اے نوجواں کھول آنکھیں

خولہ رخسار مجید

کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ!
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ!
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار
جواب خضر راہ میں سے چند اشعار کی طرف اشارہ ہے آئیے قارئین دیکھتے ہیں کہ اقبال ان اشعار کے زریعے نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اس نظم میں اقبالؒ نے خضر کی ہی زباں سے مسلم قوم کو مخاطب کیا ہے اقبال نے اس نظم میں ملت اسلامیہ کو خضر کی زبان سے پیغام پہنچانے کی بہت زبردست کوشش کی ہے قارئین یہاں ایک بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ کچھ لوگ جو لبرلزم کا شکار ہے وہ اقبال کی شاعری کو کچھ اور انداز میں پیش کرتے ہیں بلکہ اقبالؒ کو بھی ایک روشن خیال اور آزاد انگریز سے متاثر انسان کے روپ میں پیش کرتے ہے لیکن قارئین اگر ہم اقبالؒ کی نجی زندگی سےہٹ کر ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو کس انداز میں اپنا پیغام دے رہےہیں نوجواں ملت کو وہ راز بتاتے ہیں جن کو اپنا کر وہ دنیا میں اپنا نام اپنے دین اسلام کا نام روشن کر سکتے ہیں اقبالؒ کی شاعری مکمل اسلام کے قوانین کے مطابق ہے اقبالؒ کی شاعری کو پڑھ کر لگتا ہے جیسے قرآن پاک کی مکمل تفسیر بیان کی گئی ہے شاعر مشرق اقبال کا اللہ کے ہاں مقام ومرتبہ اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے اپنے بیٹے جسٹس جاوید اقبال نے ایک کتاب جس کا نام ہے ''زندہ رود'' اس میں انہوں نے ایک شخص کا خواب تحریر کیا ہے جو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کشمیر میں ایک شخص نے خواب دیکھا کہ اللہ کے نبیﷺ خواب میں کسی کا جنازہ پڑھانے لگتے ہیں وہاں صفیں مکمل بن جاتی ہیں جنازے میں انبیاء، علماء، اولیاء، فقراء شامل ہوتے ہیں آقاﷺ جنازہ نہیں پڑھاتے ہیں پوچھتے ہیں اقبال آیا ؟،اقبال آیا؟ سب حیران ہوتے ہیں کہ وہ کون ہے جب اقبال آتے ہیں تو اللہ کے نبیﷺ جنازہ پڑھاتے ہیں وہ شخص پنجاب آتا ہے وہاں آکر کسی اپنے عزیز سے ذکر کرتا ہے تو وہ اس کو بتاتا ہے کہ لاہور میں بھی ایک اقبال ہے تم اپنے خواب کی تصدیق کرنا چاہتے ہو تو ان کو دیکھ لو وہ شخص لاہور آتا ہے جب اپنے سامنے حضرت اقبالؒ کو دیکھتا ہے تو بے اختیار رونا شروع کر دیتا ہے اقبال پوچھتے ہیں کون ہیں آپ کیوں رو رہے ہیں تو وہ اپنا خواب بیان کرتا ہے قارئین یہاں اس شخص کے خواب کا ذکر کرنے کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ کچھ لوگ اقبالؒ کے ظاہر پہ جاتے ہے اور باتیں بناتے ہیں ان لوگوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اقبالؒ کی اللہ اور آقاﷺ کی نظر میں کیا عزت اور مقام ہے اس خواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے
جی قارئین میں اپنے موضوع پہ آتی ہوں بات زیادہ دور نہ چلی جائے
شاعری اقبال کی ہی ہے لیکن امت مسلمہ سے مخاطب حضرت خضر ہے

حضرت خضر ان اشعار کے زریعے ملت اسلامیہ کو پیغام دیتے ہے اور ساتھ ہی روشن مستقبل کی خوشخبری بھی سناتے ہے حضرت اقبالؒ کا یہ ایک منفرد انداز ہے کہ وہ اپنے کلام کا خاتمہ مایوسانہ انداز میں نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کے انداز میں کرتے ہیں چنانچہ یہاں بھی وہ حضرت خضر کی زبانی کہتے ہیں۔

کہ مسلمانوں پر بہت سی مصیبتیں آچکی ہیں انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں فریادکی ہے ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان مصیبتوں،پریشانیوں نے مسلمانوں کو بیدار ہی کیا ہے اقبال ان اشعار میں یہ بتاتے ہیں کہ اب اللہ کے سامنے فریاد تو ہم کر چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فریاد کا اس التجا کا نتیجہ کیا آتا ہے اس کا اثر کیا ہوتا ہے۔

اقبال یہاں بہت ہی خوبصورت بات کی طرف اشارہ کرتے ہے ان لوگوں کے لیے یہ خصوصی پیغام ہے جو مغربی رنگ وبو سے متاثر ہو کر اپنی اسلامی اقدار کو بھولے ہوئے ہیں۔

اقبالؒ کہتے ہے اے نوجواں تم نے اب تک یورپ کی شان وشوکت اور ترقی کا دور دیکھا ہے لیکن ابھی یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ یہی ترقی اور مادہ پرستی ان کے حق میں وبال جان بننے والی ہے یہاں دریا سے مراد مغرب کی قومیں اور زنجیر سے مراد تباہ کرنے والی وہ قوتیں ہیں جو جلد ہی یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اقبالؒ کی یہ پیشین گوئی دوسری جنگ عظیم میں سچ ثابت ہوئی کہ اس میں یورپی تہزیب تقریباً مردہ ہو گئی تھی اور اب تیسری جنگ کے برپا ہونے سے خیال کہ اس تہزیب کا بچا کھچا حصہ بھی ختم ہو جائے گا ان شاءاللہ۔
اسلام نے آج سے پندرہ سو سال پہلے سرزمین حجاز میں عام لوگوں کو جو آزادی اور بھائی چارے کی تعلیم دی ملوکیت اور سرمایہ داری کے باعث اس تعلیم کو فروغ حاصل نہ ہوا تھا۔اب اسلام کی بدولت وہ نعمت سے دوبارہ مالامال ہوں گے اسلام کی بدولت لوگ ان پاکیزہ اصولوں کی پیروی کررہے ہیں یہاں ایک شعر میں بہت اچھے انداز میں بتایا گیا ہے

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

قارئین امت مسلمہ کے نوجوان سے مایوس نہیں اقبال ہے وہ پر امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہر طرف اسلامی تعلیمات کا بول بالا ہو گا

جس طرح سمندر میں (آگ کا کیڑا)جل کر راکھ ہوتا ہے اور پھر اسی راکھ سے اسے نیا وجود حاصل ہوتا ہے اسی طرح سرمایا داری اور شہنشاہیت جیسے پرانے نظام اپنی موت آپ مر جائیں گے تو پھر ان سے نئی دنیا پیدا ہو گی ان کی خاک سے پیدا ہونے والا نیا نظام اسلامی نظام کی شکل میں وجود میں آئے گا۔

اقبال امت مسلمہ کے نوجواں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اگر تم آنے والے دور کی تصویر دیکھنا چاہو تو میرے کلام میں نظر آسکتی ہےیہاں وہ قوم سے کہہ رہے کہ اس مستقبل کے انقلاب کو دیکھنے کے لیے تمہاری آنکھوں کا بیدار ہونا ضروری ہے اقبالؒ کہتے ہیں کہ اگر تم کھلی آنکھوں سے میرے کلام کا جائزہ لینے کے قابل ہوتو میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ تقدیر کی طرف سےآنےوالے فتنے کو تدبیر کی کوششوں سے مٹانا مشکل ہے۔وہ فتنہ لازماً آکررہے گا اس کے لئے کوئی روک تھام کارگر ثابت نہیں ہوسکتی اس فتنے سے غالباً اقبالؒ نے تیسری جنگ عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے اقبال کے خیال میں یہ جنگ اس عہد کے لیے ناگزیرہے۔آگے اقبال کہتے ہے کہ اگر توں مسلمان ہے تو تجھے مایوس نہیں ہونا چاہیۓ کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔وہ امت مسلمہ کو امید دے رہے ہیں کہ تجھے اپنا سینہ آرزؤں سے آباد رکھنا چاہئیے اور اس بات کا یقین کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔اگر مسلمانوں کے اعمال صالح ہوں تو انہیں ضرور پر ضرور خلافت کا منصب عطا کیا جائے گا۔
بقول اقبال
سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

 

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 106445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.