اقبال کا شاہین اور مقامی جانور

آ ج 9 نومبر ہے اور یوم اقبال ہے اس دن کو ہماری تاریخ میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ یہ دن شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے ،آج اسی حوالے سے بات ہو گی اقبال کی ذات اور شخصیت پہ روشنی ڈالنا مجھ جیسے کم علم شخص کے بس کی بات نہیں کیوں جس شخص کو سلیبس میں باقاعدہ پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہواور لوگ نہ صر ف اس کی تعلیمات سے نہ صرف اپنا مستقبل اور زندگی روشن و منور کر رہے ہوں بلکہ اس شخص کی ذات پر باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ملتی ہو اس کی شخصیت کا چند لفظوں یا چند منٹو ں میں احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ،بہت سے اہل علم حضرات یہاں ایسے ہیں جو مجھ سے بہتر انداز میں اقبال کی شخصیت پر روشنی ڈال سکتے ہیں مگر میں اپنی استعداد کے مطابق کوشش کروں گا کہ اپنی معروضات پیش کروں جہاں تک اقبال کو میں نے پڑھا اور جانا ہے تو اقبال ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جو شاعر بھی تھے فلسفی بھی تھے عالم بھی تھے مکمل مسلمان اور سب سے بڑھ کر سچے عاشق رسول ﷺ تھے،اقبال نے ہمیں خودی غیرت اور حمیت کا درس دیا ہے اور اقبال کی شاعری میں ہر ہر شخص چاہے اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو کے لیے مکمل راہنائی موجود ہے کیوں کہ اقبال خود قرآن سے راہنمائی لیتے تھے،اقبال نے قوم میں نوجوان اور پرندوں میں شاہین کو اپنی شاعری کا اہم جزو بنایا ہے جس کی سب سے اہم وجہ کہ شاہین شاید وہ واحد پرندہ ہے جو اپنا شکار خود کرتا ہے مرا ہوا جانور کیڑے مکوڑے یا مردہ پرندوں کا گوشت نہیں کھاتا،شاید تبھی اقبال نے خودی کے فلسفے کو یوں بیان کیا کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا

اس شعر میں ہر اس شخص کے لیے بڑا واضح پیغام موجود ہے جو خوددار نہیں ، مانگنے تانگنے کی نفی کی ہے اقبال نے اس شعر میں ،میرا تعلق جس قبیلے سے ہے اسے قلم قبیلہ یا اہل صحافت کہتے ہیں ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ہم ہمیشہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں کیوں کہ جو بھی صحافی غیر جانبدار ہو گا حکمرانوں کی سنگینوں کی نوک پر ہوگا موجودہ دور کے ہم شاید وہ بدقسمت لوگ ہیں جو صرف اپوزیشن کو اچھے لگتے ہیں آج کے حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو ہمارے واری صدقے جاتے تھے مگر جب حکمران بن گئے تو اسی طرح تبرے بھیج رہے ہیں جیسے کل ن لیگ والے ہم پر بھیجتے تھے یقین کریں ہم تب بھی یہی کچھ تھے جو آج ہیں صرف وقت اور آپ کی سوچ بدل گئی اہل اقتدار کو سچ اچھا نہیں لگتا اہل اقتدار کیاآج کے دور میں کسی بھی شخص کو سچ میٹھا لگتا ہی نہیں ،تلہ گنگ کے ہمارے ایک بزرگ سیاستدان نے پانچ سال ناراض رہنے کے بعد چند دن قبل فون کیا اور کہا کہ ملک صاحب اب آپ راہ راست پر آگئے ہیں وجہ کیا ہے کہ اب تنقید کا رخ حکومت کی طرف مڑ گیا یہ صاحب ن لیگ پر شدید تنقید کی وجہ سے ناراض ہو گئے تھے اور پورے پانچ سال ناراض رہے آج جب حکومت پی ٹی آئی کی آئی اور ہم بدستور حکومت پر تنقید کر رہے ہیں تو انہیں اپنے اپنے لگنا شروع ہو گئے ہیں ،میری اپنے قبیلے سے بھی درخواست ہے کہ فکر اقبال یہی ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں حق اور سچ کا ساتھ نہ چھوڑیں ،لوگ اپنی مشکلات میں ہماری طرف دیکھتے ہیں ہم حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملا کر بہت سے مالی فوائد تو حاصل کر سکتے ہیں مگر عزت اور لوگوں کے دل میں قدر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی ،ہمیں سچی بات کہنی کرنی اور لکھنی چاہیے ،سچ کہیں گے تو ہم تنگ دست ہو ں گے اگر تنگ دستی سے ڈر لگتا ہے تو پھر ہمیں یہ پیشہ ہی چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ بات اگر فکر اقبال کی ہو گی تو اقبال نے کہا تھا کہ
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پید اکر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

عزت و ناموس غربت میں ہے فقر میں ہے یہ انبیاء کی وراثت ہے،اقبال نے جب یہ علاقہ برصغیر تھا انڈیا پاکستان ایک ہی ملک تھا یہاں کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک اور ریاست کا خواب دیکھا اور جب یہ نظریہ انہوں نے اس وقت کے مسلمانوں کے سامنے رکھا تو ان لوگوں نے وسائل کی عدم دستیابی اور تہی دست ہونے کے باوجود اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کا عزم مصمم کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کرہ ارض پر دوسری اسلامی نظریاتی انسانی ریاست وجود میں آئی ذرا سوچیے آج کے حالات ہوتے تو کیا ہم مسلمان اس قابل ہیں کہ اپنے لیے انڈیا اور برطانیہ جیسی مملکتوں سے ٹکر لے کر اپنے لیے الگ ملک بنا سکتے تھے شاید جواب نفی میں ہو گا آج اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ان بزرگوں کی جد و جہد کے بعد ایک الگ وطن ہمارے پاس موجود ہے مگر ہم اس کے ساتھ کیا کر رہے ہیں جس نوجوان کو اقبال نے کہا تھا
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

وہ چائینہ کے موٹر سائکل لے کر سائلنسر نکال کر ون ویلنگ میں مصوروف ہیں تاجر بے ایمان ،عمال رشوت خور ،حکمران ظالم اور عوام کرپٹ کیا یہ وہ ملک ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا ،اقبا ل نے تو مسلمان کی تعریف یوں بیان کی تھی کہ
قاری و غفاری و قدوسی جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

آج ذرا جھانکیے اپنے اپنے گریبان میں کیا کوئی ایک بھی وصف ہے ان میں سے ہم میں ،ہر شخص کی اپنی الگ ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد،اپنی اپنی فقہ اپنا اپنا مذہب کوئی کسی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں یہ کافر وہ کافر یہ مسلمان نہیں اس کا کوئی دین نہیں کیا انہی کے لیے اور اسی وقت کے لیے نہیں کہا تھا اقبال نے کہ
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کیا مسلمان بھی ہو

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں ہم نے محرم رمضان اور ربیع الاول کو بھی عبادات کی بجائے رسماً منانا شرو ع کر دیا اسی طرح ہم اقبال کا فلسفہ بھول کر دن منانے تک محدود ہو گئے ہم آج کے دن اقبال کو یاد کریں گے تقریریں کریں گے بیانات دیں گے اور آج کا دن گذرنے کے ساتھ ہی ہم اقبال کو بھی بھول جائیں گے اور اس کے فلسفہ خودی کو بھی،اقبال نے ہمیں اپنی بات کہنے اور سلیقے سے کرنے کا درس دیا جرا ء ت ہمت اور عزم اقبال کی شاعری کا خاصہ ہے ،اقبا ل نے مشکل اور دگرگوں حالات میں باہر نکل کر رسم شبیرے ادا کرنے کی ترغیب دی ہے درباروں اور خانقاہوں میں بیٹھنے والوں کو اقبال یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے اندوہ و دلگیری

اقبال نے عالموں سے کہا کہ فقط واعظ پہ واعظ پر زور نہ دیں عالم وہ ہے جو باعمل بھی ہو جو دلیر ہو بہادر ہو وہی اپنی بات بہتر انداز سے سمجھا سکتا ہے اور اسی کی بات کا وزن ہوتا ہے اقبال نے کہا کہ
الفاط ومعنی میں تفاوت نہیں مگر
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
ہے دونوں کی ایک ہی جہاں میں پرواز
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

آج ہم اقبال جیسے عزم نو کے شاعر کو بھول چکے ہیں ہم اقبال کو بس نام کی حد تک جانتے ہیں ایک دن تقریب کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض اور اقبال کا قرض ادا ہو گیا ،آج نئے دور کے کچھ لوگ کہتے ہیں اقبال غالب سے بڑاشاعر نہیں اقبال نقل کرتا تھ امیں سمجھتا ہوں کہ یہ پرلے درجے کی بد دیانتی ہے اگر اسے کسی حد تک درست مان بھی لیا جائے تو بھی اقبال کا احسان ہے کہ اس نے مصر روم ،ترقی یونان اور یورپ کا سارا ادب پڑھ کر نہایت ہی سلیس زبان اور احسن انداز میں ہم تک پہنچایا اور رہی غالب کی بات تو ہمیں کسی کا تقابل یا موازنہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں جو جس کو اچھا سمجھتا ہے اسے پڑھے کسی پر کوئی پابندی نہیں ،ہر شخص کی اپنی سوچ اپنی فکر ہے مگر جو انسپائریشن اور سکون اقبال کو پڑھ کر حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور شاعرکی شاعری میں ذرا کم ہی پایا جاتا ہے،اقبال کا ایک ایک شعر سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے اگر اس پر غور کیا جائے تو ورنہ تو سید ضمیر جعفری کے بقول میں کہ
میں بتاتا ہوں تنزلی مغرب کے اسباب
ہو سکے تو ان میں کچھ مسلمانوں کے گر پیدا کرو
اور اقبال کا شاہیں تو کب کا اڑ چکا
بہتر ہے تم اپنے لیے کوئی مقامی جانور پیدا کرو

(نوٹ،،آج کا کالم فکر اقبال کے حوالے سے تحصیل پریس کلب کلر کہا اور ونہار میڈیا گروپ کے زیر اہتمام کلر کہار میں اقبال ڈے پر فکر اقبال کے حوالے سے کئی گئی تقریر ہے)