تحریر در نجف ، سرگودھا بھلوال
’’وہ‘‘ اسکے پاس بیٹھا، اس کے نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے اسے حسرت
سے دیکھ رہا تھا، وہ بیڈ پر بے حس و حرکت پڑی تھی، اسکے تمام ٹیسٹ ہو رہے
تھے،وہ فکرمند سا آتے جاتے ڈاکٹرز کو دیکھ رہا تھا، جب ڈاکٹر نے اسے کمرے
سے باہر جانے کو کہا:وہ چپ چاپ آ کر ایک طرف بیٹھ گیا، دل کی دھڑکن بڑھتی
جا رہی تھی،اس نے دیکھا زرین کو سٹریچر پہ لے جایا جا رہا تھا، وہ بے چین
سا اٹھ کر تیزی سے قریب آکر بولا:’’ڈاکٹر؟ کیا ہوا میری بیوی کو؟ کچھ پتہ
چلا کیا مسئلہ ہے؟‘‘’’آپکی مسز کو برین ٹیومر ہے اور زرین جانتی تھیں ، وہ
میری پیشنٹ تھیں، حیرت ہے کہ آپ کو نہیں بتایا گیا،احسن صاحب! ہمیں آپریشن
کرنا ہو گا،فارم فل کردیں وہاں کاؤنٹر پہ چلے جائیں‘‘ ڈاکٹر زبیر نے کاؤنٹر
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:اور احسن زرین کو دیکھتا کاؤنٹر کی طرف چلا گیا
مگر آنکھوں کے سامنے وہ منظر فگومنے لگا جب وہ دونوں ایک دن پارک میں
بییٹھے تھے زرین کہنے لگی ’’اگر مجھے کچھ ہو گیا تو آپ دوسری شادی کر لینا
‘‘احسن نے اپنا ہاتھ زرین کے منہ پر رکھ دیا۔’’مت کہا کرو ایسے، کتنی بار
کہا ہے تم سے‘‘احسن نے روٹھ کر رخ موڑتے ہوئے کہا۔’’میں تمہارے بنا جی نہیں
سکتا،اور تم ایسی باتیں کر کر کے ہارٹ فیل کر دو گی میرا، اسی لئیے میں
تمہیں پارک لایا ہوں کہ اداسی کی پرتوں سے باہر نکلو ہماری زندگی کتنی
خوبصورت ہے، میں اور تم،تم مجھے ہرٹ کرتی ہو، ایسی باتیں کر کے،دیکھو! لوگ
کتنے خوش ہیں،اس جوڑے کو دیکھو،جو اپنی عمر کے اس حصے میں بھی ایکدوسرے کے
ساتھ محبت سے مسکرا رہے ہیں‘‘احسن نے پارک کے ایک کونے میں ٹہلتے عمر رسیدہ
جوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’زرین میں زندگی کا ہر پل تمہارے ساتھ
بتانا چاہتا ہوں، مجھے نہیں معلوم،تم نے مجھ میں کیا دیکھا پر میں تمہاری
محبت کے زندان میں قید وہ شخص ہوں کہ جسکی رہائی موت ہے‘‘۔چپ زرین نے اسکے
لبوں پر ہاتھ رکھ کر ہٹا لیا کہ لوگ انکی طرف متوجہ نہ ہوں، پارک میں وہ
آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہے تھے،’’وہ‘‘ اسکی طرف رخ موڑتے ہوئے بولی ’’میں
نے آپ میں کیا دیکھا؟ زرین نے اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا’’آپکا دل دیکھا جس
میں ایک دروازہ تھا، میں نے اسے اچھی طرح چیک کیا کہ کہیں پہلے تو نہیں
کھلا ہوا مگر مجھے پتہ چلا ابھی دل کے دروازے پر دستک نہیں دی محبت نے۔تو
جھٹ سے محبت کی پہلی دستک دے ڈالی‘‘وہ دلچسپی سے مسکرا کر زرین کو دیکھ رہا
تھا، جو بات کرتے کرتے کبھی شرارت سے اسے اور کبھی پارک میں کھیلتے بچوں کو
دیکھتی۔احسن کو وہ منظر یاد آیا جب شادی کے بعد پہلی بار وہ اسے قریبی پارک
لایا تھا اسکی آنکھیں جلنے لگیں وہ ضبط کی کوشش میں آنسو اپنے اندر اتارنے
لگا۔وہ بار بار آپریشن تھیٹر کو دیکھ رہا تھا تھک کر اس نے چیئر کی بیک سے
سر ٹکا لیا۔اسے کتاب ماضی کے حسین اوراق نظر آنے لگے جب وہ اپنے چھوٹے سے
گھر میں صوفے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے’’ زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے
ہیں میں تو مر کر بھی میری جاں تمہیں چاہوں گا وہ اسکی جھیل سی آنکھوں میں
دیکھتے گنگا رہا تھا،اور وہ مسکرا کر اس کے سلجھے بال بکھیرنے لگی۔ دل کرتا
ہے،ہر وقت تم سے باتیں کرتا رہوں، احسن نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ کر
کہا:زرین نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا میرا بھی یہی دل کرتا ہے پر ابھی مجھے
چائے بنانی ہے،باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ اٹھ گئی،ظالم ہو
ظالم پوری۔۔۔۔۔اور وہ کھلکھلا کر ہنستی کچن کی طرف چل دی احسن موبائل نکال
کر نمبر ڈائل کرنے والا تھا، جب برتن گرنے کی آواز آئی، اور وہ کچن کی طرف
بھاگا۔ جہاں زرین گری پڑی تھی، اور برتن بکھرے پڑے تھی وہ فورا ً ہاسپٹل لے
آیا۔’’ کیوں؟، زرین کیوں تم ایسا کیسے کر سکتی ہومیرے ساتھ؟، وہ کرب و اذیت
کی آخری حدوں پہ ضبط کئیے کھڑا تھا،دل کہیں صدمے کی اتھاہ گہرائیوں میں جا
گرا، اسکے تنے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے، اسے زرین کی ہنسی سنائی دینے
لگی،احسن۔۔۔۔۔۔احسن۔۔۔۔وہ اسے پکار رہی تھی،دور سے آتی ڈاکٹر کی مدہم آواز
وہ سن نہیں پا رہا تھا،سوری احسن صاحب،ڈاکٹر نے احسن کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
تو احسن کا سر ایک طرف ڈھلک گی-
|