حامد جس سے محبت کرتا تھا اُس سے لڑائی بھی اکثر ہو جایا
کرتی ۔ لیکن وہ لمحات بڑی تکلیف میں گُزرتے اور وہ جلد منا لیا کرتا۔
شائد انسانوں کی نفسیات یا عورت اور مرد کے مزاج کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی لڑائ
سہ جاتا ہے اور دوسرا جزبات میں بہہ جاتا ہے۔ کوئ کہ جاتا ہے اور کوئ کہتے
کہتے رہ جاتا ہے۔ کوئی فراق آرام سے گُزار لیتا ہے لیکن کوئ سولی پر ٹنگا
رہتا ہے ۔ کوئ چُپ رہتا ہے اور غُصہ کو قابو میں رکھتا ہے اور کوئ طوفان
کھڑا کر دیتا ہے۔
یہ بھی سُنا کہ محبت کا تقاضا ہے کہ سب کچھ کہہ دیا جاۓ ، تھوڑا سا ناراض
بھی ہو لیا جاۓ جس سے محبت قائم رہتی ہے اور تھوڑا تھوڑا فراق ہو تو دائم
رہتی ہے۔
سانولی چُپ رہنے والی ، صبر والی اور حامد کہے بغیر رہ نہیں پاتا ۔ مگر اُس
کا مقصد بھی لڑائ ختم کرنا اور ماحول محبت اور امن والا رکھنا ہوتا تھا ۔
آخر اسی نتیجہ پر پہنچتا کہ صبر کر لیا جاۓ ےتو کچھ وقت میں بات دب جاتی ہے
اور انسان کو پچھتانا نہیں پڑتا اور شرمندگی سے زمین میں نہیں گڑتا ۔
لیکن حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ اگر کہا جاسکتا ہے تو یہ کہ نتیجہ
سُکھ اور خوشگوار ماحول ہونا چاہیے۔
جب سانولی کچھ دن کے لیے جانے کا کہتی تو حامد ایک دم دل کے ہاتھوں مجبور
ہو کر دھیما پڑ جاتا اور جس رات وہ نہ ہوتی وہ زہن میں مشہور کہاوت دہراتا
لڑن رات ہو بچھڑن رات نہ ہو
|