عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ
لأَحَدٍ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَىْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ،
قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ
صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ
حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم
کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں
گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں
وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے
(مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
(صحیح بخاری، رقم: 2449)
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:
يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ﴿٦﴾
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ
مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾
ترجمہ: اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے
اعمال دکھا دیئے جائیں ﴿٦﴾ پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے
گا ﴿٧﴾ اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا ﴿٨﴾
(سورۃ الزلزلة 99 آیت: 6۔8)
اللہ تعالی نے دوسری جگہ قرآن میں فرمایا:
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا
عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا
بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ
بِالْعِبَادِ
جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو
موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی
دوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے
بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے
(سورة آل عمران 3 آیت نمبر: 30)
اللہ ہمیں ہر قسم کے چھوٹے بڑے ظلم سے بچائے، یاد رہے کہ ظلم خالی یہ نہیں
ہے کہ عوام کا پیسہ کھا لیا یا کسی کی جائداد پر قبضہ کر لیا، بلکہ ظلم تو
یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے دین اور اس کے بندوں کا حق کسی بھی طور پر مار
لینا، اب اس کی کوئ بھی چھوٹی بڑی کیفیت ہو سکتی ہے.
مثال کے طور پر ایک نان بائ کے پاس پانچ بندے کھڑے تھے جو آپ سے پہلے روٹی
لینے آئے مگر آپ نے اپنا دستر خوان ان سے قبل بچھا لیا اور آپ کو ان سے قبل
روٹی دی گئ تو درحقیقت یہ ان پر ظلم تھا جس کی باز پرس آخرت میں ہوسکتی ہے.
اسی طریقے سے ایک دودھ والے کے پاس چار بندھے دودھ لینے کے لئے آپ سے پہلے
آئے مگر آپ نے انکو نظر انداز کر کے اپنا ڈول آگے کر دیا اور دودھ والے نے
آپ کو پہلے ڈال دیا، درحقیقت یہ ان کے حق کا استحصال اور ظلم تھا جس کے
بارے میں آخرت میں پوچھا جا سکتا ہے. اسی طرح بغیر شرعی ثبوت کے لوگوں کی،
حکام کی، خواص کی غیبتیں کرنا اور پھر اس کو پھیلانا بھی ظلم ہے اور فیس
بوک تو اسکا گھڑ ہے۔ اللہ ہمیں ایسے اعمال سے بچاۓ، اللھم آمین
گویا یاد رہے کہ ظلم صرف حکام کا نہیں ہوتا، بلکہ آجکل تو عوام کا بھی ایک
دوسرے پر ظلم بہت زیادہ ہوتا ہے. اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے ظلم
سے اپنی پناہ میں رکھے اور اگر ہم سے کوئ ظلم ہو جائے تو ہم فورا ان سے
معافی مانگ لیں، اللھم آمین.
میری رائے میں ہمیں ہر روز ان لوگوں کو معاف کرکے سونا چاہئے جنہوں نے ہم
پر کسی بھی قسم کا ظلم کیا کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ
فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
ترجمہ: اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے، اور جو معاف کر دے اور اصلاح
کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالیٰ ﻇالموں سے محبت
نہیں کرتا
(سورۃ الشورى 42 آیت: 40)
اور دوسری جگہ فرمایا:
ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ
لَيَنصُرَنَّهُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
ترجمہ: بات یہی ہے، اور جس نے بدلہ لیا اسی کے برابر جو اس کے ساتھ کیا گیا
تھا پھر اگر اس سے زیادتی کی جائے تو یقیناً اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد
فرمائے گا۔ بیشک اللہ درگزر کرنے واﻻ بخشنے واﻻ ہے
(سورة الحج سورۃ 22 آیت: 60)
اللہ ہمیں اخلاص سے (اللہ کی رضا کے لیے ریا کاری سے بچتے ہوۓ) دین حق کو
سیکھنے، عمل کرنے اور فی سبیل اللہ پھیلانے کی توفیق دے، اللھم آمین
|