مجلس مشاورت:(لوح و قلم تیرے ہیں)

 بسم اﷲالرحمن الرحیم

حوالہ:
میرافسرامان تاریخ:6نومبر2018
حبیب الرحمن چترالی کاروائی ہفت روزہ ادبی نشست،منگل 6نومبر2018
(ادبی صفحہ کے لیے)

منگل مورخہ 6نومبر2018 بعد نماز مغرب قلم کاروان کی ادبی نشست مکان نمبر1اسٹریٹ 38،G6/2اسلام آبادمیں منعقد ہوئی۔ پیش نامے کے مطابق آج کی ادبی نشست میں’’تحریری سیمینار یوم اقبال(بحوالہ 9نومبر)‘‘کے عنوان سے تین مصنفین سلطان محمود شاہین،اکرم الوری اور شاہد منصور کی تحریریں پیش ہوناطے تھی۔تحریک نفاذاردوکے سیکریٹری اور بہت متحرک کارکن جناب عطاء الرحمن چوہان نے ادبی نشست کی صدارت کی ۔نشست کے آغازمیں افتخار کیانی نے تلاوت قرآن مجید ،جناب آصف صدیقی نے مطالعہ حدیث نبویﷺاورجناب احمد محمود الزمان نے علامہ اقبال کی زمین پر لکھی گئی اپنی ایک نعت سنائی۔

صدر مجلس کی اجازت سے جناب سلطان محمود شاہین صدر بزم شوری پاکستان نے ’’علامہ اقبال اور دوقومی نظریہ‘‘کے موضوع پر اپنامقالہ پیش کیا،مقالے میں اقبال کے متعدد اشعار اور دیگرمنظوم کلام سے پاکستان کے خالق نظریہ ،دوقومی نظریہ کے لیے مواد جمع کر کے توبہترین ترتیب کے ساتھ پیش کیاگیاتھا۔اس کے بعد جناب اکرم الوری نے’’خطبات اقبال کا دیباچہ‘‘کے عنوان سے اپنی دقیق اور ضخیم تحریر پیش کی، تحریرمیں دیباچہ کے اندر پیش کیے جانے والے حقائق کو درجہ بدرجہ نقدوتبصرہ کے ساتھ پیش کیااور آخر میں عقلیات و تصوف کے درمیان ہونے والے مقارنہ کوتصوراقبال کی روشنی میں انہیں کے اقوال و اشعارکی مدد سے قلمبندکیا۔تیسری اور آخری تحریر نوجوان لکھاری شاہدمنصورکی تھی۔انہوں نے ’’تعمیرپاکستان،فکراقبال کی روح سے‘‘جیسے موضوع پر اپناقلم اٹھایاتھااور اپنی تحریر میں انہوں نے ایک لمبے پس منظرکے بعد یہ ثابت کیا پاکستان صرف قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکارکی روشنی میں ہی ترقی کرسکتاہے ،اس کے علاوہ باقی تمام راستے وطن عزیزکوتباہی کی طرف ہی دھکیلیں گے۔تحریریں پیش ہونے کے بعد سب سے پہلے ساجد حسین ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اقبال ہمیشہ ان کے زیرمطالعہ رہاہے اور انہوں نے بتایا کہ جب انہیں ’’سر‘‘کاخطاب پیش کیاگیاتوانہوں نے کہاکہ میں اس خطاب کو اس وقت قبول کروں گاجب میرے استادمحترم کو بھی یہ خطاب پیش کیاجائے۔جناب حبیب الرحمن چترالی نے کہاکہ اقبال کی شاعری آج کے حالات پر بھی اسی طرح منطبق ہوتی جس طرح تحریک پاکستان کے وقت تھی۔جناب ظہیرگیلانی نے آج کی معیاری نشست کے حوالے سے اقبال کے ایک مصرعے میں معمولی تصرف کے بعدکہاکہ’’ہوتاہے جادہ پیماپھرقلم کارواں ہمارا‘‘اس پر محفل کشت زعفران بن گئی۔افتخارکیانی نے علامہ اقبال سے متعلق کچھ روحانی مقدمات پیش کیے اورکہاکہ اقبال اب بزرگوں کی حد تک رہ گیاہے اور اگر اقبال سے دوری برقراررہی توہمارے آنے والی نسلیں اقبال کے نام سے ہی نابلد ہو جائیں گی۔پروفیسرآفتاب حیات،شہزادعالم صدیقی اورکچھ دیگرشرکاء نے بھی اظہار خیال کیااور بعد ازاں شیخ عبدالرازق عاقل نے حسب معمول اپنی تزہ غزل بھی سنائی۔

آخرمیں صدر مجلس جناب عطاء الرحمن چوہان نے اپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو قومی زبان سے دوررکھ کر دانستہ طورپر فکراقبال سے نابلد رکھاگیاہے۔انہوں نے شرکاء سے پرزوراندازمیں کہاکہ ہمیں ہر سطح پر قومی زبان کی ترویج واشاعت کی ذمہ داری نبھانی ہوگی تاکہ ہم اپنا ورثہ اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرپائیں ۔صدارتی خطبے کے بعد آج کی ادبی نشست اختتام پزیر ہوگئی۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 520822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.