قرآن پاک کی روشنی میں

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے آج میں اور آپ مل کر قرآن پاک پڑھتے ہیں. سبحان اﷲ، قرآن پاک، ہمارے عظیم رب کا کلام، ہدایت کا سرچشمہ. ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس’’قرآن مجید‘‘ موجود ہے، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ. اﷲ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر نصیب فرمائے.

کامیابی کا واحد راستہ
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿۱﴾ ترجمہ: دین تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ’’اسلام‘‘ ہے۔ ﴿ال عمران ۹۱﴾
﴿۲﴾ ترجمہ: اور جو شخص’’اسلام‘‘ کے سوا کسی اور دین کو چاہے وہ اُس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میںنقصان اٹھانے والوں میں ہو گا﴿ ال عمران ۵۸﴾
﴿۳﴾ ترجمہ: آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے’’اسلام‘‘ کو دین پسند کیا۔
﴿۴﴾ ترجمہ: پس جس شخص کو اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اْس کا سینہ’’اسلام‘‘ کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گُھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔﴿ الانعام ۵۲۱﴾
﴿۵﴾ ترجمہ: بھلا جس شخص کا سینہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہے﴿ تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہو سکتا ہے؟﴾ ﴿الزمر ۲۲﴾
﴿۶﴾ ترجمہ: اور اُس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے، حالانکہ’’اسلام‘‘ کی طرف اُسے بلایا جارہا ہو اور اﷲ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا﴿ الصّف ۷﴾

الحمدﷲ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عظیم الشان کتاب میں سے چھ آیات پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی. قرآن مجید میں سے ان آیات کو پڑھ لیں اور اُن کا ترجمہ بھی یاد کر لیں. اور پھر شُکر میںڈوب جائیں کہ. اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے ’’اسلام‘‘ کی نعمت عطا فرمائی ہے. الحمدﷲ ، الحمدﷲ، الحمدﷲ. ان آیات سے معلوم ہوا کہ. رسول کریمﷺ کی بعثت کے بعد صرف دین اسلام ہی سچا اور مقبول دین ہے. کافر اور غیر مسلم سب کے سب ناکام ہیں، نامُراد ہیں اور بد نصیب ہیں. خواہ وہ کسی مُلک کے صدر ہوں، بڑے مالدار ہوں، ماہر سائنسدان ہوں، یونیورسٹیاں بنانے والے ہوں. یا بڑے بڑے کھلاڑی. یہ سب بہت سخت عذاب اور خسارے میں ہیں. کیونکہ وہ اصل نعمت اور روشنی. یعنی دین اسلام سے محروم ہیں. یہ عقیدہ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں سمجھایا اور یاد کرایا گیا ہے. مزیدتفصیل جاننی ہو تو’’فتح الجوّاد‘‘ میں ’’سورۃ محمد‘‘. یعنی ’’سورۃ القتال‘‘ کا مطالعہ کر لیجئے. آئیے اسلام کی نعمت ملنے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کریں
الحمدﷲ علیٰ نعمۃ الاسلام. سبحان اﷲ علیٰ نعمۃ الاسلام. اﷲ اکبر علیٰ نعمۃ الاسلام
سبحان اﷲ،والحمدﷲ واﷲ اکبر علیٰ ماھدانا. الحمدﷲ الذی ھدانا لھذا وماکنا لنھتدی لولا ہدانا اﷲ. دعا کریں اور کوشش کریں کہ یہ نعمت ہمارے پاس محفوظ رہے اور مرتے وقت ہم اسلام پر مریں.

موت
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿۱﴾ ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے پھر جو کوئی جہنم سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا پس وہ پورا کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں﴿ال عمران ۵۸۱﴾
﴿۲﴾ ترجمہ: ﴿ وہ اﷲ تعالیٰ﴾ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کے عمل اچھے ہیں﴿المُلک ۲﴾
﴿۳﴾ ترجمہ: اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے، اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم اُن کو جانتے ہیں اور ہم اُس کی رگِ جان سے بھی اُس سے زیادہ قریب ہیں جب ﴿وہ کوئی کام کرتا ہے تو﴾ دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھتے ہیں لکھ لیتے ہیں، کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اُس کے پاس تیار رہتا ہے اور موت کی سکرات﴿یعنی بے ہوشی﴾ تو ضرور آکر رہے گی یہی ہے وہ جس سے تو بھاگتا تھا﴿قٓ ۶۱ تا ۹۱﴾
﴿۴﴾ ترجمہ: تم جہاں کہیں ہو گے، موت تمہیں آہی پکڑے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو﴿النسائ ۸۷﴾
﴿۵﴾ ترجمہ: کاش تم ان ظالم لوگوں کو اُس وقت دیکھو جب وہ موت کی سختیوں میں﴿مبتلا﴾ ہوں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو! اپنی جانیں آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی﴿الانعام ۳۹﴾
﴿۶﴾ ترجمہ: ﴿یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے﴾ یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا اے پروردگار مجھے پھر دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ جسے میں چھوڑ آیا ہوں اس میں نیک کام کر لوں. ہرگز نہیں ایک بات ہی بات ہے جسے یہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک پردہ پڑا ہوا ہے قیامت تک﴿ کہ اس پردے یعنی برزخ کو عبور کر کے دنیا میں واپس نہیں آسکیں گے﴾﴿المومنون ۹۹،۰۰۱﴾

الحمدﷲ ہم نے چھ مقامات اور پڑھ لئے. اپنے عظیم رب کی سچی باتیں. بے شک موت نے آنا ہے، اس یقین کو دل میں بٹھائیں گے. اور اس کی تیاری کریں گے تو ہم پکے اوراچھے مسلمان بن جائیں گے. یقین کریں ہم موت سے نہیں بھاگ سکتے. ہاں مگر اپنی موت کو اچھا اور مزیدار بنانے کی دعا اور محنت کرسکتے ہیں. پھر دیر کس بات کی. آج سے ہی دعا اور تیاری شروع ہو جائے. اللھم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت

موت نما مزیدار اور طاقتور زندگی
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿۱﴾ ترجمہ: اور جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے﴿البقرہ ۴۵۱﴾
﴿۲﴾ ترجمہ: اور اگر تم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے گئے یا مر گئے تو اﷲ تعالیٰ کی مغفرت اور اُس کی رحمت اُس چیز﴿یعنی مال و اسباب﴾ سے بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں﴿ال عمران ۷۵۱﴾
﴿۳﴾ ترجمہ: اور جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے راستے میں مارے گئے انہیں مردے نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیئے جاتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو انہیں دیا ہے اُس پر خوش ہونے والے ہیں. الآیۃ﴿ ال عمران ۹۶۱،۰۷۱﴾
﴿۴﴾ اور جو شخص اﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے پھر اُس کو موت آپکڑے تو اُس کا ثواب اﷲتعالیٰ کے ذمے ہو چکا ﴿ النسائ ۰۰۱﴾
﴿۵﴾ترجمہ: اور جن لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی، پھر وہ قتل کئے گئے یا مرگئے بے شک اﷲ تعالیٰ اُن کو اچھی روزی دے گا اوریقیناً اﷲ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے اور اُن کو ایسے مقام میںداخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے اور بے شک اﷲ تعالیٰ جاننے والا، برُدبار ہے﴿الحج ۸۵،۹۵﴾
﴿۶﴾ ترجمہ: اور جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میںمارے گئے ہیں اﷲ تعالیٰ اُن کے اعمال ضائع نہیں فرمائے گا﴿بلکہ﴾ جلدی انہیں راہ دکھلائے گا اور اُن کا حال درست کردے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا جس کی حقیقت انہیں بتا دی ہے﴿محمد ۴ تا ۶﴾

الحمدﷲ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ. اﷲ کریم نے ہمیں اپنی کتاب میں سے چھ مزید مقامات پڑھنے کی توفیق عطا فرما دی. مزے لے لے کر قرآن پاک میں سے اُن کی تلاوت کریں پھر ترجمے کو پڑ ھیں اور سمجھیں. اور ان آیات میں موت کو شکست دینے کا جو طریقہ لکھا ہے اُسے اختیار کرلیں. جی ہاں جہاد اور ہجرت کا راستہ. بس نیت کر لیں اور راستہ پکڑ لیں. پھر قتل ہوں یا عام موت آئے. منزل پر پہنچیں یا راستے میں کھپ جائیں. کوئی فتح ملے یا ظاہری شکست اُٹھائیں. کوئی نتیجہ نظر آئے یا بالکل نہ آئے. کوئی فرق نہیں، ذرہ برابر فرق نہیں. ہاں جس کی نیت جتنی اونچی اور جس کی محنت اور قربانی جتنی زیادہ اُس کو اُتنا زیادہ مقام ملتا ہے.

عذاب اور اُس سے بچاؤ
قرآن پاک نے ’’عذاب‘‘ کے مسئلے کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے صرف’’العذاب‘‘ کا لفظ دو سو چونسٹھ﴿۴۶۲﴾ بار اور’’عذابا‘‘ کا لفظ اُنتالیس ﴿۹۳﴾ بار قرآن مجید میں آیا ہے. جبکہ اسی لفظ کے دیگر صیغے بھی درجنوں بار استعمال ہوئے ہیں. قرآن پاک ’’عذاب‘‘ بھی بیان فرماتا ہے اور اُس کی اقسام بھی. اور عذاب سے حفاظت اور بچاؤ کا طریقہ بھی. اﷲ تعالیٰ کا عذاب دنیا میں بھی آتا ہے،اور مرنے کے بعد بھی. اور اصل اور زیادہ سخت عذاب قیامت قائم ہونے کے بعد اُن لوگوں پر ہو گا جو اس عذاب کے مستحق ہوں گے. جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں وہ اکثر عذاب الٰہی سے بچ جاتے ہیں اور جو لوگ’’ عذاب الہٰی‘‘ سے بے فکرے ہوتے ہیں وہ اکثر اس عذاب میں پکڑے جاتے ہیں. اﷲ تعالیٰ کا عذاب کب آئے گا اور کس پر آئے گا اس کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں. اور کونسی چیز عذاب ہے اور کونسی چیز عذاب نہیں یہ بھی اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے. پانی میں ڈوب مرنا فرعون کے لئے اور کافروں، نافرمانوں کے لئے سخت عذاب ہے . جبکہ مجاہدین کیلئے حالت جہاد میں ڈوب کر مرنا دُگنے اجر کا ذریعہ اور بڑی شہادت ہے. آگ میں جل مرنا کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب ہے جبکہ اصحاب الاخدود کے واقعہ میں جو اہل ایمان جلائے گئے وہ سیدھے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں داخل ہو گئے. ہم سب مسلمانوں کو قرآن پاک کی اُن آیات میں غور کرنا چاہئے جو ’’عذاب‘‘ کو بیان فرماتی ہیں. اور ہم سب کو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بے حد ڈرنا چاہئے. اور اُن طریقوں کو اختیار کرنا چاہئے جو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہیں.
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿۱﴾ ترجمہ: کیا تم اُس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پس یکایک وہ زمین لرزنے لگے،کیا تم اُس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے﴿المُلک ۶۱،۷۱﴾
﴿۲﴾ ترجمہ: کیا بستیوں والے بے خوف ہو چکے ہیں کہ ہماری طرف سے اُن پر رات کو عذاب آئے جب وہ سورہے ہوں یا بستیوں والے اس بات سے نڈر ہو چکے ہیں کہ اُن پر ہمارا عذاب دن چڑھے آئے جب وہ کھیل رہے ہوں،کیا وہ اﷲ تعالیٰ کی اچانک پکڑ سے بے فکر ہو گئے ہیں، پس اﷲ تعالیٰ کی اچانک پکڑ سے بے فکر نہیں ہوتے مگر نقصان اٹھانے والے﴿الاعراف ۷۹ تا ۹۹﴾
﴿۳﴾ ترجمہ: اور اُن اچھی باتوں کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہیں اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو، کہیں کوئی نفس کہنے لگے ہائے افسوس اُس پر جو میں نے اﷲ کے حق میں کوتاہی کی اور میں تو ہنسی ہی کرتا رہ گیا یا کہنے لگے اگر اﷲ تعالیٰ مجھے ہدایت کرتا تو میں پرہیز گاروں میں ہوتا یا کہنے لگے جس وقت عذاب کو دیکھے گا کہ کاش مجھے میسر ہوتا واپس لوٹنا تو میں نیکو کاروں میں سے ہوجاؤں. ہاںتیرے پاس میری آیتیں آچکی تھیں پس تو نے انہیں جھٹلایا اور تو نے تکبر کیا اور تو منکروں میں سے تھا﴿ الزمر ۵۵ تا۹۵﴾
﴿۴﴾ ترجمہ: اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد پر نکلو تو زمین پر گِرے جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو، دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے، اگر تم نہ نکلو گے تو اﷲ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کرے گا اور تم اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے﴿ التوبہ ۸۳، ۹۳﴾
﴿۵﴾ ترجمہ: اور اﷲ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ انہیں آپ کے ہوتے ہوئے عذاب دے دے اور اﷲ تعالیٰ انہیں عذاب دینے والے نہیں اس حال میں کہ وہ استغفار کرتے ہوں۔﴿الانفال ۳۳﴾
﴿۶﴾ ترجمہ: اے ایمان والوں! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے، تم اﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور تم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوںسے جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو﴿الصّف ۰۱،۱۱﴾

الحمدﷲ ہم نے مزید چھ مقامات سے قرآن پاک کو پڑھنے کی سعادت حاصل کی. ان آیات کی تلاوت کر کے ان کا ترجمہ توجہ سے پڑھیں. پہلے چار مقامات پر عذاب کا تذکرہ ہے اور آخری دو مقامات میں عذاب سے حفاظت کے طریقے ارشاد فرمائے ہیں. اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲﷺ پر ایمان تو بنیاد ہے. اس کے بعد جہاد اور استغفار وہ دو بڑی چیزیں ہیں جن کو اختیار کر کے ہر مسلمان اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکتا ہے. اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ان دو اعمال کی بھرپور اور مقبول توفیق عطا فرمائے. اور ہم سب کو اپنے عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچائے. آمین یا ارحم الراحمین

اللھم یا ارحم الراحمین صل علی محمد ھو رحمۃ للعالمین وعلیٰ الہ وصحبہ اجمعین وبارک وسلم تسلیما کثیر ا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 196042 views A Simple Person, Nothing Special.. View More