ایک طرف تبدیلی کے نام پربرسراقتدارآنے والی پی ٹی آئی
حکومت اندرون وبیرون سے غیرمعمولی دباؤکی زدمیں ہے اوراس پرمستزادآسیہ مسیح
کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملک بھرمیں آگ لگادی ہے۔اس ماحول میں تبدیلی کے
خوابوں میں بہہ جانے والے عوام بھی اس حکومت کے آنے کے بعدبظاہرابھی تک
شدیددباؤ،مشکلات اور مسائل سے دوچارہیں۔اگراس پس منظر میں دیکھاجائے توفوری
طورپرکسی حقیقی اورعملی تبدیلی کی امیدبرآتی نظر آرہی ہے اورنہ ہی عوامی
مشکلات میں مبتلاعوام کیلئے کوئی اچھی خبرملتی نطرآتی ہے تبدیلی کے دوش
پرسوارہوکرآنے والی حکومت نے جب سے ''ٹیک آف''کیاہے ،عام آدمی کی زندگی میں
کثیرالجہت مشکلات کی زدمیں آچکی ہے ۔مہنگائی کاپہیہ پہلے سے زیادہ طوفانی
اندازمیں گھومنے لگاہے۔روپے کی قیمت عام آدمی کی حالت کی طرح آئے روزپتلی
ہوتی جارہی ہے۔آخری اطلاعات تک ایک ڈالر تقریباً ایک سوچونتیس کوچھوچکا ہے
اور ایک ہی لمحے میں ملکی قرضوں میں نوسوبیس ارب روپے کااضافہ
ہوگیا۔پانی،بجلی ،گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ عام آدمی پر کوڑے
کی طرح برسایاجارہاہے۔گویا حکومت کوتبدیلی کے نام پرصرف عام آدمی کی جیب سے
روپیہ بٹورناہے۔اس کی زندگی کودگرگوں کرناہے ، عام آدمی سے انتقام لیناہے
کہ اس نے تبدیلی کے نام پرووٹ کیوں دیا؟
مرے کومارے شاہ مدارکے مصداق اب تبدیلی کے نعروں اوروعدوں والی حکومت
اورحکمران ایلیٹ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے بھی رجوع کرچکی ہے۔بتایاجارہاہے
کہ ایک مرتبہ پھراپنی اندرونی مالیاتی خودمختاری نہیں بیرونی مالیاتی
خودمختاری،وقاراورعزت کی دعویدارحکومت اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی ٹیم
کا7نومبرکواسلام آبادمیں استقبال کرے گی لیکن اس سے قبل عمران خان کے دورۂ
چین کے دوران بھی آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدیداروںسے ملاقات میں بات اشاروں
کنایوں سے باہرنکل کرعہدووپیمان اختیارکرچکی ہے گویامہنگائی سے مارے عوام
کے نیم مردہ لاش سے مزیدخون نچوڑنے پرپی ٹی آئی حکومت کی مالیاتی ٹیم
اوریہودی نژادگیری رائس کی قیادت میںآئی ایم ایف کی ٹیم ایک دوسرے کے ساتھ
شیروشکر ہوگی۔وزیراعظم عمران خان پہلے ہی اس امرکی اصولی منظوری دے چکے
ہیں،گویااب تورسمی کاروائی باقی ہے۔ یہ اس کے باوجود ہونے جارہی ہے کہ
وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے سے پہلے آئی ایم ایف کے چنگل میں
جانے کوخودکشی کے مترادف قراردیاتھالیکن بدقسمتی سے اب وہ اپنی حکومت کی
زندگی اس میں سمجھ رہے ہیں کہ کسی طرح آئی ایم ایف سے خودہی ہی امدادلیکر
اپنی زندگی بچالیں ،اسی وجہ سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کی تیاری ہے
جبکہ حال ہی میں سعودی عرب سے بھی ایک بہترریلیف پیکج لینے کاشہرہ بڑے
زرورشورسے میڈیامیں حکومت کی ایک بڑی کامیابی کے طورپرپیش کیاگیااوراس بات
کاعندیہ بھی دیاگیاہے کہ اوردوست ممالک بھی اس سلسلے میں رابطے میں ہیں جس
میں متحدہ عرب امارات سے بات بھی چل رہی ہے اوریقینا چین بھی اس مشکل وقت
پرنظررکھے ہوئے ہے اورسی پیک کی کامیابی میں پاکستان کی نئی حکومت کومایوس
نہیں کرے گا۔
حکومتی اقتصادی پالیسی سازوں کے رحجانات کودیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کی حکومت
میں آنے سے تقریباً ایک ماہ پہلے میں نے سی پیک کے سلسلے میں منعقدایک
کانفرنس میں یہ پیشگوئی کی تھی کہاگرآئندہ اقتدار عمران خان کوملاتویہ اپنی
حکومت کوسنبھالادینے کیلئے آئی ایم ایف کاسہارا ضرورلے گی باوجوداس کے کہ
آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنستے ہوئے تیس سال ہونے کے بعد بھی پاکستان کے
معاشی اشارئیے بنگلہ دیش سے بھی کمزوررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایات نہیں
جبکہ احکامات پر1988ء سے ہماری حکومتیں عوام پر مہنگائی کابوجھ اندھا
دھندلادرہی ہیں۔ بجلی ،گیس اورپٹرول سمیت اشیائے خوردونوش تک میں
ہوشربااضافہ بھی ہرآئے دن حکومت کئے جا رہی ہے جیسے کہ نئی حکومت کے آنے
میں آٹے دال کا بھاؤ سب کے سامنے آچکاہے۔ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی عام
آدمی کواضافے کاسامناہے، آئی ایم ایف نے ماضی میں ایک ظالم مہاجن کی
طرح30سال تک اپنی شرائط پوری کرائیں لیکن ہماری شرح نمواس دوران بنگلہ دیش
سے بھی کم رہی،برآمدات کم رہیں اورزرمبادلہ کے ذخائربھی حالت نزع میں
رہے۔اب ایک طرف نئی حکومت نے ضمنی بجٹ میں 83/ارب کے نئے ٹیکس لگادیئے گئے
ہیں اوردوسری جانب ترقیاتی اخراجات میں 75/ارب کی کٹوتی کرچکی ہے۔اس طرح
شرح نموبھی پچھلے برسوں سے کم ہو جائے گی جبکہ عالمی بینک نے پاکستان کے
بارے میں اپنے مالیاتی تجزیے میں30جون 2019ء سے 30جون 2020ء تک رپورٹ
کردیاہے کہ پاکستان کے مالی معاملات میں بہتری نہیں آسکے گی۔
ایک جانب حکومت بے رحمی کے ساتھ عام آدمی کومہنگائی کی چکی میں پیسنے
کااہتمام کررہی ہے تودوسری جانب بڑے مگر مچھوں،قومی سرمایہ لوٹنے والوں
کواپنے فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے سالانہ پندرہ ارب ڈالربیرون ملک لیجانے
کی کھلی چھٹی دیئے ہوئے ہے گویاتبدیلی کے نام پرحکومت میں آنے والے درحقیقت
معاشی مافیاکے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں ۔ان حالات میں آئی ایم ایف کی ٹیم
پاکستان پہنچنے کیلئے اپنی چھریاں پہلے سے زیادہ تیزکرچکی ہے۔ آئی ایم ایف
نے شروع سے معاشی استحکام لانے کے نام پرپاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں
اورترقی کے جس پہیے کوجام کئے رکھنے کی کوشش ہے اب کی باراس کی ٹیم ایک شرط
یہ لے کرآرہی ہے کہ پاکستان اقتصادی سرگرمیوں کومحدودکرے تاکہ اس کی بچی
کھچی معاشی انرجی برقراررہ سکے گویامعیشت کومنجمدکردیاجائے۔اس پس منظرمیں
آئی ایم ایف کے سامنے سی پیک سے متعلق معاملات واکئے جانے کی تیاری ہے۔آئی
ایم ایف سی پیک پربھی پاکستان کو''گومگو''کامشورہ دینے جارہاہے۔بجلی،گیس
اورپٹرول کے نرخوں میں اضافے کی آئی ایم ایف کی روایتی فرمائش اس کے علاوہ
ہوں گی۔ان حالات میں آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کیلئے امدادنہیں ایک
نیاجال بن رہی ہے تاکہ پاکستان اوراس کی معیشت آئی ایم ایف کی جکڑبندیوں سے
نہ نکل سکے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیاوجہ ہے کہ عمران خان جنہیں یوٹرن کے باعث بالعموم
عوامی تنقیدکا سامنا کرناپڑتاہے،اس معاملے میں بھی یوٹرن پرمجبور کیوں ہیں
،کون سی ایسی طاقتیں یا عناصر ہیں جو ان کے پاکستان کے معاشی فیصلے تبدیلی
کے ایجنڈے کے ساتھ مربوط کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں جبکہ انہیں
مجبورکررہے ہیں کہ معاشی پالیسی اورفیصلوں کوتبدیلی کی ضدکے طورپر سامنے
لائیں۔معروف معاشی ماہرڈاکٹرشاہدحسین صدیقی کااس بارے میں کہناہے کہ عمران
حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیربھی اپنی معاشی حالت کوسدھارنے کی
پوزیشن میں تھی لیکن جو عناصر کسی جماعت کواقتدارتک پہنچانے میں مدددیتے
ہیں بعدازاں وہ اپنے مفاداتکے تابع فیصلے کرواتے ہیں۔اسی وجہ سے عمران
حکومت نے فارن کرنسی اکاؤنٹس سے بیرون ملک منتقل ہونے والے پاکستان وسائل
کو روکنے کابندوبست نہیں کیا حالانکہ 2017ء کی رپورٹ کے مطابق فارن کرنسی
اکاؤنٹس کے ذریعے اقتصادی مافیاکے لوگ سالانہ تقریباً15 ارب ڈالرکی خطیررقم
پاکستان سے دونمبر طریقوں سے کماکرباہربھجوا دیتے ہیں ۔ان کے بقول نئی
حکومت کوماہرین کی جانب سے پہلے دن یہ مشورہ دیاجارہا تھاکہ زرمبادلہ کے اس
پیکج کوروکنے کااہتمام کریں لیکن ابھی تک حکومت نے اس جانب توجہ نہیں کی
ہے۔ایساکرلیاجاتاتوحکومت کوآئی ایم ایف کے پاس جانے کی قطعاً ضرورت پیش نہ
آتی اوراس کے باوجودقومی خزانے میں بڑی زیادہ رقم موجودہوتی۔آئی ایم ایف سے
قرضہ لینے کی صورت میں کم ازکم اگلے چھ ماہ میں تواتنی خطیررقم نہ چل سکے
گی جتنی بڑی رقم بیرون ملک فارن کرنسی اکاؤنٹس پرکچھ قدغن لگاکرحاصل کی
جاسکتی تھی۔نیزیہ کم ازکم 20فیصدمہنگائی میں مزیداضافے کی معیشت سے عوام
کوبچایاجاسکتاتھالیکن بدقسمتی سےحکومت نے بالآخروہی فیصلہ کیاجس کااندازہ
تھا۔اب 7نومبرکوآئی ایم ایف کی ٹیم کی آمدکی اطلاعات ہیں، دیکھتے ہیں کہ اس
غلط فیصلے سے اہل پاکستان کیلئے کیا''رحمتیں برآمدہوتی ہیں''۔
نئی حکومت کوآتے ہی عوام کوکندچھری سے ذبح کرنے کی آخرضرورت کیوں پیش
آئی؟یہ ایک ایساسوال ہے جس پرعام طورپربحث ہوتی ہے کہ آیاپچھلی حکومت نے
واقعی اتنے بڑے مالی معاملات آنے والی حکومت کے سپردکئے یانئی حکومت
کااناڑی پن ان کے گلے کاپھندابن گیاہے۔ اس لئے ایک جواب وہی ہے جوعمران
حکومت کی طرف سے باربار دہرایاجارہاہے کہ پچھلی حکومت اوراس کی ناقص
اقتصادی پالیسیوں کے سبب ایساکرناپڑرہا ہے۔دوسراجواب وہ ہے جوعام طورپرنہیں
دیاجاتااوروہ اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے دس سال گزرجانے کے باوجودصوبائی
حکومتیں ابھی تک مجموعی ملکی ترقی میں اپناحصہ اداکرنے میں اپنے
کرداراورذمہ داری کو محسوس نہیں کرسکی ہیں۔اس کھاتے میں یہ ضرورتھاکہ پنجاب
اوربلوچستان میں نوازلیگ کی حکومتیں تھیں جوبلاشبہ اتنی ہی ذمہ دارہیں جتنی
دوسرے صوبوں کی حکومتیں ذمہ دارمانی جا سکتی ہیں لیکن صوبہ خیبرپختونخواہ
میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سیاہ وسفیدکی مالک تھی جس کی براہ راست
نگرانی عمران خان خودکررہے تھے جبکہ سندھ میں پچھلی حکومت بھی ماضی اورحال
کی طرح پی پی پی کی حکومت تھی،اس لئے اگرپچھلی حکومت کی غلط پالیسی یا
کارکردگی کاکرداراہم ہے تواس میں صرف نوازحکومت قصوروارنہیں بلکہ پی ٹی آئی
اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتیں برابرکی ذمہ دارہیں کہ صوبائی خودمختاری
نے حقوق کے بعد لازماً کچھ ذمہ داریاں بھی صوبوں اورصوبائی حکومتوں
پراٹھارویں ترمیم کے بعدآن پڑی تھیں جنہیں اداکرناتمام صوبائی حکومتوں کی
ذمہ داری تھی۔ انہوں نے بھی بہرحال کوتاہی کی ہے جن کاخمیازہ آج پوری حکومت
کوبھگتناپڑرہاہے اورآئندہ دنوں یہ خمیازہ مزیدبھگتناپڑے گا۔
اس لئے بہترہوتاکہ آئی ایم ایف کے پاس ایک مرتبہ پھرجانے سے پہلے حکومت
مالی معاملات کے سدھارکیلئے پارلیمنٹ سے بعض نکات کی منظوری لیتی اورصوبائی
حکومتوں کوبھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں متوجہ کرتی کیونکہ
اگلے برسوں میں آنے والے معاشی چیلنجوں کامقابلہ کرنے کیلئے صرف وفاقی
حکومت کوہی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کوبھی ایک مشترکہ حکمت عملی کے
طورپرلیکر چلناہوگا۔بلاشبہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے دوست
ممالک سے بھی مشاورت کی اوران کے سامنے اپنی معاشی مشکلات کھول کررکھیں۔
چین اورسعودی عرب کے ساتھ توبڑی کھل کرباتیں ہوئیں ،کچھ روشنی بھی قوم
کودکھلانے کی کوشش کی گئی مگراس کے بعدبھی حکومت اس نتیجے پرپہنچی کہ سعودی
عرب اورچین کی طرف سے ملنے والی امدادپھربھی کافی نہ ہوگی کہ تیزی سے گرتے
ہوئے زرمبادلہ کے ذخائرکو سنبھالادیاجاسکے۔
اس پس منظرمیں کئی ماہرین اقتصادی امورسمجھتے ہیں کہ چین اورسعودی عرب سے
امدادمل بھی جاتی توپھربھی کام نہ بنتابلکہ آئی ایم ایف سے رجوع
کرناپڑتاگویادل پھرطواف کوئے ملامت کی طرف چل پڑاہے اورحکومت جس نے آتے ہی
زبانی کلامی دعوے کئے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گی عملاً سجدہ
سہوکرلیاہے اوراسی عطارکے لونڈے کے پاس جانے کوبیتاب ہے جوبیماری کاسبب
ہے۔ایسی صورتحال میں اس خدشے کو یکسر مسترد نہیں کیاجاسکتاکہ پی ٹی آئی کی
تبدیلی اورنئے پاکستان کانعرہ ودعویٰ کرنے والی حکومت نے آئی ایم ایف کی
کڑی شرائط تسلیم کرلیں تواس کامعاشی ایجنڈانہ صرف دھرارہ جائے گا بلکہ اس
کی اپنی ساکھ جوپہلے دن سے زیادہ اچھی نہیں ہے مزیدتحلیل ہی نہیں ہوگی بلکہ
تیزی سے تحلیل ہوتی ہوئی نظرآئے گی۔مہنگائی کانیا طوفان اٹھے گاجوعوام
کولپیٹ میں لے گا۔روپیہ جواب بھی ڈالرکے مقابلے میں بہت تیزی سے گراوٹ
کاشکارہے، آنے والے دنوں میں مزیددباؤ کاشکار ہو گااورسونامی سونامی کی
آوازوں کے ساتھ برسراقتدارآ نے والی حکومت عملاًعوام دشمن سونامی ثابت ہونے
کی طرف بڑھنے لگے گی۔ عوام نے بھی اس سلسلے میں اپناردّ ِ عمل 14/اکتوبر
کوہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پردیاہے۔یوں بائیس سال بعدعمران خان
کاحکومتی شیروانی پہننے کاخواب توپوراہوگیامگرعوام کاعملی اورحقیقی تبدیلی
کاخواب ادھوراہی رہا،خصوصاً نئی نسل جس نے پی ٹی آئی کواپنے بھرپوراعتماد
کاووٹ دیاتھا،اس کی مایوسی بہت تباہ کن ہوگی۔دوماہ ہوچکے،حکومت کوہنی مون
ماحول سے نکل کرچیلنجوں کاسامناکرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں قبول کرناہوں
گی۔مخالفین کے خلاف تقاریراور بیانات کسی حکومت کی کارکردگی کاپیمانہ نہیں
ہوسکتے۔
|