تبصرہ و تجزیہ پروفیسر محمد سلیم احمدخان
قومی ہیروز کی اس پروقار تقریب رونمائی میں ملک کے نامور محقق ٗ قلمکار اور
اہل علم و دانش کااتنی بڑی تعداد میں موجود ہونا محمد اسلم لودھی کی پرعزم
پر خلوص شخصیت کاکرشمہ ہے ۔اگر ہم لودھی صاحب کی قومی ہیرو کتاب پڑھتے ہوئے
ان کی خصوصیات کو ذہن میں رکھیں تو ہمیں قومی ہیروز کی تمام شخصیات میں یہ
خصوصیات بدرجہ اتم نظر آتی ہیں ۔ قومی ہیروز کے کرداروں کے مطالعہ سے چند
باتیں ذہن میں آتی ہیں کہ کس جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں ہمارے
اکابرین نے ہمیں ایک خوبصورت ملک پاکستان دیا۔ پاکستان نے ہمیں نام دیا ٗ
پہچان دی ٗ دولت و عزت و شہرت سے نوازا ۔لیکن بدلے میں ہم نے پاکستان کو
کیا دیا؟ ہم تو پچیس سال بھی اس کی حفاظت نہ کرسکے اور مشرقی پاکستان بنگلہ
دیش بن گیا ۔ ہم تو ایک قوم بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے تھے اورمختلف
قوموں میں تقسیم ہوکر رہ گئے ۔ ہر کوئی اپنا صوبہ ٗ اپنی زبان اور اپنی
ثقافت کا راگ الاپ رہا ہے۔ اٹھاون برس میں ایک دن بھی پاکستان سکھ کا سانس
نہ لے سکا ۔بانی پاکستان حضرت قائداعظم ؓ اگر اپنی آنکھوں سے ملک لٹتا ٗ
ٹوٹتا اور قوم کو پستا ہوا دیکھتے تو ان پر کیا گزرتی ۔ ہم آ بھی اپنے
مستقبل سے پریشان ہیں ۔ ملک کا ہنر مند اور اعلی تعلیم یافتہ طبقہ دیار غیر
کا رخ کیوں کررہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ ایسا کیوں ہورہا ہے ٗ آخر اس کا کوئی
تو حل ہوگا؟قومی ہیروز نے یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا ہے کہ سسٹم میں کہیں
بہت بڑی خرابی موجود ہے ۔ ہمارے نظام تعلیم میں جو کچھ ہونا چاہیئے تھا وہ
نہیں ہے اس میں حب الوطنی کی چاشنی کا دور دور تک نام نہیں ۔ صرف مادہ
پرستی کا بیج بویاگیا ہے۔ اس کا پھل کھا رہے ہیں ۔
ہم اپنے قومی دن بڑی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں تقاریب
منعقد کرتے ہیں جس میں ایک مخصوص بیورو کریٹ ٹائپ کی گیدرنگ ہوتی ہے اور ان
کے سامنے اپنے بزرگوں کے کارنامے بیان کرتے ہی اور داد تحسین حاصل کرتے ہیں۔
اس قسم کی اہم قومی تقاریب میں ہم اپنے بچوں کولے کر جانا پسند نہیں کرتے
یا پھر بچے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث ان تقاریب میں جانا نہیں چاہتے ۔
وہ اس قسم کی تقاریب کو وقت کا ضیاع اور دقیانوسیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ وہ
ایسا کیوں سمجھتے ہیں اس لیے کہ ہم نے ان کی تربیت ہی نہیں کی ۔ وہ اپنا
وقت سڑکوں پر شور مچاتی گاڑیاں سرپٹ دوڑاتے اور اپنے بنگلوں ٗ گھروں میں
پتنگ باز ی جیسی خرافات یا بھارتی فلمیں دیکھ کر قومی دن انجوائے کرتے ہیں
۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وزارت تعلیم ایک نوٹیفیکیشن جاری کرتی کہ قومی
دن کے موقع پر تعلیمی اداروں میں چھٹی نہیں ہوگی ۔ قومی دن کے مواقع پر
تعلیمی اداروں میں ملک و قوم اور اکابرین قوم کے موضوعات پر بحث و مباحث
ہوں گے ۔ تقسیم انعامات کی تقاریب منعقد ہوں گی ۔ ملک بھر میں ہر علاقے کے
تعلیمی اداروں سے طلبا ء کی ریلیاں گلی کوچوں میں نکالی جائیں ۔ بچے اور
بڑے قومی و ملی جذبہ سے سرشارہوکر مارچ کریں ۔ ملک کے گلی کوچے پاکستان
زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھیں ۔ صاحبو اس تیر بہدف نسخہ کو
اپنانے سے ننھے منے بچوں میں ملک و قوم سے ایک جذباتی لگاؤ پیدا ہوگا اور
ہمارے ہیروز کے کارہائے نمایاں از بر یاد ہوں گے ۔ ان میں ایک ایسا جذبہ
ملی بیدار ہوگا جو ناقابل تسخیر ہوگا۔ پھر ان میں سے بے شمار بچے مستقبل کے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ٗ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ٗ مولا نا ظفر علی خان ٗ حمید
نظامی ٗ میر خلیل الرحمان ٗ حکیم محمد حسن قرشی ٗ ایس ایچ ہاشمی ٗ میا ں
محمد شریف ٗ محمد رفیع بٹ ٗ محمد حسین انصاری ٗ ملک معراج خالد ٗ حاجی بشیر
احمد ٗ محتر م محمود علی ٗ ڈاکٹر محمد سلیم فاروقی ٗ جیسی خصوصیات کے حامل
ہوں گے ۔میری رائے کے مطابق محمد اسلم لودھی نے قومی ہیرو کتاب لکھ کر ایک
قومی فریضہ ادا کردیا ہے جو قابل قدر ہے ۔ عجیب اتفاق ہے کہ میں نے لودھی
صاحب کو نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی ملاقات ہوئی ہے اور نہ کبھی ٹیلی
فون پر ان سے گفتگو ہوئی ہے ۔ بس ان کے مضامین اور کتابوں ہی سے انہیں
دیکھا اور سمجھا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ قومی ہیروز کا مقصد ان کا جذبہ حب
الوطنی ٗ ملک اور قوم سے محبت اور پاکستان کو اقوام عالم میں کامیاب و
کامران دیکھنا ہی ان کا مطمع نظر ہے۔ اسلم لودھی نے نہایت خوبصورتی سے
مولانا ظفر علی خان اور دیگر تمام ہیروز کی تحریک پاکستان میں عملی ٗ ملی ٗ
قلمی اور صحافتی و اقتصادی جدوجہد کو قلمبند کیا ہے کہ قاری جب ان کو پڑھتا
ہے تو اس کو حالات و واقعات اس ترتیب اور تواتر کے ساتھ ملتے ہیں کہ وہ ذوق
و شوق کے ساتھ پڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور اپنے اندر ایک نیا جذبہ و ولولہ
محسوس کرتا ہے ۔
لودھی صاحب نے جن شخصیات کو قومی ہیروز میں شامل کیا ہے وہ حقیقت میں اس
قومی اعزاز کے مستحق ہیں۔ اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ قومی ہیروز
میں ایک گروپ ان شخصیات پر مشتمل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں عملی اور
علمی طور پر حصہ لیا۔( جیسے مولانا ظفر علی خان ٗ حمید نظامی ٗ میر خلیل
الرحمان ٗ حکیم محمد حسن قرشی ٗ محمد رفیع بٹ ) جبکہ دوسرا گروپ جس میں
پہلا گروپ کی بھی چند شخصیات شامل ہیں انہوں نے پاکستان کو خوشحال ٗ ترقی
اور استحکام بخشنے میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی ۔ ان میں میاں محمد شریف
ٗ حاجی بشیر احمد ٗ میر خلیل الرحمان ٗ حمید نظامی ٗایس ایچ ہاشمی شامل ہیں
۔ جنہوں نے صنعتی انقلاب برپا کرکے پاکستان کانام دنیا بھر میں روشن کردیا۔
تیسرا گروپ جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ٗ ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے عظیم
سائنس دان ہیں جنہوں نے ناقابل یقین کارنامہ سرانجام دے کر پاکستان کو
ایٹمی قوتوں کے ساتھ لاکھڑ ا کیا۔ اب دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے
دیکھنے کی جرات تک نہیں کرسکتا ۔ چوتھے گروپ میں شرافت ٗ متانت اور دیانت
کے امین جنرل (ر) محمد حسین انصاری تحریک استحکام پاکستان کے بانی عظیم محب
وطن محترم محمود علی جیسی شخصیات ہیں ۔ جبکہ سماجی و سیاسی رہنماملک معراج
خالد بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے سیاست میں ہوشمندی اور بردباری کی روایت
ڈالی ۔ خدمات کے میدان حکیم محمد حسن قرشی اور ڈاکٹر محمد سلیم فاروقی جیسی
عظیم ہستیاں موجود ہیں ۔ جن کے نقش قدم پر چل کر ملک اور قوم کے لیے ترقی
کی نئی راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔
قومی ہیروز سے ایک اور خاص بات سامنے آئی کہ ان تمام قومی اکابرین میں سے
ایک بھی شخصیت ایسی نہیں جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی ہو۔ سب ہی
نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر نامساعد حالات میں انتھک محنت اور بے مثال
جدوجہد کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے اتنا کچھ کر دکھایا جن کو دیکھ کر سن
کر اور پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔آج پوری دنیا ہمارے ان ہیروز کو جانتی
ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک معاشی ٗ معاشرتی
ٗ صنعتی اور ایٹمی ملک بنا کر اقوام عالم میں ایک ممتاز مملکت کے طور پر
منوایا ۔
قابل قدر سامعین ۔ اسلم لودھی کی کتاب قومی ہیروز وقت کی اہم ضرورت ہے اس
کتاب کو ہمارے سکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں میں ہونا یقینی بنایا جائے
تاکہ قومی ہیروز کو پڑھ کر ہمارے طالب علموں کے دلوں میں ملک و قوم سے محبت
کا نہ ٹوٹنے والا رشتہ پیدا ہوجائے ۔قومی ہیروز کی خصوصیات آنکھوں کے ذریعہ
ان کے دل ودماغ میں رچ بس جائیں۔ میں قومی ہیروز کے مصنف محمد اسلم لودھی
کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے مولانا حالی کا شعر ان کی نظر کرتا ہوں ۔
زندہ ہے وہ ملک اور ملت
ہوں زندہ دل ایسے جس میں انسان
|