محبت کا عنصر ہر انسان میں پایا جاتا ہے کسی میں کم ہوتا
ہے کسی میں زیادہ اور پھر یہ محبت مختلف طرح کی ہوتی ہے کسی کو ہر چیز سے
زیادہ دولت عزیز ہوتی ہے کوئی عورت کو دنیا و مافیا سے پیارا سمجھتا ہے
کوئی جانور سے بہت پیار کرتاہے کسی کو مذہب سے بہت لگاؤ ہوتا ہے۔الغرض ہر
انسان میں محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔نجیب میں بھی یہ جذبہ موجود تھا مگر
اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھاکیونکہ سٹرابری اسے بہت قدآور نظرآتی تھی۔اس
جس عظیم کام کا اس نے بیڑا اٹھایا تھا اس سے یہ لگتاتھا کہ وہ ایسے جذبات
کو بچگانہ تصور کرتی ہو گی۔ اسی جذبے کے تحت نجیب اس کے ساتھ کھڑا تھا اور
اس کے لئے جینے مرنے کا عہد کر چکا تھا ۔ خواہ اس سے اظہار ہو یا نہ ہو۔
ادھر سٹرابری جب بھی نجیب سے ملتی وہ ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہو جایا
کرتی حالانکہ وہ اسے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ سٹرابری نقاب پہنے
رکھتی تھی ۔مگر پھر بھی غالباً دل کودل سے راہ والی بات تھی۔دونوں کا مشن
ایک تھا۔ لگن ایک جیسی تھا اور پیشہ بھی ایک تھا اب اگر وہ بھی ایک ہو جاتے
تو اس میں قیامت بھی نہ تھی ۔مگر دونوں طرف سے پہل کرنے کا معاملہ درپش تھا
۔دیکھیں کون کچانکلتا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتاہے۔اس وقت تو وہ اپنی
تنظیم سٹرابری کے پیچ و خم درست کرنے میں مصروف تھے۔
سٹرابری اپنے اخبار کی کاروباری رپورٹر تھی اور نجیب سوشل صفحات کا انچارج
تھا یوں وہ معاشرے۰پر معاشیات کے اثرات سے بخوبی واقف تھے۔ وہ اپنی تنظیم
کے تنظیم کے منشورکو کیسے عملی جامہ پہنا ئیں۔ یہ مسئلہ ان کے سامنے تھا
اور وہ اسی پر سوچ رہے تھے۔ سوچتے سوچتے انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ وہ
اپنے منشور کے تینوں نکات پر تین طرح سے عمل کریں گے ۔
وہ مسلمان ممالک کے ماہرین معاشیات اور خزانے کے وزراء سے ملیں گے۔ اسلامی
ترقیاتی بنک کے ساتھ مذاکرات کریں گے کہ وہ ان مسلمان ممالک کی معیشت کو
مغرب کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش کرے۔
اور پھر عملی طور پر وہ ایک ایسی سو سائٹی قائم کریں گے جس میں مکمل طور پر
ان کے منشور پر عمل ہو گا۔ اس کے لئے وہ سٹرابری سٹی بنائیں گے اور اس پر
شہر میں وہ اپنی تمام اصلاحات نافذ کریں گے اور اسے ایک ماڈل کے طور پر
دنیا کے سامنے لائیں گے تاکہ وہ بھی اس کے پیروی کرے اور حقیقی آزادی
خوشحالی اور خود مختاری حاصل کرے۔
عامل بابا جو ایک کارکن کے گھر میں قید تھا ہوش میں آگیا اور ادھر ادھر
دیکھنے لگا کہ وہ کہاں ہے اس کے زائچے میں تو یہ صدمہ نہیں تھا جو وہ اٹھا
رہا ہے بلکہ اسے تو آج کوئی خوشی کی خبر ملنا تھی۔ اس نے آواز دی کہ کو ئی
ہے جو میرے ہاتھ پاؤں کھولے یا پھر میں دوں آواز اپنے موکلوں کو ۔
وہ کارکن اندر آیا اورعامل بابا کو سمجھانے لگاکہ بابا جی تمہاری زندگی کو
خطرہ تھا اس لئے تمہیں یہاں رکھا گیا ہے۔ اگر تم اپنے ڈیرے پر ہوتے تو اب
تک تمہیں کوئی گولی مار دیتا یا اغواء کر لیتا۔
مگر تم کون ہو خدائی خدمت گار اور غیب کا علم جاننے والے۔میں غیب کا علم تو
نہیں جانتا مگر تمہیں معلوم ہو جائے گاکہ تمہارے وہاں سے آنے کی بعد
*-تمہارے ڈیرے پر کیسے کیسے حملے ہوئے۔
اسی دوران رئیس احمد ناصر کا فون آگیا کہ بابا سے کہو اگر وہ ہوش میں آگیا
ہے تو کہ تھوڑی دیر بعد اسے آزاد کر دیا جائے گا مگر ایک شرط پر کہ اسی وقت
اپنا ٹھکانہ اور اپنا نام بدل لے گا۔کارکن نے شرائط بابا کو پیش کر دیں۔
عامل با بانے جان جانے کے خوف سے فوراً تسلیم کرلیں۔ مگر یہ کام تمہیں میری
نگرانی میں کرنا ہو گا۔ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ تم میرے ساتھ چلے چلو۔عامل
بابا اتنا خوفزدہ کر دیا گیا تھاکہ وہ اپنا نام بھی بھولنے لگا تھا جب اس
کی جان بخشی کی گئی تو اس نے وہ تمام شرائط باآسانی قبول کرلیں ور اپنے نئے
ٹھکانے کی تلاش میں نکلا۔ اس نے عامل بابا سے اپنا نام کامل بابا کر لیا
اور جگہ بھی بدل ڈالی ۔ یوں یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
سپر مین کی جو ٹیم عام بابا کے ڈیرے پر پہنچی تھی اسے یہ اطلاع مل گئی کہ
اس طرح دو آدمی آئے اور ا کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس سے سپر مین کی ٹیم کا
یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ وہی عامل بابا رازی سے تعلق رکھتا ہے |