھار بھی کر لیتا، سو سے کم رقم تو دوسرے روز ہی جا کر دے
آتا۔
اللہ بھلا کرے میری اہلیہ کا وہ ہمیشہ مجھے ادھار کرنے سے منع ہی کرتی ہیں
مگر واپسی پر ان سے بھی جھوٹ بولنا پڑتا کہ نہیں پوری ادائیگی کر کے آیا
ہوں، اللہ کی نیک بندی بھی یقین کر لیتی کیونکہ دکاندار بھی ان سے میری
ادھار رقم کا تقاضہ نہیں کرتے، انھیں وقت پر جا کر ادا جو کر دیتا ہوں،1984
سے علاقے میں ہوں، مگر بہت کم لوگ ہی مجھے جانتے ہوں گے، بطور سینئر جرنلسٹ
کام کا تو صرف جاننے والوں کو ہی پتہ ہے۔
ویسے تو ہر ماہ کی 4 تاریخ تک پسنیہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری مل جاتی رہی
ہے، کبھی کبھار ہی تاخیر کی جاتی ہے، لیکن کچھ عرصہ قبل محنتانہ ہمیں 15اور
18 تاریخ کے بعد کافی عرصے تک ملتا رہا، پھر حالات معمول پر آ گئے، اب شاید
پھر ادھار لیتے کم از کم 15 تاریخ کے بعد کا وعدہ کرنا پڑے گا، اللہ مالکان
کو بھی ہمارا بھرم قائم رکھنے کی توفیق دے، اگر وہ بروقت تنخواہ دے دیا
کریں تو ادھار واپس کر دیں، اس طرح ساکھ خراب ہونے سے بچ جائے مگرکیا کریں
مالکان کو کون مشورے دیتا ہے، چار پانچ برس گزر گئے، سالانہ انکریمنٹ نہیں
ہوا، سالانہ انکریمنٹ کا سوال کیسے کریں جب قانون سے ہٹ کر ملازمت دی گئی
ہو تو اس کے قواعد وضوابط بھی تو نہیں ہوتے، اس پر ظلم لیبر قانون کا تڑکا
لگایا جاتا ہے، وہ بھی صرف ٹائم کے معاملے پر جبکہ لیبر قانون میں چھٹیوں
کا بھی ذکر ہے، مگرکنٹریکٹ ملازم پر اطلاق نہیں کیا جاتا، ورنہ ایک ماہ کی
کیش کے ساتھ تعطیل بھی ملازم کا حق ہے مگر ہوتا کیا ہے استحصال؟ کیونکہ
پوچھنے والا کوئی ہے ہی نہیں تو مالکان انجوائے کرتے ہیں اور ملازم صبر کا
دامن نہیں چھوڑتے کہ صبر کا پھل کبھی تو میٹھا ملے گا؟
سنا ہے کہ اخبار مشرق کے مالک کی ملازمین پر بڑی گہری نظر تھی، وہ کسی
ملازم کو دیکھ کر اس کی حالت کا اندازہ لگا لیتے اور اپنے پاس بلا کر انھیں
کہتے جاﺅ کیشیر سے رقم لے لو اور ضرورت پوری کر لو، مجید نظامی مرحوم کو
بھی یونین بازی پسند نہیں تھی، انھوں نے بھی ایسا سسٹم بنا رکھا تھا کہ کسی
کو پریشانی نہیں ہوتی، پھر ویج بورڈ ایوارڈ کیا آیا ایسی کایا پلٹی جو جہاں
تھا وہیں رہ گیا، بس چند لوگ مقدر کا سکندر بن گئے، ہمارے جیسے ہزاروں
کارکن منہ ہی دیکھتے رہ گئے؟
ہاں تو مجھے اپنا کُل دولت دیکھ کر خوشی ہوئی، دل نے چاہا کہ چیخ چیخ کر
خوشی کا اظہار کروں کہ دیکھو میں ایک سینئر جرنلسٹ ہوں جس کا کل دولت مائنس
تین سو بیاسی روپے ہے، انکم ٹیکس بھی دیتا ہوں، دولت ٹیکس بھی زبردستی لیا
جاتا ہے، سیلز ٹیکس، جنرل ٹیکس اور لاتعداد ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں مگر بچت
کیسے کروں، کوئی ذریعہ نہیں؟ جاب کرتے کرتے 35 برس ہو گئے، ابھی تک زیرو ہی
ہوں....!!! 25 سال پہلے ریگولر ملازم تھا وہی رہتا تو ریٹائرمنٹ پر کچھ
ہاتھ بھی آتا مگر مجبوری سے وہ جاب چھوڑی تو ہر جگہ کنٹریکٹ ملازمت ملی،
مالکان ریگولرکیوں نہیں کرتے؟ تنخواہ کم کیوں دیتے ہیں؟ حقوق کے لیے سوال
نہیں کر سکتا تھا، اگر سوال کرتا تو یقینا بات آگے پہنچتی اور پھر جاب کی
ضمانت تو ہے نہیں، پھر وہی خطرہ جس کے باعث سر جھکا کر کام میں جت جانے میں
عافیت سمجھتا، پتہ نہیں کون سے جرنلسٹ ہوتے ہیں لیڈر بن جاتے ہیں، لاکھوں
اربوں میں کھیلتے ہیں، کوٹھیوں محلوں میں رہتے ہیں، دنیا بھر میں گھومتے
ہیں، وزیراعظم، صدر مملکت، چیف سیکریٹریوں، جنرلوں اور سیاستدانوں کے دوست
ہوتے ہیں، جہاں جاتے ہیں واہ واہ ہوتی ہے۔
|