تبصرہ کتاب ’’ مشرقی افق‘‘از میرافسرامان

اخبارات میں چھپنے والے کالموں کی کتابی شکل میں اشاعت
(قلم کاروان کی ادبی نشست مورخہ13نومبر2018ء میں پیش کیاگیا)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ہشاش بشاش چہرہ،نورانی داڑھی سے مزین سرسبزوشاداب شکل و صورت،مصافحہ کریں یامعانقہ گرمجوشی سے لبریزرویہ،گفتگوکاآغازہوتو نپے تلے جملے اورہر دوسرے تیسرے فقرے پر نفاست و نقطہ رسی سے بھرپور عمدہ مزاح اورمجلس میں علمیت و عملیت سے اپنی موجودگی کاثبوت دینے والے یہ ہیں بزرگ کالم نویس جناب میرافسرامان۔اپنی بزرگی کے باوجود جوانوں سے کہیں زیادہ پرجوش اور اپنے وعدے اور وقت کے پابنداور کسی بھی طالع آزمائی کے لیے ہر وقت تیارکامران رہتے ہیں۔ظاہری ہیئت سے باباجی محسوس ہوتے ہیں لیکن اپنی شخصیت کے تنوع میں بھرپورتوانیاں سمیٹے ہوئے عہدشباب ہنوز ان میں موجزن ہے ۔ان سب پر مستزادیہ کہ ایمان کی حرارت اور قرآن و سنت سے جذباتی وابستگی نے ان کی ہستی میں ایسی مقناطیسیت پیداکر دی ہے کہ ان کا حسن خلق لوگوں کو ان کے گرد اکٹھاہی کیے چلے جاتاہے۔دین کاجامع تصور رکھتے ہیں،روایتی مذہبیت سے کلیتاََبیزارہیں اور صرف وقت پیری میں ہی مسجد کی چوکھٹ پر نہیں چمٹے ہوئے بلکہ ان کی کل حیات سابقہ فرائض کی پابندی اوراقامت دین کی جدوجہدسے عبارت ہے۔اور گاہے بگاہے تذکروں میں اپنے اس مقدس ترکے کواپنی نسل آمدہ میں منتقل کرنے کاذکر خیر بھی کرتے رہتے ہیں۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کم و بیش کل پاکستان میں یا کم ازکم تمام بڑے بڑے شہروں میں قیام کر چکے ہیں۔اورہر شہر کے دینداراور علمی طبقوں میں ان کے چھوڑے ہوئے نقوش بطوریادگار کے اب بھی زندہ ہیں۔ملتان میں ان کے قیام کاعینی شاہد آپ کے سامنے ان کاشخصیہ قرات کناں ہے،جب ہر نماز میں والد مرحوم کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اب بھی حافظے میں مکمل طورپر موجود ہیں کہ یہ زمانہ طالب علمی تھااور ہماری خوش نصیبی کی ہمارے جوارسے ان کی خوشبو پھوٹتی تھی۔

’’مشرقی افق‘‘کتاب علامہ کے اس مصرعے کے مصداق ہے کہ ’’مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ‘‘۔کالموں کایہ مجموعہ اپنے اندر وقت کی ایک تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔آج سے ایک سو سال بعد قلم اٹھانے والے مورخ کے سامنے یہ کتاب آج کے حالات کواس طرح بیان کرے گی کہ جیسے پردہ سکرین پرمتحرک مناظر اس کے سامنے سے گزررہے ہوں۔کتاب کی زبان انتہائی شائستہ بلکہ شستہ اور آسان فہم ہے۔استعارات کا گاہے بگاہے استعمال تحریرمیں تڑکے کاکام کرتاہے۔عربی اور فارسی کی اصطلاحات بڑی چابکدستی سے اس طرح استعمال کی گئی ہیں کہ تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیتیں۔اخباری کالموں کی اکثریت مقابلے بازی کاشکار ہوتی ہے لیکن میرافسرامان کی یہ تحریریں کسی بلند ترمقاصدکے حصول کے لیے لکھی گئی محسوس ہوتی ہیں،جن میں بازاری یااخباری تقابل دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔بڑی عامیانہ سی بات ہے کہ متعدد اخباری کالم نویسوں کی تحریروں سے درباری ثقافت یاشخصی پزیرائی کی سڑانداٹھتی ہوئی ماحول کو بدبودارکررہی ہوتی ہے،اس کی پشت پر ان قلم نویسوں کے معاشی مفادات کامکروہ دھندہ دخیل ہوتاہے۔لیکن قسم لے لیں کہ اس کتاب کے مصنف کے ہاں ایسی کوئی بھی آلودگی دوردورتک عنقا ہے۔اﷲ تعالی نے اپنی آخری اورعظیم ترین کتاب جوملاء الاعلی سے رحمۃ اللعالمین ﷺجیسی اعلی ترین ہستی پر نازل فرمائی اس میں قلم کے تقدس کی قسم اٹھاکر اس کے احترام کی یقین دہانی کرائی ہے۔اس دنیامیں آپ سب کے سامنے اور روزمحشر اﷲ تعالی کے سامنے یہ حلف دینے کو تیارہوں کہ ’’مشرقی افق‘‘میں قلم کی اس حرمت ربانی کا حتی المقدورپاس و لحاظ رکھاگیاہے۔اﷲ تعالی نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جواﷲ تعالی کی آیات کو چندسکوں کے عوض فروخت کرڈالتے ہیں۔جب کہ میرافسرامان ان لوگوں میں سے ہیں جو ہندوستان کے معرکہ خیروشرمیں اپنے قلمی جہاد کی بدولت اس بشارت نبویﷺ کے مصداق ہیں کہ ہندوستان میں جہادکرنے والے لشکرسے اﷲ تعالی نے جنت کاوعدہ فرمایاہے۔

’’مشرقی افق‘‘حقیقت میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی علمبردارکیاب ہے۔کتنے ہی صحافی ہیں جو براہ راست گفتگؤں میں یا اپنی تحریروں میں مایوسیاں پھیلانے کے لیے گویا ادھارکھائے بیٹھے ہوتے ہیں،ایسے لوگوں دنیابھرکی برائیاں ،خامیاں،کوتاہیاں اور ناہمواریاں اپنے ملک،اپنی ملت اور اپنے نظام زندگی میں نظر آرہی ہوتی ہیں اور ان کابس نہیں چلتاکہ دیارغیرمیں دودھ اور شہدکی نہروں کو بہتاہوادکھادیں اورغیراقوام کو عرش سے اترے ہوئے افرادثابت کرچکیں اور وہاں کے ادارے اوروہاں کے تصورات حیات اور وہاں کی موثرومقتدرافرادی قوت کو دودھ سے دھلے ہوئے باورکرائیں۔اس سب کے برعکس میرافسرامان کے قلم سے خاورامیدطلوع ہوتاہے اور ’’مشرقی افق‘‘گھٹاٹوپ اندھیری رات میں قندیل راہبانی کافریضہ سرانجام دیتی ہے۔مایوسیاں اور تنگ نظریاں اور تعصبات کادوردورتک ان کے ہاں کوئی نام و نشاں نہیں ملتا۔اس کتاب کاقاری اپنے سامنے ہمیشہ تصویرکارخ روشن دیکھتاہے۔

میرافسرامان کی یہ کتاب ان کا قلمی چہرہ دکھاتی ہے اور ان کا عملی چہرے کا درشن ’’قلم کاروان‘‘ ہے۔جناب میرافسرامان قلم کاروان کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ہمارے معاشرے کے کتنے ہی لوگ ہیں جو عملی زندگی سے فراغت کے بعد اگر صحت باقی رہے توھل من مزید کی فکرمیں غلطاں رہتے ہیں یاپھرصاحب فراش ہو کر موت کے انتظارمیں باقی ماندہ حیات ناکارہ و بے مقصدیت کاشکارہوجاتے ہیں ۔جب کہ میرافسرامان اس عمر میں بھی کرائے کی سواریوں میں موسموں کی شدت کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے منصب و مقام ومعاشرتی حیثیت کو بروئے کار لاکر ادب کے عالی شان میدان میں معاشرے کو ایک معیار فراہم کررہے ہوتے ہیں۔قلم کاروان بجاطورپر ان کا ممنون احسان ہے کہ اس ادبی بیٹھک کی سرپرستی ان کے دست مبارک کی مرہون منت ہے۔

ہم سب ایک جرگہ کی صورت میں بارالہ میں دست بدعاہیں کہ صاحب کتاب کی قلمی و عملی مساعی جمیلہ دارین میں ان کے لیے سعادت و خوش بختی کاسبب بنیں۔اور جب وہ اپنی یہ کتاب ہاتھوں میں لیے سروردوعالم ﷺکی خدمت اقدس میں پیش کرکے آشیربادحاصل کررہے ہوں تواس گنہ گارکایہ ایک ورقہ بھی اپنی نسبت کی سند حاصل کرتاہوا ان سعادت مند بزرگوں کی معیت میں پل صرا ط سے آگے کو نکل جائے،کہ اس نادم وتہی دست کے تارتاردامن میں سوائے نسبتوں کے اور کچھ بھی پیش کرنے کو نہیں ہے،آمین۔
 

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 521461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.