*ساس اور بہو کا رشتہ — محبت، انا یا آزمائش؟*
تحریر: ثناء جٹ
ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ "ساس ماں جیسی اور بہو بیٹی جیسی"ہو۔ مگر درحقیقت یہ رشتہ اکثر نہ ماں جیسا ہوتا ہے اود نہ ہی بیٹی جیسا ۔ یہ رشتہ روز جیتا ہے، روز نئی آزمائشوں سے گزرتا ہے ، اور اگر دونوں طرف سے تھوڑا سا صبر، تھوڑی سی سمجھداری ہو ۔ تو یہ رشتہ صرف برداشت کا نہیں، محبت کا بھی بن سکتا ہے۔ لیکن سو میں سے اسّی فیصد ساس ساس رہتی ہے اور بہو بہو ۔
ساس بھی ماں ہوتی ہے ، لیکن کسی اور کی ۔ ساس بھی ایک عورت ہے ۔ جس نے اپنی زندگی گزار کر اپنے زندگی کے تمام پڑاؤ کو گزارا جہاں وہ بیٹی تھی ، بہن تھی اور بہو بھی تھی پھر وہ ایک ماں بنی اور اس نے ایک بیٹے کی تربیت کی۔ جب اس کا بیٹا شادی کرتا ہے ، تو وہی ماں ایک انجانی سی بےچینی کا شکار ہونے لگتی ہے۔کہ کہیں آنے والی میری جگہ تو نہیں لے رہی؟ اس صورت میں اکثر عورتیں اپنی اولاد کا دل دکھا دیتی ہیں ۔ ان کی پسند ان سے چھین کر اپنی پسند ان پر مسلط کر کے لیکن جب وہی پسند کی ہوئی لڑکی ان کے گھر میں آتی ہے تو بھی وہ اسی قسم کے خدشات کا شکار رہتی ہیں کہ کہیں میرا بیٹا بدل تو نہیں جائے گا؟ اور اسی بے چینی میں وہ اکثر و بیشتر اپنا رویہ سخت کر لیتی ہیں ، بے رحم نہیں ہوکر بھی بے رحم بن جاتی ہیں ۔
بات کریں بہو کی تو کہنے کو وہ بھی ایک لڑکی ہے ، عورت ہے ، بیٹی ہے ، لیکن پرائے گھر کی ۔ جب ایک لڑکی بہو بن کر کسی اجنبی گھر میں آتی ہے، تو وہ سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے ۔ ماں کی گود، باپ کی چھاؤں، بہن بھائیوں کی باتیں، یادیں اور آتے ہی اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ فوراً "گھر کو سنبھالے، سب کو سمجھے، اور خود کو بدل لے، اور خود کو سب کے مطابق ڈھال کر چلے۔" اگر وہ خاموش رہے تو "سمجھدار" مانی جاتی ہے اور اگر کچھ کہے تو "زبان دراز" کہلاتی ہے ۔ پڑھی لکھی ہے تو ڈرا کر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں ہمیں چھوٹا نہ سمجھنے لگے ۔ کمانے والی ہے تو کما کر ہمارے سر احسان نہیں کرتی ہو ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ غرض کہ ہر صورت میں عورت کو دبا کر رکھا جانا چاہیے یہ معاشرے کی سوچ اب بھی ہے ۔
اس رشتے میں سب سے زیادہ بوجھ "ثبوت" کا ہوتا ہے۔ بہو کو ہر دن یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ اچھی اور سمجھدار لڑکی ہے ۔ ان کے مطابق ڈھال رہی ہے ۔ ان کے طور طریقوں پر چل رہی ہے اپنی بات نہیں چلا رہی ۔ اور ساس کو ہر دن یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ اب بھی اہم ہے ۔ اپنی حیثیت کم نہیں ہونے دیں گی ۔ یہ گھر اُن کا ہے اور ان کی مرضی ہی چلے گی اور یہ اس سب میں دونوں “ثبوت” ایک دوسرے کی تھکن بن جاتے ہیں ۔ اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بد ظن ہونے لگتے ہیں ۔ اور پھر آپس کی داریاں گھر کا ماحول خراب کرنے لگتی ہیں ۔ اور صورتحال اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ رشتے انا کا میدان بن جاتے ہیں ۔
جب ساس اپنی ہر بات میں "میری بیٹی ہوتی تو..." کے لفظوں کا استعمال کرے یاں مثال دینے لگے کہ میری بیٹی تو اس طرح کرتی تھی م وہ اپنے گھر میں سب کام سنبھالتی ہے اس کو تو سب آتا ہے ، میں نے تو بچپن سے اسے ہر کام سکھایا ہے ۔ اور بہو کو یہ سوچ گھیرے رہے کہ "اگر یہ میری ماں ہوتیں تو میں اس سے کھل کر بات کرسکتی “ ، اس طرح کی باتیں ، سوچیں جب دونوں کے ذہنوں میں گردش کرتی ہیں تو وہاں آپس کے رشتے تلوار کی دھار بن جاتے ہیں ۔ جس پر صرف عورت ہی چلتی ہے۔
ساس بھی عورت ، بہو بھی عورت ۔ دونوں کے دل میں خواہش صرف محبت کی ہوتی ہے ۔ ایک کے دل میں بیٹے کی محبت اور دوسری کے دل میں شوہر کی محبت کی خواہش ہوتی ہے ۔ مگر درمیان میں سماج، روایات، اور "لوگ کیا کہیں گے" کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے ۔
پھر سوچتی ہوں کہ اگر یہ رشتہ خوبصورت بن سکتا ہے، تو کیسے ؟شاید کہ احترام کو اصل بنائیں، اطاعت کو نہیں تو رشتہ کڑواہٹ کے بغیر سچا ہوسکے ۔ ساس کو چاہیے کہ بہو کو بھی عزت دے ،اس کے گھر والوں کا خیال کرے نہ کہ صرف ڈرانے کی اپنی اطاعت کروانے کی کوشش کرے ۔ بہو کو بھی چاہیے کہ وہ ساس کی ہدایت پر عمل کر کے گھر کے طور طریقوں کو سیکھنے کی کوشش کرے، یہ خواب دیکھنا غلط ہے کہ اسے حکمرانی کرنی ہے ۔ جبکہ عورت کی نفسیات یہ چاہتی ہے کہ اسے سراہا جائے اس کی حکمرانی ہو ۔ اس کا اپنا ایک گھر کو جہاں وہ اس گھر کی مالکن ہو۔اور یہ غلط بھی نہیں ہے ایک عورت کا حق ہے ۔ دراصل ہماری توقعات کم ہونی چاہیے تاکہ ہم تسلیم زیادہ کرسکیں کہ حقیقت کیا ہے ۔ ہر بہو آپ کی بیٹی نہیں ہوتی اور نہ ہونا ضروری ہے مگر اسے بیٹی کی طرح سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے تاکہ گھر کا ماحول سکون میں رہے۔ ہر ساس ماں جیسی نہیں ہوتی لیکن بن سکتی ہے کیوں کہ اگر وہ خود لڑکی کو پسند کر کے لائی ہے تو وہ کیوں بھول جاتی ہے کہ یہ وہی اس کی اپنی پسند کی ہوئی لڑکی ہے ۔ کیوں بھول جاتی ہے کہ اس کی بہو اس کے بیٹے کی بیوی ہے ، اس کا خیال کرتی ہے ، اس کی ضرورت کو پورا کرتی ہے ۔ اس کو باپ کا فتنہ دلاتی ہے ۔ اس کے گھر کو چلاتی ہے ۔ اس سب کے بعد کیا ساس ماں نہیں بن سکتی ؟ ہمارے ہاں بات کرنا سیکھنا بہت ضروری ہے، یاں تو برداشت کی ویسے ہی آج کے دور میں کمی ہے اور اگر برداشت کرلیں تو اکثر لڑکیاں خود پر جبر کرنے لگتی ہیں اور دل میں باتیں جمع کرتے کرتے خود سے ناانصافی برتتی ہیں اور گھر والوں سے بھی دور ہو جاتی ہیں۔ لیکن خاموشی دلوں میں میل ڈالتی ہے اور محبت آواز مانگتی ہے، قربت نہیں ۔ پھر اکثر تو سانسیں بیٹے کو بیچ میں تلوار بنا کر بہو کے خلاف بیٹے کے کام بھرتی ہیں ۔ جو کہ سراسر غلط ہے ۔ جب آپ اپنے شوہر سے محبت ، ساتھ کی توقع رکھتی ہیں تو وہ بھی تو کسی کا شوہر ہے، صرف بیٹا نہیں ہے۔ اگر یوں بہو بھی اگر شوہر کو باندھ کر رکھیں گی، تو رشتہ گٹھن بن جائے گا۔ اور یوں شوہر کے دل میں بھی گھر سے دوری بڑھنے لگے گی ۔ ساس اور بہو کا رشتہ جنگ نہیں ہے ۔ لیکن جنگ کی صورت ضرور اختیار کرلیتا ہے ۔ جبکہ اگر دو عورتوں کا اتحاد ہو تو سکون دہ رشتہ بھی بن سکتا ہے ۔ اور یہ تب ممکن ہے کہ اگر ایک “ماں” بننے میں دل کھول دے اور دوسری “بیٹی” بننے میں ضد چھوڑ دے ۔ تو دونوں کے درمیان "بیچ کی محبت" پیدا ہو سکتی ہے۔ جو روز بروز لڑائی کی صورت اختیار کرنے سے بچ کر ایک سچی راہ ہو ۔ساس نہ ماں جیسی ہوتی ہے اور ماں بن سکتی ہے ، بہو نہ بیٹی جیسی ہوتی ہے نہ بن سکتی ہے ۔ اس لیے بہتر ہے کہ توقعات کو بڑھانے کے بجائے کم کیا جائے اور دونوں کے اندر گھٹن زدہ کیفیت کو سمجھا جائے اور یاں تو صبر کر کے ساتھ رہ کر موقع دیا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھیں یاں پھر دونوں کو الگ الگ گھر میں رکھا جائے تاکہ ان دونوں کے درمیان کوئی خلش نہ رہے اور ساتھ رہ کر جو دوریاں بڑھ رہی ہوں اس سے بچا جا سکے ۔ اسلام نے جب عورت کو اس کا حق دیا ہے تو کوئی بھی اس سے اس کا حق نہیں چھین سکتا ۔
۱۳-جلائی-۲۰۲۵ اتوار |