رزق کی ناشکری

تحریر:آسیہ پری وش
’’امی بہت بھوک لگی ہے۔ آج کیا پکا ہے‘‘؟ فاروق نے اسکول سے آکر سیدھا کچن میں ماں کے پاس جاکر بھوک کا شور مچایا۔’’آج بھنڈی پکائی ہے۔ تم یونیفارم بدل کے آؤ تو میں کھانا دیتی ہوں‘‘، امی نے آٹا گوندھتے ہوئے بیٹے کو جواب دیا۔ جس پہ بیٹے صاحبزادے کا منہ بن گیا۔ ’’بھنڈی! میں نے نہیں کھانی ،بھنڈی۔ مجھے نوڈلز بنا کے دیں‘‘۔’’کیا مطلب ہے فاروق؟تم نے بھنڈی بھی نہیں کھانی۔ کریلے تمہیں کڑوے لگتے ہیں، کدو اور توریاں تو تمہیں دیکھنا بھی پسند نہیں۔ آلو اور بینگن بھی تمہیں پسند نہیں۔ تم نے صرف نوڈلز، برگر اور ایسا ہی الم غلم کھانا ہوتا ہے‘‘،امی چڑگئیں‘‘۔ ’’تو امی میں کیا کروں۔ یہ چیزیں میرے حلق سے ہی نہیں اْترتیں تو کیسے کھاؤں‘‘؟

’’دیکھو بیٹا یہ سب سبزیاں بھی اﷲ نے ہمارے لیے ہی بنائی ہیں۔ آپ مزہ لے کر ان کو کھاؤ تو یہ خودبخود آپ کے حلق سے اْتر جائیں گی۔ آپ کو پتا ہے جس طرح سے آپ سے آپ کا کوئی دوست بے رخی برتتا ہے تو آپ بھی اس سے دوستی ختم کردیتے ہو ایسے ہی یہ رزق بھی ہمارے منہ موڑنے سے ہم سے ناراض ہوکر منہ موڑ لیتا ہے۔ ہم جن چیزوں کو کھانے سے انکار یا نخرہ دکھاتے ہیں یا پھر ناپسندگی سے تھوڑا سا کھا کر چھوڑ دیتے ہیں تو یہ چیزیں اپنی ناقدری پہ رو رو کے اﷲ سے شکایت کرتی ہیں تو ہماری ایسی ناشکری پہ اﷲ ہم سے یہ کھانے کی نعمتیں چھین لیتا ہے۔ پھر ہم روتے ہیں۔ سو بیٹا رزق کی ناشکری کرنا اچھی بات نہیں ہے‘‘۔ ماں کے اتنا اچھا سمجھانے پر بھی فاروق کے منہ کے بگڑے زاویے درست نہیں ہوئے۔

’’مجھے کچھ نہیں پتا۔ بس مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ مجھے جلدی سے نوڈلز بنا کے دیں‘‘،فاروق کے ضدی انداز پہ اس کی امی نے ہار مان لی۔ ’’ٹھیک ہے۔ آپ یونیفارم بدلو۔ میں آپ کے لیے اسپیگھٹی بنالیتی ہوں‘‘۔ وہ خوش ہوکر کمرے میں چلاگیا۔ شام کو حسب معمول جب وہ پارک میں اپنے دوست زوہیب سے ملا تو اس کو بھی ماں اور کھانے سے یہی شکایتیں تھیں۔ ’’سمجھ نہیں آتا کہ جو چیز ہمیں اچھی نہیں لگتی تو اسے زبردستی کھانا کیوں ضروری ہے‘‘؟، اس بات پہ ان دونوں کا ہی منہ بنا ہوا تھا۔

کچھ دنوں سے زوہیب شام کو کھیلنے پارک نہیں آرہا تھا۔ٍ فاروق اس کے بغیر اداس ہوگیا تھا۔ آج شام کو وہ زوہیب کی خیرخبر لینے اس کے گھر جانے کے ارادے سے گھر سے نکلا تھا۔ راستے میں ایک آدمی نے بہانے سے اس کی ناک پر رومال رکھ کر اسے بیہوش کردیا اور نگرانی کرتے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کے اسے گاڑی میں ڈال کے روانہ ہوگیا۔

فاروق کو جب ہوش آیا تو وہ ایک خالی بند کمرے میں زمین پہ لیٹا ہوا تھا۔ ہوش میں آتے ہی وہ رونے اور چیخنے لگا اور امی ابو کو مدد کے لیے پکارنے لگا لیکن کوئی بھی نہ اس کی مدد کو آیا نہ ہی کسی نے اس کے کمرے میں جھانکا۔ رونے اور چیخنے سے اسے بھوک بھی ستانے لگی۔ وہ بھوک کا بہت کچا تھا۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد اس کی بھوک سے بری حالت ہونے لگی تو اسے گھر کے پکے مزیدار کھانے یاد آنے لگے۔ ساتھ میں امی کی باتیں بھی کہ ’’اﷲ کی ہمارے لیے بنائی ان نعمتوں سے منہ موڑنے سے اﷲ اکثر ہم سے ناراض ہوکر یہ رزق چھین لیتا ہے‘‘۔ اسے اکیلے پن کے ساتھ ساتھ بھوک کی شدت اور اپنی بے بسی پہ بھی رونا آنے لگا۔ اسے یقین ہونے لگا کہ کھانے کے معاملے پہ اس کی کی گئی ناشکری پر اﷲ نے ناراض ہوکر اس سے اس کا رزق چھین لیا ہے۔ اب وہ ہمیشہ بھوکا رہے گا۔

’’یا اﷲ! مجھے معاف کردیں۔ میں اب کسی بھی چیز کو کھانے سے انکار نہیں کروں گا اور نہ ہی منہ بناؤں گا۔ مجھے ایک بار معاف کردیں‘‘۔ اﷲ سے معافی مانگتے مانگتے اسے نیند آگئی۔ صبح کو جاکر ایک آدمی نے کمرے میں آکر فاروق کی خیرخبر لی۔ وہ نیند میں بڑبڑا رہا تھا۔ اس آدمی کو اس پہ رحم آگیا اور اسے جھنجھوڑ کر اْٹھایا۔ ’’رات کی توریاں پڑی ہیں۔ وہ روٹی کے ساتھ کھاؤ گے‘‘؟’’ہاں ہاں کھاؤں گا‘‘۔بھوک سے بیتاب فاروق کی آنکھیں اپنی ناپسندیدہ ترین توریوں سے بھی چمک اْٹھیں۔ باسی ٹھنڈی توریوں کو بھی اس نے رغبت سے کھا کر دل سے اﷲ کا شکر ادا کیا۔

اﷲ سے سچے دل سے معافی مانگنے کا نتیجہ تھا کہ شام تک پولیس نے بچے اغوا کرنے والے اس گروہ کو گرفتار کرکے فاروق کو آزاد کرالیا تھا۔ وہ اس وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا اپنے لیے اسپیشلی بنائے گئے پاستا کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے لیے بنی دال کو بھی شوق سے کھاتے زوہیب سے ملنے کو بے چین تھا۔’’پلیز امی آج تو مجھے دلیہ کے بجائے یہ کریلے کھانے کو دیں‘‘۔ زوہیب نے کھانے کی ٹیبل پہ سب کے لیے پکے کریلوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا حالانکہ یہی کریلے اسے سخت ناپسند تھے۔ اب یہی کریلے کھانے کو اس کا دل اور معدہ مچل رہا تھا۔

’’نہیں بیٹا ابھی نہیں۔ بس تھوڑا صبر کرو۔ آپ ٹھیک ہوجاؤ گے تو آپ کی پسند کی سب چیزیں آپ کو بنا کے دوں گی‘‘۔زوہیب ٹائیفائیڈ ہونے کی وجہ سے پہلے اسپتال اور اب گھر تک ہی محدود ہوگیا تھا اس کی بیماری کے سبب دلیہ کے علاوہ کھانے کی سب چیزیں بند کردی گئی تھیں۔ دلیہ سے تو اس کی ویسے بھی جان جاتی تھی کجا کہ روز دو تین بار کھانا۔ لیکن ہائے رے یہ مجبوری جس کے سامنے اس کا رونا اور ہر ضد ناکام جارہی تھی۔ بخار کی حدت اور مستقل دلیہ کھانے سے دہائی دیتے معدے نے اس کا بہت بْرا حال کردیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی قسمت میں سے دلیہ کے علاوہ باقی سب کھانے کی چیزیں مٹادی گئی ہوں اور ایسا صرف اس کے رزق کی ناشکری کرنے سے ہوا تھا۔

اسے یقین آنے لگا تھا کہ واقعی رزق سے منہ موڑنے سے رزق ہم سے رْوٹھ بھی سکتا ہے۔ اب اسے کھانے میں نخرے دکھانے اور انکار کرنے پہ شرمندگی ہورہی تھی۔ جس پہ وہ اﷲ سے معافی مانگ کر اپنی صحت یابی کے لیے دعا مانگتے روتا رہتا تھا۔اب ان دونوں دوستوں کو ایک دوسرے سے ملنے کی بہت جلدی اور بے چینی تھی تاکہ رزق کی ناشکری پہ بھگتا تجربہ ایک دوسرے کو سنا کر ایک دوسرے کو ہی یقینی عمل کرنے والی نصیحت کرسکیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.