پانچ سال کے بعد نئے پاکستان آئی یہ سوچ کرکہ کُچھ دن
یورپ کی مصروف زندگی سے دور رہ کر سکون سے رہ لوں گی. لیکن میرے فلیٹ میں
ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے بچی کھچی خوش فہمی سے بھی نکال کر پاکستانی
معاشرے میں بسنے والی اقلیت اور اکثریت کا فرق کھڑے کھڑے سمجھا دیا۔ میں اس
کہانی میں آپ سب کو بھی شامل کرنا چاہتی ہوں۔ اگرچہ ضرب میرے اطراف کے چند
معزز مسلمان بھائیوں پر پڑتی ہے لیکن غلطیوں کی نشان دہی کرنا ضروری ہے
تاکہ پھر کسی مشعال، کسی شمع مسیح، کسی شہزاد یا کسی صفیہ کو زندگی کی
رعنائیوں سے محروم کر کے اندھیروں کے حوالے نہ کیا جائے۔
پانچ سال قبل صفیہ مسیح کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہمارے گھروں کا تعفن
زدہ کچرا سمیٹنے والی صفیہ اپنے کام سے کام رکھتی۔ کم بولنے کی عادت میں
مبتلا صفیہ کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سجی رہتی۔ آتے جاتے اس پر کئی بار
میری نظر پڑی لیکن کبھی اس کو اتنی غور سے نہ دیکھا جتنا دو سال قبل اس وقت
جب اس نے میرے گھر کا دروازہ بجا کر پانی مانگا۔ میں جو ہمیشہ سے کہانیوں
کو جاننے اور رازوں کو کھنگالنے کی مشتاق، اس پہلی ہی باضابطہ ملاقات میں
اس کے سارے حالات کا کھوج لگا بیٹھی۔
نشئی شوہر، چھوٹے چھوٹے بہت سارے بچے، کرائے کا مکان اور کم عمری میں بیاہی
گئی ایک بیٹی کی دو مزید بچوں کے ساتھ مستقل موجودگی۔ اکیلی صفیہ ان سب
جھمیلوں سے نمٹنے کی دُھن میں صبح سے شام تک مختلف بلڈنگوں اور اسکولوں میں
جمعدارنی کا روپ دھارے محنت کرتی اور لوگوں کی ملامت اور تضحیک کا نشانہ
بنتی، جس گند کو اہل محلہ کھلا پھینک دیتے وہ اس کو سمیٹ کر بھی اچھوتوں کی
طرح سلوک کی حق دار ٹھہرتی۔ آتے جاتے لوگوں سے وقت پوچھ پوچھ کر پانچ بجنے
کے انتظار میں پاپی بھوک کو بہلاتی، جب کہ جانتی تھی کہ گھر میں بھی اس کے
لیے کوئی نعمت بھرا خوان منتظر نہیں ہے۔ صفیہ کی کمائی میرے نزدیک ایسا
حلال رزق تھی جو بڑے بڑے درویش صفتوں کو بھی کہاں نصیب ہو سکتا ہے۔
صفیہ اکثر میرے دروازے سے لگی مجھ سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کتنی ہی باتیں،
پریشانیاں اور کتنے ہی مسئلے اس کی زبان سے خود بہ خود پھسلتے اور میں اس
کے لفظوں کو چنتی رہتی۔ پھر یوں ہوا کہ کئی دنوں تک صفیہ میرے گھر نہ آئی۔
میں نے بھی زندگی کے جھمیلوں میں اس کی غیرحاضری کا زیادہ نوٹِس نہ لیا۔
کافی دن بعد ملی تو چہرہ اترا ہوا اور رنگ مزید زرد۔ اس کے ساتھ ایسا کیا
ہوا؟ جو ہوا وہ کہانی بہت دردناک ہے۔ وہ کہانی پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ
روا رکھے جانے والے سلوک کا بیانیہ ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک سنسان صبح وہ حسبِ معمول سیڑھیوں کی صفائی میں مصروف
تھی کہ فلیٹ کے ایک معزز مسلمان مرد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ نہ صرف ہاتھ
پکڑا بلکہ زبردستی اس کو گھر کے اندر کھینچنے لگے اور فرمائش کی کہ ان کی
بیوی اس وقت گھر پر نہیں سو کچھ وقت صفیہ ان کے ساتھ گزارے۔ خالص مردانہ
ٹھرک میں مبتلا وہ صاحب صفیہ کے میلے کپڑوں، بغل میں دبی جھاڑو، اس کے مذہب
اور اچھوت پن سے یکسر بے نیاز اس پر پل پڑنے کو تیار تھے۔
صفیہ اس افتاد پر گھبرا گئی۔ کہتی ہے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ
میں اس عمر اور ایسے حلیے میں یوں رولی جاؤں گی۔ پُر زور مزاحمت، مردانہ
سخت گرفت سے نکلنے کے جتن اور کھینچا تانی میں اس کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹ
گئے۔ اس کے بعد بھی جب اسے فرار کا کوئی راستہ نہ ملا تو اس نے جوابی وار
کیا اور ان صاحب کو دھکے دے کر پیچھے کیا اور خوب مرمت بھی کر ڈالی۔ وہ
صاحب گھبرا کے بھاگنے لگے تو بہادر صفیہ مسیح نے شور مچا کر دوسرے جمعداروں
کو بھی جمع کرلیا، اور سب نے مل کران کی ٹھرک کا فوری علاج ٹھکائی سے کر
ڈالا۔
شور شرابہ سن کر آس پاس کے کافی معزز حضرات جمع ہوگئے۔ لیکن یہ بھیڑ صرف
تماشا دیکھنے والوں کی تھی۔ صفیہ کا مسیح ہونا اس کا ایسا جرم تھا کہ کوئی
مسلمان زبان اس کی حمایت میں نہ کھل سکی۔ فلیٹ کے یونین انچارج بھی سر جھکا
کر اپنے کام میں مگن رہے انہوں نے اس تماشے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا
بھی گوارا نہ کیا۔ صفیہ کے پھٹے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کر بھی کسی آنکھ میں
حیا کا پانی نہ اترا۔ اس وقت مجمع کی سوچ جو صفیہ نے پڑھی اس کے مطابق لوگ
یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کون سا مسلمان تھی جو ایسی پاکیزگی جھاڑ رہی تھی،
یوں کسی مرد نے صفیہ کی حمایت لینا گوارا نہ کیا۔ گویا عزت صرف ان کے گھروں
کی مسلمان عورتوں کا خاصہ ٹھہری۔ بہرحال مجمع چھٹ گیا۔ صفیہ نے ایک گھر سے
کپڑے لے کر تبدیل کیے اور وہی پانچ بجنے کے انتظار میں یہ کوفت بھرا دن
انہی عزت دار مردوں کے بیچ سیڑھیوں پر بیٹھ کر گزار دیا۔
صفیہ سمجھ رہی تھی کہ رات گئی بات گئی۔ لیکن نہیں، اب تو ٹھرک میں مبتلا ان
صاحب کے گھر کی ایک خاتون نے بیڑا ہی اٹھا لیا، آتے جاتے صفیہ کو ذلیل
کرنے کا۔ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اکثر و بیشتر چلانے لگتیں اور صفیہ
کو نیچ، گھٹیا اور غیر خاندانی ہونے کے طعنے دے کرخود کو بڑا خاندانی اور
عزت دار ثابت کرتیں۔ فلیٹوں کی کھڑکیوں سے جھانکتے اکثریتی سر اقلیت کا
تماشا دیکھتے اور شور ختم ہونے پر کھڑکیوں سے اندر سِرک جاتے۔
پھر ایک ایسے ہی دن جب صفیہ کا تماشا ان خاتون کے ہاتھوں سڑک پر لگ رہا
تھا، میں نے صفیہ کو بلاکر سمجھایا کہ اس سے پہلے کہ یہ ذاتی دشمنی کسی
قومی سانحے میں بدل جائے اور تم توہینِ مذہب کا الزام لگا کر یہیں مار دی
جاؤ، فوری طور پر قانون سے مدد لو اور علاقے کے تھانے میں جا کر ان کے
خلاف درخواست جمع کرواؤ۔ صفیہ میری بات پر بری طرح چونک گئی اور پھر بے
بسی سے میری طرف دیکھ کر گردن ہلائی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور زبان
پر وہی چپ کاتالا۔ قدموں کو گھسیٹتی ہوئی وہ چلی گئی۔ پھر کچھ دن بعد پتا
چلا کہ اس نے ٹانگ کی تکلیف کی وجہ سے کام ہی چھوڑ دیا۔
صفیہ کے ساتھ جنسی ہراسانی کا واقعہ تویقینًا، محض ایک عورت ہونے کی وجہ سے
ہی پیش آیا، لیکن آگے بننے والے حالات اس کے مسیحی ہونے کے جرم کو با
آسانی ایک بڑے سانحے میں بدل سکتے تھے۔ صفیہ اس حقیقت کو تسلیم کرکے فاقوں
کی زندگی کی طرف لوٹ گئی۔ اکثریت کی فتح ہوئی اور صفیہ مستقبل کی ”پین دی
سری صفیہ مسیح“ ہونے سے بچ گئی۔ خود ہار نہ مانتی تو شاید ایسے سر نگوں
کروایا جاتا کہ چاروں طرف آگ لگ جاتی۔ صفیہ اب نہ جانے کہاں ہے لیکن ہمارے
اطراف سے یہ کہانی نمٹ چکی ہے۔ کہانی کے اختتام تک آتے آتے اگر آپ یہ
سمجھ رہے ہیں کہ میرا اشارہ کسی خاص واقعے کی طرف ہے تو بھئی آپ کی مرضی
ہے جو دل چاہے سمجھیں، مجھے کیا؟
|