تحریر:بلال شیخ
لاہور کا سب سے بڑا کتاب میلا ایکسپو سینٹر میں لاہور بیسٹیول کے نام سے
منعقد ہوا جہاں کئی کتابوں کو نمائش کے لیے رکھا گیا اور مطالعہ کے فروغ کے
لیے بہت سے سیمینار کرائیں گے۔ وہاں قاسم علی شاہ صاحب کے ایک ہونہار شاگرد
ابو بکر ظہور کی کتاب ’’گرو‘‘ کی تقریب رونمائی کرائی گئی۔ قاسم علی شاہ
صاحب کو دیکھنے اور سننے کے لیے ان کے شاگرد تیار رہتے ہیں اور میں بھی اْن
شاگردوں میں سے ہوں جنہوں نے شاہ صاحب کی ویڈیوز اور اْن کے سیشنز سے بہت
فیض حاصل کیا۔ شاہ صاحب کو پڑھنے اور جاننے کے شوق نے مجھے یہ کتاب خریدنے
پر مجبور کیا اور میں اسے گھر لے آیا۔ میں نے اسی رات یہ کتاب پڑھنا شروع
کر دی۔ اِس کتاب میں ابوبکر ظہور اپنی شاہ صاحب کے ساتھ ملاقاتوں کو لفظوں
کی شکل دے کر یہ کتاب تیار کی ہیں۔ ابو بکر اِس کتاب میں شاہ صاحب کو اپنا
گرو کہتے ہیں اور ان سے مختلف سوالات کے ذریعے اپنے علم کی پیاس کو بجھانے
کی کوشش کرتے ہیں اور شاہ صاحب کے جوابات اور ان کے لفظوں نے مجھے ایسا
اپنے جادو میں لیا کہ میں یہ کتاب ایک رات میں ختم کر گیا۔ میں نے جو پڑھا
اور سیکھا اس کو مختصربیان کیے دیتا ہوں۔
خود اطمینانی پر ابو بکر کے سوال پر شاہ صاحب اپنے جواب میں کہتے ہیں کہ’’
اگر اپنی تکمیل چاہتے ہو تو دوسروں کی تکمیل میں اْن کی مدد کرو‘‘۔ میری
طرح جو شاہ صاحب کو جانتے ہیں وہ اس بات کو مانتے بھی ہیں کہ شاہ صاحب نے
جو سیکھا وہ دوسروں کو سکھایا بھی اور بننے میں ان کی مدد بھی کی اور یہ
سخاوت کا ایک طریقہ بھی ہے کہ جو آپ کے پاس ہے وہ دوسروں میں تقسیم کرنے
خیر و برکت بھی بڑھتی ہے۔ شخصیت میں نکھار بھی آتا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو
اپنے علاقے کے کسی ایسے شخص کو دیکھ لیں جو سخاوت کرتا ہو آپ کو اس کے ارد
گرد کا میلا دیکھ کر آپ کو یقین آ جائیں گا۔
علم خودی کے متعلق ابو بکر کے سوال پر کہا ’’ ہم اشرف المخلوقات ہیں اس لیے
ہمارا فرض ہے کہ ہم جانیں کہ ہمیں یہ برتری کیوں حاصل ہے۔ خود آگہی کے اس
سفر پر نکلنا اس ہستی(اﷲ) کو خراج تحسین پیش کرنے کے مترادف ہے جس نے ہمیں
اس نعمت سے نوازا‘‘۔ شاہ صاحب کی بات کا اندازہ آپ یہاں سے لگا سکتے ہے کہ
جو لوگ اپنے آپ کو زیادہ جانتے ہیں وہ لوگ پر سکون اور خوش رہتے ہیں اور وہ
جیسے جیسے اپنے آپ کو جاننے لگتے ہیں وہ اتنے ہی شکر گزاری کی طرف بڑھتے
ہیں۔ جو لوگ خدا شناس ہوتے ہیں وہ پہلے خود شناس ہوتے ہیں۔ تلاش خدا پر شاہ
صاحب کہتے ہیں’’ خدمت اور انسانیت سے محبت ہمیں اﷲ کا قرب دیتی ہے۔ اگر تم
مہربان ہو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہو،ہر ایک سے برابری کا سلوک
کرتے ہو اور لوگوں سے انصاف اور محبت سے پیش آتے ہو تو اﷲ تم پر مزید
مہربان ہو جاتا ہے۔اس کی محبت اور مہربانی کا کوئی ثانی نہیں۔
جب بھی انسان رب کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کا واسطہ انسان سے ہی پڑتا ہیں
اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے انسانیت سے محبت ہی رب کی تلاش ہے۔خدمتِ
انسانیت پر شاہ صاحب کا ایک سوال پر جواب دینا تھا ’’خدمت کا مطلب صرف رقم
خرچ کرنا نہیں ہے۔تم اپنے علم سے دوسروں کی رہنمائی کر کے ان کی خدمت کر
سکتے ہو،تم اپنا وقت اور توانائیاں صرف کر کے دوسروں کی خدمت کر سکتے ہو۔
دوسروں کے خیرخواہ بن کر ان کی خدمت کر سکتے ہو۔ تم مخلصانہ طور پر دوسروں
کے لیے دعا کر کے ان کی خدمت کر سکتے ہو‘‘۔
دوستی پر شاہ صاحب کا کہنا تھا،’’خود غرضی اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر کی
گئی دوستی عارضی ثابت ہوتی ہے‘‘۔ پھر دوسری جگہ وہ کہتے ہیں ’’آپ کا دوست
آپ کی سوچ کا عکاس ہے‘‘۔ پھر ایک جگہ اور شاہ صاحب کہتے ہیں ’’ایک اچھے
انسان کو ہی دوسرے اچھے انسان کا ساتھ نصیب ہوتا ہے اور اِس بات میں کوئی
شک نہیں کہ فتنہ پسند شخص اپنے جیسوں کو ہی پسند کرے گا اور ایک دن اسی
فتنے کا شکار ہو جائے گا‘‘۔حصول علم پر شاہ صاحب کا ایک سوال پر کہنا تھا
’’جس فلسفے کی تبلیغ وہ دوسروں کو کرتا ہے اگر وہ خود اس پر عمل نہیں کرتا
تو اس کی تربیت بے فائدہ ثابت ہو گی انسان کے زبان کی تاثیر اس کے کردار پر
مبنی ہے۔ جھوٹا آدمی سچ بھی بولے تو لوگ شک میں پڑ جائیں گے‘‘۔ روحانیت پر
ایک جگہ شاہ صاحب کے الفاظ تھے ،’’آنسووں کی لڑیوں کا بڑا گہرا مفہوم ہوتا
ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔یہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب روحانی
حالت پانے عروج پر ہو۔آپ کے اندر لگی آگ آپ کو جکڑ لیتی ہے اور آپ کو خدا
کا نا شکرا نہیں ہونے دیتی اور اس حالت کو بیان کرنا انسانی اختیار میں
نہیں‘‘۔
تبدیلی کو شاہ صاحب نے بہترین انداز میں سمجھایا ہے’’ تبدیلی کا عمل بڑا
ظالم ہے۔بڑے لوگ اس کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ
تبدیلی کو روکا نہیں جا سکتا۔ جو چیزیں وقت اور زمانے کے ساتھ تبدیل نہیں
ہوتیں وہ فنا ہو جاتی ہیں‘‘۔کامیابی جو کہ ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے اس
پر شاہ صاحب کا کہنا تھا’’اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار قسمت کو ٹھرانے والے
بزدل ہوتے ہیں اور کامیابی ایسے لوگوں کا کبھی بھی مقدر نہیں بنتی۔کامیابی
ان لوگوں کے قدم چومتی ہے جو راستے کی مصیبتوں کو جاننے کے باوجود ہمت کو
اپنا ہتھیار بناتے ہیں اور اﷲ پر توکل کر کے منزل کے حصول کے لیے اپنی تمام
تر توانائیاں بروئے کارلاتے ہیں‘‘۔
مرشد کی عقیدت کے متعلق شاہ صاحب کا کہنا تھا’’مرشد کی ایک نگاہ سالہا سال
کی عبادت سے بہترہے۔ مرشد استاد ہوتا ہے اوراستاد کی شاباشی کی تھپکی اور
غصہ دونوں ہی کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتی ہے‘‘۔علم حقیقی کے متعلق فرمایا’’سچا
علم عالم کی روح کے اندھیروں کو ختم کر کے اس کے اس سفر کو روحانی منزل کی
نوید دیتا ہے‘‘۔ یہ کتاب پڑھ کر آپ کو لطف ملے گا اور پتہ چلے گاکہ آج بھی
شاگرد علم کی تلاش کے ساتھ استاد کی بھی تلاش کرتے ہیں اور جب کامل استاد
مل جائیں تو شاگرد کی منزل آسان ہو جاتی ہے۔
|