عیسائیت ،یہودیت اوران کے سرپرست یورپ، ان کے مبلغین کایہ
پرانا طریقہ رہاہے کہ روح کائنات حضور سرورعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ
وسلم کافکری اورعملی طورپر مقابلہ کرنے کے بجائے دوسرے کے پائوں کاٹ کر
اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں جوبجائے خود چھوٹی بات ہے ۔مغل
راج کے اختتام اورمتحدہ ہندوستان پر مکمل قبضہ پانے کے لئے برطانوی سامراج
کے فکری ہراول دستوں نے بھی یہی منطق اختیار کرنے کی کوشش کی ۔
حضور سرور کائنات ﷺ اوراسلام کے حوالہ سے ایسی باتیں کی جانے لگیں جن
کاپورے فسانہ میں ذکر تک موجود نہیں تھا ۔ ان کی ترؔغیب اوراتباع میں سوامی
دیانند سرسوتی اوران کے چیلوں نے بھی انگریز پادریوں اوربرطانوی حکمرانوںکی
بنائی ہوئی اسی شاہراہ کواختیار کرکے حضور ﷺ کی ذات کے بارے میں بے
سروپاباتیں کرکے مسلمانوں کی دل آزاری اوراپنے مذاہب کی تبلیغ کیلئے منفی
اندازِ فکر کواپنا کراپنے لئے راستہ صاف کرنے کی کوشش کی حالانکہ عظمت
کااعتراف کیا جائے اورپھر اپنی بہترین شے کو انسانی مارکیٹ میں پیش کیا
جائے ۔
اصل میں تخلیق کائنات میں سب سے بڑی تخلیق آپ ﷺہی کی ذات ہے ، آپ کاحسن
عمل سراپا خیر ہے ، آپ نے جامعہ معاشروں کوروبہ انقلاب کرکے رکھ دیا ،
بیشتر انقلاب اورسماجی تبدیلیاں آپ کے حسن کردار کے نتیجہ کی پیداوار ہیں
، دنیا میں پہلی بار ۳۶۰بتوں سے واقعی نجات نہ دلائی گئی ،توحید کے بارے
میں سائنسی نقطہ نظر پہلی بار سامنے آیا ، ذات پات ،نسلی تفاخر کے بتوں کو
بھی آپ ہی نے پاش پاش کیا ،غلامی کی کراہت کواجاگر کیا ۔بچیوں کو زمین میں
گاڑنے کی قبیح رسم کوختم کرکے عورت کو عظمت بخشی جس کی کہ وہ واقعی حقدار
ہے اورمستحق تھی ۔بیویوں کی تعداد میں قدغن عائد کی ۔انہیںبرابری کاحق تفو
یض کیا، معاشی مساوات برپا کی ، حریت فکر کاپرچم بلند کیا ، جارحانہ جنگی
فلسفہ میں تبدیلیاں کیں،جنگی قیدیوں کی عزت نفس بحال کی ،انسانی خون کی
ارزانی کوختم کیا ، نشوں کاخاتمہ کیا ، قوموں میں برابری اوربھائی چارے
کوروبہ عمل کیا ، غیر مذاہب کے پیروکاروں کی خدمت کی ،عزت بخشی ، ان کی
پھیلائی گندگی سے زمین مقدس کو خودبہ نفس نفیس صاف کیا ،عظیم ترین شخصیت ،آخر
ی پیغمبر،اسلامی ریاست کے بانی ،قائد، سربراہ ہونے کے باوجود خود کوکسی پر
ترجیح نہ دی ،تقویٰ اورخداخوفی کوترجیح وتفضیل کامنبع قرار دیا ، تاجر ،مبلغ
،قائد ،حاکم ،بھائی ،دوست ،ساتھی ، بیٹا ، باپ ،خاوند ،گویاتمام انسانی
رشتوں اورشعبوں میں راہنمایانہ کردار ادا کرکے شاہراہ زندگی پر درمیانی
اورمثبت انداز سے زندگی بسر کرنے کا عملا ً مظاہرہ کیا کہ تمام دنیا کو
راہنما میسر آسکے یتیموں ، بیوائوں ، بچوں ،بوڑھوں ، کی عزت نفس بحال کی ،بادی
النظر میں شاید یہ باتیں عام ہوں لیکن جب بھی دقت نظر سے افرادواقوام
کامطالعہ کیا جائے تویہ انتہائی مشکل اُمور ہیں ۔ جوکسی ایک ذات پرمجتمع
دکھائی دیئے، یہی عظمت وکردار تھا جس کی وجہ سے آپ عقیدت مندوں کی صحبت
کامرکز بن گئے ، اپنے عمل کی وجہ سے توآپ مشرکین مکہ کے بھی محبوب تھے آپ
پر پتھر بھی پھینکتے تھے اورامانتیں بھی آپ کے پاس محفوظ خیال کرتے تھے ،
حجراسودکواپنے مقام پررکھنے کے ایسے شدید اختلافی مسئلہ کے حل کیلئے بھی
آپ ہی کا حکم مانتے تھے ،یہی وہ عمل ہے کہ خدا ئے بلند وبرترنے بھی ایسے
ہی احکام صادر کئے کہ آپ کی آواز سے اونچی بات کرنا اسلام سے انحراف ہے،
آپ کے حکم کوٹالنا شرک ہے کفر ہے ،کیونکہ آپ کی مرضی توکسی بھی بات میں
کبھی بھی شامل نہیں رہی ہے ۔
اللہ تعالی کا اس قدر برگزیدہ اوراتنا بڑا فرمانبردار چشم فلک نے نہ پہلے
دیکھا نہ بعد میں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر تم نے حضورﷺ
کی پیروی کی توتم میرے محبوب بن جائو گے گویا ہروہ فرد محبوب خدابن گیا جس
نے آپ ﷺکے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ۔ اس سے بڑھ کر اعزاز ،عظمت
،اور بزرگی اورکسے کہتے ہیں لیکن نظام زر ،جاگیرداری ،سرمایہ داری ، طاغوتی
قوتیں ،لرزہ براندام ہوگئیں ۔ کوئی بہتر نظام پیش کرنے کے بجائے بے سروپا
باتوں کاسہارا لینے کی کوششیں کی گئیں ،انگریزی سامراج کے مشہور گماشتے
پادری سی جی فینڈر نے تجویز پیش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں سے روح محمد
نکالنے کے لئے حضور ﷺ کی کوئی ایسی سوانح عمری طبع کی جائے جس میں ایسی
باتیں آپ سے منسوب کی جائیں جس سے آپ کا کردار مسخ ہوسکے تاکہ مسلمانوں
کوگمراہ کیا جاسکے ۔یور پ کے ایک انگریز عالم سرولیم میور نے انگریزی پڑ ھے
لکھے مسلمانوں کوگمراہ کرنے کیلئے خود بھی یہی ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دیا ۔
مسلمان زیر ہوچکے تھے ،انگریز ایک بدمست ہاتھی کی طرح چنگھاڑ رہا تھا ،
غلامی کی زنجیریں پختہ سے پختہ کی جاچکی تھی ، مسلمانوں کی تذلیل کی نئی
راہیں وضع کی جارہی تھیں انگریزاہل قلم میں بھی کچھ منصف مزاج لوگ تھے ۔چنانچہ
ایڈورڈ گبن، فیفری ہگنز،تھامس کارلائل اورجاہن ڈیون پورٹ نے اس سلسلہ میں
پوری دیانتداری سے اپنے دنیا ئے وطن سے مختلف راہ اختیار کرکے حضور ﷺ کے
بارے میںمتوازن ترین راہ اپنا کرآپ سے پورا پورا انصاف کرنے کی کوشش کی جس
کیلئے مسلم ورلڈ کوبجاطورپرا ن کاشکر گزار ہوناچاہیے کہ مسلمانوں کے ادبار
کے زمانہ میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے انصاف کوترک کرنے کوشش نہ کی ۔
علامہ اقبال مرحوم اسلام کے جدید ترین شارح تھے ۔ روح عصر سے کماحقہ واقف
تھے ۔انہیں اسلام عہد جدیدمیں ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور صاف دکھائی دے
رہا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے ہندی مسلمانوں کیلئے وطن کی ضرورت کاشدت
سے اظہار کیا۔ چنانچہ انہوں نے ارمغان حجازمیں ابلیس کی پریشانی کوبھانپنے
کے بعدنشاندہی کی کہ ابلیسیت کو اشتراکیت سے خطرہ نہیں ہے مسلمانوں سے خطرہ
ہے چنانچہ آپ نے اپنی فکری قوتوں کوحکم دیا کہ اگر نظام زر ،سرمایہ داری،
جاگیرداری کے طاغوت کوزندہ رکھنا ہے توپھر مسلمانوں کے دلوں سے روح محمد ﷺکونکال
دیں تمام راستے کھل جائیں گے ،رشدی سے یورپ اوراس کے سرپرست اورشیطان کبیر
(امریکہ ) نے اسی مقصد کیلئے شیطانی کتاب لکھواکرجائزہ لینے کی کوشش کی کہ
روح محمد ﷺ سے سرشاری مسلمانوں میں کس مقدار میں موجود ہے۔ اور اس کے بعد
وقفے وقفے سے کبھی گستاخانہ خاکوں ،کبھی تو ہین آمیز فلموں اور آزادیٔ
اظہار رائے کی آڑمیںمختلف میڈیا استعمال کر کے روح محمد ﷺ سے مسلمانوں کو
بیزار کیا جائے ۔
ابھی میں اپنا یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ برادرم ڈاکٹر محمد اظہر وحید کا
کالم روزنامہ نئی بات لاہور میں شائع ہوا جس میں انہوں نے میرے دل کی بات
کہہ دی اور روح محمد ﷺ کا اعجاز واضح کر دیا ۔اب میں اپنا مضمون انہی کے
کالم سے آگے بڑھاتا ہوں ۔۔لکھتے ہیں۔
برسوں نہیں عشروں کی بات ہےٗ ایک معروف قومی روزنامے میں فضل حق مرحوم
"گاہے گاہے بازخواں" کے عنوان سے شگفتہ شگفتہ کالم لکھا کرتے تھے۔ وہ اپنی
مخصوص شگفتگی اور برجستگی میں باتوں ہی باتوں میں بہت کام کی بات بتا دیا
کرتے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے، ان کا ایک کالم ابھی تک حافظے کی لوح پر مکمل
جزئیات کے ساتھ محفوظ ہے۔ کالم نگار موصوف اپنے عالمِ شباب میں یورپ کی سیر
کو نکلے ، اس زمانے میں پاکستانیوں کو یورپ میں داخلے کیلئے ائیرپورٹ ہی پر
ویزا مل جایا کرتا تھا۔ اسپین کے سفر نامے کا ایک واقعہ یوں رقم کرتے ہیں
کہ وہاں قیام کیلیے سستی جگہوں میں ایک جگہ وائی ایم سی اے ہال ہے۔
آمدم برسرِ موضوعٗ فضل حق مرحوم بتاتے ہیں کہ اسپین میں وائی ایم سی اے
ہال باہر سے آنے والے طالبعلم سیاحوں کو مفت رہائش مہیا کیا کرتے تھے۔
کہتے ہیںٗ وہاں میری دوستی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے ہوگئی، وہ
تاریخ کا پروفیسر تھا، اس نے ساری عمر تاریخ پڑھائی تھی، اور ریٹائرمنٹ کے
بعد اب وہ دنیا کا جغرافیہ کھنگالنے کیلئے دیس بدیس گھوم رہا تھا۔ بقول فضل
حق مرحوم ٗ ہم سارا دن اسپین کے تاریخی مقامات کی سیر کرتے، پروفیسر مجھے
ان کی تاریخی اہمیت بڑی فراخدلی سے بتاتا، شام کو تھکے ماندے واپس لوٹتے،
مختلف موضوعات پر اس کی دانشورانہ گفتگو سے میں خوب مستفید ہوتا۔ ایک بار
میں نے پروفیسر سے پوچھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتیٗ یہاں مسلمانوں نے سات سو
سال حکومت کی ہے لیکن ان کے آثار ماسوائے چند ایک محلات اور ایک مسجد کے
کہیں نظر ہی نہیں آتے، یوں لگتا ہے جیسے مسلمانوں کو اچانک زمین نگل گئی
یا آسمان کھا گیا، گویا مسلمان اس خطے میں کبھی آباد ہی نہیں تھے۔
پروفیسر بولاٗ یہ سوال صرف تمہارے ذہن میں نہیں آیا بلکہ یہ سوال اس دور
میں عیسائی فاتحین کے ذہن میں بھی پیدا ہوا تھا کہ مسلمان یہاں ہرچہ
باداباد کہتے ہوئے آباد ہوتے ہیں اور پھر اس قدر آسانی سے پسپا بھی ہو
گئے ہیں۔۔۔۔۔ آخر اس کی کیا وجوہات تھیں۔ چنانچہ اس دور میں فرڈیننڈ نے
دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دی کہ وجہ کا پتہ لگایا جائے۔ گئے وقتوں میں
بادشاہ قسم کے لوگ دانشوروں کی مشاورت کو اُمورِ جہاں بانی کیلئے ضروری
تصور کرتے تھے۔ فرڈیننڈ کی بنائی ہوئی اس کمیٹی نے کئی برس کی تحقیق کے بعد
ایک رپورٹ پیش کر دی، اسے پڑھنے کے بعد بادشاہ نے وہ دستاویز جلانے کا حکم
دیا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس تحقیق کی خبر مسلمانوں تک پہنچے۔ فضل حق کہتے
ہیںٗ میں نے پوچھا کہ وہ کیا راز تھا، جو جلا دیا گیا؟ عشروں قبل پڑھے گئے
کالم کا وہ ایک جملہ مجھے ابھی تک لفظ بہ لفظ یاد ہے۔ پروفیسر نے کہاٗ میرے
بچے ! تاریخ بڑی ظالم چیز ہے، تاریخ کی نظروں سے بچانے کیلئے جس تحریر کو
جلایا جاتا ہےٗ تاریخ اس کا بھی ریکارڈ رکھتی ہے کہ کیا جلایا گیا تھا ۔ اس
رپورٹ میں درج تھا کہ مسلمانوں کی قوت کا سبب وہ محبت ہے جو وہ اپنے رسولﷺ
سے رکھتے ہیں۔ جب تک ان کے دلوں میں یہ محبت موجود رہتی ہےٗ وہ دنیا کی
ناقابلِ شکست قوت ہوتے ہیں، جب ان کے ہاں اس محبت میں کمی واقع ہوجاتی ہےٗ
وہ بھیڑ بکریوں کی طرح منتشر ہو جاتے اور اپنے حریفوں کیلئے تر نوالہ ثابت
ہوتے ہیں۔
دراصل ہماری طاقت اور کمزوری دونوں کے درست ناقد اور معترف ہمارے حریف ہوتے
ہیں۔ ہم خود کو اپنے دشمن کی نظر سے دیکھیں تو ہم پر اپنی خامیاں اور
خوبیاں دونوں آشکار ہو جاتی ہیں۔ آج بھی ایسا ہوتا ہے، گاہے گاہےٗ اہلِ
یورپ مسلمانوں میں زندگی کی رمق دیکھنے کیلئے ایک لٹمس ٹیسٹ کرتے ہیں، وہ
دیکھتے ہیں کہ اہلِ اسلام میں کس خطے کے مسلمانوں میں مزاحمت پیدا ہوئی ہے،
جہاں وہ مزاحمت دیکھتے ہیں’ وہاں حملے کو مؤخر کر دیتے ہیں۔ جہاں احتجاج
کی کوئی لہر نہیں دیکھتےٗ سمجھ لیتے ہیں کہ مسلم جغرافیے کی اس پلیٹ پر
آسانی سے ہاتھ صاف کیا جا سکتا ہے۔ اہل اندلس اس ٹیسٹ میں فیل ہو گئے تھے،
تاریخ بتاتی ہے کہ عیسائی مبلغین اس زمانے میں توہین رسالتؐ کے کلمات مشتہر
کیا کرتے تھے، ابتدا میں مسلم قاضی انہیں سزا دیا کرتے تھے، وہ ردّعمل میں
مزید "خود کش مبلغ" تیار کر لیتے تھے، کچھ عرصے بعد سلطان اور قاضی نے
فیصلہ کیا کہ انہیں سزا نہ دی جائے، بس انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
اس کے بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ اہل اندلس کو قدرتِ کاملہ نے بھی اپنے حال
پر چھوڑ دیا۔
راز یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ہا لہء رحمت سے نکل جائےٗ وہ اپنے اعمال
اوراعمال کی عاقبت کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ بقول حضرت واصف علی واصفؒ رحمتِ
حق کی تعریف ہی یہ ہے کہ رحمت ہمیں ہمارے اعمال کے نتیجے سے بچاتی ہے"۔
رحمتِ حق تعالیٰ کی مجسّم صورت رحمت اللعالمینﷺ ہیں.... جب تک انؐ کے
دامانِ رحمت سے وابستگی رہے گیٗ ہم اپنے اعمال کی عاقبت اور عقوبت سے محفوظ
رہیں گے، جس دم دامانِ شفاعت سے بے تعلقی کا اظہار شروع ہوگا، پکڑ لیے
جائیں گے۔ وابستگی کا اظہار سب سے پہلے جذبات کی صورت میں ہوتا ہے، پھر
اعمال کی صورت میں۔ وابستگی کا اصل امتحان جذبات کا میدان ہے، اس میدان میں
اگر مصلحت آڑے آجاتی ہے تو سمجھ لیجیےٗ ہم عمل سے نکل کر فلسفے کے چیستاں
میں داخل ہو گئے ہیں۔ جذبہ.... قوّتِ عمل ہے۔ قوّت نکال دی جائے تو عمل چہ
معنی دارد! |