کتاب کا نام: میر ا دوست ‘ نواز شریف

مصنف : ضیا شاہد چیف ایڈیٹر خبر یں گروپ
صفحات: 400۔ قیمت 1400/- روپے
ملنے کا پتہ : علامہ عبدالستار عاصم ‘ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل ‘ یثرب کالونی ‘ بنک سٹا پ ‘ والٹن روڈ لاہور کینٹ
تبصرہ نگار : محمداسلم لودھی
صحافتی دنیا میں جناب ضیا شاہد کا نام کسی تعارف کامحتاج نہیں ہے ۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بڑے اور قومی اخبارات میں لکھتے اور لکھاتے گزرا ۔وہ شعبہ صحافت کی نہایت قد آور شخصیت ہیں ۔ وہ انتہائی بے باکی اور جرات مندی سے بات کہنے کا فن اور حوصلہ رکھتے ہیں ۔اس سے پیشتر وہ 13 کتابیں لکھ چکے ہیں ‘ یہ ان کی چودہویں کتاب ہے ۔ یہ کتاب اپنے نام کے اعتبار سے میاں محمدنواز شریف کی شخصیت ‘ کردار اور گفتار اور دوستی کے گرد گھومتی ہے ۔چونکہ نواز شریف سے ضیا شاہد کا تعلق اس وقت سے ہے جب انہوں نے ابھی میدان سیاست میں قدم نہیں جمائے تھے ۔

ضیا شاہد ‘ نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں ۔میں اس وقت روزنامہ جنگ میں ملازم تھا ایک دن میرخلیل الرحمن مجھے اپنے ساتھ لے کر گورنر ہاؤس پہنچے ۔اس وقت جنرل غلام جیلانی خان گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز تھے ۔جیسے ہی ہم دونوں گورنر صاحب کے دفتر میں داخل ہوئے ۔ میر خلیل الرحمن نے مصافحہ کے بعد میرا گورنر صاحب تعارف کروایا ۔میر صاحب نے کسی تمہید کے بغیر کہا میں بندہ لے آیا ہوں ‘ میرا بیٹا شکیل اخبار کاانتظام سنبھالتا اور لکھنے پڑھنے کا کام ضیاشاہد کے ذمے ہے ۔ان دنوں جنگ فورم کا بہت چرچا تھا جس کا انچارج میں تھا۔غلام جیلانی خان نے کہا اتفاق فاؤنڈی والے میاں شریف کا بیٹا نوازشریف ہے جس کے بارے میں جنرل محمد ضیاء الحق کا حکم ہے کہ اسے سیاست میں بہت آگے لے کر جانا ہے ۔ آپ کو اس لیے زحمت دی کہ آپ کے اخبار نے اس نوجوان کو بھرپور کوریج دینی ہے ۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے یہ جو تم لوگوں کو بلاکر فورم کرواتے ہو ‘ نواز شریف کو ہر اہم فورم میں بلایا کرو ۔خواہ اس کا موضوع کوئی بھی ہو ۔ تاکہ نواز شریف کو مسئلے اور مسائل کا پتہ چل سکے ۔ اس کی رنگین تصویریں بھی چھاپو ۔ میر خلیل الرحمن نے پوچھا آپ اسے کیا بنا رہے ہیں ‘ جنرل جیلانی نے کہا وہ آج کل وزیر خزانہ ہے‘ آگے الیکشن ہوں گے انہیں لمبا سفر طے کرنا ہے ۔ گورنر صاحب نے بیل دی اور کہا نواز کو بلاؤ ۔ یہ زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں نے اسے دیکھا ۔ نواز شریف نے بلیک سوٹ پہن رکھا تھا البتہ ٹائی سرخ رنگ کی تھی ۔وہ نوجوان اور خوبصورت بھی تھا اس کے سر پر چمکدار سیاہ بال تھے۔ اس نے میر صاحب کے بعد مجھ سے بھی ہاتھ ملایا ۔ ملاقات ختم ہوئی تو ہم گورنر صاحب سے اجازت لے کر جنگ کے دفتر پہنچ گئے ۔میرشکیل الرحمن نے مجھے تاکید کی "گورنر صاحب نے جو کہاہے اس پر پوری طرح عمل کرنا" ۔

ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ضیا شاہدکچھ اس طرح کرتے ہیں کہ جن دنوں بے نظیر وزیر اعظم تھیں اور نواز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے ‘ بے نظیر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے اراکین اسمبلی کی خوب کھینچا تانی ہوئی ۔بے نظیر نے اپنی حمایتی ممبران اسمبلی کو نواز شریف سے بچانے کے لیے سوات کے بہترین ہوٹل میں انہیں ٹھہرایا اور انکی خوب آؤ بھگت کی ۔ جبکہ نواز شریف نے پہلے ارکان اسمبلی کو اسلام آباد کے میر یٹ ہوٹل میں رکھا گیا۔ بعد ازاں انہیں مری اورپھر چھانگا مانگا پہنچا دیا گیا ۔ پرویز الہی کے بقول صرف میرٹ ہوٹل کے اخراجات پونے چار کروڑ بنے ۔یوں بینظیر اور نواز شریف کے مابین محاذ آرائی سے ارکان اسمبلی نے خوب مال کمایا اور موجیں اڑائیں ۔وہ کہتے ہیں‘ میں ایک دن وزیر اعلی ہاؤس سیون کلب جی او آر پہنچا تو نواز شریف کے دفتر تک پہنچنے کے لیے عقبی صحن سے گزرنا پڑتا ہے ۔ دائیں ہاتھ پر ایک دروازہ تھا جسے باہر سے کنڈی لگی تھی اندر سے کوئی زور زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا ۔میں نے کنڈی کھول دی تو اندر سے اقلیتی سیٹ پر منتخب ہونے والا ایک قادیانی ممبر اسمبلی نکلا ۔شاید اس کا نام بشیر تھا ۔ شور سن کر وزیر اعلی کے پرائیویٹ سیکرٹری ‘ مزید کچھ اور لوگ بھی وہاں پہنچ گئے ۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ آپ اس پھڈے میں نہ پڑیں ۔یہ شخص جو کمرے میں بندتھا وہ بہت بے ایمان ہے وہ نواز شریف سے بھی پلاٹ اور نوکریاں لے چکا اور بھاگ کر بے نظیر کے کیمپ میں چلاگیا ہے اور وہاں سے بھی نقد پیسے اور نوکریاں وصول کرچکا ہے ۔ شہباز نے اسے تلاش کرنے کے لیے کہا تھا ہم بہت مشکل سے اسے تلاش کرکے لائے ہیں اور یہاں بند کیا ہے ۔

ایک اور واقعے کا ذکر کچھ کتاب میں شامل ہے ۔ ایک بار شہباز شریف نے ایک جگہ بلایا ۔ وہاں ہمایوں اختر ‘ ملک سلیم اقبال ‘ چودھری پرویز الہی ‘ چودھری محمد اقبال پہلے سے موجودتھے ۔ شہباز شریف نے مجھ سے پوچھا کہ نئے اخبا ر نکالنے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت ہوگی ۔میں نے کہا اندازا بیس سے پچیس کروڑ روپے تک ۔ طے یہ ہوا کہ میں روزنامہ جنگ سے مستعفی ہوجاؤں اور نئے اخبا ر کے پروجیکٹ پر کام کروں ۔ابھی نئے اخبار کے پروجیکٹ پر گفتگو ہوہی رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھولا اور فوجی وردی میں ملبوس جنرل گل حمید بغل میں چھڑ ی لیے اندر آئے ‘ وہ ان دنوں ملتان کے کور کمانڈر تھے ۔انہوں نے سخت لہجے میں سب کو ڈانٹ پلائی کہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں ۔شاید ہمایوں اختر نے نئے اخبار کے پروجیکٹ کا ذکر کیا۔ جس پر جنرل حمید گل بولے اب اس کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا آپ کو نہیں پتہ کہ بے نظیر حکومت ختم ہونے والی ہے اور نئے الیکشن کا اعلان ہورہاہے ۔یہ سنتے ہی کمرے میں سنسنی پھیل گئی ۔
.....................
جنرل حمید گل کے جانے کے بعدایک بار پھر دروازہ کھولا تو چھوٹے قد کا بھاری جسم والا شخص سفید شلوار قمیض پہنے کمرے میں داخل ہوا ۔ ملک سلیم اقبال نے پوچھا " اوئے بھٹی ‘ اک اخبار کڈناں اے ‘ توپیسہ لاویں گا ۔؟" شہباز شریف نے بھی کان کھڑے کیے اور کہا بھٹی صاحب اک اخبار ہی کڈ لو ۔ بھٹی صاحب بولے "کتنا پیسہ لگے گا ؟ "چودھری اقبال نے کہا 50 کروڑ روپے میں کام ہوجائے گا ۔ بھٹی صاحب بولے پچاس تے پچاس سو کروڑ ہوگیا ۔ ملک سلیم اقبال نے میرا ہاتھ پکڑا اور بھٹی صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا "ایہنوں لے جا ‘ تے دفتر ‘ مشین تے سٹاف اکٹھا کر ۔"

اکبر علی بھٹی مجھے لے کر میسن روڈ پر پہنچے جہاں ان کا ادویات سپلائی کا دفتر تھا ۔ بھٹی صاحب میٹرک پاس تھے تاہم وہ پنجاب کے سب سے بڑے میڈیکل کنگ کہلاتے تھے ۔ٹینڈر نکالنے کے لیے بہت ساری کمپنیاں درکار ہوتیں‘ جو ان کے پاس کافی تعداد میں موجود تھیں ۔مسلم لیگ کے وہ باقاعدہ فنانسر تھے ۔اس لیے سرکاری ادویات کی سپلائی کے ٹھیکے بھی انہیں آسانی سے مل جاتے ۔ ان کے دفتر میں بیٹھنے کے لیے مجھے ایک کمرہ دے دیاگیا ‘میں نے دیکھا کہ وہاں عورتیں اور بچے دن بھر تیار شدہ ڈبوں پر لکھی ہوئی قیمت پر نئی چٹ لگا کر گیارہ روپے کی چیز کی قیمت ایک سو روپے بناتے تھے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ مری میں بھٹی صاحب کا شاندار ہوٹل ‘ ریسٹ ہاؤس اور وارث روڈ پر رہائش گاہ زیر تعمیر تھی ۔وہاڑی سے وہ ایم ین اے منتخب ہوئے تھے ۔ مری ‘ راولپنڈی ‘ پشاور ‘کراچی ‘ ملتان ‘ کیولری گراؤنڈ لاہور کینٹ اور نہ جانے کہاں کہاں ان کے ریسٹ ہاؤسز تھے جہاں افسروں اور سیاست دانوں کو مفت رہائش کے ساتھ کھانا اور بالخصوص پینا بھی فراہم کیاجاتا۔میں نے اکثربڑے اہم لوگوں کو ان سے یہ کہتے ہوئے سنا ۔"اوئے بھٹی کل شام نوں بندہ آئے گا ‘ 50کروڑ دا بندوبست کرلیں ۔" اﷲ رحم کرے حرام مال جیسے آتاہے ویسے ہی چلا جاتا ہے ۔

مصنف آگے لکھتے ہیں کہ ان کی ادارت میں روزنامہ پاکستان صرف چار ماہ سترہ دن نکلا ۔ اس دوران نواز شریف وزیراعظم بن چکے تھے ‘ وہ چین کے دورے پر روانہ ہوئے تو باقی صحافیوں کے ساتھ میں بھی چین گیا ۔واپس آیا تو اکبر بھٹی آگ بگولا تھا اس نے کہا پیسہ میرا اور سیریں تمہاری ‘ میں نے کہا چونکہ چیف ایڈیٹر اخبار کا میں تھا ‘اس لیے مجھے ہی بلایاگیا ۔ اکبر بھٹی غصے سے بولا آج سے چیف ایڈیٹر میں ہوں ۔بس وہ دن روزنامہ پاکستان میں میرا آخری تھا۔
.............................
ضیا شاہد مزید لکھتے ہیں کہ نواز شریف کے بعد میں ایک بار پھر ایک شخص پر اپنی توجہ لوٹائی اور وہ ہے عمران خان ۔مجھے عمران خان سے بھی کچھ نہیں چاہیئے وہ جانے اور اس کی پارٹی جانے ۔لیکن 20 سال پہلے اس میز پر سامنے والی کرسی پر وہ ساری رات بیٹھا رہا تھا اور مہینوں کی کوشش کے بعد میں نے اسے قائل کیا تھا کہ سیاست میں آؤ ۔ خدا کرے نواز شریف کرپشن کے تمام الزامات سے بری ہوجائے ۔مجھے اس کی ذات سے کچھ نہیں لینا ۔میں آج بھی اسے اپنا دوست سمجھتا ہوں ۔حالانکہ وہ میرا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے ۔ چند سال پہلے ایک مشترکہ دوست نے بتایا کہ ایک روز جاتی عمرہ میں کسی مسئلے پر میرا یعنی ضیا شاہد کا ذکر چھڑ گیا ۔میاں صاحب پہلے تو خاموش رہے پھر بولے ضیا شاہد کی بات چھوڑدو۔ میں تو اپنے بچوں سے بھی کہتا ہوں کہ ان سے دور رہو کیونکہ نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی ۔

میں آج بھی عمران خان کے بارے میں خوش فہمی رکھتا ہوں ۔ میری نظر میں وہ کرپٹ نہیں ہے البتہ میں اسے فرشتہ بھی نہیں سمجھتا ۔اس سے غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر اس کی نیت ٹھیک ہے اور مجھے اس سے بڑی امیدیں ہیں ۔جبکہ نواز شریف جو میرا دوست ہے وہ مجھ سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔میں تو چاہتا ہوں کہ وہ ایک دن آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے اور دل پر ہاتھ رکھ کر میرے سوال کا جواب دے کہ ضیا شاہد نے تم سے کیا مانگا تھا ‘ کچھ لین دین ہوا تھا ۔کیا وہ ایک آئیڈلسٹ نہیں تھا ۔ جو نواز شریف کے عروج کے دور میں اپنے خوابوں کاپاکستان چاہتاتھا ۔قائداعظم کا وہ پاکستان جس میں غریب کو روٹی ‘ مظلوم کو انصاف اور محروم کو چھت نہیں ملتی تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیئے ۔ نواز شریف آؤ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہو کیا ہم نے گھنٹوں اس خواب کے بارے میں باتیں نہیں کی تھیں ‘ عہد نہیں کیے تھے پھر یہ پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیاں اور لندن کے فلیٹس کہاں سے آگئے ۔ دنیا کی عدالتیں شاید تمہیں چھوڑ دیں مگر میرے دوست ‘ کیا ضمیر کی عدالت میں بر ی ہوجاؤ گے ؟ جس دن ضمیر کی عدالت سے بری ہوجاؤ کسی پی اے سے اور کسی سرکاری اہلکار سے نہ کہنا میرے فون پر براہ راست حکم دینا ضیا شاہد میں ضمیر کی عدالت سے بری ہوگیا ہوں۔ آؤ ایک اچھے اور صاف ستھرے پاکستان کے لیے میرا ہاتھ بٹاؤ اور نواز شریف اگر تم لاہور میں ہوئے تو میں آدھ گھنٹے میں تمہارے پاس نہ پہنچ جاؤں تو میرا نام بدل دینا ۔
..............
اس کتاب کاانتساب بھی ضیاء شاہد نے نواز شریف کے نام ہی کیا ہے ۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف میرا دوست بھی ہے اور بھائی بھی ۔ یہ عقدہ مجھ پر بہت دیر بعد جاکر کھلا کہ بزنس مین کی دوستیاں ‘بزنس کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔سودا پٹ جائے تو بزنس مین مڑکر بھی اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا جس سے کبھی اس نے وعدے وعید کیے ہوتے ہیں جس پر وہ کبھی صدقے واری ہوا ہوتا ہے ۔
....................
جہاں تک ضیا ء شاہد صاحب کی کتاب کاتعلق ہے ‘ نواز شریف کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور واقعات کو انہوں نے نہایت خوبصورتی اور سادگی سے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا شخص تسلسل اور دلچسپی سے پڑھتا چلاجاتاہے ۔کتاب میں جنرل حمیدگل کی انٹر ی اور اکبربھٹی کی جانب سے سرکاری اداروں میں ادویات کی سپلائی کی کہانی ‘ مسلم لیگی رہنماؤں کی جانب سے اخبار نکالنے کی باتیں اور ملک بھر میں ریسٹ ہاؤسز کی موجودگی اور ان میں سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی آؤ بھگت کی کہانیاں یقینا ایک عام قاری کے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی ہیں ۔ لیڈ ر بنانے ‘ حکومتیں بنانے اور توڑنے میں فوج کا کیا کردار ہوتا ہے اس پر بھی اس کتاب میں مختلف واقعات شامل ہیں جو انکشاف سے کم درجہ نہیں رکھتے ۔

دنیامیں سوائے نبی کریم ﷺ کے کوئی ایسا نہیں آیا جو خامیوں سے پاک ہو ۔بحیثیت انسان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں ہی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں ۔کسی میں خوبیاں زیادہ اور کسی میں خامیاں زیادہ ہوتی ہیں لیکن جس میں صرف خوبیاں ہی موجود ہوں وہ انسان نہیں فرشتہ کہلاتا ہے ۔ سیاست دان ہو یا صحافی ‘ بزنس مین ہو یا کوئی سرکاری افسر ۔ دوسروں کو پرکھنے کا اپنا ہی طریقہ اور انداز ہے ۔جہاں تک ضیاء شاہد کی نواز شریف سے دوستی کا تعلق ہے یہ مفادات کی دوتی تھی مفاد پورا ہوتو دوستی بھی اختتام پذیرہوگئی۔نواز شریف اور ضیاء شاہد سکول کے کلاس فیلو نہیں تھے کہ ان کے مابین دوستی کا رشتہ ہمیشہ استوار رہتا ۔ ضیا ء الحق کے حکم پر غلام جیلانی خان نے میرشکیل الرحمن کے ذریعے ضیا ء شاہد کو اپنے دفتر بلا کر نواز شریف کو اپنے اخبار میں پرموٹ کرنے کا حکم دیااور ضیا ء شاہد نے اخبار کے ایک ملازم کی حیثیت سے یہ فرض نبھایا‘ اس رشتے کو دوستی کا نام دینا دانش مندی نہیں ہے ۔ جن واقعات کاسہارا لے کر جو باتیں نواز شریف سے وابستہ کی گئی ہیں وہ تصویر کاایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ نواز شریف کے پاس ہے ‘ جس کا تذکرہ اسی کتاب میں ضیاء شاہد نے خود بھی کیا ہے کہ نواز شریف ان کانام سن کر کانوں کا ہاتھ لگاتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ نہ ضیاء شاہد کی دوستی اچھی اور نہ دشمنی ۔

کتاب 400 صفحات پر مشتمل ہے جس میں نواز شریف کے ساتھ مختلف مواقعوں پر ضیاء شاہد کی تصاویر بھی نہایت خوبصورتی سے شامل کی گئی ہیں ۔کتاب کا طباعتی معیار بہترین ‘ کاغذ عمدہ اور قیمت 1400/-روپے رکھی گئی ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم ‘ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے ایک بہترین انتخاب بن چکے ہیں ۔میں نے ان کی طبع کردہ جتنی بھی کتابیں دیکھیں کسی میں معیار کی کمی محسوس نہیں ہوئی ۔ ایسے باعمل اور بہترین ناشر کی اس دور میں موجودگی قدرت کااحسان ہے ۔ماشا ء اﷲ وہ خودبھی رائٹر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ضیا ء شاہد کی یہ کتاب واقعاتی اعتبار سے دلچسپ بھی ہے اور معلوماتی بھی ۔ طرز تحریر نہایت عمدہ ‘ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ بھی لاجواب ہے ۔یہی وہ خوبیاں ہیں جو کسی بھی کتاب کو اعلی مقام عطا کرتی ہیں ۔ قاری کی دلچسپی شروع سے لے کر آخر تک قائم رہتی ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.